دہاڑے ست تے اٹھ میلے

پرانے شہر صدیوں کی بودوباش سے اپنی ایک تہذیب اور مخصوص ثقافت تخلیق کر لیتے ہیں۔ یہ کسی کوشش سے پیدا نہیں ہوتی۔۔۔


Abdul Qadir Hassan February 25, 2014
[email protected]

پرانے شہر صدیوں کی بودوباش سے اپنی ایک تہذیب اور مخصوص ثقافت تخلیق کر لیتے ہیں۔ یہ کسی کوشش سے پیدا نہیں ہوتی بس خود بخود ہی نمودار ہوتی ہے اور اس شہر کا تعارف بن جاتی ہے۔ لاہور جیسے پرانے شہر کی بھی ایک مخصوص ثقافت اور جداگانہ رہن سہن ہے اس شہر پر نہ جانے کتنے حکمران رہے۔ مختلف تہذیبوں اور مختلف بولیاں بولنے والے یہ حکمران چلے تو گئے مگر اپنی کوئی نہ کوئی نشانی چھوڑ گئے۔ رہن سہن بدلتا رہا زبان میں نئے حروف اور الفاظ داخل ہوتے رہے لباس کی تراش خراش بدلتی رہی۔

نئے نئے فیشن متعارف ہوتے گئے یہانتک کہ نئے نئے کھانے بھی رائج ہوتے رہے۔ عمارتوں کے نقشے بدلتے رہے۔ گلی کوچوں کی شکل و صورت بدلتی رہی۔ موسیقی، مصوری اور ادب کے نئے رنگ نکھرتے رہے۔ غرض کیا کیا تبدیل نہیں ہوا اور کیا کیا نیا پن سامنے نہیں آیا۔ پرانے شہر تاریخ کے ساتھ ساتھ نئے انداز اختیار کرتے رہے اور اس طرح قدیم شہر کسی نہ کسی نئے تعارف کے ساتھ پہچانے جاتے رہے۔ لاہور شہر بھی ایک ایسا ہی پرانا شہر ہے اور اس میں وہ سب کچھ ہے جو لمبی عمر پانے والے شہروں میں ہوا کرتا ہے بلکہ اس شہر نے ایسی غیر معمولی شہرت اور تشخص حاصل کیا ہے کہ یہ کہا جانے لگا ہے کہ ''جس نے لاہور نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا''۔

پرانے ہندوستان یعنی پاکستان سے پہلے کے ہندوستان میں بڑے شہر لاتعداد تھے لیکن لاہور لاہور تھا اس کا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا۔ اسے کالجوں کا شہر کہا جاتا تھا اور باغوں کا بھی۔ چاروں طرف سے اس شہر کو اپنی آغوش میں لینے والی فصیل کے باہر باغات کا ایک طویل سلسلہ تھا اور یہ باغات گرمیاں ہوں یا سردیاں ٹھنڈی ہوا کی خواہش ہو یا چمکتی دھوپ کی، شہریوں کے لیے ایک پسندیدہ تفریح گاہ تھے اور شاید برصغیر کے لوگوں کو یاد ہو کہ برطانوی دور میں دو شہر کرسمس کی تقریبات کے لیے پسندیدہ تھے ایک کلکتہ دوسرا لاہور۔ اس شہر نے اپنی ایک خاص پسند اختیار کر لی تھی اور اس شہر کے ایک نئے مکین منیر نیازی کے بقول یہ شہر اپنے ہر نئے مکین کو قبول نہیں کرتا۔ کئی ایک کو واپس بھیج دیتا ہے یعنی اس شاعر کے خیال میں اس شہر کے باسی بھی اس کی خاص پسند اور منظوری سے ہی یہاں قیام کر سکتے تھے اور اسے اپنا شہر بنا سکتے تھے۔

لاہور کی تہذیب و تمدن میں ایک تو راوی دریا کا حصہ تھا یہ دریا اب لاہور کی ایک پرانی یاد بننے والا ہے۔ پطرس بخاری نے اقوام متحدہ سے ایک خط میں اپنے دوست صوفی غلام مصطفے قیوم سے پوچھا تھا کہ کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے۔ اگر پطرس زندہ ہوتے تو شاید مغلوں کا نہیں خود راوی کا ماتم کرتے اوراس کی یاد میں آہیں بھرتے اور آنسو بہاتے۔ لاہور کی دلآویزی اور شہرت کے کئی پہلو ہیں ان میں اس شہر کے میلے ٹھیلے بہت مشہور ہیں اور زندہ دلان لاہور کی پہچان ہیں میلوں کے شوقین لاہوریوں میں مشہور ہے کہ ہفتہ میں دن تو سات ہوتے ہیں مگر میلے آٹھ ہوتے ہیں اب تو کوئی گھر کس وقت جائے۔ اہل لاہور اپنی زبان پنجابی میں اسے یوں کہتے ہیں کہ

