مزار قائد کا تقدس و تحفظ
ایک سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا ہے کہ مزار قائد کے زیریں حصے میں جہاں قائداعظم، لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ۔۔۔
ایک سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا ہے کہ مزار قائد کے زیریں حصے میں جہاں قائداعظم، لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح کی اصل قبریں واقع ہیں اس حصے کو مزار کی انتظامیہ کے کچھ افراد اوباش لوگوں کو عیاشی کے لیے کرایہ پر فراہم کرتے ہیں، یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری تھا جسے ایک نجی ٹی وی چینل نے فاش کیا ہے، جن کے پاس اس قبیح جرم کی ویڈیوز و دیگر ثبوت موجود ہیں۔ مزار انتظامیہ اور پولیس واقعے کو دبانے اور اس میں ملوث افراد کو بچانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق گورنر سندھ نے اس گھناؤنے عمل کی تحقیقات کے لیے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور واقعے سے متعلق کمشنر کراچی سے رپورٹ طلب کی ہے۔
یہ خبر سن کر یقیناً محب وطن پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے ہوں گے۔ ارباب اختیار و اقتدار کے احساسات پر کیا گزری ہوگی، ان کا ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا اور ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات پر ان کا ردعمل یا ایکشن شاذو نادر ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ بانیان پاکستان کے مزاروں پر اس قسم کی قبیح حرکات کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں، ان کے پشت بان کون اور کیوں کر ہیں اور ان مذمومانہ حرکات کے لیے بانی پاکستان کے مزار کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا ہے، یہ کسی بڑی سازش کا حصہ تو نہیں ہیں۔ یہ تمام حقائق منظر عام پر آنے چاہئیں اور اس کے مرتکب افراد کو بلا لحاظ و بلاامتیاز نشان عبرت بنانا چاہیے۔ وہ ہستیاں جو قومی وقار کی علامت ہیں جن کی ذات کے طفیل ارباب اختیار و اقتدار کو اس ملک پر حکمرانی کا منصب ملا اور جو اپنے عہدے کو سنبھالنے سے قبل اس بات کا حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ یہ نظریہ اور آئین پاکستان کے تابعدار رہیں گے، جن کے دفاتر قائد کی تصاویر بلکہ ان کے اقوال تک سے مزین ہوتے ہیں ان کا عین منصبی فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی حرکات کا فوری نوٹس لے کر ان کا مستقل تدارک کریں اور ان حرکات کے مرتکب افراد کو نشان عبرت بنادیں تاکہ آیندہ کوئی دوسرا ایسی حرکات کا سوچنے کا تصور بھی نہ کرسکے۔
2008 میں بھی قائداعظم کے مزار پر اس قسم کا واقعہ پیش آیا تھا، جب لودھراں سے اپنے خاندان کے ہمراہ مزار پر آنے والی نوبیاہتا دلہن کو مسلح افراد اسلحے کے زور پر مزار کے احاطے میں لے گئے تھے اور نشہ آور مشروب پلاکر کئی روز تک اس کی عزت تار تار کرنے کے بعد رات چار بجے اسے مزار کے احاطے کے باہر ملحقہ سڑک پر پھینک دیا تھا۔ میڈیکل رپورٹ سے تصدیق اور شناختی پریڈ میں عملے کے ایک فرد کی نشاندہی کرنے کے باوجود اس کے ساتھی لڑکی کے وکلا اور اس لڑکی کی دادرسی کرنے والی تنظیم سے تلخ کلامی اور ہاتھا پائی کرکے ملزم کو چھڑا لے گئے تھے، متاثرہ خاتون نے اس کمرے کی نشاندہی بھی کی تھی جہاں اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ لیکن تفتیشی افسر نے لڑکی کو غیر صحت مند قرار دے کر دوبارہ شناختی پریڈ کرانے اور نامزد ملزم کو بے گناہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ جائے وقوع سے کسی قسم کے شواہد نہ ملنے کا بیان بھی جاری کرکے مقدمے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔
اس واردات کے موقع پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بتایا تھا کہ اسے ماضی میں مزار پر اجتماعی زیادتی کے واقعات رونما ہونے کی اطلاعات ہیں، جن کی کہیں رپورٹ درج نہیں کروائی گئی۔ کمیشن ماضی کے واقعات کے بارے میں معلومات وصول کر رہا ہے۔ حالیہ انکشاف نے ان تمام تر الزامات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ مزار قائد پر اس کی انتظامیہ کی زیر سرپرستی و آشیرباد سے وہ کچھ ہو رہا ہے جس کا آزاد سے آزاد خیال اور ننگ دھڑنگ معاشرے میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ مزار قائد کے تقدس و تحفظ کے لیے باقاعدہ ایک قانون Quaid Azam Maker Protection of Maintenance Ordinance رائج ہے، جس کے تحت قائداعظم مینجمنٹ بورڈ قائم کیا گیا ہے۔ اس بورڈ کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ مزار کے تحفظ، صفائی ستھرائی، تزئین و آرائش کے اقدامات اور اس کے قواعد و ضوابط کی پابندی کروائے، اس قانون کے تحت مزار کے اطراف میں کثیرالمنزلہ عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی، مزار کے تقدس کو یقینی بنانے کے لیے آرٹیکل نمبر 6 کے تحت کسی شخص کو مزار کے احاطے میں کسی قسم کے سیاسی یا غیر سیاسی سرگرمیوں، مظاہرے، جلسے، جلوس وغیرہ کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ مزار میں ایک جوڈیشل مجسٹریٹ اور ریزیڈنٹ انجینئر بھی ہے، پچھلے سال جب تحریک انصاف نے مزار قائد کے پارک میں جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا تھا تو اس کے خلاف شہریوں نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا تھا جس پر پی ٹی آئی کو اپنا جلسہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ارباب اقتدار و اختیار طاقت کے نشے اور اپنی خودنمائی، تشہیر و نیک نامی کی ہوس میں خود ہی تمام اخلاقی و قانونی اصول پیروں تلے روند ڈالتے ہیں۔ 25 دسمبر 2007 کو مزار قائد پر پہلی مرتبہ صدر مشرف اور (ق) لیگ کی حکومت نے سرکاری سطح پر تمام قانونی ضابطوں کو نظرانداز کرتے ہوئے مزار قائد کے احاطے میں رہبر ترقی و کمال کے نام سے رات گئے تک پروگرام کرکے مزار کے تقدس کو سرکاری سطح پر مجروح کیا اور قوم کے رہبروں نے زور خطابت میں یہاں تک کہہ دیا کہ ملک کی معیشت مضبوط ہے، آئی ایم ایف سے چھٹکارہ حاصل کرلیا گیا ہے اور آیندہ سال تک ملک کے تمام علاقوں میں پانی، بجلی اور گیس کی سہولیات فراہم کردی جائیں گی۔
2007 میں مزار قائد پر بولے جانے والے اس سرکاری سچ کا جادو آج سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ رہبر ترقی و کمال کے نام پر رہبروں نے اس دن عوام پر مزار کے دروازے بند کردیے تھے اس پروگرام میں سیاستدان، جاگیردار، بیوروکریٹس، گویے سب موجود تھے لیکن عوام کا داخلہ ممنوع تھا۔ ہماری نصف درجن کے قریب مسلم لیگی جماعتوں کے علاوہ دیگر تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتیں بلا لحاظ قائد کی شخصیت، افکار و نظریات کی معترف نظر آتی ہیں، اس کے بلند بانگ دعوے کرتی نہیں تھکتیں، ان کے ارشادات کا بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے نہیں چوکتیں۔ ہمارے حکمران، ممبران پارلیمنٹ، وزرا، مشیر، بیوروکریٹس وغیرہ اپنا منصب سنبھالنے سے قبل اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ وہ آئین و قانون کے پاسبان بنیں گے، قائد کے نظریات اور افکار کو تمام چیزوں پر مقدم رکھیں گے لیکن اس وقت مجموعی اور عملی طور پر اس کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا ہے ورنہ معاشرہ اس نہج پر نہ پہنچتا جہاں ہر چھوٹے سے چھوٹا بلاخوف و خطر قانون سے کھیل رہا ہے، کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔
مزار پر پیش آنے والا حالیہ واقعہ بھی اسی بے حسی و بے توقیری کا شاخسانہ ہے، اس واقعے پر جو شدید عوامی و سیاسی ردعمل سامنے آنا چاہیے تھا کہیں نظر نہیں آتا، لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مزار قائد پر پیش آنے والے واقعات کے تواتر پر عدلیہ کو ازخود نوٹس لے کر مضطرب اور محب وطن پاکستانیوں کی ترجمانی اور ان کے جذبات کی تسکین کا سامان کرنا چاہیے، ورنہ ان میں مایوسی کے جذبات پروان چڑھیں گے اور جہالت، درندگی و بربریت کا یہ کھیل نہ جانے ملک و قوم کو کس سمت لے جائے گا۔