دو اہم بنیادی حقوق
مغرب نے اپنی جمہوریت کو دنیا کے عوام میں قابل قبول اور مقبول بنانے کیلئےجن مسائل کواپنی پروپیگنڈہ مہموں میں استعمال۔۔۔
مغرب نے اپنی جمہوریت کو دنیا کے عوام میں قابل قبول اور مقبول بنانے کے لیے جن مسائل کو اپنی پروپیگنڈہ مہموں میں استعمال کیا، ان میں ایک مسئلہ ''انسان کے بنیادی حقوق'' کا ہے۔ اس مسئلے کو اس قدر اہمیت دی گئی کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور ''جمہوری ملکوں'' کے آئین میں بھی شامل کرادیا گیا۔ اس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں کہ انسان کے بنیادی حقوق کا تعین اور ان کا تحفظ انسانی معاشروں میں انصاف کی سربلندی کے لیے ضروری ہے لیکن یہ حقوق اس وقت تک بے معنی ہیں جب تک ان کا اطلاق بلاامتیاز طبقات نہیں ہوتا اور عوام آدمی ان سے مستفید نہیں ہوتا۔ انسان کے بنیادی حقوق تو بے شمار ہیں لیکن ان میں انسان کی جان و مال کا تحفظ انسان کے بنیادی حقوق میں سرفہرست اور اہم ترین ہیں، ان کے علاوہ انسان کے لیے علاج معالجے اور حصول تعلیم کا حق بھی بنیادی حقوق کا اہم ترین حصہ ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حقوق عوام کو مل رہے ہیں؟ کیا حکومتیں اور اقوام متحدہ ان حقوق کی حفاظت کر رہے ہیں؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر ذرا تفصیل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے جان کے حق کو لے لیجیے کہ اس کی اہمیت کا اندازہ اس کہاوت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ''جان ہے تو جہان ہے''۔ ظاہر ہے اگر انسان زندہ ہے تو ہی اس کے دوسرے حقوق کی اہمیت ہے ورنہ ہر حق بے معنی اور بے مقصد ہوکر رہ جاتا ہے۔ انسان کی عمر طبعی کا تعین پسماندہ اور ترقی یافتہ ملکوں میں الگ الگ ہے۔ عمر طبعی کو ہم عموماً اوسط عمر کے نام سے جانتے ہیں۔ پسماندہ ملکوں میں اگر انسان کی اوسط عمر 50 سال ہے تو ترقی یافتہ ملکوں میں اوسط عمر 80 سال ہے۔ یعنی پسماندہ ملکوں میں ایک شخص اگر 50 سال زندہ رہتا ہے تو ترقی یافتہ ملکوں میں ایک شخص80 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ بہ ظاہر تو ان اوسط عمروں کا تعلق انسان کی جان یعنی زندہ رہنے کے حق سے نہیں معلوم ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اوسط عمر کے اس فرق کا انسان کے سب سے اہم حق یعنی زندہ رہنے کے حق سے بڑا گہرا اور براہ راست تعلق ہے۔ اس تعلق کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ دونوں مختلف معاشروں میں عمر کے اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ یہ کوئی ریاضی کا مشکل سوال نہیں بلکہ شعور کا بہت آسان سوال ہے۔
پسماندہ ملکوں میں عام آدمی کو نہ معتدل غذا ملتی ہے نہ ذہنی سکون ملتا ہے نہ آرام اور تفریح کا وقت اور مواقعے ۔ جو زیادہ دیر تک زندہ رہنے یا عمر طبعی (حقیقی) تک پہنچنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک غریب آدمی کو جو غذا میسر ہوتی ہے وہ عموماً غذائیت سے محروم ہوتی ہے ایک معتدل اور صحت بخش غذا میں دودھ، انڈے، پھل، گوشت، سبزی، مچھلی وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ کیا دنیا کے 98 نہ سہی 80 فیصد عوام کو یہ غذا دستیاب ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ آبادی کی بھاری اکثریت کو جب تین ٹائم روکھی سوکھی روٹی ہی نہیں ملتی تو پھر معتدل غذا کہاں سے میسر آتی ہے؟ پسماندہ ملکوں کے بارے میں دوست اور دشمن سب اس حقیقت سے اتفاق کرتے ہیں کہ ان ملکوں کی آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ غربت کی لکیر کا مطلب یہ ہے کہ ایسی غذا جو انسان کو زندہ رکھ سکے۔ دنیا کی چالیس فیصد آبادی کو ایسی غذا بھی دستیاب نہیں جو اسے صحت کے ساتھ زندہ رکھ سکے۔
