اور کھیل ختم
خان صاحب کی یہ بڑی غلطی ہے، جس نے ان کا آخری چانس بھی ختم کردیا ہے
کل اپوزیشن نے حکومت کے سارے پتے دیکھنے کے بعد اپنے پتے بھی شو کردیے اور بالآخر کھیل ختم ہوگیا۔ خان صاحب کی حکومت تکنیکی طور پر ختم ہوچکی ہے۔ اب وہ چاہیں تو عزت کے ساتھ مستعفی ہوکر گھر چلے جائیں، کچھ دن آرام کریں، حالات کو پڑھیں اور پھر اُن کے مطابق سیاست میں نئے سرے سے آئیں۔ دوسری صورت بھی اُن کے سامنے ہے لیکن اُن کا گھر جانا ٹھہر چکا ہے۔
یہ کھیل حقیقت میں گزشتہ برس نومبر میں ہی ختم ہوچکا تھا۔ عمران خان اوور کانفیڈنس میں یہ گیم ہار گئے۔ انہوں نے ٹھیک وقت پر نہ تو حالات کو صحیح سے سمجھا اور نہ ہی انہوں نے درست فیصلے کیے۔ اصل فیصلہ ساز اداروں کے نیوٹرل ہونے کے ساتھ ہی اب گیم وہ رہا ہی نہیں جو پہلے تھا۔ یہ سوال الگ ہے کہ فیصلہ ساز ادارے کیوں غیر جانبدار ہوگئے؟
ابھی سیاسی افق پر دو معاملات کچھ اہم ہیں، ایک خط اور دوسرا ایم کیو ایم کا اپوزیشن کے کیمپ کو جوائن کرتے ہوئے حکومت کو خیرباد کہنا۔ یہاں ایک شخص اور ہے جس نے سیاسی حالات کو ٹھیک سے نہیں پڑھا اور جلد بازی میں گھاٹے کا سودا کر لیا، اس کا نام ہے چوہدری پرویز الہیٰ۔
اپوزیشن کے تین بڑے ہیں، نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان۔ اس کے بعد دوسری لائن میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو، مریم نواز، حمزہ شہباز وغیرہ ہیں۔ پہلی صف کے بڑے ایم کیو ایم کو اپنے اتحاد میں لانا نہیں چاہتے تھے۔ زرداری کا خیال تھا کہ انہیں سندھ شیئر کرنا پڑے گا اور ایم کیو ایم نے ماضی میں بھی اُن کے ساتھ ہاتھ کیا ہے تو ایسی صورت میں دوبارہ ان کے ساتھ چلنا مشکل ہوگا۔ دوسری جانب شریف ہاؤس بھی چوہدری ہاؤس کےلیے کوئی اچھے جذبات نہیں رکھتا تھا۔ لیکن حالات نے انہیں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے پر مجبور کردیا تھا۔
فیصلہ یہ ہوا تھا کہ پہلے چوہدری ہاؤس کو اپنی ٹرین میں بٹھایا جائے گا اور اگر یہ نکلے تو پھر آخر میں ایم کیو ایم کو ملایا جائے گا۔ اپوزیشن اس سے پہلے منحرف اراکین اور باقی اتحادیوں کو اپنی بساط پر سیٹ کرچکی تھی، لہٰذا جب ساری صورتحال چوہدریوں کے سامنے رکھی تو انہوں نےاپنا حصہ لے کر اپوزیشن کی ٹرین میں سواری کی حامی بھرلی۔ لیکن اس کی خبر عمران خان کو پہنچ گئی اور انہوں نے سیاسی بلف کھیلا۔ چوہدری صاحب نے ایک لمحے کےلیے بھی یہ نہ سوچا کہ وہ مونس الہی، جس کی شکل خان صاحب دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے، وہ ایک دم سے اُن کےلیے اتنا اہم کیوں ہوگیا؟ اب جبکہ فیصلہ ساز ادارے نیوٹرل ہیں تو وہ کیسے پنجاب میں ڈیڑھ سال حکمرانی کریں گے؟ انہوں نے سامنے کی بات کو دیکھتے ہوئے عمران خان کو بھی ہاں کردی اور جو امیج اپنے انٹرویوز کے ساتھ انہوں نے اپوزیشن کےلیے بنایا تھا، وہ عمران خان کو ہاں کہتے ہی ختم ہوگیا۔ اس کے بعد اپوزیشن نے اپنا آخری پتہ شو کردیا۔ یہ ایم کیو ایم کو اپنی ٹرین میں لے آئے اور میڈیا کے سامنے ایم کیو ایم کے ساتھ معاہدہ کردیا، جس پر دستخط ہوئے۔
اس گیم میں خاں صاحب تو ہار گئے لیکن اپنے ساتھ ساتھ انہوں نے چوہدری ہاؤس کی سیاست کو بھی ختم کر دیا۔ اب چوہدری اگلے منظرنامے میں نہ چاہتے ہوئے بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہی رہیں گے۔ وہ پی ٹی آئی جس کے پاس ڈٹ کر اپوزیشن کرنے کا موقع ہوگا لیکن وہ اپوزیشن میں اونچی اڑان نہیں بھرسکے گی کیونکہ وہ اس دور حکومت میں اتنی غلطیاں، اتنے ثبوت چھوڑ چکی ہے کہ اگر وہ منظر عام پر آجائیں تو پی ٹی آئی کی صرف سیاست ہی ختم نہیں ہوگی بلکہ اور بھی بہت کچھ فارغ ہوجائے گا۔
27 مارچ کے جلسے میں خط لہرانا خان صاحب کی آخری بڑی غلطی تھی۔ کسی بیرونی طاقت کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ خان صاحب کی ختم ہوتی حکومت کو آخری دھکا لگائے۔ کسی بیرونی طاقت کو ضرورت نہیں تھی کہ وہ جو کام مفت میں ہوسکتا ہے، اس کےلیے اربوں روپے بھجوائے۔ مطلب کیا خان صاحب نے جی ڈی پی 9 سے زیادہ تک پہنچا دیا ہے، پاکستان کا قرضہ تیزی سے اتر رہا ہے، مہنگائی کم ہو گئی ہے، فی کس آمدنی میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے؟ ایسا کیا ہوا ہے کہ بیرونی طاقتیں اُس خان کو اتروانے کے درپے ہیں جو خود ہی پھسل کر اترنے کے بالکل قریب ہے۔
اس خط کا ڈراپ سین 30 مارچ کو ہوا، جس میں یہ پتہ چلا کہ یہ کوئی خط نہیں بلکہ ایک مراسلہ تھا اور روٹین کی کارروائی تھی۔ خط پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ نافذ ہے، لہٰذا وہ منظر عام پر نہیں آسکتا۔ خط کے مندرجات عسکری قیادت کے ساتھ شیئر بھی ہوچکے ہیں۔ یہ ایک آفیشل روٹین میٹنگ تھی جس میں ایک ملک نے ہمارے سفیر سے گفتگو کی، سفیر نے اُس گفتگو کے کمنٹس اور اپنا مشاہدہ لکھ کر حکومت کو بھجوا دیا۔ یہ روٹین کی کارروائی تھی اور کوئی خط نہیں تھا۔ اس کو خط کا نام دینا بھی بالکل غلط ہے۔ اس کو شاید مراسلہ کہا جاسکتا ہے۔
خان صاحب نے اُس کو اپنے سیاسی فائدے کےلیے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن وہ الٹا اُن کے گلے پڑ گیا ہے۔ اب یہ بات یہاں نہیں رکے گی بلکہ کسی نہ کسی انجام تک جائے گی۔ قیاس یہی ہے کہ امریکی انتظامیہ اور پاکستانی سفیر کے مابین سارا معاملہ ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ فی الوقت پاکستان سے ناراض ہے اور اس کی کچھ وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ ہمارا الیکشن میں ٹرمپ کا ساتھ دینا ہے۔ یہ ساتھ دینا بنتا ہی نہیں تھا۔ دوسری وجہ افغانستان میں امریکی شکست اور انخلا کے وقت ہمارے غیر ذمے دارانہ بیانات ہیں۔ یہ بیانات اگر اپوزیشن دیتی تو الگ بات تھی، حکومت کی جانب سے دیے جانے کا مطلب اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے اور تیسری وجہ حال ہی میں روس کا ساتھ دینا ہے۔
نونہالان آل یوتھ کو لگتا ہے کہ امریکی کیمپ سے نکل جانا اتنا ہی آسان ہے جتنا موبائل گیمز میں ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہماری تجارت کا ایک بڑا حصہ امریکا کے ساتھ ہے۔ ہم پیسے آئی ایم ایف سے لیتے ہیں۔ ہم نے کووڈ کی ویکسین امریکا سے لی ہے۔ ہم چٹکی بجاتے ہی کیمپ نہیں بدل سکتے۔ نوٹ کیجئے کہ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف اس پورے منظرنامے میں بالکل خاموش ہیں، کیوں؟ سفارتکاری میں اپنا مقام پہچان کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس میں کسی سے بھی بگاڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سب سے بنا کر رکھنی ہوتی ہے اور اپنا فائدہ دیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ فارن سروس کے معاملات سیاست سے آگے ہوتے ہیں، یہ ریاستی ہوتے ہیں۔
