افغانستان کی مشکلات
ملک میں روز گار کے جو تھوڑے بہت مواقعے یا ذرائع موجود تھے‘ وہ بھی زیرو پوائنٹ تک آ گئے ہیں
ISLAMABAD:
افغانستان سے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں' ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ ملک میں روز گار کے جو تھوڑے بہت مواقعے یا ذرائع موجود تھے' وہ بھی زیرو پوائنٹ تک آ گئے ہیں۔ کابل شہر میں کاروباری سرگرمیاں اشیاء ضروریہ کی خرید وفروخت تک محدود ہیں۔
افغانستان کی طالبان حکومت اپنی بساط کے مطابق ملک کو چلانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے پاس زرمبادلہ ہے اور نہ ہی ایسے پروفیشنلز اور ٹیکنوکریٹس ہیں جو امور مملکت اور معیشت کو چلانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ طالبان کی سخت گیر پالیسی میں بھی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
طالبان کی داخلی اور خارجی پالیسی عالمی برادری کی سوچ کے مطابق نہیں ہے' امریکا' یورپ ہی نہیں بلکہ اسلامی ملکوں کی حکومتوں نے بھی طالبان کی حکومت کو تاحال تسلیم نہیں کیا ہے' طالبان جس انداز سے حکومت اور معیشت چلانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
عالمی سطح پر ان کی حکومت کے بارے میں بدگمانیاں اور تحفظات پیدا ہو رہے ہیں' طالبان کی حکومت بدترین عالمی اور علاقائی تنہائی کا شکار ہے اور اس سے نکلنے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کا ایک اہم اجلاس بھی ہوا ہے، اس میں بھی افغانستان کے بحران پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
اسی حوالے سے طالبان حکومت کے وزیر خارجہ قطر کے دارالحکومت دوحہ بھی گئے ہیں' میڈیا کے مطابق طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر متقی نے انڈونیشیا اور قطر کے نائب وزیراعظم اور وزرائے خارجہ سے ملاقات کی ہے اور افغانستان میں تعلیمی مسائل، انسانی بحران اور معاشی مشکلات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
عالمی میڈیا کے حوالے سے پاکستان کے اخبارات کے مطابق خبر میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر متقی نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اپنے انڈونیشیائی ہم منصب کے وزیر خارجہ ریتنو مرسودی اور قطر کے نائب وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے۔ملاقات کے دوران طالبان حکومت کے وزیر خارجہ نے افغانستان کے انسانی، معاشی اور تعلیمی مسائل سے آگاہ کیا جب کہ لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں کی بندش کے فیصلے سے متعلق بھی اپنا موقف پیش کیا۔
اس موقعے پر قطر اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ نے یقین دلایا ہے کہ وہ افغانستان کے عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں جب کہ افغانستان کے تعلیمی اداروں کی مدد کرنے اور افغان طلبا کو تعلیمی وظائف دینے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر اللہ متقی نے قطر کے ہم منصب سے علیحدہ ملاقات بھی کی ہے، اس میں کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے آپریشن کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
افغانستان کے عوام کو جن مشکلات و مصائب کا سامنا ہے ، وہ واقعہ توجہ طلب ہیں، پاکستان کی حکومت نے بھی افغانستان کی امداد بحال کرانے کی پوری کوشش کی ہے ۔ پاکستان نے اپنی بساط کے مطابق افغانستان کی مدد بھی کی ہے لیکن سیدھی بات ہے کہ پاکستان کی معیشت بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ افغانستان کا بوجھ اٹھا لے ، اس کے لیے افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان کی قیادت کو بھی کام کرنا چاہیے ۔
افغانستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، وہاں زرخیز زمین موجود ہے، معدنیات موجود ہے، سیاحتی مقامات و تاریخی آثار موجود ہیں، جفاکش اور محنتی افرادی قوت موجود ہے، ضرورت صرف معاشی و سماجی انصاف کی ہے، جیو اور جینے دو کی پالیسی کی ہے۔
افغانستان کو اگر اقوام عالم میں عزت و وقار دلانا ہے تو سب سے پہلے طالبان قیادت اور ان کی مخالف افغان اشرافیہ کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔خود کو بہادر کہنا، خود کو ناقابل شکست کہنا، اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہے، ریاستیں اور قومیں اپنی معیشت کی مضبوطی، خوشحالی ، اعلیٰ تعلیمی انفراسٹرکچر، روزگار کی فراوانی، قدرتی وسائل کو قابل استعمال بنانے کی فنی صلاحیت سے پہچانی جاتی ہیں، ایسی ریاستوں اور قوموں کی قیادت اپنی تعریف خود نہیں کرتیں بلکہ دوسرے کرتے ہیں۔
جاپان کی قیادت یا جاپانیوں کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ بڑے بہادر ہیں، پوری دنیا ان کی ترقی کو دیکھ کر متاثر ہوتی ہے اور جاپان کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کی کوشش کرتی ہے۔پچھلے دنوں پاکستان میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، اس کے اختتامی اعلامیے میں او آئی سی نے اس عزم کو واضح کیا ہے جن میں مشترکہ مفادات کو فروغ اور تحفظ فراہم کرنا، فلسطین، کشمیر اور دیگرمشترکہ مسائل سے نمٹنے کے لیے منصفانہ مقاصد کی حمایت ،او آئی سی ممالک میں مسلم اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ ، مسلم دنیا کے اندر اور باہر کی سماجی، اقتصادی، سائنسی اور تکنیکی ترقی اور انضمام کے لیے مشترکہ وژن پر عمل کرنا، ہم آہنگی، رواداری، پرامن بقائے باہمی، زندگی کے بہتر معیار، انسانی وقار اور تمام لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم کو فروغ دینا شامل ہے جو اجتماعی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ اعلامیہ دہشت گردی کی تمام جہتوں کو مسترد کرتا ہے اوراسے کسی بھی ملک، مذہب، قومیت، نسل یا تہذیب کے خلاف استعمال کرنے کی مذمت کرتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ بھوک اور غربت آخری حدوں کو چھو رہی ہیں، ادویات کی قلت سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ امریکا نے افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کررکھے ہیں۔
یہ اعلامیہ افغانستان کے عوام کی مشکلات کو واضح بھی کرتا ہے اور طالبان قیادت کے لیے پیغام بھی ہے کہ افغانستان کسی ایک لسانی یا نسلی گروہ کی ملکیت نہیں ہے بلکہ جو بھی افغانستان کی ریاست کی حدود میں بستا ہے، وہ افغانستان کا مالک ہے۔ایک ریاست میں مختلف مذاہب کے ماننے والے، مختلف کلچر اور زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں، وہ سب اس ریاست کے برابر کے شہری ہوتے ہیں۔
پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ملک ہے ۔ افغانستان کی حکومتوں نے پاکستان کے لیے شمال مغرب میں ہمیشہ مسائل پیدا کیے ہیں لیکن افغانستان کے عام شہری پاکستان کے عام شہریوں سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو بھائی سمجھتے ہیں ۔ پاکستان سے اب پاک افغان ٹرانزٹ کاروبارسے منسلک عارضی داخلہ دستاویز کے حامل ٹرانسپورٹرز بغیر کسی اضافی اخراجات کے کنٹینرز کی ارسال و ترسیل کر سکتے ہیں۔
خبر کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں ٹرکوں کی آزادانہ نقل و حمل کے طریقہ کار اور ٹرانزٹ ٹریڈ کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت کے موضوع پر پاک افغان جوائنٹ چیمبر اور ڈائریکٹوریٹ ٹرانزٹ ٹریڈ کسٹم پر مشتمل اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذمے داران نے کہا ہے کہ 6ماہ کے لیے عارضی داخلہ دستاویز کے اجرا کی فیس 100ڈالر ہے جب کہ متعلقہ ٹرک کے ڈرائیور اور ہیلپرز کا ویزا ایک سال کے لیے کار آمد ہو گا اور انھیں اس مدت میں ایک ہی ٹرانسپورٹر کی متعدد گاڑیاں چلانے کی اجازت ہو گی۔ ڈرائیور یا مدد گار کمپنی بدلنے کی صورت میں انھیں نئے ویزا کے لیے درخواست دینی پڑے گی۔
افغان گاڑیوں کے لیے 6ماہ کے لیے وہیکل فٹنس سرٹیفکیٹ معاف کر دیا گیا۔ افغان ٹرانسپورٹرز کابل میں پاکستانی سفارت خانے اور قندھار میں اس کے قونصل خانے سے عارضی داخلہ دستاویز (TDA) حاصل کر سکتے ہیں جب کہ پاکستان میں ٹرانسپورٹرز پشاور اور کوئٹہ میں افغان قونصل خانوں سے اسے حاصل کر سکتے ہیں۔
ایک جانب پاکستان کی طرف سے یہ اقدام کیے جارہے ہیں تاکہ افغانستان کے عوام اور حکومت کی مشکلات کم ہوں لیکن دوسری طرف افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستانی علاقے جنوبی وزیرستان کے ضلع مکین میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت 2 جوان شہید ہوگئے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق مکین میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ 29مارچ کو ہوا۔ جوانوں نے بھرپور جواب دیتے ہوئے چار دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔فائرنگ کے شدید تبادلے کے دوران کیپٹن سعد بن عامر اور لانس نائیک ریاض نے جام شہادت نوش کیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں دیگر دہشت گردوں کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت دہشت گردوں اور ان کی کمین گاہوں اور سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے پاکستان کی مدد کرے۔دہشت گردی ، دہشت گرد،ان کے ماسٹر مائنڈز، سرپرست،سہولت کار اور مدد گار کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں اور نہ یہ طبقہ وگروہ افغانستان کے عوام کا ہمدرد ہے اور نہ پاکستان کے عوام کا دوست ہوسکتا ہے۔
افغانستان سے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں' ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ ملک میں روز گار کے جو تھوڑے بہت مواقعے یا ذرائع موجود تھے' وہ بھی زیرو پوائنٹ تک آ گئے ہیں۔ کابل شہر میں کاروباری سرگرمیاں اشیاء ضروریہ کی خرید وفروخت تک محدود ہیں۔
افغانستان کی طالبان حکومت اپنی بساط کے مطابق ملک کو چلانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے پاس زرمبادلہ ہے اور نہ ہی ایسے پروفیشنلز اور ٹیکنوکریٹس ہیں جو امور مملکت اور معیشت کو چلانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ طالبان کی سخت گیر پالیسی میں بھی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
طالبان کی داخلی اور خارجی پالیسی عالمی برادری کی سوچ کے مطابق نہیں ہے' امریکا' یورپ ہی نہیں بلکہ اسلامی ملکوں کی حکومتوں نے بھی طالبان کی حکومت کو تاحال تسلیم نہیں کیا ہے' طالبان جس انداز سے حکومت اور معیشت چلانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
عالمی سطح پر ان کی حکومت کے بارے میں بدگمانیاں اور تحفظات پیدا ہو رہے ہیں' طالبان کی حکومت بدترین عالمی اور علاقائی تنہائی کا شکار ہے اور اس سے نکلنے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کا ایک اہم اجلاس بھی ہوا ہے، اس میں بھی افغانستان کے بحران پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
اسی حوالے سے طالبان حکومت کے وزیر خارجہ قطر کے دارالحکومت دوحہ بھی گئے ہیں' میڈیا کے مطابق طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر متقی نے انڈونیشیا اور قطر کے نائب وزیراعظم اور وزرائے خارجہ سے ملاقات کی ہے اور افغانستان میں تعلیمی مسائل، انسانی بحران اور معاشی مشکلات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
