باکمال سید فصیح اقبال

تبادلوں پر تبادلے وفاقی حکومت اور اس کے زیرانتظام اداروں کے ملازمین کا معمول اور مقدر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تبادلے۔۔۔


Shakeel Farooqi February 25, 2014
[email protected]

لاہور: تبادلوں پر تبادلے وفاقی حکومت اور اس کے زیرانتظام اداروں کے ملازمین کا معمول اور مقدر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تبادلے سزا کے طور پر بھی کیے جاتے ہیں جب کہ کبھی کبھار یہ ایسے ناوقت ہوتے ہیں کہ سزا سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں مگر حکم حاکم مرگ مفاجات کے مصداق ان کا نشانہ بننے والے سرکاری ملازم کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑتا ہے۔ مارچ 1995 کے اوائل میں ہم بحیثیت اسٹیشن ڈائریکٹر، ریڈیو پاکستان حیدرآباد چین کی بنسی بجا رہے تھے کہ اچانک ہماری فیکس مشین پھڑپھڑائی اور چند ہی لمحوں میں ریڈیو پاکستان کوئٹہ تبادلے کا حکم نامہ نمودار ہوگیا جو کسی تازیانے سے کم نہ تھا کیونکہ گھریلو حالات کا تقاضہ تھا کہ ہم کراچی میں مقیم اپنے اہل خانہ سے زیادہ دور نہ رہیں۔ اس حکم نامے کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ اس میں بلاتاخیر کوئٹہ ریڈیو اسٹیشن کا چارج سنبھالنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی تھی۔

چار و ناچار رخت سفر باندھا اور براستہ کراچی کوئٹہ روانہ ہوگئے۔ جس وقت ہماری کوچ کراچی سے نکل کر بلوچستان کی حدود میں داخل ہو رہی تھی تب تک آفتاب غروب ہوچلا تھا اور سماں کچھ ایسا تھا کہ بقول ساحر:

پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے
چمپئی اجالا ہے سرمئی اندھیرا ہے

ہماری کوچ جوں جوں آگے بڑھ رہی تھی شب کی تاریکی بھی اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ ٹھنڈ کی شدت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ رات بھر کے طولانی سفر کے بعد جب صبح سویرے ہم نے وادی کوئٹہ میں قدم رنجہ فرمایا تو ہماری قلفی جم رہی تھی۔ ایک طرف ناقابل برداشت سردی کی شدت اور دوسری جانب طویل اور دشوار گزار سفر کی تھکاوٹ کے مارے ہمارا بہت برا حال تھا۔ ان حالات میں ہم محکمہ ڈاک کے افسر اعلیٰ اور جانے مانے ادیب و افسانہ نگار آغا گل کے تاحیات ممنون حسین رہیں گے جنھوں نے ہماری عارضی رہائش کے طور پر ایک خوبصورت ریسٹ ہاؤس میں ہمارے قیام و طعام کا بندوبست فرمایا تھا۔

کوئٹہ کے لیے ہمارا تبادلہ ہمارے لیے اس لحاظ سے خیر مستود Blessing In Desguise ثابت ہوا کہ جن شخصیات سے ہمارا محض غائبانہ تعارف تھا ان کے ساتھ نہ صرف بالمشافہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا بلکہ بعض سے تو ذاتی مراسم بھی قائم ہوگئے۔ نشریات، ادب، صحافت، سیاست، انتظامیہ اور عدلیہ سے تعلق رکھنے والی عظیم و نام ورشخصیات پر مشتمل یہ ایک انتہائی طویل فہرست ہے۔ ان میں سے کئی لوگ بقید حیات ہیں جب کہ بعض زندگی کے ناپائیدار بندھنوں کو توڑ کر ملک عدم سدھار چکے ہیں۔ سید فصیح اقبال کی رحلت بھی اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔

اس نابغہ روزگار سے ہماری ابتدائی ملاقات امداد نظامی کے توسط سے ہوئی جنھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اللہ بخشے امداد نظامی کوئٹہ کے صحافتی اور ادبی حلقوں کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ دوسری شخصیت پی آئی ڈی کوئٹہ کے سربراہ بھائی شجاع زیدی کی تھی جن کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، ہائے ہائے!