دہاڑے ست تے اٹھ میلے
گھر جاواں میں کہڑے ویلے

لاہور کے روائتی میلے بہت ہیں۔ قریب قریب ہر مزار پر اس میں مدفون شخصیت کی یاد میں اس کے سالانہ عرس کے موقع پر ایک میلہ بھی لگتا ہے۔ قوالی نعت خوانی اور بازار۔ ان لاتعداد چھوٹے بڑے میلوں میں لاہور کے ایک باسی اور حکمران میاں شہباز شریف نے نئے میلے متعارف کرائے ہیں۔ ان میں ایک پرچم والا میلہ تو ہو چکا ہے دوسرا اجتماعی قومی ترانے والا میلہ اب ہو رہا ہے لیکن افسوس کہ کروڑوں کی لاگت کے بعد یہ منسوخ کر دیا گیا۔ کل پرسوں کسی اور موضوع پر کوئی میلہ سجایا جائے گا۔ لاہوریوں کی ہمت ہے اور میلوں کا بے پایاں شوق کہ وہ موجودہ مخدوش اور خطرناک حالات میں بھی میلوں سے باز نہیں آتے۔ لاہور کے روائتی میلے کسی حکومت کی سرپرستی کے بغیر خود بخود ہی برپا ہوتے ہیں اور اس شہر کی ثقافت کے کسی پہلو کو نئی زندگی دے جاتے ہیں۔ مثلاً میلہ چراغاں میں مادھو لال حسین کی شاعری کو دہرایا جاتا ہے۔ درد دل سے بھری ہوئی یہ شاعری اہل لاہور کے دلوں کو گداز دیتی ہے۔ اب لاہور کے یہ سرکاری میلے ٹھیلے بڑی دھوم دھام کے ساتھ برپا ہوں گے۔

حکومت کی پوری مشینری ان میلوں کی رونق بڑھانے میں جت جائے گی۔ سرکاری ملازمین اور تعلیمی اداروں کے نگران اپنے شاگردوں سمیت ان میلوں میں نیا سماں باندھنے کی کوشش کریں گے مگر ایک ہی بار وہ میلے جو ہر سال کسی سرکاری سرپرستی کے بغیر لگا کرتے ہیں اپنی آب و تاب میں کسی کے محتاج نہیں ہوتے مثلاً حضرت داتا گنج بخشؒ کی شاعری کی بیاض تو لاہور میں چوری ہو گئی تھی لیکن ان کی کرامات اس شہر کی ایک نعمت ہیں البتہ جیسا کہ کہا ہے مادھو لال حسین کی شاعری موجود اور زندہ ہے۔ لاہور کا شہر تو بذات خود ایک میلہ ہے۔ شہر کے اندر چلے جائیں اور سرشار ہوجائیں۔ اس شہر کے نوادرات کو بحال کیا جا رہا ہے اور ان سرکاری میلوں پر جو کروڑوں کا خرچہ ہو رہا ہے اگر یہ لاہور کے آثار قدیمہ کی بحالی پر خرچ کر دیا جائے تو یاد گار رہے اور لاہور کے باسی یاد کیا کریں کہ میاں شہباز کے دور میں لاہور کو نئی رونق بخشی گئی اس کو پھر سے زندہ کیا گیا۔ لاہور میں اس حکومت کے دور میں سڑکوں کے اوپر ہوائی سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں جن پر نئی قسم کی بسیں رواں ہیں۔

میں نے ایک تصویر میں دیکھا کہ شاہی مسجد کے قریب بلکہ متصل ہی بہت اونچے کسی عمارتی ڈھانچے یا سڑک کے لیے لوہے کے جال کھڑے ہو رہے ہیں۔ اگر یہاں سڑک یا عمارت بھی ایسی اونچی بن گئی اور شاہی مسجد اس کے زیر سایہ آگئی تو یہ تاریخ کے ساتھ بڑی زیادتی ہو گی۔ اس مسجد کے اس کے ساتھ شاہی قلعے اور دوسری کسی تاریخی عمارت کے ماحول کو تو کھلا ہونا چاہیے جیسے تاج محل کا حسن اس میں ہے کہ اس کے قریب آس پاس جگہ دور دور تک خالی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے یہ عجوبہ زمین میں سے نکلا ہے اگر یہ عمارتوں میں گھرا ہوتا تو یہ تاج محل نہ ہوتا۔ بس ایک پرانی عمارت ہوتی اور کوئی بل کلنٹن حیرت زدہ ہو کر یہ نہ کہتا کہ دنیا میں دو ہی طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جنہوں نے تاج محل دیکھا ہے اور ایک وہ جنہوں نے نہیں دیکھا۔ ہمارے پاس تاریخ نے جو عمارتیں امانت چھوڑی ہیں ان سے پیار کرنا ہم پر لازم ہے۔ میاں صاحبان خود لاہوری ہیں اور اس شہر کے پیدائشی ہیں۔ ان پر تو اس شہر کی قدر و قیمت ظاہر ہے ان سے توقعات بے جا نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں