اطمینان قلب کی سائنس دوسرا حصہ
جو جسمانی اورمادی نہیں اورجو چیزمادی ہے ہی نہیں آپ اسے مادی چیزوں سے مطمئن کیسے کرسکتے ہیں
بگ بینگ کاذکر ہم کرتے رہے ہیں جو ''انتشار'' اورارتکازکے زوج کا رہین منت ہوتا ہے اورسب کچھ جو اس وقت کائنات میں پھیلاہوا ہے کبھی ایک ذرے یا ایٹم میں مرتکزتھا اوراگر یہ صرف مادہ تھا تو ایک چھوٹے سے ذرے میں مرتکزکیسے ہوگیاتھا کہ مادہ تو جگہ گھیرتا ہے یعنی حجم دارہوتاہے وزن دار ہوتاہے، دیکھا جاسکتا ہے، سنا جاسکتاہے چھواجاسکتاہے یعنی جسم حجم اوروزن اس کے لیے لازم ہے تو پھر یہ پوری کائنات ایک ذرے میں کیسے سمٹ گئی تھی ؟ وہ اس لیے کہ مادے کا ایک زوج ہوتاہے۔
توانائی اوریہ دونوں مادہ اورتوانائی ایک دوسرے میں''بدلتے'' ہیں،آپ ایندھن کاایک سربفلک ڈھیراکٹھاکرکے اسے آگ دیں۔ایندھن جل کرراکھ ہوجائے گااور آگ کے ذریعے بننے والی توانائی ہوامیں منتشر ہوجائے گی لیکن ختم یافنانہیں ہوگی بلکہ شکلیں بدل کرپھر نباتات میں مادہ ہوجائے گی۔
مختصراً یہ کہ بگ بینگ کاوہ ذرہ صرف''مادے'' پرمشتمل نہیں تھااس کادوسرازوج بھی اس کے ساتھ تھاکہ یہ دونوںہمیشہ ساتھ ہوتے ہیں ۔لازم وملزوم اورکائنات کاسب سے بڑا بلکہ سارے ازواج کاباپ یاسرچشمہ۔ابتدااوربنیاد۔
ایسے میں جب کائنات اوربگ بینگ سے لے کرایٹم تک میں ازواج ہوں، انسان کے اندرازواج کاسلسلہ نہ ہو،بہت وسعتوں تک ہم بات کونہیں پھیلائیں گے ورنہ آدم اورابلیس بھی ایک زوج ہے جو انسان کے اندر ہی ہیں لیکن یہ تو ثابت ہوچکاہے کہ انسانی جسم اورزوج یامادے اور توانائی کاایک زوج ہوتا ہے جب تک انسان کے اندروہ چیزرہتی ہے وہ زندہ اور متحرک ہوتاہے لیکن جب وہ چیز یعنی توانائی یازوج نکل جاتی ہے تو انسان صرف مادے کاایک ڈھیر رہ جاتا ہے اتنابے بس کہ ملناجلنا تودرکنار خود اپنے آب کو گلنے سڑنے سے بھی نہیں بچا سکتا،جسے بجلی کی رومنقطع ہونے پر تمام آلات مشینیں بلب اورکارخانے باوجود ٹھیک ٹھاک ہونے کے رہ جاتے ہیں اوراطمینان قلب کا تعلق اس چیزسے ہوتاہے جو جسمانی اورمادی نہیں اورجو چیزمادی ہے ہی نہیں آپ اسے مادی چیزوں سے مطمئن کیسے کرسکتے ہیں۔
نہ اطمینان مادی ہے نہ قلب اورنہ نفس یاانسانی جسم کے اندر وہ چیز۔جسے توانائی کہیں،روح کہیں نفس کہیں یاباطن لیکن بہرحال جو مادی نہیں ہے جسے یہ لوگ ''اطمینان قلب'' کہتے ہیں اسے دینی اصطلاح میں ''نفس مطمنہ'' کہاجاتاہے۔ عوامی اورغیر علمی سطح پر ''نفس''کے معنی غلط لیے جاتے ہیں اورنفس یانفسانی خواہشات کو اس سے وابستہ کیا جاتا ہے لیکن یہ لاعلمی اورناسمجھی ہے، عربی لغات میں ''نفس'' کے معنی ہیں۔ انسانی شخصیت کے ظاہروباطن دونوں پہلوؤں کے مجموعے کو ''نفس'' کہا جاتاہے۔
اردولفظ ''ذات'' میں البتہ اس کے معنی ہوتے ہیں ذات، اس کی ذات یعنی پوری شخصیت تمام صفات کے ساتھ۔بلکہ خود ''نفس'' کاتعلق سانس اورروح سے زیادہ انسانی ذات یانفس سے ہے؟اس کو پوری طرح سمجھنایا سمجھانا ز ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ مادی شے ہے ہی نہیں اور جب مادی شے ہی نہیں توکوئی اسے مادی چیزوں سے مطمئن کیسے کر سکتا ہے، غیرمادی چیزکو مطمئن کرنے کے ذرائع اوروسائل بھی غیرمادی ہونے چاہئیں لیکن مغرب نے توسرے سے اس غیرمادی راستے ہی کو بند کردیاہواہے اور غیرمادی چیزکو مادی چیزوں سے ''مطمئن'' کرنے کی سعی لاحاصل کررہے ہیں بقول علامہ...
جنھیں میں ڈھونڈتاتھاآسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں
وہی لڑکابغل میں اورڈھنڈورہ شہرمیں۔ یا گھر میں کھویاہواسکہ بازار میں تلاش کرنا۔اب سوال یہ ہے کہ اس گمشدہ متاع کو ڈھونڈیں گے۔ کیسے ؟ اورکہاں؟ تو یہ بڑا آسان ہے ایک بہت ہی مشہورقول ہے کہ ۔
''من عرفہ نفسہ معرفہ ربہ''
جس نے خودکوپہچانا۔اس نے خداکو پہچان لیا۔ لیکن پہچاننے کی بجائے ''پانا''کہوں گاجس نے خود کو پایا اس نے سب کچھ پالیا۔
(جاری ہے)
اورفی زمانہ انسان کاالمیہ یہی ہے کہ اس سے خود اپنی پہچان کھوچکی ہے ورنہ باہر دوردرازکائنات کی وسعتوں میں سرگرداں پھرنے کی بجائے اپنے اندر جھانک لیتاتوخود کو پاچکاہوتاپہچان چکا ہوں اوراسے معلوم ہوچکاہوتاکہ ''اطمینان قلب یا نفس مطمئنہ کیاہے اوراسے کیسے حاصل کیاجاسکتا۔
جہاں تک''باہر''ڈھونڈنے کاتعلق ہے تو وہ تو ناممکن تھا ناممکن ہے اورناممکن رہے گا۔اطمینان قلب،حقیقی خوشی اور سکون کاسرچشمہ نفس کے اندرہی ہے اور اندر اترنے کے لیے کہیں آنے جانے یاذرائع مواصلات کی ضرورت نہیں ہوتی اس سلسلے میں مولانا ئے روم کاایک بے بہاشعرہے۔
عقل گوئدکہ شش جہات است وبیرون راہ نسیت
عشق گوئدکہ راہ است ومن رفتہ ام بارہا
ترجمہ۔عقل کہتی ہے کہ دنیامیں صرف اطراف ہیں اوراس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں لیکن عشق کہتاہے کہ راستہ ہے اورمیں اس پر کئی بار آتاجاتارہاہو۔
اورہمیںیہی ساتواں راستہ ڈھونڈناہے جو ان چھ اطراف کے علاوہ ہے اور اسے ڈھونڈنا کے لیے کچھ زیادہ محنت کی بھی ضرورت نہیں نہ کہیںآنے جانے کی کیوں کہ وہ راستہ خودانسان ہے۔ اس ساتویں راستے یاسمت کے لیے ہمیں پہلے ان چھ اطراف کو سمجھناہوگا جوقطعی معروضی ہیں کیوں کہ کائنات میں طرف یاجہت کاکوئی وجود ہے کہ سب کچھ گول ہے مثلاً اسلام آباد۔
(جاری ہے)
توانائی اوریہ دونوں مادہ اورتوانائی ایک دوسرے میں''بدلتے'' ہیں،آپ ایندھن کاایک سربفلک ڈھیراکٹھاکرکے اسے آگ دیں۔ایندھن جل کرراکھ ہوجائے گااور آگ کے ذریعے بننے والی توانائی ہوامیں منتشر ہوجائے گی لیکن ختم یافنانہیں ہوگی بلکہ شکلیں بدل کرپھر نباتات میں مادہ ہوجائے گی۔
مختصراً یہ کہ بگ بینگ کاوہ ذرہ صرف''مادے'' پرمشتمل نہیں تھااس کادوسرازوج بھی اس کے ساتھ تھاکہ یہ دونوںہمیشہ ساتھ ہوتے ہیں ۔لازم وملزوم اورکائنات کاسب سے بڑا بلکہ سارے ازواج کاباپ یاسرچشمہ۔ابتدااوربنیاد۔
ایسے میں جب کائنات اوربگ بینگ سے لے کرایٹم تک میں ازواج ہوں، انسان کے اندرازواج کاسلسلہ نہ ہو،بہت وسعتوں تک ہم بات کونہیں پھیلائیں گے ورنہ آدم اورابلیس بھی ایک زوج ہے جو انسان کے اندر ہی ہیں لیکن یہ تو ثابت ہوچکاہے کہ انسانی جسم اورزوج یامادے اور توانائی کاایک زوج ہوتا ہے جب تک انسان کے اندروہ چیزرہتی ہے وہ زندہ اور متحرک ہوتاہے لیکن جب وہ چیز یعنی توانائی یازوج نکل جاتی ہے تو انسان صرف مادے کاایک ڈھیر رہ جاتا ہے اتنابے بس کہ ملناجلنا تودرکنار خود اپنے آب کو گلنے سڑنے سے بھی نہیں بچا سکتا،جسے بجلی کی رومنقطع ہونے پر تمام آلات مشینیں بلب اورکارخانے باوجود ٹھیک ٹھاک ہونے کے رہ جاتے ہیں اوراطمینان قلب کا تعلق اس چیزسے ہوتاہے جو جسمانی اورمادی نہیں اورجو چیزمادی ہے ہی نہیں آپ اسے مادی چیزوں سے مطمئن کیسے کرسکتے ہیں۔
