کراچی میں نجی کلینک میں شہری مبینہ طور پر ڈاکٹروں کی غفلت سے جاں بحق
متوفی کے ورثا کا لاش کے ہمراہ فائیو اسٹار چورنگی پر احتجاج
کراچی:
نارتھ ناظم آباد فائیواسٹار چورنگی پر نجی کلینک میں شہری مبینہ طور پر ڈاکٹروں کی غفلت سے جاں بحق ہوگیا۔
متوفی کے ورثا نے لاش کے ہمراہ فائیو اسٹار چورنگی پر احتجاج کرکے کلینک کو سیل اور اسپتال انتظامیہ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسپتال انتظامیہ نے سیکیورٹی گارڈز کی مدد سے لواحقین کو دھکے دیکر اسپتال سے باہر نکال دیا اور اسپتال کے دروازے بند کر لیے۔
پولیس کے قانونی کارروائی کرنے کی یقین دہانی پر ورثا نے احتجاج ختم کر دیا اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے عباسی شہید اسپتال منتقل کر دیا ۔
متوفی کی شناخت 55 سالہ علی محمد ولد محمد ادریس کے نام سے کی گئی ، متوفی کے بھائی نذر محمد نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کہ علی محمد نارتھ کراچی کا رہائشی اور 3 بچوں کا باپ تھا ، وہ الیکٹریشن کا کام کرتا تھا ، اسے پیٹ میں درد ہوا تھا جس پر اتوار کی صبح تقریباً 7 بجے اسے امام کلینک لایا گیا تھا ، اسپتال انتظامیہ نے علاج کی غرض سے 35 ہزار روپے جمع کر لیے جبکہ ان پیسوں کے علاوہ 25 ہزار روپے کے مختلف لیبارٹری ٹیسٹ کرائے تمام ٹیسٹ کلیئر آنے پر انہوں نے کہا کہ ایک دن کے لیے اسپتال میں داخل کر لیتے ہیں تاکہ مزید ٹیسٹ کی رپورٹ آجائے ، رات کو اسپتال انتظامیہ نے اچانک علی محمد کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا اور پوچھنے پر کہا گیا کہ اچھے علاج کے لیے منتقل کیا گیا ہے اس کے بعد گھر والوں کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
رات 11 بجے ڈاکٹروں نے بتایا کہ علی محمد کے پیٹ میں کوئی آنت پھٹ گئی ہے لہذا مزید 3 لاکھ روپے جمع کرا دو تاکہ اس کا آپریشن کیا جا سکے ، علی محمد کی اہلیہ نے کہا کہ ہمارے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں لہذا آپ انہیں ڈسچارج کر دو تاکہ ہم انہیں سرکاری اسپتال لے جائیں جس پر اسپتال انتظامیہ نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم ڈسچارج کر دیتے ہیں لیکن ان کے علاج پر مزید 20 ہزار روپے خرچ ہوئے وہ جمع کرا دو جس پر ان کی اہلیہ نے کہا میرے پاس تو صرف 10 ہزار روپے ہیں یہ لے لو اور میرے بیٹے کو اپنے پاس گروی رکھ لو جس پر اسپتال انتظامیہ نے مریض کو دینے سے انکار کر دیا اور خواتین اور دیگر لوگوں سے بدتمیزی اور ہاتھا پائی شروع کر دی ، کافی شور شرابہ کے بعد مریض کو دیکر کہا جاؤ تم لوگوں کو پتہ چل جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ جب ہم علی محمد کو امام کلینک سے لے کر نکلے تو کچھ ہی فاصلے پر جانے کے بعد انہوں نے دم توڑ دیا ، عباسی شہید اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے بھی ان کی موت کی تصدیق کر دی، جس کے بعد ورثا لاش کے ہمراہ واپس فائیو اسٹار چورنگی آگئے اور لاش وہاں رکھ کر احتجاج شروع کر دیا۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ امام کلینک کو سیل کر کے اسپتال انتظامیہ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے ، احتجاج کے دوران نارتھ ناظم آباد ، شارع نورجہاں تھانے کی پولیس اور رینجرز وہاں پہنچ گئی۔
