سیاسی جماعتوں کے اندر آمریت
سیاسی جماعتوں کی قیادت کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی سیاسی جماعتوں میں کوئی مشاورت نہیں کرتی ہیں
کراچی:
سپریم کورٹ میں اس وقت صدارتی ریفرنس زیر سماعت ہے جس میں یہ طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو ارکان قومی اسمبلی پارٹی قیادت کے احکامات کی حکم عدولی کریں ، ان کی کیا سزا ہونی چاہیے؟
حکومت وقت کی خواہش ہے کہ انھیں تاحیات نا اہل کر دینا چاہیے۔ جب کہ وزیر اعظم جلسوں میں کہہ رہے ہیں کہ کوئی ان کے بچوں سے شادی نہ کرے اور ان کے گھروں کے باہر احتجاج کیا جائے۔ ان سے تمام سماجی تعلقات ختم کر دیے جائیں۔ اب تک صرف اٹارنی جنرل کے دلائل سامنے آئے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ریفرنس سنہری موقع ہے کہ سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کے اندرقائم آمریت کا بھی جائزہ لے۔ جس سیاسی جماعت کے اندر جمہوریت نہیں ہے، وہاں ارکان سے جمہوری رویوں کی توقع رکھنا کیسے جائز ہے۔ جب فیصلے جمہوری انداز میں نہیں لیے جا رہے تو ان فیصلوں کی پاسداری جمہوری انداز میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے۔
جب فرد واحد فیصلے کرے گا تو افراد کو ان فیصلوں سے اختلاف کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ جب پارٹی ٹکٹیں ڈرائنگ روم میں تقسم کی جاتی ہیں،کس کو کیا ملے گا تک کے فیصلے ڈرائنگ روم میں کیے جاتے ہیں تو ارکان اسمبلی کو ان ڈرائنگ روم فیصلوں کا غلام بنانے کے لیے سپریم کورٹ کا کندھا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
کیا تمام تر جمہوریت اور اقدار کی حفاظت کی ذمے داری ارکان اسمبلی کی ہے جب کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت پر جمہوری اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنا لازم نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت سارا نظام نامزدگیوں اور جابرانہ کنٹرول سے چلائیں اور ارکان اسمبلی کو ڈرایا دھمکایا جائے کہ آپ جمہوری اقدار نافذ ہیں۔ یہ کوئی انصاف نہیں ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں جس سیاسی جماعت کے اندر جمہوریت نہیں ہے، وہ اپنے ارکان سے جمہوری اقتدار کی توقع بھی نہیں کر سکتی۔ آمریت کے فیصلوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے اور ان سے اختلاف کرنے والوں کو تاحیات نا اہل کرانے کی کوشش کرنا بھی آمریت کو مضبوط کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر موجود آمریت نے پاکستان کی جمہوریت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
اس لیے اس آمریت کو مزید مضبوط کرنا نہ تو انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور نہ ہی جمہوریت کی کوئی خدمت ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ سپریم کورٹ کو اس صدارتی ریفرنس میں سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو ارکان کی نااہلی سے مشروط کرنا چاہیے۔
اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے ارکان کو اختلاف پر نا اہل کرنا چاہتی ہے تو پہلے اسے اپنے اندر مکمل جمہوریت قائم کرنی چاہیے۔ جہاں اختلاف رائے کے ساتھ زندہ رہ سکے۔ ابھی تو سادہ اختلاف کی سزا بھی سیاسی موت ہے۔ آپ کو ٹکٹ ہی نہیں دیا جاتا۔ جب تک ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل شفاف اور جمہوری اقدار کے مطابق نہیں ہوگا تب تک ارکان اسمبلی کی نا اہلی کی شق معطل ہونی چاہیے۔
ویسے بھی اختلاف کے بعد دوبارہ انتخاب لڑنے کی سزا کافی ہے۔ دوبارہ انتخاب لڑنا مرنے ا ور جینے کے عمل میں سے دوبارہ گزرنے کے مترادف ہے۔اگر کسی سیاسی جماعت کو اپنی مقبولیت پر بہت اعتماد ہے تو اس کے لیے تاحیات نا اہلی کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے۔ اسے یقین ہونا چاہیے کہ اس سے انحراف کرنے والا ویسے ہی دوبارہ منتخب نہیں ہو سکتا۔ عوام اسے دوبارہ منتخب ہی نہیں کریں گے۔ لیکن یہاں سیاسی جماعتوں نے چونکہ ٹکٹ جمہوری اقتدار سے انحراف کر کے دیے ہوتے ہیں۔