عالمی میڈیا کے حوالے سے پاکستان کے اخبارات کے مطابق خبر میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر متقی نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اپنے انڈونیشیائی ہم منصب کے وزیر خارجہ ریتنو مرسودی اور قطر کے نائب وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے۔ملاقات کے دوران طالبان حکومت کے وزیر خارجہ نے افغانستان کے انسانی، معاشی اور تعلیمی مسائل سے آگاہ کیا جب کہ لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں کی بندش کے فیصلے سے متعلق بھی اپنا موقف پیش کیا۔
اس موقعے پر قطر اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ نے یقین دلایا ہے کہ وہ افغانستان کے عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں جب کہ افغانستان کے تعلیمی اداروں کی مدد کرنے اور افغان طلبا کو تعلیمی وظائف دینے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر اللہ متقی نے قطر کے ہم منصب سے علیحدہ ملاقات بھی کی ہے، اس میں کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے آپریشن کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
افغانستان کے عوام کو جن مشکلات و مصائب کا سامنا ہے ، وہ واقعہ توجہ طلب ہیں، پاکستان کی حکومت نے بھی افغانستان کی امداد بحال کرانے کی پوری کوشش کی ہے ۔ پاکستان نے اپنی بساط کے مطابق افغانستان کی مدد بھی کی ہے لیکن سیدھی بات ہے کہ پاکستان کی معیشت بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ افغانستان کا بوجھ اٹھا لے ، اس کے لیے افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان کی قیادت کو بھی کام کرنا چاہیے ۔
افغانستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، وہاں زرخیز زمین موجود ہے، معدنیات موجود ہے، سیاحتی مقامات و تاریخی آثار موجود ہیں، جفاکش اور محنتی افرادی قوت موجود ہے، ضرورت صرف معاشی و سماجی انصاف کی ہے، جیو اور جینے دو کی پالیسی کی ہے۔
افغانستان کو اگر اقوام عالم میں عزت و وقار دلانا ہے تو سب سے پہلے طالبان قیادت اور ان کی مخالف افغان اشرافیہ کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔خود کو بہادر کہنا، خود کو ناقابل شکست کہنا، اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہے، ریاستیں اور قومیں اپنی معیشت کی مضبوطی، خوشحالی ، اعلیٰ تعلیمی انفراسٹرکچر، روزگار کی فراوانی، قدرتی وسائل کو قابل استعمال بنانے کی فنی صلاحیت سے پہچانی جاتی ہیں، ایسی ریاستوں اور قوموں کی قیادت اپنی تعریف خود نہیں کرتیں بلکہ دوسرے کرتے ہیں۔
جاپان کی قیادت یا جاپانیوں کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ بڑے بہادر ہیں، پوری دنیا ان کی ترقی کو دیکھ کر متاثر ہوتی ہے اور جاپان کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کی کوشش کرتی ہے۔پچھلے دنوں پاکستان میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، اس کے اختتامی اعلامیے میں او آئی سی نے اس عزم کو واضح کیا ہے جن میں مشترکہ مفادات کو فروغ اور تحفظ فراہم کرنا، فلسطین، کشمیر اور دیگرمشترکہ مسائل سے نمٹنے کے لیے منصفانہ مقاصد کی حمایت ،او آئی سی ممالک میں مسلم اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ ، مسلم دنیا کے اندر اور باہر کی سماجی، اقتصادی، سائنسی اور تکنیکی ترقی اور انضمام کے لیے مشترکہ وژن پر عمل کرنا، ہم آہنگی، رواداری، پرامن بقائے باہمی، زندگی کے بہتر معیار، انسانی وقار اور تمام لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم کو فروغ دینا شامل ہے جو اجتماعی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ اعلامیہ دہشت گردی کی تمام جہتوں کو مسترد کرتا ہے اوراسے کسی بھی ملک، مذہب، قومیت، نسل یا تہذیب کے خلاف استعمال کرنے کی مذمت کرتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ بھوک اور غربت آخری حدوں کو چھو رہی ہیں، ادویات کی قلت سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ امریکا نے افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کررکھے ہیں۔