نارتھ ناظم آباد تھانے کے ہیڈ کانسٹیبل افضل نے میڈیا کے نمائندوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کی کوشش کی اور دو نجی چینلز کے کیمرہ مینوں پر تشدد کیا جبکہ ایک ٹی وی چینلز کے کیمرہ مین کا کیمرہ بھی توڑ دیا ، واقعے کی اطلاع ملنے پر ڈی ایس پی شارع نورجہاں اور ایس ایچ او شارع نورجہاں موقعے پر پہنچ گئے۔
ڈی ایس پی شارع نورجہاں شکیل نے مظاہرین کو غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لانے کی یقین دہانی کرائی۔ ان کا کہنا تھا کہ جاں بحق ہونے والے علی محمد کا پوسٹ مارٹم پولیس کی نگرانی میں کرایا جائے گا ، پوسٹ مارٹم اور دیگر قانونی کارروائی کے بعد مقدمہ درج کیا جائے گا اور پورے معاملے سے سندھ ہیلتھ کمیشن کو بھی آگاہ کیا جائے گا ، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی پر متوفی کے ورثا نے احتجاج ختم کر دیا اور متوفی کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے ایدھی ایمبولینس کے ذریعے عباسی شہید اسپتال منتقل کر دی۔
اسپتال انتظامیہ نے اپنے موقف میں کہا کہ لواحقین نے اپنی مرضی سے مریض کو عباسی شہید اسپتال منتقل کیا ، مریض کو دوپہر 12 بجے اسپتال لایا گیا تھا ، مریض کو پیٹ کے درد کی تکلیف میں اسپتال لایا گیا تھا ، مریض کی حالت خراب ہونے پر آئی سی یو منتقل کیا گیا ، اس کا آپریشن کیا جانا تھا لیکن لواحقین نے آپریشن سے قبل ہی عباسی شہید اسپتال منتقل کردیا ، انہوں نے اسپتال میں صرف 25 ہزار روپے جمع کرائے تھے ، اسپتال میں لواحقین کی جانب سے توڑ پھوڑ بھی کی گئی ، ہنگامہ آرائی کے حوالے سے پولیس کو آگاہ کردیا گیا ۔
ایس ایچ او کا کہنا تھا واقعے کی مکمل تحقیقات اور اسپتال میں لگے کیمروں کی فوٹیج دیکھی جائے گی اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائینگے ۔
نارتھ ناظم آباد فائیواسٹار چورنگی پر نجی کلینک میں شہری مبینہ طور پر ڈاکٹروں کی غفلت سے جاں بحق ہوگیا۔
متوفی کے ورثا نے لاش کے ہمراہ فائیو اسٹار چورنگی پر احتجاج کرکے کلینک کو سیل اور اسپتال انتظامیہ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسپتال انتظامیہ نے سیکیورٹی گارڈز کی مدد سے لواحقین کو دھکے دیکر اسپتال سے باہر نکال دیا اور اسپتال کے دروازے بند کر لیے۔
پولیس کے قانونی کارروائی کرنے کی یقین دہانی پر ورثا نے احتجاج ختم کر دیا اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے عباسی شہید اسپتال منتقل کر دیا ۔
متوفی کی شناخت 55 سالہ علی محمد ولد محمد ادریس کے نام سے کی گئی ، متوفی کے بھائی نذر محمد نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کہ علی محمد نارتھ کراچی کا رہائشی اور 3 بچوں کا باپ تھا ، وہ الیکٹریشن کا کام کرتا تھا ، اسے پیٹ میں درد ہوا تھا جس پر اتوار کی صبح تقریباً 7 بجے اسے امام کلینک لایا گیا تھا ، اسپتال انتظامیہ نے علاج کی غرض سے 35 ہزار روپے جمع کر لیے جبکہ ان پیسوں کے علاوہ 25 ہزار روپے کے مختلف لیبارٹری ٹیسٹ کرائے تمام ٹیسٹ کلیئر آنے پر انہوں نے کہا کہ ایک دن کے لیے اسپتال میں داخل کر لیتے ہیں تاکہ مزید ٹیسٹ کی رپورٹ آجائے ، رات کو اسپتال انتظامیہ نے اچانک علی محمد کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا اور پوچھنے پر کہا گیا کہ اچھے علاج کے لیے منتقل کیا گیا ہے اس کے بعد گھر والوں کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
