قومی بحران اور نئے انتخابات
پاکستان کا سیاسی بحران عملی طور پر بند گلی میں داخل ہوچکا ہے
پاکستان کا سیاسی بحران عملی طور پر بند گلی میں داخل ہوچکا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام دونوں صورتوں کا جو نتیجہ برآمد ہوگا ،وہ پہلے سے بڑا بحران ہوگا۔ کیونکہ حالات بہتری کے بجائے ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔
عمران خان کی حکومت کی بقا کی طاقت اتحادی جماعتیں تھیں۔ لیکن ایم کیو ایم اور بلوچستان میں موجود بلوچستان عوامی پارٹی )باپ(کی جانب سے حکومتی حمایت کو چھوڑ کر حزب اختلاف کی حمایت کے بعد حکومت کو سیاسی پسپائی کی جانب دھکیل رہا ہے ۔اس بات کا اندازہ حکومتی حلقوں میں بھی ہے کہ اتحادیوں کی ناراضگی یا حکومتی جماعت کے ممبران اسمبلی کی حکومت مخالفت کے بعد حکومت کو برقرار رکھنا ناممکن ہوگا۔
سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ اگر واقعی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو اس کے بعد کا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا ۔ جو نیا حکومتی سیٹ اپ ہوگا اس کے خدوخال کیا ہوںگے اور کیا یہ مشترکہ حزب اختلاف کی '' مشترکہ حکومت '' ہوگی ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد تحریک انصاف کا ردعمل کیا ہوگا ۔ یقینی طور پر اگر مرکز سے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو اس کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا مستقبل بھی داؤ پر لگ جائے گا ۔
اگرچہ تحریک انصاف نے عثمان بزدار کے مقابلے میں چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا ہے لیکن مرکز کی ناکامی کے بعد خود چوہدری پرویز الہی کی وزارت اعلیٰ پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتا ہے ۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اصل بحران نئی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا ۔ کیونکہ لوگوں کو ریلیف دینا، ممکن نہیں ہوگا ۔اس لیے جوحکمرانی کے سیاسی و معاشی بحران پر عمران خان حکومت پر سخت تنقید ہورہی تھی اب اسی تنقید کا نئی حکومت کو بھی سامنا کرنا پڑے گا ۔
لیکن اگرتحریک عدم اعتماد کے بحران میں حکومت بچ بھی گئی تو اس کا آگے بڑھنا اور اسے مضبوطی سے چلانا بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔کیونکہ عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حزب اختلاف خاموش نہیں رہے گی اور وہ نئی شکلوں میں نئے بحرانوں کا ماحول پیدا کرکے عملاً حکومت کو مفلوج کرے گی ۔کیونکہ ہم نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کو اپنی سیاسی انا کا مسئلہ بھی بنالیا ہے اور سیاسی جیت یا شکست کو بدقسمتی سے سیاسی تعصب یا سیاسی نفرت میں بدل دیا گیا ہے۔
عمران خان نے اپنے حامیوں کو پیغام دیں گے کہ حکومت کے خاتمہ کے پیچھے عالمی سازش اور کچھ مقامی سیاسی کردار تھے ۔اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد عملا خاموش ہوجائیں گے ایسا ،ممکن نہیں ہوگا۔جو خط کو بنیاد بنا کر حکومت نے اپنی حمایت میں بیانیہ پیش کیا اسے کابینہ کے ارکان سمیت اپنی اتحادی جماعتوں ، مخصوص میڈیا اور فوجی قیادت کو بھی پیش یا دکھا دیا گیا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدم اعتماد کا جو بھی نتیجہ نکلتا ہے ، کیا ہمارا سیاسی نظام بغیر کسی محاذ آرائی کے آگے بڑھ سکے گا؟کیونکہ جو بھی سیاسی بحران ہوتا ہے اس کا عملی نتیجہ آگے بڑھنے کی جانب بڑھنا چاہیے۔ اصولی طو رپر توعدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سیاسی نظام نئی قیادت کی صورت میں آگے چلنا چاہیے ۔لیکن کئی سیاسی فریق اس کے لیے تیار نہیں اور ان کے بقول نئی حکومت کو چلانے کے بجائے حالات فوری طور پر نئے انتخابات کی طرف بڑھیں گے ۔