نہ اطمینان مادی ہے نہ قلب اورنہ نفس یاانسانی جسم کے اندر وہ چیز۔جسے توانائی کہیں،روح کہیں نفس کہیں یاباطن لیکن بہرحال جو مادی نہیں ہے جسے یہ لوگ ''اطمینان قلب'' کہتے ہیں اسے دینی اصطلاح میں ''نفس مطمنہ'' کہاجاتاہے۔ عوامی اورغیر علمی سطح پر ''نفس''کے معنی غلط لیے جاتے ہیں اورنفس یانفسانی خواہشات کو اس سے وابستہ کیا جاتا ہے لیکن یہ لاعلمی اورناسمجھی ہے، عربی لغات میں ''نفس'' کے معنی ہیں۔ انسانی شخصیت کے ظاہروباطن دونوں پہلوؤں کے مجموعے کو ''نفس'' کہا جاتاہے۔
اردولفظ ''ذات'' میں البتہ اس کے معنی ہوتے ہیں ذات، اس کی ذات یعنی پوری شخصیت تمام صفات کے ساتھ۔بلکہ خود ''نفس'' کاتعلق سانس اورروح سے زیادہ انسانی ذات یانفس سے ہے؟اس کو پوری طرح سمجھنایا سمجھانا ز ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ مادی شے ہے ہی نہیں اور جب مادی شے ہی نہیں توکوئی اسے مادی چیزوں سے مطمئن کیسے کر سکتا ہے، غیرمادی چیزکو مطمئن کرنے کے ذرائع اوروسائل بھی غیرمادی ہونے چاہئیں لیکن مغرب نے توسرے سے اس غیرمادی راستے ہی کو بند کردیاہواہے اور غیرمادی چیزکو مادی چیزوں سے ''مطمئن'' کرنے کی سعی لاحاصل کررہے ہیں بقول علامہ...
جنھیں میں ڈھونڈتاتھاآسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں
وہی لڑکابغل میں اورڈھنڈورہ شہرمیں۔ یا گھر میں کھویاہواسکہ بازار میں تلاش کرنا۔اب سوال یہ ہے کہ اس گمشدہ متاع کو ڈھونڈیں گے۔ کیسے ؟ اورکہاں؟ تو یہ بڑا آسان ہے ایک بہت ہی مشہورقول ہے کہ ۔
''من عرفہ نفسہ معرفہ ربہ''
جس نے خودکوپہچانا۔اس نے خداکو پہچان لیا۔ لیکن پہچاننے کی بجائے ''پانا''کہوں گاجس نے خود کو پایا اس نے سب کچھ پالیا۔
(جاری ہے)
اورفی زمانہ انسان کاالمیہ یہی ہے کہ اس سے خود اپنی پہچان کھوچکی ہے ورنہ باہر دوردرازکائنات کی وسعتوں میں سرگرداں پھرنے کی بجائے اپنے اندر جھانک لیتاتوخود کو پاچکاہوتاپہچان چکا ہوں اوراسے معلوم ہوچکاہوتاکہ ''اطمینان قلب یا نفس مطمئنہ کیاہے اوراسے کیسے حاصل کیاجاسکتا۔
جہاں تک''باہر''ڈھونڈنے کاتعلق ہے تو وہ تو ناممکن تھا ناممکن ہے اورناممکن رہے گا۔اطمینان قلب،حقیقی خوشی اور سکون کاسرچشمہ نفس کے اندرہی ہے اور اندر اترنے کے لیے کہیں آنے جانے یاذرائع مواصلات کی ضرورت نہیں ہوتی اس سلسلے میں مولانا ئے روم کاایک بے بہاشعرہے۔
عقل گوئدکہ شش جہات است وبیرون راہ نسیت
عشق گوئدکہ راہ است ومن رفتہ ام بارہا
ترجمہ۔عقل کہتی ہے کہ دنیامیں صرف اطراف ہیں اوراس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں لیکن عشق کہتاہے کہ راستہ ہے اورمیں اس پر کئی بار آتاجاتارہاہو۔
اورہمیںیہی ساتواں راستہ ڈھونڈناہے جو ان چھ اطراف کے علاوہ ہے اور اسے ڈھونڈنا کے لیے کچھ زیادہ محنت کی بھی ضرورت نہیں نہ کہیںآنے جانے کی کیوں کہ وہ راستہ خودانسان ہے۔ اس ساتویں راستے یاسمت کے لیے ہمیں پہلے ان چھ اطراف کو سمجھناہوگا جوقطعی معروضی ہیں کیوں کہ کائنات میں طرف یاجہت کاکوئی وجود ہے کہ سب کچھ گول ہے مثلاً اسلام آباد۔
(جاری ہے)