افغانستان امن کی فضا میں بیان کی آزادی دم توڑ رہی ہے

افغان طالبان دور میں میڈیا پر قدغنیں اور صحافیوں کے لیے حق کی آواز بلند کرنا مشکل ترین ہوگیا ہے


عبدالکریم March 30, 2022
اافغان صحافی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ (فوٹو: فائل)

1994 میں طالبان نمودار ہوئے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ فتوحات حاصل کررہے تھے۔ ان فتوحات کی خبریں میں اپنے مرحوم والد کے ساتھ بیٹھ کر رات کے آٹھ بجے بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین اور بی بی سی پشتو کے رات نو بجے کے پروگرام میں سن لیتا تھا۔

والد محترم کی خوشی اس وقت دیدنی ہوتی تھی جب سینئر صحافی مرحوم رحیم اللہ یوسفزئی افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کی خبر دیتے۔ والد بھی ان بے شمار لوگوں میں شامل تھے جو افغانستان میں ہونے تبدیلی کو ایک اسلامی انقلاب سے تشبیہ دیتے تھے۔ اس وقت افغانستان کے بارے میں ایک طبقے کی رائے بنانے والا رحیم اللہ یوسفزئی ہی تھا۔ اور رحیم اللہ یوسفزئی ہی تھا جو طالبان کا موقف دنیا کے سامنے لے کر آتا تھا۔

چونکہ خبر کے ذرائع اس وقت افغانستان میں محدود تھے۔ افغانستان میں ریڈیو ہی واحد ذریعہ تھا۔ ریڈیو سے افغانستان کی خبر پشاور سے ہوکر لندن تک پہنچتی اور لندن سے وہ خبر افغانستان میں لوگوں کی سماعتوں تک پہنچتی تھی۔ پانچ سال کے بعد طالبان کی حکومت چلی گئی۔ افغانستان میں میڈیا پھلنے پھولنے لگا۔ سیکڑوں ٹی وی چینلز قائم ہوئے۔ اخبارات کا اجرا ہوا۔ پھر سوشل میڈیا کا دور آیا۔ نوجوانوں نے افغانستان کے حالات پر تبصرے شروع کیے۔ میڈیا لیٹریسی بڑھنے لگی۔ وقت کے ساتھ افغانستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی رائے تبدیل ہوگئی۔ وہ بی بی سی کے طالبان کے پہلے دور اور جمہوری دور میں کردار کو مشکوک دیکھنے لگے۔ وہ اپنے مباحثوں میں رحیم اللہ یوسفزئی کو طالبان کے پہلے دور کا ترجمان اور بی بی سی کو طالبان کے بارے میں مثبت رائے قائم کرنے کا ذمے دار قرار دینے لگے۔

لیکن 15 اگست 2021 میں اشرف غنی کی حکومت کے سقوط کے بعد طالبان جب اقدار میں آئے تو افغانستان میں جمہوری دور میں پھلنے پھولنے والے میڈیا پر قدغنیں پھر سے لگنی شروع ہوگئیں۔ اب کی بار ٹی وی سیٹ تو نہیں توڑے گئے، لیکن آوازوں کو دبانے کےلیے صحافیوں کو گرفتار اور انہیں زدوکوب کیا جانے لگا۔ بیان کی آزادی دم توڑنے لگی۔

بی بی سی، وائس آف امریکا اور دیگر عالمی خبررساں اداروں نے اپنے صحافیوں کو افغانستان سے نکال دیا۔ اس کے ساتھ افغان میڈیا کے صحافیوں نے بڑی تعداد میں بیان کی آزادی اور زندگی کا تحفظ نہ ہونے کی باعث ملک چھوڑ دیا۔ اس سلسلے میں اب تک آخری صحافی جس نے افغانستان چھوڑا وہ مشہور ٹی وی چینل طلوع کے اینکر پرسن سعید شینواری ہیں۔ جہنوں نے ملک چھوڑنے کے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ملک چھوڑنے کے بابت لکھا ''مجھے ٹی وی چینل کے مالک نے کہا کہ میں آپ کو مرا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا، لہٰذا آپ ملک چھوڑ دیں۔''

بات یہیں تک محدود نہیں، طالبان کے آنے کے بعد اب تک افغان میڈیا تنظمیوں اے ایف جی سی اور افغانستان کے آزاد صحافیوں کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 578 صحافتی ادارے بند ہوچکے ہیں۔ جن میں ٹی وی چینلز، اخبارات، ایف ایم ریڈیو اور ویب سائٹس شامل ہیں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اب تک 200 کے قریب میڈیا آؤٹ لیٹس بند ہوچکے ہیں۔ 12 صحافی قتل ہوئے اور 240 پر حملے ہوئے ہیں۔

یاد رہے حال ہی میں طالبان نے کوئی وجہ بتائے بغیر بی بی سی پشتو، دری، اور ازبکی کی نشریات افغان ٹی وی چینلز پر نشر ہونے پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس کے ساتھ جرمنی اور وائس آف امریکا کی بھی افغانستان میں نشریات پر پابندی عائد کردی گئی۔ قندھار میں تین ایف ایم ریڈیوز کو بند کردیا گیا اور ان میں کام کرنے والے چھ کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

نجیب پاسون افغانستان کے شمال میں بی بی سی پشتو کا نمائندہ تھا۔ وہ بھی ان صحافیوں میں شامل ہے جہنوں نے تحفظ کی ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے ملک چھوڑ دیا۔ انہوں نے ملک چھوڑنے کی بابت بات کرتے ہوئے کہا ''جب میں نے افغانستان چھوڑا تو میرا سب کچھ وہیں پر رہ گیا۔ جب سے نیا نظام آیا ہے تمام چیزیں ختم ہوگئیں۔'' صحافیوں کے ملک چھوڑنے کی وجہ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ سنسرشپ، صحافیوں کے کام میں مداخلت، واقعات کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ پر دھمکیاں دینا، صحافیوں کو اغوا کرنے، ٹارگٹ کلنگ اور جان کا تحفظ نہ ہونا اہم وجوہات ہیں، جس کی وجہ سے صحافی ملک چھوڑنے اور دیگر ممالک میں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔'' نجیب پاسون نے ایف جی سی کی رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا ''15 اگست سے اب تک صحافیوں پر تشدد میں گزشتہ بیس سالہ جمہوری دور کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔''

یاد رہے خواتین صحافیوں کےلیے افغانستان کے موجودہ طالبان دور میں کام کرنا بے حد مشکل ہے۔ اس لیے بڑی تعداد میں خواتین صحافی بھی افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئی ہیں، جو کہ افغانستان میں آزاد صحافت کےلیے کسی المیے سے کم نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں