اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں پہلا حصہ
یک جہتی کی ایک کہکشاں تھی جو پاکستان کی سرزمین پر اتری ہوئی تھی
گزشتہ دنوں او آئی سی کے عنوان سے اسلامی ملکوں کی ایک مشترکہ کانفرنس کا بڑے پیمانے پر بڑے پروقار انداز میں انعقاد کیا گیا تھا اور پاکستانی پرچم کے ساتھ دیگر تمام اسلامی ممالک کے پرچم بھی اپنی اہمیت کا احساس اجاگر کر رہے تھے۔
یک جہتی کی ایک کہکشاں تھی جو پاکستان کی سرزمین پر اتری ہوئی تھی اس موقع پر مجھے گلوکارہ نیرہ نور کا گایا ہوا اور شاعر کلیم عثمانی کا لکھا ہوا گیت بڑی شدت سے یاد آ رہا تھا وہ فلم ''فرض اور مامتا'' کا گیت تھا جس کے بول تھے۔
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں
ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر اک منزل کے راہی
اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی
بند مٹھی کی صورت باہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں
اور یہ گیت اسلامی ملکوں کی کانفرنس کی اہمیت اور ضرورت کا برملا اعتراف تھا۔ اس گیت سے مجھے گلوکارہ نیرہ نور کے ساتھ بہت ملاقاتیں اور باتیں یاد آگئی ہیں۔
ملکہ ترنم نور جہاں جیسی عظیم گلوکارہ کے درمیان جب گلوکارہ مہناز ، گلوکارہ رونا لیلیٰ اور گلوکارہ ناہید اختر نے بھی اپنا ایک منفرد مقام بنایا تھا وہاں نیرہ نورکی فلمی دنیا میں آمد نے بھی ایک ہلچل پیدا کردی تھی۔ ایورنیو فلم اسٹوڈیو لاہور میں جب نیرہ نور کی آواز میں سا کے پہلے فلمی گیت کی ریکارڈنگ ہوئی تھی تو میں بحیثیت فلمی صحافی اور نگار ویکلی کراچی کے نمایندہ کی حیثیت میں وہاں موجود تھا۔ موسیقار ایم۔اشرف فلم '' گھرانہ '' کے لیے نغمہ نگار کلیم عثمانی کا لکھا ہوا گیت ریکارڈ کرنے میں مصروف تھے۔ فلم ''گھرانہ'' کے لیے گایا ہوا نیرہ نور کا یہ پہلا فلمی گیت تھا جس کے بول تھے۔
تیرا سایا جہاں بھی ہو سجنا
پلکیں بچھا دوں ساری عمر بتا دوں
یہ گیت فلم میں اداکارہ شبنم پر فلمایا گیا تھا۔ شبنم بھی ان دنوں ڈھاکا سے آ کر نئی نئی لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئی تھی۔ اس کے نین نقش اور اس کا دل کش پیکر فلم بینوں کو بڑا پسند آیا تھا۔
اس کی اداکاری کا انداز دلوں کو چھوگیا تھا۔ نیرہ نورکا گایا ہوا گیت بھی شبنم پر بڑا سوٹ ہوا تھا اور اس گیت کو بڑی شہرت ملی تھی۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان کے ہر اسٹیشن سے یہ گیت کئی کئی بار دن اور رات نشر کیا جاتا تھا اور نیرہ نور کو اپنے پہلے ہی گیت کی بے پناہ پسندیدگی کی وجہ سے سال کی بہترین گلوکارہ کے نگار فلم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا اور پھر نیرہ نور کی آواز کی دھوم سارے پاکستان میں مچ گئی تھی۔
اس سے پہلے کہ میں نیرہ نور کی فلمی گائیکی کے سفر کا تذکرہ کروں میں اس کی ابتدائی زندگی اور اس کی شخصیت پر روشنی ڈالوں گا۔ نیرہ نور 3 نومبر 1950 میں ہندوستان کے شہر آسام کے علاقے گوہاٹی میں پیدا ہوئی تھیں ، والدین کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کے والد ایک تجارت پیشہ شخص تھے ، وہ تجارت کی غرض سے امرتسر سے آسام میں آ کر بس گئے تھے جس علاقے میں ان کی رہائش تھی وہاں ہندو مسلم گھرانے آس پاس تھے۔
