ترپ کا پتہ نہ مل سکا

انھوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے فرمایا کہ انھیں تحریری طور پر دھمکی دی گئی ہے

tauceeph@gmail.com

وفاقی وزراء اور مشیر بار بار اعلان کررہے تھے کہ عمران خان 27 مارچ کو اسلام آباد میں لاکھوں افراد کے جلسے سے خطا ب کرتے ہوئے ایک ایسا ترپ کا پتہ پھینکیں گے کہ اپوزیشن تتر بتر ہوجائے گی۔

اتحادی اور تحریک انصاف کے منحرفین وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ یکجہتی کے لیے اسٹیج پر قطار میں کھڑے ہوں گے۔ پنجاب ، خیبر پختون خوا ، آزاد کشمیر اور گلگت میں پی ٹی آئی کی حکومتتیں ہونے کے باوجود 10 لاکھ افراد پریڈ گراؤنڈ کے میدان میں جمع نہیں ہوسکے۔

وزیر اعظم عمران خان نے گھنٹوں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کے قائدین کے پرخچے اڑائے اور آخر میں ایک غیر ملکی سازش کا ذکر کیا کہ غیر ملکی فنڈز ان کے خلاف اراکین اسمبلی کے ضمیر کو خریدنے کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ انھوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے فرمایا کہ انھیں تحریری طور پر دھمکی دی گئی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 1977میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جس طرح امریکا نے سازش کی، اسی طرح سازش ان کے خلاف بھی ہو رہی ہے۔ انھیں آزاد خارجہ پالیسی کی بناء پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس خط کو عسکری افسروں کے ساتھ شیئر کیا گیا۔ انھوں نے اس خط پر کسی طرح کے ردعمل کا اظہار کیا، وزیر اعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔

اس تقریر کو سن کر ہر تجزیہ نگار نے ایک ہی نتیجہ نکالا کہ عمران خان کے پاس اب کچھ نہیں بچا۔ وزیر اعظم عمران خان کے غیر ملکی سازش کے الزام کا جائزہ لیا جائے تو حقائق کچھ اور ظاہر کرتے ہیں۔ عمران خان گزشتہ ایک عشرہ سے طالبان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔ وہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کو پاکستان کی سالمیت پر حملہ قرار دیتے تھے مگر انھوں نے کبھی طالبان کے انتہاپسند نظریات اور دہشت گردی پر تنقید نہیں کی، ملا عمر کی سربراہی میں کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی

۔ طالبان کی حکومت قرون وسطیٰ کی مطلق العنان حکومتوں پیروی کرتی رہی، جس کے نتیجہ میں انسانی حقوق کی پامالی عام ہوئی۔ اقلیتوں اور خواتین کی زندگی اجیرن ہوگئی تھی۔ نائن الیون کی دہشت گردی کا ذمے دار القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا گیا، وہ لوگ طالبان حکومت کی حفاظت میں رہے، دنیا بھر میں مذہبی دہشت گردی کی لہر آئی ، اس کاسب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔

جب گزشتہ سال امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا تو تمام ممالک کی خواہش تھی کہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت قائم ہونی چاہیے، جس میں طالبان بھی حصہ دار ہوں۔گزشتہ سال افغانستان میں طالبان نے اقتدار سنبھالا مگر گزشتہ 8ماہ گزرنے کے باوجود حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان کی حکومت کی پالیسیاں وہی ہیں جو ماضی میں تھیں۔

یہ حکومت ابھی تک طے نہ کرسکی کہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا حق یا نہیں ہے۔ ہر مہینہ خواتین کے اسکول اور کالج کھلنے اور بند ہونے کی خبریں آتی ہیں۔ افغانستان میں ترقی کے تمام انڈیکیٹرز منفی ہیں۔ 95 فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ صحافیوں اور سیاسی مخالفین کے ساتھ بدترین سلوک کیا جارہا ہے۔


امریکا اور یورپی ممالک نے انسانی المیہ کو کم کرنے کے لیے کچھ امداد دی ہے مگر باقی امداد خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے منسلک کردی گئی ہے مگر وزیر اعظم پاکستان تو اب اپنی تقاریر میں یہ بھی کہتے ہیں کہ افغانوں کا اپنا کلچر ہے، اس پر تنقید کی ضرورت نہیں ہے اور طالبان حکومت پر اپنی رجعت پسندانہ پالیسیوں کی تبدیلی پر زور دینے کے بجائے طالبان کی حکومت کو دنیا بھر کے ممالک سے تسلیم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

