لیاری میں موسیقی کی محفلیں
وہ بھی کیا خوب دور تھا جب شہر کراچی کی دیگر علاقوں کی طرح لیاری کی راتیں بھی جاگتی تھیں
واہ ! وہ بھی کیا خوب دور تھا جب شہر کراچی کی دیگر علاقوں کی طرح لیاری کی راتیں بھی جاگتی تھیں بلا خوف و خطر رات گئے سڑکوں پر رونق، دن کا سماں پیش کرتی تھی۔1970سے 1990تک لیاری میں شادی بیاہ کے مواقع پر موسیقی کی محفلیں کروانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔
دلہا والے گھر کے سامنے سات دن تک تمبو لگ رہا تھا اور سات راتوں تک محفل موسیقی سجائی جاتی تھی جو رات دس بجے سے شروع ہوکر فجر کی اذان تک جاری رہتی تھی۔
درمیان میں تین چار مرتبہ چائے کا وقفہ بھی ہوا کرتا تھا ۔ بلوچی زبان میں اس محفل کو کرون زک کہا جاتا تھا۔ کرون زک مٹی کے تین مٹکوں اور ایک تالی پر مشتمل ہوتا تھا جسے بجانے والی ایک عورت ایک ہاتھ میں سو اس (ربڑی چپل) ان پر اس ترتیب سے باری باری مارتی تھی جس سے دل کش ساز پیدا ہوتا تھا۔ اس عورت پارٹی میں سے دوسری عورت اس ساز پر دلہا کا سہرا گاتی تھی جو بلوچی لوک گیت اور پاکستانی فلمی گانوں پر مشتمل ہوا کرتے تھے ، جب کہ تیسری عورت ان گانوں پر رقص کرتی ہوئی، خوشی میں جسے رسمی بھی کہا جاتا تھا۔
ایک عورت دلہا ، دلہا کے والدین اور بہن بھائیوں کے سروں پر رکھے گئے ایک ایک والے نوٹوں کو چنتی تھی اور چوتھی عورت ان نوٹوں کو یکجا کیا کرتی تھی اور محفل ختم ہونے پر ان کو گنا کرتی تھی اور میرٹ کی بنیاد پر ان روپوں کو آپس میں تقسیم کیا کرتی تھی اور یہ سلسلہ ساتھ راتوں تک محیط ہوا کرتا تھا۔
ان پارٹیوں کی آرگنائزر عورتوں میں مشہور بلوچی گلوکارائیں شریفہ سوتی ، آمنہ طوطی ، زلیخا اور مشہور ڈانسر ملنگ چارلی کی بہن منگو کے علاوہ تیسری جنس پر مشتمل کچکول اور انور کی پارٹیاں بہت ہی مقبول ہوا کرتی تھی۔ ان کی مصروفیت ایسی تھی کہ ان کی پارٹیوں کو بک کرانے کے لیے ہفتوں اور مہینوں پہلے پیشگی رقم دی جاتی تھی ، جن شادیوں میں ان کی پارٹیاں ہوتی تھی اس شادی کو چار چاند لگ جاتے تھے اور تمبو کچا کچ بھرے رہتے تھے۔
ان پارٹیوں کی معاوضے بھاری ہوتے تھے جس کی ادائیگی ہر کس و ناکس کی بس کی بات نہیں تھی لیکن پھر بھی جیسے تیسے کرکے لوگ انھی پارٹیوں کو ترجیح دیتے تھے اور لوگ عش عش کرتے تھے کہ واہ فلاں کی شادی میں فلاں مشہور آرگنائزر کی پارٹی ہے۔
اس زمانے میں شریفہ سوتی کا گایا ہوا دلہا کا سہرا ۔ بابل ایں سیریں شوما میمللے وش مللے ۔ یعنی ، دلہا کی شادی ہے آپ حضرات خوشی سے ناچیں اور گائیں۔ بابی ہلو ہالو کنیں سا نوک کسانے ما گو لائے چنا ۔ یعنی ، دلہا نوعمر ہے چھوٹا ہے اس کی زلف میں تراشوں گی ۔
اسی طرح دلہن کے لیے گایا گیا ہوا ، یہ لوک گیت ، نوکیں بانور ترارا مبارک دایاں ترا اللہ کدی گم مدا۔ یعنی ، نئی نویلی دلہن تمہیں مبارک باد دیتی ہوں ، اللہ تجھے کبھی غم سے ہمکنار نہ کرے۔ اسی طرح کے دیگر بلوچی لوک گیت دلہا اور دلہن کو مبارک باد دیتے ہوئے ان کی سلامتی کی دعائیں کی جاتی تھی۔
