مرحبا مرحبا… ماہِ صیام مرحبا
اللہ اور اس کے حبیبﷺ کے فرامین کی روشنی میں جس ماہ مقدس کے روزے امت پر فرض قرار دیے گئے ہیں وہ ماہ رمضان المبارک ہے
کراچی:
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر183میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے کہ ''اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ''۔
بخاری شریف کے مطابق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا''جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔''
اللہ اور اس کے حبیبﷺ کے فرامین کی روشنی میں جس ماہ مقدس کے روزے امت پر فرض قرار دیے گئے ہیں وہ ماہ رمضان المبارک ہے جو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سایہ فگن ہے۔ رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی نیکیوں کے اس موسم بہار کا آغاز ہوجائے گا۔ اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جائیں گے۔ آج کے اس کالم کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ مسلمان اس ماہِ مبارک کا بھرپور استقبال کریں اور اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔
ماہِ رمضان کا حقیقی استقبال یہ ہے کہ اپنی مصروفیات کو کم سے کم کر کے اپنے آپ کو عبادت کے لیے فارغ کرلیا جائے۔ ہم گزشتہ دوسال کے رمضان وبائی حالات میں گزار چکے، ایس او پیز کی پابندیوں نے شاید ہمیں مساجد کو اس طرح آباد کرنے کا موقع نہیں دیا جیسے رمضان میں مساجد آباد ہونی چاہیے تھیں لیکن امسال کورونا کی وباء اللہ کے فضل و کرم سے سمٹ چکی ہے۔
ایس او پیز کی پابندیاں بھی تقریباً ختم ہوچکی ہیں، حرمین شریفین سمیت پوری دنیا کی مساجد اللہ کے بندوں کی منتظر ہیں۔ اللہ رب العزت نے رمضان کے دنوں کو گنتی کے دن قرار دیا ہے اور ہر مسلمان گنتی کے ان دنوں کے لمحات کو قیمتی بنانے میں اس طرح استعمال کرے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائیں اور ہمیں اپنے مہمان خانے جنت الفردوس میں یقینی داخل کرنے کا فیصلہ فرما لیں اور ہمارا یہ ماہ مبارک اچھے سے اچھا بن جائے اس کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
اس مہینہ میں روزہ کے مقصدِ اول یعنی ''تقویٰ'' اختیار کرنے کا پختہ عزم کیا جائے اور ابھی سے اپنے تمام گناہوں سے سچے دل سے توبہ واستغفار کی جائے یہ عہد کیا جائے کہ یہ پورا مہینہ بالخصوص اور اس کے بعد کی جتنی بھی زندگی باقی ہے بالعموم گناہوں سے بچتے ہوئے گزاریں گے۔
حلال رزق کے حصول کا اہتمام اس طریقے سے کیا جائے کہ ہماری کمائی میں حرام کا ایک پیسہ بھی شامل نہ ہونے پائے، یاد رکھیں کہ اگر ایسا نہ ہوا، یعنی: دن بھر روزہ رکھ کر بھوک وپیاس کی مشقت کو برداشت کیا اور رات میں حرام مال سے افطار کیا تو اس نے احادیث مبارکہ کی روشنی میں اپنے روزے کے اجر کو بالکل ضایع کردیا۔
رحمت عالمﷺارشاد فرماتے ہیں کہ ایسے بندے کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں۔ لہٰذا خصوصیت کے ساتھ اس ایک مہینہ میں اور بالعموم سارا سال ہی حرام روزی سے ضرور بچنے کی ترتیب بنائی جائے۔
صحیح ابن حزیمہ کے باب فضائل رمضان میں حضور نبی کریم ﷺ کا خطبہ نقل کیا گیا ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ تم پر ایک مہینہ آرہا ہے ،جو عظیم الشان اور بہت مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے روزہ کو فرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کو باعث ثواب بنایا ہے جو شخص اس مہینے میں کوئی نیکی کرکے اللہ کا قرب حاصل کرے گا وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا اور کوئی شخص اس مہینے میں فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔
یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم واری کا مہینہ ہے۔ اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا اور اسے روزے دار کے ثواب کے برابر ثواب ہوگا۔
رمضان شروع ہوتے ہی شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، مساجد آباد ہوجاتی ہیں، سحر و افطار، روزہ، تراویح، تلاوت قرآن و ذکر اللہ، صدقہ و خیرات اور دیگر عبادات میں لوگ مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ صرف اس لیے کہ سرکش شیطان قید ہوجاتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود ہمیں معاشرے میں بدکرداری، جھوٹ فساد نظر آتا ہے یہ شیطنیت کے آثار ہیں، شیطان تو جکڑے ہوئے ہوتے ہیں لیکن کچھ انسان اور جن سارا سال اللہ کی بغاوت کرکے شیطان کو بھی مات دے دیتے ہیں،سال بھر کے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ان کے دل سیاہ ہوچکے ہوتے ہیں اور بعض گناہ دل کی سیاہی کی وجہ سے طبیعت کا حصہ بن جاتے ہیں پھرایسے لوگ رمضان جیسے مقدس مہینے میں بھی شیطنیت سے باز نہیں آتے۔ گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی ماہ رمضان میں بڑھ جاتی ہے، یہ بھی شیطنیت ہی کی ایک شکل ہے۔
اللہ والے فرماتے ہیں رمضان میں شیطنیت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر اعمال بد رمضان میں بھی جاری ہے، فرائض کی ادائیگی میں غفلت ہے تو سمجھ جائیں سارے سال کی بداعمالیوں نے آپ کو اس ماہ مقدس سے فائدہ اٹھانے نہیں دیا۔ اگر یہ احساس ہوتو یہ احساس بھی اسی کا کرم ہے۔ دل میں احساس پیدا ہوتے ہی اللہ کی طرف رجوع کرلیں اور توبہ کریں۔
ہم عبادات کے پہلوؤں کو الگ رکھتے ہیں معاملات کے پہلوؤں کو الگ رکھتے ہیں، کیا یہ اسلام ہے؟ ہرگز نہیں، یہ صرف نفس کی غلامی ہے۔ رمضان المبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک اہم عمل اعتکاف بھی ہے، رسول اللہﷺ ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔
اعتکاف کا معنی لغت میں ٹھہرنا، جمے رہنا اور کسی مقام پر اپنے آپ کو روکے رکھنا ہے، شرعی اعتکاف بھی اسی معنی میں ہے کہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے مخصوص طریقے پر مسجد میں ٹھہرنا۔ اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالی سے لو لگاکے اس کے درپے یعنی مسجد کے کسی کونے میں پڑجائے، سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر میں مشغول رہے۔
اس کو دھیان میں رکھے، اس کی تسبیح و تحلیل و تقدیس میں مشغول رہے، اس کے حضور توبہ و استغفار کرے، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روئے، اس کی رضا اور قرب چاہے اور اسی حال میں اس کے دن گزریں اور اس کی راتیں بسر ہوں، ظاہر ہے اس کام کے لیے رمضان المبارک اور خاص کر اس کے آخری عشرہ سے بہتر اور کون سا وقت ہوسکتا ہے، اسی لیے اعتکاف کے لیے اس کا انتخاب کیا گیا۔ اللہ کریم اپنے اس ماہ مقدس کی زیادہ سے زیادہ فیوض و برکات سمیٹنے کی ہمت عطا فرمائے اور ہر مسلمان اللہ کو راضی کرکے اپنی بخشش کا پروانہ لینے والا بن جائے۔ (آمین)