اسکالرز رہنمائی کریں
ایک طرف ملک میں ترقی کے دعوے ہیں تو دوسری طرف معاشرتی لحاظ سے ہم تنزلی کے شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک طرف ملک میں ترقی کے دعوے ہیں تو دوسری طرف معاشرتی لحاظ سے ہم تنزلی کے شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ مار پیٹ، معمولی گھریلو تنازعات، جبراً شادی، جلد بازی میں کیا گیا غلط فیصلہ، کورٹ میرج، دونوں گھرانوں کی طرف سے انھیں قبول نہ کرنا، انھیں گھر سے فرار ہونے کے طعنوں کا سامنا، شوہر کی جانب سے بے رخی، جھوٹ پر مبنی وعدوں کی قلعی کھل جانا اور معاشرے کی دیگر فرسودہ روایات کے ساتھ ساتھ خواتین کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کرنا وہ معاشرتی مسائل ہیں جن کے باعث خواتین میں خلع حاصل کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ خواتین کی جانب سے خلع حاصل کرنے کے لیے ہزاروں مقدمات عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ سسرال میں معمولی تنازعات پر والدین اپنی بچیوں کی صلح کرانے کے بجائے خلع حاصل کرنے پر راغب کر رہے ہیں، عدالتوں میں روزانہ سیکڑوں خواتین دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ اگر خلع ہوجائے تو اخراجات اور جہیز کی واپسی کے لیے بھی خواتین کو عدالتوں کے مزید چکر لگانے پڑتے ہیں۔ خواتین اپنے شوہر اور سسرالیوں پر الزام لگاتے ہیں کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، شوہر نکھٹو ہے، مارپیٹ کرتا ہے، نشے کا عادی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ نتیجتاً فیملی عدالتوں سے 500 سے زائد خلع کی ڈگریاں جاری کی جا رہی ہیں جو معاشرے کا افسوس ناک پہلو ہے۔
مسماۃ روزینہ کی شادی جمال سے ہوئی تھی ، شادی کے ایک سال بعد جمال کے رویے میں تبدیلی آگئی تھی اور مارپیٹ کرنا اس نے اپنا وطیرہ بنالیا تھا۔ بالآخر وہ اسے چھوڑ کر فرار ہوگیا اور دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کیا جس پر اس نے عدالت سے رجوع کیا اور خلع حاصل کرلی۔ مسماۃ صفیہ کی شادی دس برس قبل لطیف سے ہوئی تھی اور وہ اسے لودھراں لے گیا تھا لیکن اس کے اہل خانہ نے اسے بہو قبول نہیں کیا۔ وہ عزت اور محبت نہیں دی جو ایک بیٹی کو دی جانی چاہیے تھی مختلف اوقات میں اسے طعنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ظلم سے تنگ آکر واپس کراچی آنا پڑا اور عدالت سے خلع حاصل کی۔ روشن بی بی کی شادی 22 برس قبل ایک پولیس افسر سے ہوئی تھی اس دوران ان کے یہاں 5 بچے بھی ہوئے اس عرصے میں شوہر کے رویے سے تنگ آکر پہلے دو مرتبہ خلع لینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا لیکن مصالحت ہونے پر واپس لیا۔ بعدازاں 2004 میں اس نے اس کی مرضی کے خلاف بغیر اجازت سونیا نامی خاتون سے دوسری شادی کرلی تھی اور معلوم ہونے پر اس نے جھوٹ بولا اور کہا کہ اس نے دوسری اہلیہ کو طلاق دے دی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا تھا بعدازاں اس نے بچوں کے اخراجات بھی بند کردیے تھے، ایسے حالات میں خودکشی کو ترجیح دینے سے بہتر خلع کو دی اور خلع حاصل کرلی۔
مسماۃ فرزانہ کی شادی اس کے والدین نے وٹہ وسٹہ کے تحت کی، اس کے شوہر کی بہن کو اس کے بھائی سلیم نے گھریلو ناچاقی کے باعث طلاق دی تو اس کے شوہر نے اپنا رویہ بدل لیا اور مارپیٹ کرنے لگا اور اس کے والدین نے شوہر سے خلع لینے پر زور دیا جس پر خلع کا مقدمہ داخل کیا۔ طاہرہ کی شادی ان کے والدین نے اس کی مرضی کے خلاف وسیم سے کی تھی جسے اس نے والدین کی خوشی کی خاطر وقتی طور پر قبول کیا تھا لیکن شوہر کو اس بات کا علم ہونے پر تہمت لگانی شروع کردی تھی بالآخر اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے آسان راستہ اختیار کیا اور خلع کی درخواست دائر کردی۔ یہ کچھ مثالیں ہیں وگرنہ ہر درخواست ایک الگ کہانی ہے جو ہمارے گلی محلوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور نہ جانے کتنی خواتین ہوں گی جو صبح و شام اس ظلم و ستم کا شکار ہوں گی مگر وہ اندر ہی اندر سلگ رہی ہیں اور ان کی داستانیں بھی نہیں ہیں داستانوں میں۔
ہمارے یہاں یہ بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے کہ عورت کو طلاق کا حق دینا درست ہے یا غلط ۔ جب کہ بات واضح ہے کہ عورت کو طلاق لینے کا حق حاصل ہے دینے کا نہیں اور اس بارے میں نکاح نامے میں شامل شق غیر اسلامی ہے کیوں کہ دین اسلام میں کسی خاتون کو اپنے شوہر کو طلاق دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس طرح کا ایک واقعہ پیش آچکا ہے۔ ایک مشہور ماڈل اور فنکارہ نے اپنے شوہر کو طلاق دی ہے جو عدالت میں چیلنج کی گئی تھی۔
دوسری جانب برطانیہ میں طلاق اور حلالہ کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوگیا ہے اور شوہروں کی جانب سے تین طلاقیں پانے والی عورتیں اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے جب بعض نام نہاد مولویوں کے پاس جاتی ہیں تو حلالہ کے نام پر ان کے ہرکاروں سے اپنی عصمتیں لٹا بیٹھتی ہیں۔ اپنے گھروں میں عزت و وقار کھو بیٹھتی ہیں اور اکثر اوقات نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق لندن، برمنگھم، بریڈ فورڈ سمیت کئی شہروں میں خفیہ حلالہ سینٹر قائم ہیں جس کے باعث عورتوں کی تذلیل سنگین مسئلہ بن گئی ہے، ان سینٹرز میں عورتوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے، ہزاروں گھر اجڑ گئے، تاہم حقیقی علما اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ایک تحقیق میں سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں جس میں حلالہ کے نام پر پاکستانی اور دوسری مسلمان خواتین کی بے حرمتی کی تصدیق ہوئی ہے تاہم علمائے کرام اس مسئلے کو اس لیے اجاگر نہیں کر رہے کہ اس سے ساری مسلم کمیونٹی برطانیہ میں مزید بدنام ہوگی جو پہلے ہی چائلڈ سیکس گرومنگ اور دوسرے کیسوں کی وجہ سے انتہائی خراب حالات سے گزر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق نام نہاد عناصر مذہب کے نام پر خفیہ سینٹر میں مشورے کے لیے آنے والے افراد کو گمراہ کرتے ہیں ۔ ان عورتوں کو غلط مشورے دیے جاتے ہیں ۔ شادی جیسے مقدس رشتے کو گمراہیوں کا غار سمجھا جاتا ہے ، مگر کوئی اس حوا کی بیٹی کی مدد نہیں کرتا۔ مرد کے قصور کا سارا عذاب عورت کو سہنا پڑتا ہے۔ عورتوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے مردوں کے ساتھ ساتھ وہ عناصر بھی برابر کے ذمے دار ہیں جو ان کو اپنی بد نیتی کی وجہ سے غلط مشورے دیتے ہیں۔ اس غیر شرعی طریقہ کار کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت ہے۔اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ایسے عناصر وطن عزیز میں تو کہیں اپنی ان گمراہ کن کوششوں میں مصروف تو نہیں ۔ مذہبی اسکالرز کا بھی فرض ہے کہ وہ ان خانگی معاملات پر عوام کی رہنمائی کریں،اور شادی، طلاق اور خواتین سے متعلق ازدواجی مسائل کے حل کے لیے دین کی روشنی میں ان بنیادی شرعی باتوں کو عام کریں جنھیں فراموش کرتے ہوئے برطانیہ تک میں مسلمان شادی شدہ خواتین اور ہماری بہو بیٹیوں کو طلاق کی آڑ میں رسوا کیا جارہا ہے۔
مسماۃ روزینہ کی شادی جمال سے ہوئی تھی ، شادی کے ایک سال بعد جمال کے رویے میں تبدیلی آگئی تھی اور مارپیٹ کرنا اس نے اپنا وطیرہ بنالیا تھا۔ بالآخر وہ اسے چھوڑ کر فرار ہوگیا اور دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کیا جس پر اس نے عدالت سے رجوع کیا اور خلع حاصل کرلی۔ مسماۃ صفیہ کی شادی دس برس قبل لطیف سے ہوئی تھی اور وہ اسے لودھراں لے گیا تھا لیکن اس کے اہل خانہ نے اسے بہو قبول نہیں کیا۔ وہ عزت اور محبت نہیں دی جو ایک بیٹی کو دی جانی چاہیے تھی مختلف اوقات میں اسے طعنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ظلم سے تنگ آکر واپس کراچی آنا پڑا اور عدالت سے خلع حاصل کی۔ روشن بی بی کی شادی 22 برس قبل ایک پولیس افسر سے ہوئی تھی اس دوران ان کے یہاں 5 بچے بھی ہوئے اس عرصے میں شوہر کے رویے سے تنگ آکر پہلے دو مرتبہ خلع لینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا لیکن مصالحت ہونے پر واپس لیا۔ بعدازاں 2004 میں اس نے اس کی مرضی کے خلاف بغیر اجازت سونیا نامی خاتون سے دوسری شادی کرلی تھی اور معلوم ہونے پر اس نے جھوٹ بولا اور کہا کہ اس نے دوسری اہلیہ کو طلاق دے دی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا تھا بعدازاں اس نے بچوں کے اخراجات بھی بند کردیے تھے، ایسے حالات میں خودکشی کو ترجیح دینے سے بہتر خلع کو دی اور خلع حاصل کرلی۔
