استعفیٰ نہیں دونگا تحریک عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہو طاقتور ہوکر واپس آؤں گا وزیراعظم

وزیراعظم نے خطاب میں کہا کہ دھمکی آمیز خط امریکا نے لکھا پھر وہ رکے اور کہا کہ مجھے ملک کا نام نہیں لینا چاہیے

(فوٹو : فائل)

وزیراعظم عمران خان نے متحدہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد اور حالیہ دنوں میں متنازع 'مراسلہ' کے حوالے سے اپنے لائیو خطاب میں کہا ہے کہ میں استعفیٰ نہیں دوں گا، تحریک عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہو گا طاقتور ہوکر واپس آؤں گا جبکہ دھمکی آمیز خط امریکا نے لکھا جس میں کہا گیا کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہے تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سرکاری ٹی وی کے ذریعے قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے قوم سے اہم بات کرنی ہے، ملک کے مستقبل کے لیے میرا یہ خطاب براہ راست ہے جس کا مقصد قوم کو اعتماد میں لینا ہے۔

'شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کا مقصد کچھ اور ہے'

انہوں نے کہا کہ میں کسی کی مخالفت نہیں کرتا لیکن میری اولین ترجیح 22 کروڑ عوام ہیں، ان کے لیے آزاد خارجہ پالیسی بناؤں گا، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کا مقصد کچھ اور ہے، ان کے بھائی (نواز شریف) تو بات ہی نہیں کرسکتے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 'مراسلے پر شک کیا گیا، میں نے کابینہ کے سامنے مراسلہ رکھا، اس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی اور پھر صحافیوں کے سامنے پیش کیا، یہ مراسلہ اکسانے کے لیے نہیں ہے، اس ڈاکیومنٹ میں خطرناک الفاظ لکھے ہیں۔

'اتوار کو ملک کی سمت کا فیصلہ ہوگا'

انہوں نے کہا کہ اتوار کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی، اس اتوار کو ملک کا فیصلہ ہوگا کہ یہ کس طرف جائے گا، کیا یہ وہی لوگ ہوں گے جو کرپشن کرتے ہیں اور جن کے اثاثے ملک سے باہر ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ تنقید کی جاتی ہے کہ 'ملک کے حالات ساڑھے تین سال میں کیا سے کیا ہوگئے؟ لیکن متحدہ اپوزیشن تو 30 برس سے برسراقتدار رہی، مجھے لوگوں نے کہا کہ میں استعفیٰ دے دوں لیکن واضح کردینا چاہتا ہوں کہ آخر گیند تک مقابلہ کروں گا، تحریک عدم اعتماد کا جو بھی نتیجہ ہوگا اس کے بعد میں اور بھی تگڑا ہوجاؤں گا'۔

'یہ تینوں اس دور کے میر جعفر اور میر صادق ہیں'

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کا کیا پیغام مل رہا ہے، کون تسلیم کررہا ہے کہ شہباز شریف، آصف علی زرداری، فضل الرحمن نظریاتی لوگ ہیں، یہ سب لوگ اپنے ضمیراور ملک کا سودا کررہے ہیں، جو لوگ اپنا سودا کرکے متحدہ اپویشن کی صفوں میں بیٹھے ہیں وہ یاد رکھیں عوام انہیں کبھی نہیں بھولے گی، آپ بیرون ملک سازش کا حصہ بنے ہیں، کوئی بھی آپ کو معاف نہیں کرے گا۔

وزیرا عظم عمران خان نے کہا کہ یہ تینوں اس دور کے میر جعفر اور میر صادق ہیں، ساری زندگی قوم بھولے گی نہیں، یہ وہ کرنے جارہے ہیں کہ آنے والی نسلیں انہیں معاف نہیں کریں گے، سازش کے خلاف کھڑا رہوں گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اپنے دور میں کوئی فیکٹری نہیں بنائی جب کہ نواز شریف نے اٹھارہ فیکٹریاں بنالیں، میں اپنے گھر میں رہوں گا لیکن یاد رہے کہ اس قوم سے غداری ہورہی ہے، یہ قوم کبھی آپ کو اور آپ کے پیچھے لوگوں کو معاف نہیں کرے گی، میں چپ کرکے نہیں بیٹھ جاؤں گا، ہرگز استعفی نہیں دوں گا بلکہ اس سازش کا آخری دم تک مقابلہ کروں گا۔

'ایک مسلمان قوم غلام قوم نہیں بن سکتی'

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ایک مسلمان قوم غلام قوم نہیں بن سکتی، پیسے اور خوف کی غلامی شرک کے مترادف ہے، یہ سب ہمارے منشور میں شامل ہیں، اگر ایمان نہیں ہوتا تو سیاست میں نہیں ہوتا، ہمارے ملک پر بیرونی طاقتیں اثرانداز ہوتی ہیں، میں نے فیصلہ کیا کہ اقتدار میں آیا تو ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی ایک آزاد پالیسی ہوگی جس کا تعلق پاکستانیوں سے ہوگا وہ پالیسی جو ہمارے مفادات پر مبنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں اسی کمرے میں کہا گیا کہ امریکا کی حمایت نہیں کی تو وہ زخمی ریچھ کی مانند ہمیں ہی نہ مار دے، افغان جہاد کے دو سال بعد ہی امریکا نے ہم پر پابندیاں لگادیں، نائن الیون کے بعد واشنگٹن کو ہماری حمایت کی ضرورت پڑ گئی اور حمایت کے نتیجے میں 80 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی، کیا کسی نیٹو ملک نے اتنی جانیں قربان کیں؟

انہوں نے کہا کہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا اس کے باوجود ہم اس جنگ میں شامل ہوئے، قبائلی علاقوں میں شادیوں، مدرسوں اور دیگر اجتماعات پر ڈرون حملوں میں ہزاروں لوگ مارے گئے، کون سے قانون میں لکھا ہے کہ آپ کا اپنا جس کے لیے آپ جنگ لڑیں وہ آپ پر ہی ڈرون حملے کرے۔

'مراسلہ وزیراعظم کے نہیں بلکہ پوری قوم کے خلاف ہے'

عمران خان نے کہا کہ کسی آزاد ملک کے لیے جس طرح کا پیغام (مراسلہ) آیا وہ وزیراعظم کے خلاف نہیں بلکہ پوری قوم کے خلاف ہے، انہیں پہلے سے پتا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک آنے والی ہے، دراصل اپوزیشن پہلے سے ہی باہر کے لوگوں سے رابطے تھی، یہ لوگ صرف عمران خان کے خلاف ہیں، کہا جاتا ہے کہ اگر عمران خان چلا جائے تو پاکستان کو معاف کردیں گے، اگر یہ تحریک فیل ہوجاتی ہے تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔


وزیراعظم نے کہا کہ یہ آفیشل ڈاکیو منٹ ہے جس میں ایک سفیر نے کہا کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہتا ہے تو آپ سے تعلقات خراب ہوں گے اور ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، قوم سے سوال ہے کہ ہم 22 کروڑ نفوس پر مشتمل قوم کی کیا یہ حیثیت ہے کہ بغیر وجہ بتائے وہ ہم پر فیصلے مسلط کردے؟ اور وجہ شاید یہ بتائے کہ روس جانے کا فیصلہ غلط ہے، روس جانے کا فیصلہ دراصل عسکری اور وزارت خارجہ کی مشاورت سے کیا گیا۔

'ان کے رابطے یہاں موجود وفادار غلاموں کے ساتھ ہیں'

وزیراعظم نے کہا کہ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان کے رابطے یہاں موجود وفادار غلاموں سے ہیں، وہ چاہ رہا ہے کہ وہ آجائیں جن کے اوپر اربوں مالیت کی کرپشن کے الزامات ہیں، کیا ہم اپنے ملک میں اس طرح کے لوگوں کی قیادت آنے دیں گے؟

عمران خان نے کہا کہ 'دوسرے ممالک چھوٹی سی کرپشن پر اپنے بڑے بڑے وزرا کو نکال دیتے ہیں لیکن اب وہ لوگ یہاں پر موجود لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو نکالو، بیرون ملک کی ایجنسیوں کو ہمارے تمام سیاست دانوں کے اثاثوں کے بارے میں معلومات ہیں، انہیں معلوم ہے کہ یہاں کتنی کرپشن کرتے رہے ہیں'۔

وزیراعظم نے کہا کہ انہیں ہمارے تین لوگ پسند آگئے، ان میں ایسی کیا خاص باتیں ہیں؟ ان کے اقتدار میں 400 امریکی ڈرون حملے ہوئے لیکن انہوں نے کبھی مزاحمت نہیں کی، وکی لیکس میں موجود ہے کہ 'فضل الرحمن نے پاکستان میں خاتون امریکی سفارت کار سے کہا کہ مجھے بھی خدمت کا موقع دیں۔

یہ بھی پڑھیں :قومی سلامتی کمیٹی نے ملکی معاملات میں بیرونی مداخلت کو ناقابل برداشت قرار دے دیا

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کمیٹی نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت کو ناقابل برداشت قرار دے دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مسلح افواج کےسربراہان، وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، مشیر قومی سلامتی، انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہان اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔

اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کو ملنے والے دھمکی آمیز خط کے حوالے سے ارکان کو بریفنگ دی گئی۔

قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ جاری

اجلاس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے اعلامیہ جاری کردیا گیا جس کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کو غیرملکی آفیشل کی پاکستانی سفیر سے ہونے والی باضابطہ بات چیت پر بریفنگ دی گئی۔ کمیٹی نے غیرملکی سفارت کار کی جانب سے استعمال کی گئی زبان پر تشویش کا اظہار کیا۔

قومی سلامتی کمیٹی نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت کو ناقابل برداشت قرار دے دیا اور کہا کہ پاکستان کی جانب سے سفارتی سطح پر اس معاملے پر احتجاج کیا جائے گا۔

دریں اثنا کمیٹی نے گزشتہ روز کابینہ اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی۔

اتنے بڑے قومی ایشوز پر بھی اپوزیشن سیاست کو ترجیح دیتی ہے، اسد عمر

پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں ارکین کو قانونی دائرے میں رہتے ہوئے تفصیلات فراہم کی گئیں، قومی سلامتی کمیٹی میں رائے آئی کہ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کےسامنے بھی حقائق رکھے جائیں۔

اسد عمر نے کہا کہ جو اپوزیشن کہتی تھی ہمیں بتادیں ہم عدم اعتماد سے پیچھے ہٹ جائیں گے، بدقسمتی ہے کہ اتنے بڑے قومی ایشوز پر بھی اپوزیشن سیاست کو ترجیح دیتی ہے، پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی میں اپوزیشن نے شرکت نہ کر کے واضح کیا کہ انہیں اس کا پہلے سے علم تھا۔

یہ پڑھیں : عمران خان کے ایک وزیر نے یہ خط خود ایک سفارت کار سے لکھوا کر بھجوایا، بلاول

اسد عمر نے کہا کہ یہ بحث ختم ہوجانی چاہیے کہ مراسلہ حقیقت ہے یا نہیں، قومی سلامتی میٹنگ ایک مقتدر فورم ہے اور یہ حقیقت میں پاکستان کے معاملات میں مداخلت ہے، قومی سلامتی کمیٹی نے قرار دیا کہ جس ملک نے یہ لکھا اس کے سامنے یہ معاملہ اٹھانا چاہیے۔
Load Next Story