اسی طرح ہفتہ کی رات یعنی مہدی والی رات کو دلہا کی طرف سے بلوچی دیوان ، لیوا ، محفل موسیقی یا کہ ٹی پارٹی کا اہتمام کیا جانا شادیوں کی لازمی جز ہوا کرتے تھے۔
ان محافل موسیقی کا نمونہ اس طرح کا ہوا کرتے تھے کہ محفل کے داخلی راستہ پر ایک بہت بڑا دروازہ بمبوؤں سے بنایا جاتا اور اسے خوب سجایا جاتا تھا جس پر رنگ برنگی جگمگاتی چھوٹی بڑی بتیوں کے درمیان تین چار فٹ کا شادی مبارک کا بورڈ آویزاں کیا جاتا۔ محفل کے دروازہ سے لے کر محفل کے پنڈت تک مختلف رنگ کی بتیاں جس میں بلب ، ٹیوب لائٹ اور چھوٹے چھوٹے بتیاں جسے بلوچی زبان میں مرچک کہا جاتا ہے سے سجایا جاتا تھا۔
اسی طرح محفل کے پنڈت یعنی اسٹیج کو بھی خوب سجایا جاتا تھا جس پر دلہا اور اس کے والد کا نام لکھا جاتا تھا۔ پنڈت کے سامنے والے حصے پنڈال پر قالین بچھائی جاتی تھی جس پر خاص مہمانوں کے لیے صوفہ سیٹ لگا دیا جاتا اور عام مہمانوں کے لیے عام کرسیاں بچھائی جاتی تھی جن کی کم از کم تعداد پانچ سو کرسیاں ہوا کرتی تھی۔
اس زمانے میں بلوچی دیوانوں میں استاد فیض محمد بشک ، استاد ستار ، استاد شفیع ، استاد جاڑوک ،استاد غلام جان قادر بخش قادوک اور نور محمد نورل کی دیوان معروف تھے۔ استاد شفیع کا گایا ہوا یہ بلوچی لوک گیت ، ماچک ایں بلوچان۔ یعنی ، ہم اولاد ہیں بلوچوں کی۔
آج بھی مقبول عام ہے جسے بلوچ ترانہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلوچ گلوکار جاڑوک کو بلوچ مہدی حسن کا لقب ملا تھا جب کہ استاد فیض محمد پشک نے متعدد مرتبہ بیرون ممالک پاکستانی طائفہ کی نمایندگی کی اور خوب نامور ہوئے اس کے بہت سارے گائے ہوئے گیت مقبول ہوئے جن میں سے ایک گیت ، اے ناز حسن والے ، یعنی، اپنے حسن پر ناز کرنے والی۔ ان کے اس گیت کے طرز پر اے نیئر کی آواز میں یہ گانا بھی مقبول ہوا جس کے بول تھے ، اک بات کہوں دلدارہ تیرے حسن نے ہم کو مارا۔ یہ گانا وحید مراد پر فلم '' خدا اور محبت'' میں فلمایا گیا تھا۔
بلوچی دیوان کے علاوہ ان شادی بیا ہ میں محفل موسیقی کی بھی بڑی اہمیت ہوتی تھی جسے فکشن کہا جاتا تھا جس میں بلوچی لوک گیت ، پاکستانی اور بھارتی فلموں کے گانے بھی گائے جاتے تھے۔
ان گانوں پر بازار حسن سے لائی گئیں رقاصائیں دل فریب رقص پیش کرتی تھیں ، دیگر محافل کی طرح یہاں بھی دلہا کو نوٹوں کا ہار پہنایا جاتا اور اس پر نوٹ نچھاور کیے جاتے۔ انھی محفلوں میں سے مشہور سیاسی ترانہ ( دلا تیر بجا ایں دشمناں تئی ) کی گلوکارہ شبانہ نوشی جسے مشکی بھی کیا جاتا تھا ابھر کر سامنے آئی تھیں ، لیکن رقاصاؤں کی رکیبوں کی باہمی دنگا فسادوں کی وجہ سے ان محافل میں رقاصاؤں نے شرکت سے گریزکیا بعد میں ان کی جگہ مرد ڈانسروں نے سنھبالا مگر کامیاب نہ ہوسکے ، پھر آہستہ آہستہ یہ محافل متروک ہوگئیں۔ اس زمانے میں رمیش پارٹی ، غلام جان پارٹی، عبد اللہ اڈو پارٹی ( جس نے سب سے پہلے بلوچی موسیقی میں ڈسکو میوزک کو متعارف کرایا تھا ) آمین پارٹی معروف تھے ان پارٹیوں میں گانے، گانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کا یہاں فردا فردا نام لینا ممکن نہیں ہے۔