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

کوئٹہ میں اس زمانے میں راوی بس چین ہی چین لکھتا تھا۔ وہ دور اب خواب جیسا لگتا ہے۔ کوئٹہ پریس کلب، پی آئی ڈی آفس اور ریڈیو پاکستان گھر آنگن ہوا کرتے تھے۔

سید فصیح اقبال کی رحلت سے بہت سے پرانے زخم یک بہ یک تازہ ہوگئے ہیں بہ قول شاعر:
کتنے درد جگا دیتا ہے اک جھونکا پروائی کا
فصیح اقبال لغوی معنوں میں بلوچ نہیں تھے۔ بلوچستان کا انتخاب انھوں نے اپنی دلی وابستگی کی بنیاد پر کیا اور نہ صرف عمر عزیز کا سب سے قابل ذکر حصہ اس صوبے کی خدمت میں گزارا بلکہ اسی کو اپنی آخری آرام گاہ بھی بنایا یعنی:
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

بلوچستان کے ذرے ذرے سے انھیں ایک گہرا دلی لگاؤ تھا۔ ایسا والہانہ لگاؤ کہ شاید کسی پیدائشی بلوچ کو بھی نہ ہوگا۔ اس لحاظ سے اگر انھیں فخر بلوچستان کہا جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ بلوچستان ان کی فکر اور تمام کاوشوں اور خواہشوں کا محور تھا۔ ان کا جینا اور مرنا سب کچھ بلوچستان کے لیے تھا۔ وہی بلوچستان جسے گردش حالات نے چیستان بناکر رکھ دیا ہے۔ اس شورش زدہ صوبے کی بے لوث خدمت ہی ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن تھا۔وہ دو مرتبہ سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے اور دونوں ہی مدتوں کے دوران انھوں نے بڑی شدومد کے ساتھ بلوچستان اور اس کے عوام کی بے حد خدمت کی۔ بلوچستان سے مرکز کی سردمہری اور غفلت سے وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے ہر بار مرکز کو پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ جھنجھوڑا۔ بلوچستان کی مقامی قیادت کی خامیوں اور کمزوریوں کی جانب بھی انھوں نے کمال جرأت مندی کے ساتھ توجہ مبذول کرائی۔ حالات خواہ کتنے ہی خراب اور نامساعد کیوں نہ ہوں مایوسی ان کے نزدیک کفر سے بدتر تھی۔ وہ بلوچستان کی روایات کے پاسبان اور لسانی رنگا رنگی اور ہم آہنگی کے بے باک اور سچے ترجمان تھے۔ ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ وطن عزیز کا یہ پس ماندہ صوبہ ترقی کی شاہراہ پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھے اور ملکی یکجہتی کو پروان چڑھانے میں پیش پیش رہے۔ معاشرے کے پچھڑے ہوئے طبقات کے لیے ان کے دل میں گہری ہمدردی تھی جس کے لیے وہ ہمیشہ دامے، درمے، سخنے پیش پیش رہے۔سیاست کی طرح صحافت کو بھی انھوں نے تاحیات عبادت کا ہی درجہ دیا۔ وہ ایک جنٹلمین سیاستدان اور صحافی تھے۔ صحافیوں کے مفاد کو بھی انھوں نے ہر قسم کے مفاد سے بالاتر رکھا حتیٰ کہ مشہور و معروف اخبارات کے مالک ہونے کے باوجود صحافیوں کے Cause کو انھوں نے ہمیشہ ترجیح دی جس کے باعث بعض اوقات اخبارات کے مالکان ان کے ساتھی بھی ان سے خفا ہوگئے۔ وہ اردو اخبار ''زمانہ'' اور انگریزی اخبار ''بلوچستان ٹائمز'' کے تاحیات ایڈیٹر اور پبلشر بھی رہے اور اس حوالے سے میدان صحافت میں ایک بلند مقام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ وہ ساؤتھ ایشین ایڈیٹرز فورم (1999) کے بانی رکن اور صدر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔سید فصیح اقبال نے شادی نہیں کی اور اپنی تمام عمر عزیز دوسروں کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ صاحب اولاد نہ ہونے کے باوجود انھوں نے دوسروں کے بچوں کو بھی اپنے ہی بچے سمجھا اور کوئٹہ کے ایس او ایس چلڈرنز ولیج کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
کام آتے ہیں جو دوسروں کے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