خان صاحب نے یہ ایک اور غلطی کی ہے اور یہ ان کی آخری غلطی ہے۔ اس نے اُن کا وہ چانس کہ وہ ہارا ہوا میچ جیت سکتے ہیں، اس کو بھی ختم کردیا ہے۔ لیٹر گیٹ یہاں پر نہیں رکے گا، یہ بات بہت دور تک جائے گی۔ اس میں خان صاحب پھنس بھی سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ کھیل حقیقت میں گزشتہ برس نومبر میں ہی ختم ہوچکا تھا۔ عمران خان اوور کانفیڈنس میں یہ گیم ہار گئے۔ انہوں نے ٹھیک وقت پر نہ تو حالات کو صحیح سے سمجھا اور نہ ہی انہوں نے درست فیصلے کیے۔ اصل فیصلہ ساز اداروں کے نیوٹرل ہونے کے ساتھ ہی اب گیم وہ رہا ہی نہیں جو پہلے تھا۔ یہ سوال الگ ہے کہ فیصلہ ساز ادارے کیوں غیر جانبدار ہوگئے؟
ابھی سیاسی افق پر دو معاملات کچھ اہم ہیں، ایک خط اور دوسرا ایم کیو ایم کا اپوزیشن کے کیمپ کو جوائن کرتے ہوئے حکومت کو خیرباد کہنا۔ یہاں ایک شخص اور ہے جس نے سیاسی حالات کو ٹھیک سے نہیں پڑھا اور جلد بازی میں گھاٹے کا سودا کر لیا، اس کا نام ہے چوہدری پرویز الہیٰ۔
اپوزیشن کے تین بڑے ہیں، نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان۔ اس کے بعد دوسری لائن میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو، مریم نواز، حمزہ شہباز وغیرہ ہیں۔ پہلی صف کے بڑے ایم کیو ایم کو اپنے اتحاد میں لانا نہیں چاہتے تھے۔ زرداری کا خیال تھا کہ انہیں سندھ شیئر کرنا پڑے گا اور ایم کیو ایم نے ماضی میں بھی اُن کے ساتھ ہاتھ کیا ہے تو ایسی صورت میں دوبارہ ان کے ساتھ چلنا مشکل ہوگا۔ دوسری جانب شریف ہاؤس بھی چوہدری ہاؤس کےلیے کوئی اچھے جذبات نہیں رکھتا تھا۔ لیکن حالات نے انہیں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے پر مجبور کردیا تھا۔
فیصلہ یہ ہوا تھا کہ پہلے چوہدری ہاؤس کو اپنی ٹرین میں بٹھایا جائے گا اور اگر یہ نکلے تو پھر آخر میں ایم کیو ایم کو ملایا جائے گا۔ اپوزیشن اس سے پہلے منحرف اراکین اور باقی اتحادیوں کو اپنی بساط پر سیٹ کرچکی تھی، لہٰذا جب ساری صورتحال چوہدریوں کے سامنے رکھی تو انہوں نےاپنا حصہ لے کر اپوزیشن کی ٹرین میں سواری کی حامی بھرلی۔ لیکن اس کی خبر عمران خان کو پہنچ گئی اور انہوں نے سیاسی بلف کھیلا۔ چوہدری صاحب نے ایک لمحے کےلیے بھی یہ نہ سوچا کہ وہ مونس الہی، جس کی شکل خان صاحب دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے، وہ ایک دم سے اُن کےلیے اتنا اہم کیوں ہوگیا؟ اب جبکہ فیصلہ ساز ادارے نیوٹرل ہیں تو وہ کیسے پنجاب میں ڈیڑھ سال حکمرانی کریں گے؟ انہوں نے سامنے کی بات کو دیکھتے ہوئے عمران خان کو بھی ہاں کردی اور جو امیج اپنے انٹرویوز کے ساتھ انہوں نے اپوزیشن کےلیے بنایا تھا، وہ عمران خان کو ہاں کہتے ہی ختم ہوگیا۔ اس کے بعد اپوزیشن نے اپنا آخری پتہ شو کردیا۔ یہ ایم کیو ایم کو اپنی ٹرین میں لے آئے اور میڈیا کے سامنے ایم کیو ایم کے ساتھ معاہدہ کردیا، جس پر دستخط ہوئے۔
اس گیم میں خاں صاحب تو ہار گئے لیکن اپنے ساتھ ساتھ انہوں نے چوہدری ہاؤس کی سیاست کو بھی ختم کر دیا۔ اب چوہدری اگلے منظرنامے میں نہ چاہتے ہوئے بھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہی رہیں گے۔ وہ پی ٹی آئی جس کے پاس ڈٹ کر اپوزیشن کرنے کا موقع ہوگا لیکن وہ اپوزیشن میں اونچی اڑان نہیں بھرسکے گی کیونکہ وہ اس دور حکومت میں اتنی غلطیاں، اتنے ثبوت چھوڑ چکی ہے کہ اگر وہ منظر عام پر آجائیں تو پی ٹی آئی کی صرف سیاست ہی ختم نہیں ہوگی بلکہ اور بھی بہت کچھ فارغ ہوجائے گا۔