ان فکشنوں کے ختم ہوجانے کے بعد ٹی پارٹی کو وجود میں لایا گیا جس میں مرد ڈانسر مختلف گانوں کی ریکارڈنگ پر ڈانس کیا کرتے تھے یہاں بھی وہی رسمیں ہوتی تھیں، جن کا اوپر ذکر آچکا ہے ، ان ٹی پارٹیوں میں سرد موسم میں مہمانوں کو چائے اور گرم موسم میں شربت دی جاتا تھا ، لیکن یہ سلسلہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوکر رہ گیا ہے ، پہلے زمانے کی عورتوں اور تیسری جنس کی محفلیں بھی بالکل ختم ہوچکی ہیں اب صرف دلہا اور دلہن کی شادیوں میں عورتوں کی تمبو میں فکشن کیے جاتے ہیں ، جس میں بلوچ رسمیں بھی ہوتی ہیں ان فکشنوں میں صرف مشہور بلوچی اور بھارتی فلموں کے گانے گائے جاتے ہیں ، کیونکہ نئی پاکستانی فلموں کے گانے مقبول نہیں ہوتے۔
بلوچ گھرانوں میں شادی کے موقعے پر اب لیوا بہت کم کیا جاتا ہے، یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ لیوا کا رقص بلوچ ثقافت کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ شیدی برادری کی ایک رسم ہے جسے بلوچ گھرانوں کی شادیوں میں فروغ دیا جاتا رہا ہے جس وجہ سے غیر بلوچوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ شاید لیوا بلوچ ثقافت کا ایک حصہ ہے ، ایسا ہرگز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اب بلوچوں کی شادیوں میں لیوا کا رقص کرانے کا سلسلہ متروک ہوتا جا رہا ہے۔
دلہا والے گھر کے سامنے سات دن تک تمبو لگ رہا تھا اور سات راتوں تک محفل موسیقی سجائی جاتی تھی جو رات دس بجے سے شروع ہوکر فجر کی اذان تک جاری رہتی تھی۔
درمیان میں تین چار مرتبہ چائے کا وقفہ بھی ہوا کرتا تھا ۔ بلوچی زبان میں اس محفل کو کرون زک کہا جاتا تھا۔ کرون زک مٹی کے تین مٹکوں اور ایک تالی پر مشتمل ہوتا تھا جسے بجانے والی ایک عورت ایک ہاتھ میں سو اس (ربڑی چپل) ان پر اس ترتیب سے باری باری مارتی تھی جس سے دل کش ساز پیدا ہوتا تھا۔ اس عورت پارٹی میں سے دوسری عورت اس ساز پر دلہا کا سہرا گاتی تھی جو بلوچی لوک گیت اور پاکستانی فلمی گانوں پر مشتمل ہوا کرتے تھے ، جب کہ تیسری عورت ان گانوں پر رقص کرتی ہوئی، خوشی میں جسے رسمی بھی کہا جاتا تھا۔
ایک عورت دلہا ، دلہا کے والدین اور بہن بھائیوں کے سروں پر رکھے گئے ایک ایک والے نوٹوں کو چنتی تھی اور چوتھی عورت ان نوٹوں کو یکجا کیا کرتی تھی اور محفل ختم ہونے پر ان کو گنا کرتی تھی اور میرٹ کی بنیاد پر ان روپوں کو آپس میں تقسیم کیا کرتی تھی اور یہ سلسلہ ساتھ راتوں تک محیط ہوا کرتا تھا۔