اس لیے انھیں یقین ہے کہ ان سے اختلاف کر کے ارکان دوبارہ منتخب ہو کر آجائیں گے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی آمرانہ قیادت ان ارکان کو عوام کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرنے سے روکنے کے لیے انھیں تاحیات نا اہل کرانا چاہتی ہیں۔ بہر حال سیاست میں عوام کی عدالت کو کسی بھی طرح مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رائے بھی سامنے آرہی ہے کہ ان ارکان کو فوری کسی دوسری سیاسی جماعت کا ٹکٹ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن یہ اصول بھی تو یک طرفہ لاگو نہیں ہو سکتا۔
اس طرح تو سیاسی جماعتوں کو بھی پابند کرنا ہوگا کہ وہ سیاسی وفاداری تبدیل کرنے والے کسی بھی شخص کو اپنی جماعت میں شامل کر کے فوری نہیں ٹکٹ نہیں دے سکتیں۔ ابھی تو سیاسی جماعتوں کی آمرانہ قیادت کسی کو اپنی جماعت میں شامل کرتے ہیں اور اگلے دن ہی ان کو ٹکٹ جاری کر دیتے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی پابندی یک طرفہ نہیں ہو سکتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جرم کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو تو مکمل اجازت ہو ۔ لیکن ارکان کو وہ جرم کرنے سے روک دیا جائے۔
جب تک سیاسی جماعتوں کے اندر ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل شفاف اور جمہوری نہیں ہوگا ۔ تب تک ارکان سے بھی جمہوری رویوں کی توقع کرنا جائز نہیں۔ جس طرح ٹکٹ حاصل کیے جاتے ہیں ،ان کا ویسا ہی استعمال ہوگا۔ جس سیاسی جماعت میں جس قدر جمہوریت ہے، وہ اس قدر ہی جمہوری قوانین کا سہارا لے سکتی ہے۔
آمریتوں کو جمہوری قوانین کے پیچھے چھپنے کی اجازت دینا کوئی انصاف نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کو پابند کرنا چاہیے کہ ٹکٹوں کی تقسیم بند کمروں کے بجائے سیاسی کارکنوں کی میٹنگز کی جائے۔ ہر حلقے میں موجود سیاسی جماعت کے رجسٹرڈ کارکنوں کو اپنے حلقے کی سیاسی جماعت کا ٹکٹ دینے کا حق ہونا چاہیے۔ کارکنوں کا بطور ملازم استعمال بندہونا چاہیے۔
جب تک سیاسی جماعتوں میں سیاسی کارکن کو مضبوط نہیں کیا جائے گا۔ تب تک ملک میں جمہوریت بھی مضبوط نہیں ہو سکتی۔ اگر سیاسی جماعتوں کی قیادت ایسی قانون سازی کرتی ہے جس سے ان کی اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں آمریت مضبوط ہو تو عدلیہ کو ایسی قانون سازی پر بھی فیصلہ دینا چاہیے۔
اگر کوئی سیاسی جماعت یہ کہتی ہے کہ اس کے منحرف ارکان کسی اصول پر نہیں بلکہ اپنے مفاد پر اختلاف کر رہے ہیں تو اس کا اسے ثبوت دینے کا پابند بنانا چاہیے۔ وہ اس کا باقاعدہ ریفرنس لے کر آئے، جلسوں میں الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پیسوں کے استعمال کے الزامات کو اپنی سیاسی آمریت مضبوط کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
یہ کیا منطق ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت تو پیسے لے کر کسی کو بھی ٹکٹ جاری کر دیں لیکن ارکان کو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر پابندی ہونی چاہیے تو اوپر سے نیچے تک ہونی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت پارٹی ٹکٹ دینے کے لیے چندہ لیں، کوئی مفاد لیں، ذاتی ملازمین کو ٹکٹ دیں۔ لیکن ارکان اسمبلی کو نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی سیاسی جماعتوں میں کوئی مشاورت نہیں کرتی ہیں۔ چند لوگ بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر مشاورت کے عمل کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کوئی تنظیمی ڈھانچہ ہی نہیں بنایا ہوا۔
سال میں ایک دفعہ سینٹرل ایگزیکٹو کا اجلاس بلایا جاتا ہے ۔ وہ بھی بس ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات بھی جعلی ہوتے ہیں۔ ایسے کلچر میں ساری جمہوریت کا دفاع ارکان پر ڈال دینا کونسا انصاف ہے۔ اس لیے میری رائے میں سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کو ہدایت دینی چاہیے کہ جن سیاسی جماعت میں مکمل جمہوریت ہو صرف وہی اپنے ارکان کو نا اہل کرا سکتی ہیں۔ باقی سب چھٹی کریں۔