مسماۃ فرزانہ کی شادی اس کے والدین نے وٹہ وسٹہ کے تحت کی، اس کے شوہر کی بہن کو اس کے بھائی سلیم نے گھریلو ناچاقی کے باعث طلاق دی تو اس کے شوہر نے اپنا رویہ بدل لیا اور مارپیٹ کرنے لگا اور اس کے والدین نے شوہر سے خلع لینے پر زور دیا جس پر خلع کا مقدمہ داخل کیا۔ طاہرہ کی شادی ان کے والدین نے اس کی مرضی کے خلاف وسیم سے کی تھی جسے اس نے والدین کی خوشی کی خاطر وقتی طور پر قبول کیا تھا لیکن شوہر کو اس بات کا علم ہونے پر تہمت لگانی شروع کردی تھی بالآخر اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے آسان راستہ اختیار کیا اور خلع کی درخواست دائر کردی۔ یہ کچھ مثالیں ہیں وگرنہ ہر درخواست ایک الگ کہانی ہے جو ہمارے گلی محلوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور نہ جانے کتنی خواتین ہوں گی جو صبح و شام اس ظلم و ستم کا شکار ہوں گی مگر وہ اندر ہی اندر سلگ رہی ہیں اور ان کی داستانیں بھی نہیں ہیں داستانوں میں۔
ہمارے یہاں یہ بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے کہ عورت کو طلاق کا حق دینا درست ہے یا غلط ۔ جب کہ بات واضح ہے کہ عورت کو طلاق لینے کا حق حاصل ہے دینے کا نہیں اور اس بارے میں نکاح نامے میں شامل شق غیر اسلامی ہے کیوں کہ دین اسلام میں کسی خاتون کو اپنے شوہر کو طلاق دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس طرح کا ایک واقعہ پیش آچکا ہے۔ ایک مشہور ماڈل اور فنکارہ نے اپنے شوہر کو طلاق دی ہے جو عدالت میں چیلنج کی گئی تھی۔
دوسری جانب برطانیہ میں طلاق اور حلالہ کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوگیا ہے اور شوہروں کی جانب سے تین طلاقیں پانے والی عورتیں اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے جب بعض نام نہاد مولویوں کے پاس جاتی ہیں تو حلالہ کے نام پر ان کے ہرکاروں سے اپنی عصمتیں لٹا بیٹھتی ہیں۔ اپنے گھروں میں عزت و وقار کھو بیٹھتی ہیں اور اکثر اوقات نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق لندن، برمنگھم، بریڈ فورڈ سمیت کئی شہروں میں خفیہ حلالہ سینٹر قائم ہیں جس کے باعث عورتوں کی تذلیل سنگین مسئلہ بن گئی ہے، ان سینٹرز میں عورتوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے، ہزاروں گھر اجڑ گئے، تاہم حقیقی علما اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ایک تحقیق میں سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں جس میں حلالہ کے نام پر پاکستانی اور دوسری مسلمان خواتین کی بے حرمتی کی تصدیق ہوئی ہے تاہم علمائے کرام اس مسئلے کو اس لیے اجاگر نہیں کر رہے کہ اس سے ساری مسلم کمیونٹی برطانیہ میں مزید بدنام ہوگی جو پہلے ہی چائلڈ سیکس گرومنگ اور دوسرے کیسوں کی وجہ سے انتہائی خراب حالات سے گزر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق نام نہاد عناصر مذہب کے نام پر خفیہ سینٹر میں مشورے کے لیے آنے والے افراد کو گمراہ کرتے ہیں ۔ ان عورتوں کو غلط مشورے دیے جاتے ہیں ۔ شادی جیسے مقدس رشتے کو گمراہیوں کا غار سمجھا جاتا ہے ، مگر کوئی اس حوا کی بیٹی کی مدد نہیں کرتا۔ مرد کے قصور کا سارا عذاب عورت کو سہنا پڑتا ہے۔ عورتوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے مردوں کے ساتھ ساتھ وہ عناصر بھی برابر کے ذمے دار ہیں جو ان کو اپنی بد نیتی کی وجہ سے غلط مشورے دیتے ہیں۔ اس غیر شرعی طریقہ کار کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت ہے۔اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ایسے عناصر وطن عزیز میں تو کہیں اپنی ان گمراہ کن کوششوں میں مصروف تو نہیں ۔ مذہبی اسکالرز کا بھی فرض ہے کہ وہ ان خانگی معاملات پر عوام کی رہنمائی کریں،اور شادی، طلاق اور خواتین سے متعلق ازدواجی مسائل کے حل کے لیے دین کی روشنی میں ان بنیادی شرعی باتوں کو عام کریں جنھیں فراموش کرتے ہوئے برطانیہ تک میں مسلمان شادی شدہ خواتین اور ہماری بہو بیٹیوں کو طلاق کی آڑ میں رسوا کیا جارہا ہے۔