ان پارٹیوں کی آرگنائزر عورتوں میں مشہور بلوچی گلوکارائیں شریفہ سوتی ، آمنہ طوطی ، زلیخا اور مشہور ڈانسر ملنگ چارلی کی بہن منگو کے علاوہ تیسری جنس پر مشتمل کچکول اور انور کی پارٹیاں بہت ہی مقبول ہوا کرتی تھی۔ ان کی مصروفیت ایسی تھی کہ ان کی پارٹیوں کو بک کرانے کے لیے ہفتوں اور مہینوں پہلے پیشگی رقم دی جاتی تھی ، جن شادیوں میں ان کی پارٹیاں ہوتی تھی اس شادی کو چار چاند لگ جاتے تھے اور تمبو کچا کچ بھرے رہتے تھے۔
ان پارٹیوں کی معاوضے بھاری ہوتے تھے جس کی ادائیگی ہر کس و ناکس کی بس کی بات نہیں تھی لیکن پھر بھی جیسے تیسے کرکے لوگ انھی پارٹیوں کو ترجیح دیتے تھے اور لوگ عش عش کرتے تھے کہ واہ فلاں کی شادی میں فلاں مشہور آرگنائزر کی پارٹی ہے۔
اس زمانے میں شریفہ سوتی کا گایا ہوا دلہا کا سہرا ۔ بابل ایں سیریں شوما میمللے وش مللے ۔ یعنی ، دلہا کی شادی ہے آپ حضرات خوشی سے ناچیں اور گائیں۔ بابی ہلو ہالو کنیں سا نوک کسانے ما گو لائے چنا ۔ یعنی ، دلہا نوعمر ہے چھوٹا ہے اس کی زلف میں تراشوں گی ۔
اسی طرح دلہن کے لیے گایا گیا ہوا ، یہ لوک گیت ، نوکیں بانور ترارا مبارک دایاں ترا اللہ کدی گم مدا۔ یعنی ، نئی نویلی دلہن تمہیں مبارک باد دیتی ہوں ، اللہ تجھے کبھی غم سے ہمکنار نہ کرے۔ اسی طرح کے دیگر بلوچی لوک گیت دلہا اور دلہن کو مبارک باد دیتے ہوئے ان کی سلامتی کی دعائیں کی جاتی تھی۔
اسی طرح ہفتہ کی رات یعنی مہدی والی رات کو دلہا کی طرف سے بلوچی دیوان ، لیوا ، محفل موسیقی یا کہ ٹی پارٹی کا اہتمام کیا جانا شادیوں کی لازمی جز ہوا کرتے تھے۔
ان محافل موسیقی کا نمونہ اس طرح کا ہوا کرتے تھے کہ محفل کے داخلی راستہ پر ایک بہت بڑا دروازہ بمبوؤں سے بنایا جاتا اور اسے خوب سجایا جاتا تھا جس پر رنگ برنگی جگمگاتی چھوٹی بڑی بتیوں کے درمیان تین چار فٹ کا شادی مبارک کا بورڈ آویزاں کیا جاتا۔ محفل کے دروازہ سے لے کر محفل کے پنڈت تک مختلف رنگ کی بتیاں جس میں بلب ، ٹیوب لائٹ اور چھوٹے چھوٹے بتیاں جسے بلوچی زبان میں مرچک کہا جاتا ہے سے سجایا جاتا تھا۔
اسی طرح محفل کے پنڈت یعنی اسٹیج کو بھی خوب سجایا جاتا تھا جس پر دلہا اور اس کے والد کا نام لکھا جاتا تھا۔ پنڈت کے سامنے والے حصے پنڈال پر قالین بچھائی جاتی تھی جس پر خاص مہمانوں کے لیے صوفہ سیٹ لگا دیا جاتا اور عام مہمانوں کے لیے عام کرسیاں بچھائی جاتی تھی جن کی کم از کم تعداد پانچ سو کرسیاں ہوا کرتی تھی۔
اس زمانے میں بلوچی دیوانوں میں استاد فیض محمد بشک ، استاد ستار ، استاد شفیع ، استاد جاڑوک ،استاد غلام جان قادر بخش قادوک اور نور محمد نورل کی دیوان معروف تھے۔ استاد شفیع کا گایا ہوا یہ بلوچی لوک گیت ، ماچک ایں بلوچان۔ یعنی ، ہم اولاد ہیں بلوچوں کی۔
