آرٹیکل 63 میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں سپریم کورٹ
تاحیات نااہلی جھوٹا بیان حلفی دینے پر ہوتی ہے، سپریم کورٹ کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سماعت میں بیان
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں صرف وقتی نااہلی کا ذکر ہے، تاحیات نااہلی جھوٹا بیان حلفی دینے پر ہوتی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سماعت ہوئی جس میں اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آج آپ سے کوئی سوالات نہیں کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمالیہ میں وزیر اعظم کی تقریر کا حوالہ دیا گیا، وزیراعظم سے کمالیہ کی تقریر پر بات کی ہے، وزیر اعظم کا بیان عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، کمالیہ تقریر میں ججز کا حوالہ 1997ء میں سپریم کورٹ حملے کے تناظر میں دیا گیا، وزیراعظم کو عدلیہ پر بھرپور اعتماد ہے اور یقین ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سندھ ہاؤس حملے کا کیا بنا؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ملزمان کے وارنٹ گرفتاری حاصل کرلیے ہیں، پی ٹی آئی کے دونوں اراکین اسمبلی سمیت تمام ملزمان گرفتار ہوں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ سندھ ہاؤس حملہ کیس کی رپورٹ کل دوبارہ جمع کرائی جائے۔
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ جے یو آئی کو دو دن جلسے کی اجازت دی گئی تھی، جے یو آئی عدالت میں اپنے بیان سے منحرف ہو رہی ہے۔ اس پر جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضٰی بولے کہ سڑک انتظامیہ نے بند کی تھی، تیز رفتار بس نے ایک بندا مار دیا دوسرا زخمی ہوگیا، کارکنوں نے احتجاج کیا جس پر انتظامیہ نے سڑک بند کی، کوئی دھرنا نہیں ہورہا جلسہ بھی ختم ہو چکا ہے اور تمام مظاہرین واپس جارہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی سے انحراف کو معمول کی سیاسی سرگرمی نہیں کہا جاسکتا، آئین میں اسمبلی کی مدت کا ذکر ہے اراکین کی نہیں، اسمبلی تحلیل ہوتے ہی اراکین کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے، اراکین اسمبلی کی رکنیت کی مدت کا تعین اسمبلی سے جڑا ہوا ہے، اسمبلی کی مدت پورے ہونے تک نااہلی سے آرٹیکل 63A کا مقصد پورا نہیں ہو گا، آرٹیکل 63 اے کا مقصد تاحیات نااہلی پر ہی پورا ہوگا، سوال صرف یہ ہے کہ منحرف رکن ڈیکلریشن کے بعد الیکشن لڑنے کا اہل ہے یا نہیں؟
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ ڈکلیریشن آ جائے تو منحرف رکن پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا، چور چور ہوتا ہے کسی کو اچھا چور نہیں کہا جاسکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا اختلاف کرنے کا مطلب انحراف ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا نہیں! جسٹس جمال نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کا لفظ ہے نااہلی کا نہیں جب نااہلی ہے ہی نہیں تو بات ہی ختم ہوگئی، کیا الیکشن کمیشن انکوائری کرے گا کہ انحراف ہوا ہے یا نہیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، پارٹی سربراہ نااہلی کا ڈیکلریشن دے گا، پارٹی سے انحراف غلطی سے نہیں ہوتا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے، تاحیات نااہلی کے تعین کے لیے ہمیں کافی قلابازیاں لگانی پڑیں گئی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں وقتی نااہلی کا ذکر ہے، جھوٹا بیان حلفی دینے پر تاحیات نااہلی ہوتی ہے، پارلیمنٹ جھوٹے بیان حلفی پر پانچ سال نااہلی کا قانون بنائے تو کالعدم ہوگا؟ آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق اور نتائج پر الگ الگ عدالتی فیصلے ہیں۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ پارٹی سربراہ شوکاز دے کر رکن اسمبلی کا موقف لینے کا پابند ہے، 100 گنہگار چھوڑنا برا نہیں، ایک بے گناہ کو سزا دینا بڑا ہے، پارٹی سے انحراف کرنے والے 100 چور ہوں گیے لیکن ایک تو ایمان دار ہوگا ہی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سماعت ہوئی جس میں اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آج آپ سے کوئی سوالات نہیں کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمالیہ میں وزیر اعظم کی تقریر کا حوالہ دیا گیا، وزیراعظم سے کمالیہ کی تقریر پر بات کی ہے، وزیر اعظم کا بیان عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، کمالیہ تقریر میں ججز کا حوالہ 1997ء میں سپریم کورٹ حملے کے تناظر میں دیا گیا، وزیراعظم کو عدلیہ پر بھرپور اعتماد ہے اور یقین ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سندھ ہاؤس حملے کا کیا بنا؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ملزمان کے وارنٹ گرفتاری حاصل کرلیے ہیں، پی ٹی آئی کے دونوں اراکین اسمبلی سمیت تمام ملزمان گرفتار ہوں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ سندھ ہاؤس حملہ کیس کی رپورٹ کل دوبارہ جمع کرائی جائے۔
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ جے یو آئی کو دو دن جلسے کی اجازت دی گئی تھی، جے یو آئی عدالت میں اپنے بیان سے منحرف ہو رہی ہے۔ اس پر جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضٰی بولے کہ سڑک انتظامیہ نے بند کی تھی، تیز رفتار بس نے ایک بندا مار دیا دوسرا زخمی ہوگیا، کارکنوں نے احتجاج کیا جس پر انتظامیہ نے سڑک بند کی، کوئی دھرنا نہیں ہورہا جلسہ بھی ختم ہو چکا ہے اور تمام مظاہرین واپس جارہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی سے انحراف کو معمول کی سیاسی سرگرمی نہیں کہا جاسکتا، آئین میں اسمبلی کی مدت کا ذکر ہے اراکین کی نہیں، اسمبلی تحلیل ہوتے ہی اراکین کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے، اراکین اسمبلی کی رکنیت کی مدت کا تعین اسمبلی سے جڑا ہوا ہے، اسمبلی کی مدت پورے ہونے تک نااہلی سے آرٹیکل 63A کا مقصد پورا نہیں ہو گا، آرٹیکل 63 اے کا مقصد تاحیات نااہلی پر ہی پورا ہوگا، سوال صرف یہ ہے کہ منحرف رکن ڈیکلریشن کے بعد الیکشن لڑنے کا اہل ہے یا نہیں؟
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ ڈکلیریشن آ جائے تو منحرف رکن پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا، چور چور ہوتا ہے کسی کو اچھا چور نہیں کہا جاسکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا اختلاف کرنے کا مطلب انحراف ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا نہیں! جسٹس جمال نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں رکنیت ختم ہونے کا لفظ ہے نااہلی کا نہیں جب نااہلی ہے ہی نہیں تو بات ہی ختم ہوگئی، کیا الیکشن کمیشن انکوائری کرے گا کہ انحراف ہوا ہے یا نہیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، پارٹی سربراہ نااہلی کا ڈیکلریشن دے گا، پارٹی سے انحراف غلطی سے نہیں ہوتا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے، تاحیات نااہلی کے تعین کے لیے ہمیں کافی قلابازیاں لگانی پڑیں گئی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں وقتی نااہلی کا ذکر ہے، جھوٹا بیان حلفی دینے پر تاحیات نااہلی ہوتی ہے، پارلیمنٹ جھوٹے بیان حلفی پر پانچ سال نااہلی کا قانون بنائے تو کالعدم ہوگا؟ آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق اور نتائج پر الگ الگ عدالتی فیصلے ہیں۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ پارٹی سربراہ شوکاز دے کر رکن اسمبلی کا موقف لینے کا پابند ہے، 100 گنہگار چھوڑنا برا نہیں، ایک بے گناہ کو سزا دینا بڑا ہے، پارٹی سے انحراف کرنے والے 100 چور ہوں گیے لیکن ایک تو ایمان دار ہوگا ہی۔