27 مارچ کے جلسے میں خط لہرانا خان صاحب کی آخری بڑی غلطی تھی۔ کسی بیرونی طاقت کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ خان صاحب کی ختم ہوتی حکومت کو آخری دھکا لگائے۔ کسی بیرونی طاقت کو ضرورت نہیں تھی کہ وہ جو کام مفت میں ہوسکتا ہے، اس کےلیے اربوں روپے بھجوائے۔ مطلب کیا خان صاحب نے جی ڈی پی 9 سے زیادہ تک پہنچا دیا ہے، پاکستان کا قرضہ تیزی سے اتر رہا ہے، مہنگائی کم ہو گئی ہے، فی کس آمدنی میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے؟ ایسا کیا ہوا ہے کہ بیرونی طاقتیں اُس خان کو اتروانے کے درپے ہیں جو خود ہی پھسل کر اترنے کے بالکل قریب ہے۔
اس خط کا ڈراپ سین 30 مارچ کو ہوا، جس میں یہ پتہ چلا کہ یہ کوئی خط نہیں بلکہ ایک مراسلہ تھا اور روٹین کی کارروائی تھی۔ خط پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ نافذ ہے، لہٰذا وہ منظر عام پر نہیں آسکتا۔ خط کے مندرجات عسکری قیادت کے ساتھ شیئر بھی ہوچکے ہیں۔ یہ ایک آفیشل روٹین میٹنگ تھی جس میں ایک ملک نے ہمارے سفیر سے گفتگو کی، سفیر نے اُس گفتگو کے کمنٹس اور اپنا مشاہدہ لکھ کر حکومت کو بھجوا دیا۔ یہ روٹین کی کارروائی تھی اور کوئی خط نہیں تھا۔ اس کو خط کا نام دینا بھی بالکل غلط ہے۔ اس کو شاید مراسلہ کہا جاسکتا ہے۔
خان صاحب نے اُس کو اپنے سیاسی فائدے کےلیے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن وہ الٹا اُن کے گلے پڑ گیا ہے۔ اب یہ بات یہاں نہیں رکے گی بلکہ کسی نہ کسی انجام تک جائے گی۔ قیاس یہی ہے کہ امریکی انتظامیہ اور پاکستانی سفیر کے مابین سارا معاملہ ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ فی الوقت پاکستان سے ناراض ہے اور اس کی کچھ وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ ہمارا الیکشن میں ٹرمپ کا ساتھ دینا ہے۔ یہ ساتھ دینا بنتا ہی نہیں تھا۔ دوسری وجہ افغانستان میں امریکی شکست اور انخلا کے وقت ہمارے غیر ذمے دارانہ بیانات ہیں۔ یہ بیانات اگر اپوزیشن دیتی تو الگ بات تھی، حکومت کی جانب سے دیے جانے کا مطلب اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے اور تیسری وجہ حال ہی میں روس کا ساتھ دینا ہے۔
نونہالان آل یوتھ کو لگتا ہے کہ امریکی کیمپ سے نکل جانا اتنا ہی آسان ہے جتنا موبائل گیمز میں ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہماری تجارت کا ایک بڑا حصہ امریکا کے ساتھ ہے۔ ہم پیسے آئی ایم ایف سے لیتے ہیں۔ ہم نے کووڈ کی ویکسین امریکا سے لی ہے۔ ہم چٹکی بجاتے ہی کیمپ نہیں بدل سکتے۔ نوٹ کیجئے کہ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف اس پورے منظرنامے میں بالکل خاموش ہیں، کیوں؟ سفارتکاری میں اپنا مقام پہچان کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس میں کسی سے بھی بگاڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سب سے بنا کر رکھنی ہوتی ہے اور اپنا فائدہ دیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ فارن سروس کے معاملات سیاست سے آگے ہوتے ہیں، یہ ریاستی ہوتے ہیں۔
خان صاحب نے یہ ایک اور غلطی کی ہے اور یہ ان کی آخری غلطی ہے۔ اس نے اُن کا وہ چانس کہ وہ ہارا ہوا میچ جیت سکتے ہیں، اس کو بھی ختم کردیا ہے۔ لیٹر گیٹ یہاں پر نہیں رکے گا، یہ بات بہت دور تک جائے گی۔ اس میں خان صاحب پھنس بھی سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