فرانس کے حوالے سے صدر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان نے جو موقف اختیار کیا، اس سے پاکستان تنہا رہ گیا۔ اس پالیسی کا سارا نقصان صرف پاکستان کو ہوا ہے، اگر وزیر اعظم کے پاس کسی غیر ملکی سازش کے بارے میں دستاویزی ثبوت ہیں تو انھیں صدر پاکستان کے توسط سے اس بارے میں ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجنا چاہیے تھا ناکہ جلسے میں ایک کاغذ پر اگر حزب اختلاف کو بلیک میل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی اور خود کو ذوالفقار علی بھٹو کے ہم پلہ قرار نہیں دینا چاہیے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے مسلمان اسلامی ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک کو متحد کر کے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا۔ عمران خان الیکشن کمیشن پر تو مسلسل الزامات لگاتے رہے ہیں۔ اب انھوں نے یہ الزام بھی لگادیا ہے کہ میاں نواز شریف ججوں کو خریدنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ سپریم کورٹ کو عمران خان کے اس بیان پر توہین عدالت کا نوٹس دینا چاہیے ، یہ بیان دے کر خود انھوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے۔

اس وقت صدر پاکستان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ عمران خان خود کو مکمل بااختیار وزیر اعظم قرار دیتے ہیں۔ ان کے وزیر داخلہ شیخ رشید روزانہ قانون حرکت میں آنے کا خوف دلاتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمام ادارے حکومت کے ساتھ ہیں تو اس صورت میں لندن میں بیٹھے ہوئے ، میاں نواز شریف اتنے طاقتور ہیں وہ پاکستان میں اراکین اسمبلی کی خریداری میں مصروف ہیں۔

پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر حکمراں جب اپنے اقتدار کو خطرہ میں محسوس کرتا ہے تو مخالف رہنماؤں پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے اور غیر ممالک سے امداد لینے کا الزام لگاتا ہے، یہ الزام سب سے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے متحدہ بنگال کے پریمیئر حسین شہید سہروردی پر لگایا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق کھنے والے ہر رہنما پر یہ الزام لگایا جنھوں نے پہلے کراچی اور پھر راولپنڈی کی اطاعت کے خلاف مزاحمت کی تھی۔

خان عبد الغفار خان، ولی خان ، میر غوث بخش بزنجو ، سردار خیر بخش مری، عطاء اﷲ مینگل، جی ایم سید، فیض احمد فیض، میاں افتخار الدین سمیت ہزاروں رہنماؤں پر یہ الزامات عائد کیے گئے اور تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ الزامات بے بنیاد تھے اور ان الزامات کے ذریعہ حکمراں اپنے اقتدار کو قیامت تک کی توسیع کے لیے استعمال کر رہے تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے اس جلسہ کا عنوان امر بالمعروف لکھا جس کا واضح مطلب اسلام کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ہے۔ کئی ناقدین نے تحریک انصاف کے جلسہ کے عنوان کو ملکی سیاست میں ایک دفعہ پھر مذہبی کارڈ استعمال کرنے کی افسوسناک کوشش قرار دیا۔ ان مبصرین نے واضح کہا کہ جلسہ میں تقریر کرنے والے بعض مقررین کے گزشتہ 30 برسوں کے کردار کا جائزہ اور حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے ارب پتی ہوئے ہیں ، موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے مذہبی انتہا پسندی کو تقویت مل رہی ہے۔

حکومت نے نصاب کو زیادہ جدید اور سائنٹیفک بنانے کے بجائے رجعت پسند مواد کی مقدار بڑھا دی ہے۔ پنجاب میں ایسے افراد کا استاد کی حیثیت سے تقرر کیا گیا ہے جنھوں نے جدید تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔

اس پالیسی کے اسی طرح خطرناک نتائج برآمد ہوںگے جس طرح جنرل ضیاء الحق کے دور کی پالیسیوں کے ہوئے تھے، جس سے نہ صرف ترقی رکے گی بلکہ پاکستان عالمی منظر نامہ میں بھی تنہا ہو جائے گا۔ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ ابھی تک کوئی بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پایا۔ اس دفعہ بھی ایسا ہوا تو اس سے جمہوری نظام پر بڑی سخت ضرب لگے گی اور اس کی ساری ذمے داری عمران خان کی پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے، ڈیپ اسٹیٹ کے گھوڑے پر سوار ہو کر اقتدار تک پہنچنے والے حکمرانوں کا ایسا ہی حشر ہوا ہے، ملک کو اس وقت میثاق جمہوریت کے ایک جدید ایڈیشن کی ضرورت ہے۔
Load Next Story