بظاہر یہ ہی لگ رہا ہے کہ اگر حکومت اور حزب اختلاف یا سیاسی فریقین حالات کی نزاکت یا سنگینی کو محسوس کریں تو ان کو نئے انتخابات کا ہی راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ کیونکہ جو حالات بن رہے ہیں۔
اس میں نیا سیاسی مینڈیٹ ہی سیاسی فریقین میں موجود سیاسی تناو ٹکراو کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تمام سیاسی فریقین یا فیصلہ ساز ادارے اس فیصلہ پر پہنچ سکیں گے یا یہاں بھی ہمیں فوری انتخابات یا مقررہ مدت میں انتخابات میں سیاسی تقسیم نظر آئے گی ۔ کیونکہ اس وقت کچھ جماعتیں فوری انتخابات کی حامی اور کچھ مخالف ہیں اور ان کے بقول حکومتی مدت پوری ہونی چاہیے ۔
اصولی طور پر تو بہتر ہوتا کہ جب حکومت کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ اس کی پارلیمانی عددی برتری ختم ہوگئی ہے اور کچھ اتحادی بھی ان کے ساتھ تعلقات نہیں رکھنا چاہتے تو ایسے میں تحریک عدم اعتماد سے بچنے کا واحد راستہ ہی نئے انتخابات کا ہوسکتا تھا۔ لیکن اب تحریک عدم اعتماد سے پہلے کیا نئے انتخابات پر اتفاق ہوسکتا ہے اور اگرایسا ہوتا ہے تو یہ واقعی ایک بڑا سیاسی معجزہ ہوگا۔
لیکن یہ کام موجودہ عدم اعتماد کی فضا میں آسان نہیں ۔ایک راستہ فوری طور پر اسمبلیوں کو ختم کرکے انتخاب کا ہوسکتا ہے اور ایسی صورت میں عدم اعتماد کی تحریک سے بچا جاسکتا ہے ۔ دوسرا حکومت اور حزب اختلاف میں یہ اتفاق ہوجائے کہ اگلے چند ماہ میں انتخابات کا اعلان کیا جائے اور اس سے قبل کچھ ایسی انتخابی اصلاحات ہوں جس پر سب فریقین کا اتفاق بھی ہو۔ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں جو انتخابی اصلاحات الیکٹرانک ووٹنگ مشین ، اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے تحفظات موجود ہیں ۔
ایک مسئلہ یقینی طور پر منصفانہ اور شفاف انتخابات کا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں شفاف انتخابات پر سیاسی فریقین ہمیشہ تقسیم رہتے ہیں اور خاص طور پر ہارنے والا اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے پس پردہ قوتوں کی مداخلت سے جوڑ تا ہے ۔
یہ کھیل اب پاکستان میں انتخابات کے تناظر میں ختم ہونا چاہیے ۔ سیاسی فریقین میں ایک بنیادی کوڈ آف کنڈکٹ پر اتفاق ہونا چاہیے کہ انتخابات کی حیثیت بھی شفاف ہو اور اس کے نتائج بھی جیتنے اور ہارنے والے دونوں تسلیم کریں ۔وگرنہ بنیادی انتخابی اصلاحات کے بغیر محض روائتی اور فرسودہ طور طریقوں سے انتخابی عمل آگے جاکر بھی سیاسی استحکام کو ممکن نہیں بناسکے گا ۔ایک بات سب سیاسی فریقین کو سمجھنی ہوگی کہ یہاں مسئلہ کسی بھی سیاسی فریق کی جیت اور شکست کا نہیں ہونا چاہیے ۔ کیونکہ ہماری داخلی ، خارجی یا علاقائی صورتحال کسی بھی قسم کے سیاسی تناو، ٹکراو یا مہم جوئی یا نئی حکومت بنانا یا گرانا قومی مفاد کا کھیل نہیںہوگا۔
یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ موجودہ سیاسی بحران پر اسٹیبلیشمنٹ کو پریشانی کا سامنا ہے اور یقینی طور پر وہ بھی یہ ہی چاہتے ہیں کہ جو بھی سیاسی اختلافات ہیں ان کو سیاسی ، جمہوری اور قانونی انداظ میں حل ہونا چاہیے ۔سٹرکوں یا سیاسی میدانوں کی جنگ سے سوائے محاذ آرائی کے اور کچھ نہیں مل سکے گا۔ اگر ہم نے نئے انتخابات کا راستہ ہموار نہ کیا تو کوئی بھی نئی حکومت بن جائے سیاسی بحران کم ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ جائے گا ۔