سپریم کورٹ میں اس وقت صدارتی ریفرنس زیر سماعت ہے جس میں یہ طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو ارکان قومی اسمبلی پارٹی قیادت کے احکامات کی حکم عدولی کریں ، ان کی کیا سزا ہونی چاہیے؟
حکومت وقت کی خواہش ہے کہ انھیں تاحیات نا اہل کر دینا چاہیے۔ جب کہ وزیر اعظم جلسوں میں کہہ رہے ہیں کہ کوئی ان کے بچوں سے شادی نہ کرے اور ان کے گھروں کے باہر احتجاج کیا جائے۔ ان سے تمام سماجی تعلقات ختم کر دیے جائیں۔ اب تک صرف اٹارنی جنرل کے دلائل سامنے آئے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ریفرنس سنہری موقع ہے کہ سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کے اندرقائم آمریت کا بھی جائزہ لے۔ جس سیاسی جماعت کے اندر جمہوریت نہیں ہے، وہاں ارکان سے جمہوری رویوں کی توقع رکھنا کیسے جائز ہے۔ جب فیصلے جمہوری انداز میں نہیں لیے جا رہے تو ان فیصلوں کی پاسداری جمہوری انداز میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے۔
جب فرد واحد فیصلے کرے گا تو افراد کو ان فیصلوں سے اختلاف کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ جب پارٹی ٹکٹیں ڈرائنگ روم میں تقسم کی جاتی ہیں،کس کو کیا ملے گا تک کے فیصلے ڈرائنگ روم میں کیے جاتے ہیں تو ارکان اسمبلی کو ان ڈرائنگ روم فیصلوں کا غلام بنانے کے لیے سپریم کورٹ کا کندھا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
کیا تمام تر جمہوریت اور اقدار کی حفاظت کی ذمے داری ارکان اسمبلی کی ہے جب کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت پر جمہوری اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنا لازم نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت سارا نظام نامزدگیوں اور جابرانہ کنٹرول سے چلائیں اور ارکان اسمبلی کو ڈرایا دھمکایا جائے کہ آپ جمہوری اقدار نافذ ہیں۔ یہ کوئی انصاف نہیں ہے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں جس سیاسی جماعت کے اندر جمہوریت نہیں ہے، وہ اپنے ارکان سے جمہوری اقتدار کی توقع بھی نہیں کر سکتی۔ آمریت کے فیصلوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے اور ان سے اختلاف کرنے والوں کو تاحیات نا اہل کرانے کی کوشش کرنا بھی آمریت کو مضبوط کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر موجود آمریت نے پاکستان کی جمہوریت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
اس لیے اس آمریت کو مزید مضبوط کرنا نہ تو انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور نہ ہی جمہوریت کی کوئی خدمت ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ سپریم کورٹ کو اس صدارتی ریفرنس میں سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو ارکان کی نااہلی سے مشروط کرنا چاہیے۔
اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے ارکان کو اختلاف پر نا اہل کرنا چاہتی ہے تو پہلے اسے اپنے اندر مکمل جمہوریت قائم کرنی چاہیے۔ جہاں اختلاف رائے کے ساتھ زندہ رہ سکے۔ ابھی تو سادہ اختلاف کی سزا بھی سیاسی موت ہے۔ آپ کو ٹکٹ ہی نہیں دیا جاتا۔ جب تک ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل شفاف اور جمہوری اقدار کے مطابق نہیں ہوگا تب تک ارکان اسمبلی کی نا اہلی کی شق معطل ہونی چاہیے۔
ویسے بھی اختلاف کے بعد دوبارہ انتخاب لڑنے کی سزا کافی ہے۔ دوبارہ انتخاب لڑنا مرنے ا ور جینے کے عمل میں سے دوبارہ گزرنے کے مترادف ہے۔اگر کسی سیاسی جماعت کو اپنی مقبولیت پر بہت اعتماد ہے تو اس کے لیے تاحیات نا اہلی کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے۔ اسے یقین ہونا چاہیے کہ اس سے انحراف کرنے والا ویسے ہی دوبارہ منتخب نہیں ہو سکتا۔ عوام اسے دوبارہ منتخب ہی نہیں کریں گے۔ لیکن یہاں سیاسی جماعتوں نے چونکہ ٹکٹ جمہوری اقتدار سے انحراف کر کے دیے ہوتے ہیں۔
اس لیے انھیں یقین ہے کہ ان سے اختلاف کر کے ارکان دوبارہ منتخب ہو کر آجائیں گے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی آمرانہ قیادت ان ارکان کو عوام کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرنے سے روکنے کے لیے انھیں تاحیات نا اہل کرانا چاہتی ہیں۔ بہر حال سیاست میں عوام کی عدالت کو کسی بھی طرح مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رائے بھی سامنے آرہی ہے کہ ان ارکان کو فوری کسی دوسری سیاسی جماعت کا ٹکٹ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن یہ اصول بھی تو یک طرفہ لاگو نہیں ہو سکتا۔
اس طرح تو سیاسی جماعتوں کو بھی پابند کرنا ہوگا کہ وہ سیاسی وفاداری تبدیل کرنے والے کسی بھی شخص کو اپنی جماعت میں شامل کر کے فوری نہیں ٹکٹ نہیں دے سکتیں۔ ابھی تو سیاسی جماعتوں کی آمرانہ قیادت کسی کو اپنی جماعت میں شامل کرتے ہیں اور اگلے دن ہی ان کو ٹکٹ جاری کر دیتے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی پابندی یک طرفہ نہیں ہو سکتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جرم کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو تو مکمل اجازت ہو ۔ لیکن ارکان کو وہ جرم کرنے سے روک دیا جائے۔
جب تک سیاسی جماعتوں کے اندر ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل شفاف اور جمہوری نہیں ہوگا ۔ تب تک ارکان سے بھی جمہوری رویوں کی توقع کرنا جائز نہیں۔ جس طرح ٹکٹ حاصل کیے جاتے ہیں ،ان کا ویسا ہی استعمال ہوگا۔ جس سیاسی جماعت میں جس قدر جمہوریت ہے، وہ اس قدر ہی جمہوری قوانین کا سہارا لے سکتی ہے۔
آمریتوں کو جمہوری قوانین کے پیچھے چھپنے کی اجازت دینا کوئی انصاف نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کو پابند کرنا چاہیے کہ ٹکٹوں کی تقسیم بند کمروں کے بجائے سیاسی کارکنوں کی میٹنگز کی جائے۔ ہر حلقے میں موجود سیاسی جماعت کے رجسٹرڈ کارکنوں کو اپنے حلقے کی سیاسی جماعت کا ٹکٹ دینے کا حق ہونا چاہیے۔ کارکنوں کا بطور ملازم استعمال بندہونا چاہیے۔
جب تک سیاسی جماعتوں میں سیاسی کارکن کو مضبوط نہیں کیا جائے گا۔ تب تک ملک میں جمہوریت بھی مضبوط نہیں ہو سکتی۔ اگر سیاسی جماعتوں کی قیادت ایسی قانون سازی کرتی ہے جس سے ان کی اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں آمریت مضبوط ہو تو عدلیہ کو ایسی قانون سازی پر بھی فیصلہ دینا چاہیے۔
اگر کوئی سیاسی جماعت یہ کہتی ہے کہ اس کے منحرف ارکان کسی اصول پر نہیں بلکہ اپنے مفاد پر اختلاف کر رہے ہیں تو اس کا اسے ثبوت دینے کا پابند بنانا چاہیے۔ وہ اس کا باقاعدہ ریفرنس لے کر آئے، جلسوں میں الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پیسوں کے استعمال کے الزامات کو اپنی سیاسی آمریت مضبوط کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
یہ کیا منطق ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت تو پیسے لے کر کسی کو بھی ٹکٹ جاری کر دیں لیکن ارکان کو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر پابندی ہونی چاہیے تو اوپر سے نیچے تک ہونی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت پارٹی ٹکٹ دینے کے لیے چندہ لیں، کوئی مفاد لیں، ذاتی ملازمین کو ٹکٹ دیں۔ لیکن ارکان اسمبلی کو نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی سیاسی جماعتوں میں کوئی مشاورت نہیں کرتی ہیں۔ چند لوگ بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر مشاورت کے عمل کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کوئی تنظیمی ڈھانچہ ہی نہیں بنایا ہوا۔
سال میں ایک دفعہ سینٹرل ایگزیکٹو کا اجلاس بلایا جاتا ہے ۔ وہ بھی بس ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات بھی جعلی ہوتے ہیں۔ ایسے کلچر میں ساری جمہوریت کا دفاع ارکان پر ڈال دینا کونسا انصاف ہے۔ اس لیے میری رائے میں سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کو ہدایت دینی چاہیے کہ جن سیاسی جماعت میں مکمل جمہوریت ہو صرف وہی اپنے ارکان کو نا اہل کرا سکتی ہیں۔ باقی سب چھٹی کریں۔