مکڑیاں اپنے جالے کو لاؤڈ اسپیکر بنا کر سننے کی صلاحیت بڑھاتی ہیں

اور اب مکڑیوں کے حساس جالے آواز کا ارتعاش مکڑیوں تک پہنچاتے ہوئے ایک حساس میگا فون کا کام کرتے ہیں

بنگھیمٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اورب ویوینگ مکڑیاں جالےکے ارتعاشات کو آواز میں بدل کر اسے مفید کام کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ فوٹو: بنگھیمٹن یونیورسٹی

ISLAMABAD:
مکڑیاں ہوں یا ان کے جالے دونوں ہی قدرت کا عظیم شاہکار ہیں اور اب معلوم ہوا ہے کہ ایک خاص مکڑی کا جالا انہیں 'سننے' میں مدد دیتا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق 'اورب ویونگ اسپائیڈر' اس کام میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہ حسِ سماعت بہتر بنانے کے لیے تاروں کی قطاروں کو لاؤڈ اسپیکر میں ڈھالتی ہیں۔ مکڑی کے جالے مضبوط، لچک دار اور کم وزن ہوتے ہیں۔ اب ایک غیرمعمولی دریافت سے معلوم ہوا ہے کہ ایک قسم کی مکڑی اپنے جالے سے سننے کا کام لیتی ہیں۔

اس مکڑی کے جالے کا ہر تار آواز کی امواج پر تھرتھراتا ہے۔ اس ارتعاش سے جالے کا تار مکڑی کے لیے گویا ایک مائیکروفون بن جاتا ہے۔ بنگھمٹن یونیورسٹی سےوابستہ انجنیئر رو مائلز کہتے ہیں کہ مکڑیاں باریک تار کے ارتعاش سے آواز محسوس کرتی ہے اور اس کا مطالعہ ضروری تھا۔

رو مائلز اور ان کے ساتھی اس پورے نظام کو سمجھنا چاہتے ہیں جس کا فائدہ ہم انسانوں کو یوں ہوگا کہ مستقبل کے بہترین مائیکروفون، آلاتِ سماعت اور اسمارٹ فون اسپیکر وضع ہوں گے۔ اس کے لئے ماہرین نے تجربہ گاہ میں چوکور فریم میں مکڑیوں سے جالے بنوائے۔


پھر جالے کی تاروں پر لیزر وابئرومیٹر لگا کر صوتی امواج کے ارتعاش کو نوٹ کیا گیا ۔ سائنسدانوں نے کل 1000 مقامات پر آواز کے ارتعاشات ریکارڈ کئے جس کا مقصد دیکھنا تھا کہ آواز مکڑی کے جالوں پر کیسے اثرانداز ہوتی ہیں اور آوازیں کس طرح سفر کرتی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مکڑی کے رویوں کو بھی نوٹ کیا کہ وہ مختلف آوازوں پر کیسا ردِ عمل دکھاتی ہے؟

اگرچہ یہ تجربہ مشکل تھا لیکن سائنسدانوں نے عقلمندانہ طریقہ استعمال کیا۔ انہوں نے مکڑی کے جال کے مرکز سے 5 سینٹی اور اس کے کناروں سے دو ملی میٹر دور چھوٹے چھوٹے اسپیکر رکھے۔ واضح رہے کہ مکڑی جالے کے عین درمیان بیٹھنا پسند کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسپیکر کی آواز دونوں طریقوں سے یعنی ہوا کے ذریعے اور خود جالے کے تاروں سے مکڑی تک پہنچ رہی تھی۔ اس طرح لگ بھگ 68 ڈیسی بیل کی آواز تار کے ذریعے مکڑی تک جارہی تھی۔

کل 12 میں سے 4 مکڑیوں نے جالے سے گزرنے والے ارتعاش کے آواز پر اپنا ردِ عمل دیا۔ یعنی اس طرح مکڑیاں جالے سے سننے کا کام لیتی ہیں۔ یہ وہ راز ہے جسے جاننے میں سائنسدانوں کو کل پانچ سال لگے۔ پھر سائنسدانوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ آواز کی لہریں جب جب مکڑی کے جالوں کے تار سے گزریں تو کچھ دیر اس ننھے جانور نے اپنے بدن کو کھینچا اور کچھ دیر رینگیں تاکہ وہ اپنے جسم پر آواز محسوس کرسکیں۔

لیکن اس کا فائدہ کیا ہے، اول وہ اپنے شکار سے آگاہ ہوتی ہیں اور دوم کسی خطرے سے بھی خود کو بچاتی ہیں۔
Load Next Story