عمران خان کی حکومت کی بقا کی طاقت اتحادی جماعتیں تھیں۔ لیکن ایم کیو ایم اور بلوچستان میں موجود بلوچستان عوامی پارٹی )باپ(کی جانب سے حکومتی حمایت کو چھوڑ کر حزب اختلاف کی حمایت کے بعد حکومت کو سیاسی پسپائی کی جانب دھکیل رہا ہے ۔اس بات کا اندازہ حکومتی حلقوں میں بھی ہے کہ اتحادیوں کی ناراضگی یا حکومتی جماعت کے ممبران اسمبلی کی حکومت مخالفت کے بعد حکومت کو برقرار رکھنا ناممکن ہوگا۔
سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ اگر واقعی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو اس کے بعد کا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا ۔ جو نیا حکومتی سیٹ اپ ہوگا اس کے خدوخال کیا ہوںگے اور کیا یہ مشترکہ حزب اختلاف کی '' مشترکہ حکومت '' ہوگی ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد تحریک انصاف کا ردعمل کیا ہوگا ۔ یقینی طور پر اگر مرکز سے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو اس کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا مستقبل بھی داؤ پر لگ جائے گا ۔
اگرچہ تحریک انصاف نے عثمان بزدار کے مقابلے میں چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا ہے لیکن مرکز کی ناکامی کے بعد خود چوہدری پرویز الہی کی وزارت اعلیٰ پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتا ہے ۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اصل بحران نئی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا ۔ کیونکہ لوگوں کو ریلیف دینا، ممکن نہیں ہوگا ۔اس لیے جوحکمرانی کے سیاسی و معاشی بحران پر عمران خان حکومت پر سخت تنقید ہورہی تھی اب اسی تنقید کا نئی حکومت کو بھی سامنا کرنا پڑے گا ۔
لیکن اگرتحریک عدم اعتماد کے بحران میں حکومت بچ بھی گئی تو اس کا آگے بڑھنا اور اسے مضبوطی سے چلانا بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔کیونکہ عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حزب اختلاف خاموش نہیں رہے گی اور وہ نئی شکلوں میں نئے بحرانوں کا ماحول پیدا کرکے عملاً حکومت کو مفلوج کرے گی ۔کیونکہ ہم نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کو اپنی سیاسی انا کا مسئلہ بھی بنالیا ہے اور سیاسی جیت یا شکست کو بدقسمتی سے سیاسی تعصب یا سیاسی نفرت میں بدل دیا گیا ہے۔
عمران خان نے اپنے حامیوں کو پیغام دیں گے کہ حکومت کے خاتمہ کے پیچھے عالمی سازش اور کچھ مقامی سیاسی کردار تھے ۔اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد عملا خاموش ہوجائیں گے ایسا ،ممکن نہیں ہوگا۔جو خط کو بنیاد بنا کر حکومت نے اپنی حمایت میں بیانیہ پیش کیا اسے کابینہ کے ارکان سمیت اپنی اتحادی جماعتوں ، مخصوص میڈیا اور فوجی قیادت کو بھی پیش یا دکھا دیا گیا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدم اعتماد کا جو بھی نتیجہ نکلتا ہے ، کیا ہمارا سیاسی نظام بغیر کسی محاذ آرائی کے آگے بڑھ سکے گا؟کیونکہ جو بھی سیاسی بحران ہوتا ہے اس کا عملی نتیجہ آگے بڑھنے کی جانب بڑھنا چاہیے۔ اصولی طو رپر توعدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سیاسی نظام نئی قیادت کی صورت میں آگے چلنا چاہیے ۔لیکن کئی سیاسی فریق اس کے لیے تیار نہیں اور ان کے بقول نئی حکومت کو چلانے کے بجائے حالات فوری طور پر نئے انتخابات کی طرف بڑھیں گے ۔