رات 11 بجے ڈاکٹروں نے بتایا کہ علی محمد کے پیٹ میں کوئی آنت پھٹ گئی ہے لہذا مزید 3 لاکھ روپے جمع کرا دو تاکہ اس کا آپریشن کیا جا سکے ، علی محمد کی اہلیہ نے کہا کہ ہمارے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں لہذا آپ انہیں ڈسچارج کر دو تاکہ ہم انہیں سرکاری اسپتال لے جائیں جس پر اسپتال انتظامیہ نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم ڈسچارج کر دیتے ہیں لیکن ان کے علاج پر مزید 20 ہزار روپے خرچ ہوئے وہ جمع کرا دو جس پر ان کی اہلیہ نے کہا میرے پاس تو صرف 10 ہزار روپے ہیں یہ لے لو اور میرے بیٹے کو اپنے پاس گروی رکھ لو جس پر اسپتال انتظامیہ نے مریض کو دینے سے انکار کر دیا اور خواتین اور دیگر لوگوں سے بدتمیزی اور ہاتھا پائی شروع کر دی ، کافی شور شرابہ کے بعد مریض کو دیکر کہا جاؤ تم لوگوں کو پتہ چل جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ جب ہم علی محمد کو امام کلینک سے لے کر نکلے تو کچھ ہی فاصلے پر جانے کے بعد انہوں نے دم توڑ دیا ، عباسی شہید اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے بھی ان کی موت کی تصدیق کر دی، جس کے بعد ورثا لاش کے ہمراہ واپس فائیو اسٹار چورنگی آگئے اور لاش وہاں رکھ کر احتجاج شروع کر دیا۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ امام کلینک کو سیل کر کے اسپتال انتظامیہ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے ، احتجاج کے دوران نارتھ ناظم آباد ، شارع نورجہاں تھانے کی پولیس اور رینجرز وہاں پہنچ گئی۔
نارتھ ناظم آباد تھانے کے ہیڈ کانسٹیبل افضل نے میڈیا کے نمائندوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کی کوشش کی اور دو نجی چینلز کے کیمرہ مینوں پر تشدد کیا جبکہ ایک ٹی وی چینلز کے کیمرہ مین کا کیمرہ بھی توڑ دیا ، واقعے کی اطلاع ملنے پر ڈی ایس پی شارع نورجہاں اور ایس ایچ او شارع نورجہاں موقعے پر پہنچ گئے۔
ڈی ایس پی شارع نورجہاں شکیل نے مظاہرین کو غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لانے کی یقین دہانی کرائی۔ ان کا کہنا تھا کہ جاں بحق ہونے والے علی محمد کا پوسٹ مارٹم پولیس کی نگرانی میں کرایا جائے گا ، پوسٹ مارٹم اور دیگر قانونی کارروائی کے بعد مقدمہ درج کیا جائے گا اور پورے معاملے سے سندھ ہیلتھ کمیشن کو بھی آگاہ کیا جائے گا ، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی پر متوفی کے ورثا نے احتجاج ختم کر دیا اور متوفی کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے ایدھی ایمبولینس کے ذریعے عباسی شہید اسپتال منتقل کر دی۔
اسپتال انتظامیہ نے اپنے موقف میں کہا کہ لواحقین نے اپنی مرضی سے مریض کو عباسی شہید اسپتال منتقل کیا ، مریض کو دوپہر 12 بجے اسپتال لایا گیا تھا ، مریض کو پیٹ کے درد کی تکلیف میں اسپتال لایا گیا تھا ، مریض کی حالت خراب ہونے پر آئی سی یو منتقل کیا گیا ، اس کا آپریشن کیا جانا تھا لیکن لواحقین نے آپریشن سے قبل ہی عباسی شہید اسپتال منتقل کردیا ، انہوں نے اسپتال میں صرف 25 ہزار روپے جمع کرائے تھے ، اسپتال میں لواحقین کی جانب سے توڑ پھوڑ بھی کی گئی ، ہنگامہ آرائی کے حوالے سے پولیس کو آگاہ کردیا گیا ۔
ایس ایچ او کا کہنا تھا واقعے کی مکمل تحقیقات اور اسپتال میں لگے کیمروں کی فوٹیج دیکھی جائے گی اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائینگے ۔