وزراء خارجہ کانفرنس
موجودہ حکومت اسلامی ممالک کا نام لے کر عوام کے جذبات کو اپنے لیے استعمال کرنے کی خواہاں ہے
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزراء خارجہ کا 48 واں اجلاس اسلام آباد میں شان و شوکت سے منعقد ہوا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اس اجلاس کے باعث تحریک عدم اعتماد پر غورکرنے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا۔
وزیر داخلہ شیخ رشید نے گھن گھرج کے ساتھ اعلان کیا کہ کون اس کانفرنس کو روک سکتا ہے؟ وزیر اعظم عمران خان نے زور دار تقریر میں فرمایا کہ او آئی سی بنیادی ایشوز پر متحدہ فرنٹ بنائے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ اسلامی اقدار کو جس قدر خطرات اس وقت ہیں ماضی میں نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔
انھوں نے فرمایا کہ یہ تاثر بن گیا ہے کہ اسلام میں لبرل ، ماڈریٹ اور ریڈیکل مختلف قسمیں ہیں، انھوں نے سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ بچے اپنے موبائل پر سوشل میڈیا کو دیکھتے ہیں اس بناء پر بچوں پر جنسی حملے بڑھ گئے ہیں اور طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کانفرنس میں شریک تمام ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزراء نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس کانفرنس کے مہمانِ خصوصی چین کے وزیر خارجہ تھے۔ کانفرنس کے دوسرے دن جاری ہونے والے اس اجلاس کے فیصلوں میں کہا گیا کہ کانفرنس میں کشمیر رابطہ گروپ ایکشن پلان منظور ہوا۔ افغانستان کے لیے خصوصی فنڈز فعال کرنے اور اسلامو فوبیا کے خاتمہ کے لیے اقدامات پر اتفاق ہوا۔ کانفرنس کے سیکریٹری جنرل نے بتایا کہ اجلاس میں کشمیر کے مسئلہ پر تفصیلی بات چیت ہوئی اور ہم اس مسئلہ پر کشمیری عوام کے ساتھ ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کانفرنس کو عمران خان کا عظیم کارنامہ قرار دیا اور فرمایا کہ اب عمران خان لیڈر نہیں مدبر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
کانفرنس کے اگلے روز اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کار بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں سرمایہ کاری کا جائزہ لینے کے لیے سری نگر پہنچ گئے۔ امکان ہے کہ وہ اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کریں گے۔ چین کے وزیر خارجہ کا بھی نئی دہلی کے دورہ کا شیڈول جاری ہوا۔
70ء کی دہائی میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد دنیا کے منظر نامہ پر کئی تبدیلیاں ہوئیں۔ تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک نے اپنی تنظیم اوپک قائم کی۔ اس تنظیم نے اپنی شرائط پر تیل فروخت کرنے کے لیے یورپی ممالک کونسل کو تیل کی فراہمی بند کردی۔ لندن میں ایک صدی بعد موم بتی جلنے لگی۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس کے آئیڈیا کو حقیقی شکل دینے کے لیے کوششیں شروع کیں۔ سعودی عرب میں شاہ فیصل ، لیبیا میں کرنل قذافی ، شام کے حافظ الاسد اور الجزائر میں حواری بومدین جیسے انقلابی سوچ رکھنے والے حکمراں تھے۔ پی ایل او کی قیادت یاسر عرفات کررہے تھے اور انوار السادات ابھی امریکی کیمپ میں شامل نہیں ہوئے تھے۔
1974 میں لاہور ہونے والی دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس میں انتہائی اہم فیصلے ہوئے۔ تمام ممالک نے تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرکے اسلامی بینک کے قیام، اسلامی نیوز ایجنسی کے قیام اور اسرائیل کے خلاف مہم تیز کرنے جیسے اہم معاملات پر اتفاق ہوا۔
اس سربراہ اجلاس نے بنگلہ دیش کے صدر شیخ مجیب الرحمن کو پاکستان مدعوکرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا قدم اٹھایا۔ اس کانفرنس کے فیصلوں میں سے کچھ پر عملدرآمد ہوا۔ اوپیک نے تیل کی قیمتوں کو طے کرنے میں کردار ادا کرنا شروع کیا۔ اسلامی فنانس بینک پرکچھ کام ہوا۔ جدہ میں اسلامی نیوز ایجنسی کا مرکزی دفتر بھی قائم کیا گیا۔پاکستان کے معروف صحافی صفدر قریشی کی اس نیوز ایجنسی کے لیے خدمات حاصل کی گئیں۔
کرنل قذافی اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لاہورکے کرکٹ اسٹیڈیم میں ایک تاریخی جلسہ سے خطاب کیا ، حکومت نے اس اسٹیڈیم کا نام قذافی اسٹیڈیم رکھ دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کرنل قذافی اس کانفرنس کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کے ایٹم بم بنانے کے آئیڈیا پر متفق ہوئے تھے اور لیبیا نے ابتدائی سرمایہ کاری کی ۔ اگلے دو برسوں میں اسلامی ممالک میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ مصر نے اسرائیل سے سمجھوتہ کیا، اردن کے شاہ حسین نے بھی مصر کے صدر انوار السادات کی پیروی کی۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل اپنے بھتیجے کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ الجزائر میں حواری بومدین کے انتقال کے بعد انتشار پیدا ہوگیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کے منصوبے سرد خانہ میں چلے گئے۔ عالمی بینک بین الاقوامی مالیاتی ایشین بینک کی طرز پر اسلامی ممالک کا بینک مختلف وجوہات کی بناء پر قائم نہ ہوسکا۔ اسلامی نیوز ایجنسی کچھ عرصہ جدہ میں کام کرتی رہی پھر غیر فعال ہوگئی۔
صحافت کے استاد پروفیسر ذکریا ساجد اس نیوز ایجنسی کی ناکامی کی وجوہات کا تجزیہ یوں کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں مختلف نظامِ حکومتیں ہیں ، کئی ممالک میں مطلق العنان بادشاہتیں ہیں ، کچھ میں ایک جماعتی آمریت اور کہیں فوجی ڈکٹیٹر شپ اور صرف دو ممالک میں محدود جمہوریت تھی۔ اس بناء پر اطلاعات کی آزادی سے فراہمی میں بہت سی قدغنیں تھیں۔
جدہ میں قائم ہونے والی یہ نیوز ایجنسی حکومتی پالیسیوں کا شکار ہوئی اور یہ تجربہ ناکام ہوا۔ متحدہ عرب امارات، عمان، کویت وغیرہ نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔ سعودی عرب کے حکمران بھی ان ہی خطوط پر سوچتے ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ ہفتہ اسرائیل کے صدر کو خوش آمدید کہا۔ ترکی کے فرانس سے سب سے زیادہ قریبی تجارتی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ امارات کے بھارت سے تعلقات بہت بہتر ہوئے۔
یو اے ای نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ، ایسا ہی سعودی عرب نے کیا۔ یوں اب یہ دونوں ممالک بھارت کے بڑے تجارتی پارٹنرز میں شامل ہیں۔ ان ممالک کی ان پالیسیوں نے ان کی خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلیاں کیں۔ ان ممالک میں ہونے والی معاشی تبدیلیوں کے اثرات ان کی خارجہ پالیسی پر پڑے ۔ دبئی میں ہونے والی اسلامی وزراء خارجہ کی کانفرنس میں کشمیر کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی کانفرنس محض بحث و مباحثہ کا ادارہ بن گئی۔
موجودہ حکومت اسلامی ممالک کا نام لے کر عوام کے جذبات کو اپنے لیے استعمال کرنے کی خواہاں ہے۔ بصیرت کی بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی اس طرح کی کانفرنس میں ایسے اعلانات جاری کرنے کے بجائے جن پر عمل نہیں ہوسکتا عملی اقدامات پر توجہ دینی چاہیے۔ اسلامی ممالک تعلیم اور صحت کے شعبوں میں دنیا سے پیچھے ہیں ، اگر امیر اسلامی ممالک غریب مسلمان ممالک میں خواندگی کی شرح بڑھانے، صحت کی سہولتوں اور صنعتی ترقی کے لیے بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری پر آمادہ ہوں تو پھر کوئی مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