یہ اعلامیہ افغانستان کے عوام کی مشکلات کو واضح بھی کرتا ہے اور طالبان قیادت کے لیے پیغام بھی ہے کہ افغانستان کسی ایک لسانی یا نسلی گروہ کی ملکیت نہیں ہے بلکہ جو بھی افغانستان کی ریاست کی حدود میں بستا ہے، وہ افغانستان کا مالک ہے۔ایک ریاست میں مختلف مذاہب کے ماننے والے، مختلف کلچر اور زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں، وہ سب اس ریاست کے برابر کے شہری ہوتے ہیں۔
پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ملک ہے ۔ افغانستان کی حکومتوں نے پاکستان کے لیے شمال مغرب میں ہمیشہ مسائل پیدا کیے ہیں لیکن افغانستان کے عام شہری پاکستان کے عام شہریوں سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو بھائی سمجھتے ہیں ۔ پاکستان سے اب پاک افغان ٹرانزٹ کاروبارسے منسلک عارضی داخلہ دستاویز کے حامل ٹرانسپورٹرز بغیر کسی اضافی اخراجات کے کنٹینرز کی ارسال و ترسیل کر سکتے ہیں۔
خبر کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں ٹرکوں کی آزادانہ نقل و حمل کے طریقہ کار اور ٹرانزٹ ٹریڈ کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت کے موضوع پر پاک افغان جوائنٹ چیمبر اور ڈائریکٹوریٹ ٹرانزٹ ٹریڈ کسٹم پر مشتمل اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذمے داران نے کہا ہے کہ 6ماہ کے لیے عارضی داخلہ دستاویز کے اجرا کی فیس 100ڈالر ہے جب کہ متعلقہ ٹرک کے ڈرائیور اور ہیلپرز کا ویزا ایک سال کے لیے کار آمد ہو گا اور انھیں اس مدت میں ایک ہی ٹرانسپورٹر کی متعدد گاڑیاں چلانے کی اجازت ہو گی۔ ڈرائیور یا مدد گار کمپنی بدلنے کی صورت میں انھیں نئے ویزا کے لیے درخواست دینی پڑے گی۔
افغان گاڑیوں کے لیے 6ماہ کے لیے وہیکل فٹنس سرٹیفکیٹ معاف کر دیا گیا۔ افغان ٹرانسپورٹرز کابل میں پاکستانی سفارت خانے اور قندھار میں اس کے قونصل خانے سے عارضی داخلہ دستاویز (TDA) حاصل کر سکتے ہیں جب کہ پاکستان میں ٹرانسپورٹرز پشاور اور کوئٹہ میں افغان قونصل خانوں سے اسے حاصل کر سکتے ہیں۔
ایک جانب پاکستان کی طرف سے یہ اقدام کیے جارہے ہیں تاکہ افغانستان کے عوام اور حکومت کی مشکلات کم ہوں لیکن دوسری طرف افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستانی علاقے جنوبی وزیرستان کے ضلع مکین میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت 2 جوان شہید ہوگئے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق مکین میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ 29مارچ کو ہوا۔ جوانوں نے بھرپور جواب دیتے ہوئے چار دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔فائرنگ کے شدید تبادلے کے دوران کیپٹن سعد بن عامر اور لانس نائیک ریاض نے جام شہادت نوش کیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں دیگر دہشت گردوں کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت دہشت گردوں اور ان کی کمین گاہوں اور سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے پاکستان کی مدد کرے۔دہشت گردی ، دہشت گرد،ان کے ماسٹر مائنڈز، سرپرست،سہولت کار اور مدد گار کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں اور نہ یہ طبقہ وگروہ افغانستان کے عوام کا ہمدرد ہے اور نہ پاکستان کے عوام کا دوست ہوسکتا ہے۔