بظاہر یہ ہی لگ رہا ہے کہ اگر حکومت اور حزب اختلاف یا سیاسی فریقین حالات کی نزاکت یا سنگینی کو محسوس کریں تو ان کو نئے انتخابات کا ہی راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ کیونکہ جو حالات بن رہے ہیں۔
اس میں نیا سیاسی مینڈیٹ ہی سیاسی فریقین میں موجود سیاسی تناو ٹکراو کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تمام سیاسی فریقین یا فیصلہ ساز ادارے اس فیصلہ پر پہنچ سکیں گے یا یہاں بھی ہمیں فوری انتخابات یا مقررہ مدت میں انتخابات میں سیاسی تقسیم نظر آئے گی ۔ کیونکہ اس وقت کچھ جماعتیں فوری انتخابات کی حامی اور کچھ مخالف ہیں اور ان کے بقول حکومتی مدت پوری ہونی چاہیے ۔
اصولی طور پر تو بہتر ہوتا کہ جب حکومت کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ اس کی پارلیمانی عددی برتری ختم ہوگئی ہے اور کچھ اتحادی بھی ان کے ساتھ تعلقات نہیں رکھنا چاہتے تو ایسے میں تحریک عدم اعتماد سے بچنے کا واحد راستہ ہی نئے انتخابات کا ہوسکتا تھا۔ لیکن اب تحریک عدم اعتماد سے پہلے کیا نئے انتخابات پر اتفاق ہوسکتا ہے اور اگرایسا ہوتا ہے تو یہ واقعی ایک بڑا سیاسی معجزہ ہوگا۔
لیکن یہ کام موجودہ عدم اعتماد کی فضا میں آسان نہیں ۔ایک راستہ فوری طور پر اسمبلیوں کو ختم کرکے انتخاب کا ہوسکتا ہے اور ایسی صورت میں عدم اعتماد کی تحریک سے بچا جاسکتا ہے ۔ دوسرا حکومت اور حزب اختلاف میں یہ اتفاق ہوجائے کہ اگلے چند ماہ میں انتخابات کا اعلان کیا جائے اور اس سے قبل کچھ ایسی انتخابی اصلاحات ہوں جس پر سب فریقین کا اتفاق بھی ہو۔ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں جو انتخابی اصلاحات الیکٹرانک ووٹنگ مشین ، اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے تحفظات موجود ہیں ۔
ایک مسئلہ یقینی طور پر منصفانہ اور شفاف انتخابات کا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں شفاف انتخابات پر سیاسی فریقین ہمیشہ تقسیم رہتے ہیں اور خاص طور پر ہارنے والا اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے پس پردہ قوتوں کی مداخلت سے جوڑ تا ہے ۔
یہ کھیل اب پاکستان میں انتخابات کے تناظر میں ختم ہونا چاہیے ۔ سیاسی فریقین میں ایک بنیادی کوڈ آف کنڈکٹ پر اتفاق ہونا چاہیے کہ انتخابات کی حیثیت بھی شفاف ہو اور اس کے نتائج بھی جیتنے اور ہارنے والے دونوں تسلیم کریں ۔وگرنہ بنیادی انتخابی اصلاحات کے بغیر محض روائتی اور فرسودہ طور طریقوں سے انتخابی عمل آگے جاکر بھی سیاسی استحکام کو ممکن نہیں بناسکے گا ۔ایک بات سب سیاسی فریقین کو سمجھنی ہوگی کہ یہاں مسئلہ کسی بھی سیاسی فریق کی جیت اور شکست کا نہیں ہونا چاہیے ۔ کیونکہ ہماری داخلی ، خارجی یا علاقائی صورتحال کسی بھی قسم کے سیاسی تناو، ٹکراو یا مہم جوئی یا نئی حکومت بنانا یا گرانا قومی مفاد کا کھیل نہیںہوگا۔
یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ موجودہ سیاسی بحران پر اسٹیبلیشمنٹ کو پریشانی کا سامنا ہے اور یقینی طور پر وہ بھی یہ ہی چاہتے ہیں کہ جو بھی سیاسی اختلافات ہیں ان کو سیاسی ، جمہوری اور قانونی انداظ میں حل ہونا چاہیے ۔سٹرکوں یا سیاسی میدانوں کی جنگ سے سوائے محاذ آرائی کے اور کچھ نہیں مل سکے گا۔ اگر ہم نے نئے انتخابات کا راستہ ہموار نہ کیا تو کوئی بھی نئی حکومت بن جائے سیاسی بحران کم ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ جائے گا ۔