آج بھی مقبول عام ہے جسے بلوچ ترانہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلوچ گلوکار جاڑوک کو بلوچ مہدی حسن کا لقب ملا تھا جب کہ استاد فیض محمد پشک نے متعدد مرتبہ بیرون ممالک پاکستانی طائفہ کی نمایندگی کی اور خوب نامور ہوئے اس کے بہت سارے گائے ہوئے گیت مقبول ہوئے جن میں سے ایک گیت ، اے ناز حسن والے ، یعنی، اپنے حسن پر ناز کرنے والی۔ ان کے اس گیت کے طرز پر اے نیئر کی آواز میں یہ گانا بھی مقبول ہوا جس کے بول تھے ، اک بات کہوں دلدارہ تیرے حسن نے ہم کو مارا۔ یہ گانا وحید مراد پر فلم '' خدا اور محبت'' میں فلمایا گیا تھا۔
بلوچی دیوان کے علاوہ ان شادی بیا ہ میں محفل موسیقی کی بھی بڑی اہمیت ہوتی تھی جسے فکشن کہا جاتا تھا جس میں بلوچی لوک گیت ، پاکستانی اور بھارتی فلموں کے گانے بھی گائے جاتے تھے۔
ان گانوں پر بازار حسن سے لائی گئیں رقاصائیں دل فریب رقص پیش کرتی تھیں ، دیگر محافل کی طرح یہاں بھی دلہا کو نوٹوں کا ہار پہنایا جاتا اور اس پر نوٹ نچھاور کیے جاتے۔ انھی محفلوں میں سے مشہور سیاسی ترانہ ( دلا تیر بجا ایں دشمناں تئی ) کی گلوکارہ شبانہ نوشی جسے مشکی بھی کیا جاتا تھا ابھر کر سامنے آئی تھیں ، لیکن رقاصاؤں کی رکیبوں کی باہمی دنگا فسادوں کی وجہ سے ان محافل میں رقاصاؤں نے شرکت سے گریزکیا بعد میں ان کی جگہ مرد ڈانسروں نے سنھبالا مگر کامیاب نہ ہوسکے ، پھر آہستہ آہستہ یہ محافل متروک ہوگئیں۔ اس زمانے میں رمیش پارٹی ، غلام جان پارٹی، عبد اللہ اڈو پارٹی ( جس نے سب سے پہلے بلوچی موسیقی میں ڈسکو میوزک کو متعارف کرایا تھا ) آمین پارٹی معروف تھے ان پارٹیوں میں گانے، گانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کا یہاں فردا فردا نام لینا ممکن نہیں ہے۔
ان فکشنوں کے ختم ہوجانے کے بعد ٹی پارٹی کو وجود میں لایا گیا جس میں مرد ڈانسر مختلف گانوں کی ریکارڈنگ پر ڈانس کیا کرتے تھے یہاں بھی وہی رسمیں ہوتی تھیں، جن کا اوپر ذکر آچکا ہے ، ان ٹی پارٹیوں میں سرد موسم میں مہمانوں کو چائے اور گرم موسم میں شربت دی جاتا تھا ، لیکن یہ سلسلہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوکر رہ گیا ہے ، پہلے زمانے کی عورتوں اور تیسری جنس کی محفلیں بھی بالکل ختم ہوچکی ہیں اب صرف دلہا اور دلہن کی شادیوں میں عورتوں کی تمبو میں فکشن کیے جاتے ہیں ، جس میں بلوچ رسمیں بھی ہوتی ہیں ان فکشنوں میں صرف مشہور بلوچی اور بھارتی فلموں کے گانے گائے جاتے ہیں ، کیونکہ نئی پاکستانی فلموں کے گانے مقبول نہیں ہوتے۔
بلوچ گھرانوں میں شادی کے موقعے پر اب لیوا بہت کم کیا جاتا ہے، یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ لیوا کا رقص بلوچ ثقافت کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ شیدی برادری کی ایک رسم ہے جسے بلوچ گھرانوں کی شادیوں میں فروغ دیا جاتا رہا ہے جس وجہ سے غیر بلوچوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ شاید لیوا بلوچ ثقافت کا ایک حصہ ہے ، ایسا ہرگز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اب بلوچوں کی شادیوں میں لیوا کا رقص کرانے کا سلسلہ متروک ہوتا جا رہا ہے۔