اقوام متحدہ کے مختلف اداروں اور ترقی یافتہ ملکوں کے سروے کے مطابق ہر سال ناقص غذا کی وجہ سے لاکھوں انسان وقت سے پہلے مر جاتے ہیں، ہر سال لاکھوں خواتین زچگی کی مناسب سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتی ہیں، ہر سال لاکھوں بچے کم یا ناقص غذا کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں، ہر سال لاکھوں انسان علاج معالجے کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یعنی وہ اپنی عمر طبعی تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ یہ تو وہ تلخ حقائق ہیں جو ہماری زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی دانشور کوئی مفکر کوئی فلسفی کوئی سیاست کار اس حقیقت پر نظر ڈالنے کی زحمت کرتا ہے کہ اس ظلم کی وجہ کیا ہے؟ یہ کوئی پیچیدہ فلسفہ نہیں بلکہ آسان سی بات ہے کہ اچھی صحت کے لیے عمر طبعی تک پہنچنے کے لیے اچھی غذا اچھے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دونوں ضرورتیں پوری کرنے کے لیے معقول دولت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ دولت یا پرچیزنگ پاور عوام کو اس لیے حاصل نہیں کہ دولت کا لگ بھگ 80 فیصد حصہ صرف دو فیصد ایلیٹ کے قبضے میں ہے۔ اگر کوئی دانشور کوئی فلسفی کوئی مفکر اگر ان حقائق سے آگہی رکھتا بھی ہے تو وہ ان ناانصافیوں کو ختم نہیں کرسکتا کیونکہ ان ناانصافیوں کو ختم کرنے کے لیے پورے نظام کی تبدیلی ضروری ہے۔ یہ جان یعنی زندہ رہنے کے حق کی ایسی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر اور لوگوں کو چھوڑیے خود انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظر نہیں جاتی۔ انسانی جانوں کے عدم تحفظ کی دوسری بڑی مثال جنگیں ہیں۔ دنیا میں جتنی جنگیں لڑی گئی ہیں ان میں ایک بھی جنگ ایسی نہیں نظر آتی جو انسانی زندگی کو بہتر اور خوشحال بنانے کے لیے لڑی گئی ہو۔ جنگوں کی تاریخ میں سب سے بڑا جانی نقصان پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں ہوا اور ان جنگوں میں عوام کے مفادات کا کوئی پہلو تھا نہ یہ جنگیں بھوک، بے روزگاری کے خلاف لڑی گئیں بلکہ یہ جنگیں اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے لڑی گئیں اور ان جنگوں کا المناک پہلو یہ رہا ہے کہ ان جنگوں میں مارے جانے والے سپاہیوں کا تعلق غریب طبقات ہی سے رہا ہے۔ مذہب کے نام پر لڑی جانے والی جنگیں بھی عموماً اشرافیہ کے مفادات کے تابع ہی رہیں لیکن ان جنگوں میں مارے جانے والے لاکھوں انسانوں کا تعلق بھی غریب طبقات ہی سے رہا۔ نسل، رنگ اور قوم و ملک کے نام پر بھی جو خون خرابا ہوتا رہا اس کا ایندھن بھی غریب طبقات ہی بنتے رہے۔ صرف 1947 کے فسادات میں 22 لاکھ انسان مارے گئے۔ فلسطین اور کشمیر کی جنگوں میں مرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں 10 لاکھ سے زیادہ انسان مارے گئے۔ کیا یہ انسانوں کے بنیادی حق یعنی زندہ رہنے کے حق کی کھلی خلاف ورزی نہیں ہے؟ دوسری عالمی جنگ ہٹلر کے فاشزم کے خلاف لڑی گئی اور اس جنگ کے دوران نازیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات بھی چلائے گئے اور اب بھی چلائے جا رہے ہیں۔ کیا ہیروشیما اور ناگاساکی میں مارے جانے والوں کے بنیادی حق یعنی زندہ رہنے کے حق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور ہیروشیما ناگاساکی پر ایٹم بم استعمال کرنے والے جنگی مجرم نہیں ہیں؟ کیا عراق اور افغانستان میں 10 لاکھ انسانوں کی جانوں کا زیاں انسان کے زندہ رہنے کے حق کی خلاف ورزی نہیں؟ ان جنگوں کے ذمے دار جنگی مجرم نہیں؟
اب اپنے مال کے تحفظ کا حق اس حق کے تحفظ کی ضمانت اقوام متحدہ بھی دیتا ہے اور جمہوری ملکوں کے آئین بھی دیتے ہیں۔ اس حق کے تحفظ سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حق یعنی مال دولت رکھنے کا حق کتنے فیصد لوگوں کو حاصل ہے۔ مال سے مراد بڑی جائیدادیں بینکوں میں رکھی دولت اور بڑے بڑے اثاثے ہیں۔ کیا اس حوالے سے وہ 98 فیصد آبادی مال دار ہے جس کے مال کے تحفظ کی ذمے داری اقوام متحدہ اور جمہوری ملکوں کے آئین لیتے ہیں؟ بل گیٹس دنیا کا سب سے بڑا مال دار شخص ہے اس کی دولت اربوں ڈالروں میں ہے بل گیٹس سے لے کر کراچی کے ڈیفنس اور کلفٹن میں رہنے والی ایلیٹ بھی مالدار ہے ان کے پاس اربوں کی دولت ہے اور اربوں کی دولت جائز طریقوں سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام اس قسم کی دولت سے محروم ہیں۔ ان کے پہلے تو بینکوں میں ایسے اکاؤنٹس ہی نہیں جن میں مال نام کی کوئی چیز رہتی ہو نہ ان کے پاس ایسی کوئی جائیداد ہوتی ہے جو مال کی تعریف میں آتی ہو لے دے کر ان کے دو ہاتھ ہی ان کا مال ان کی جائیداد ہیں۔
دراصل بنیادی حقوق کے محترم ہونے کا پروپیگنڈہ سرمایہ دارانہ نظام کے مکروہ چہرے کو چھپانے کی کوشش ہے اور یہ فراڈ جمہوریت اور انسان کے بنیادی حقوق کے احترام کے نام پر عوام سے کیا جا رہا ہے جسے سمجھنے اور جس کے حوالے سے عوام میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