یہ وہ دور تھا جب ہندو اور مسلم گھرانوں میں آپس میں بڑا میل جول تھا دونوں قومیتیں ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتی تھیں اور ایک دوسرے کے تہواروں میں بڑی محبت اور رواداری کے ساتھ شریک ہوتی تھیں۔ اس زمانے میں آل انڈیا ریڈیو سے کبھی کبھی لتا منگیشکر کی آواز میں ریکارڈ کی گئی ، نعت بھی نشر ہوتی تھی اور گلوکار محمد رفیع کی آواز میں بھجن بھی نشر کیے جاتے تھے۔
نیرہ نور جس اسکول میں پڑھتی تھی اس اسکول میں تعلیم کا آغاز بھجن سے ہوا کرتا تھا اور اس طرح نیرہ نورکو بھجن کی موسیقی سن کر موسیقی سے اور پھر گانے سے بھی شوق پیدا ہوتا چلا گیا ، وہ زمانہ گراموفون ریکارڈز کا زمانہ تھا اور اکثر گھروں میں گرامو فون ریکارڈز پر گیت سنے جاتے تھے۔ نیرہ نور کے گھر میں بھی گراموفون ریکارڈز کی سہولت تھی، ان کے والد اپنے فرصت کے اوقات میں غزلوں کے ریکارڈ سنا کرتے تھے اور اس دور میں غزل کی سب سے زیادہ مشہور آواز بیگم اختر کی تھی جس کی گائیکی کا بڑا منفرد انداز تھا اور بیگم اختر کی غزلوں کی اس دور میں بڑی دھوم تھی۔
نیرہ نور کو جب موسیقی کا کچھ شعور ہوا تو اس کے کانوں میں بیگم اختر کی آواز رس گھولنے لگی تھی اور اس کا پہلا رجحان غزل گائیکی کی طرف ہی ہوا تھا۔ اس دوران ہندوستان میں سیاسی جماعت کانگریس کے مقابلے پر مسلمانوں کی جماعت مسلم لیگ بھی منظر عام پر آگئی تھی اور آسام میں نیرہ نورکے والد مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے اور مسلم لیگ کی تحریک میں پیش پیش تھے۔
جب پہلی بار قائد اعظم محمد علی جناح آسام میں ایک جلسے کی غرض سے آئے تھے تو نیرہ نور کے والد نے ان کے میزبان ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا ، پھر جب 1947 میں پاکستان کا قیام وجود میں آیا تو ہندوستان میں ہندو مسلم رواداری ختم ہو چکی تھی اور تقسیم ہند کے بعد سارے ہندوستان میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور آسام کا علاقہ بھی ان کی زد میں آچکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ نیرہ نور کا خاندان ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوا اور پھر ہجرت کرکے اس کے والدین پاکستان آگئے۔ پہلے کچھ عرصہ کراچی میں رہائش اختیار کی اور پھر لاہور آ کر سکونت پذیر ہوگئے۔
(جاری ہے۔)
یک جہتی کی ایک کہکشاں تھی جو پاکستان کی سرزمین پر اتری ہوئی تھی اس موقع پر مجھے گلوکارہ نیرہ نور کا گایا ہوا اور شاعر کلیم عثمانی کا لکھا ہوا گیت بڑی شدت سے یاد آ رہا تھا وہ فلم ''فرض اور مامتا'' کا گیت تھا جس کے بول تھے۔
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں
ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر اک منزل کے راہی
اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی
بند مٹھی کی صورت باہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں
اور یہ گیت اسلامی ملکوں کی کانفرنس کی اہمیت اور ضرورت کا برملا اعتراف تھا۔ اس گیت سے مجھے گلوکارہ نیرہ نور کے ساتھ بہت ملاقاتیں اور باتیں یاد آگئی ہیں۔
ملکہ ترنم نور جہاں جیسی عظیم گلوکارہ کے درمیان جب گلوکارہ مہناز ، گلوکارہ رونا لیلیٰ اور گلوکارہ ناہید اختر نے بھی اپنا ایک منفرد مقام بنایا تھا وہاں نیرہ نورکی فلمی دنیا میں آمد نے بھی ایک ہلچل پیدا کردی تھی۔ ایورنیو فلم اسٹوڈیو لاہور میں جب نیرہ نور کی آواز میں سا کے پہلے فلمی گیت کی ریکارڈنگ ہوئی تھی تو میں بحیثیت فلمی صحافی اور نگار ویکلی کراچی کے نمایندہ کی حیثیت میں وہاں موجود تھا۔ موسیقار ایم۔اشرف فلم '' گھرانہ '' کے لیے نغمہ نگار کلیم عثمانی کا لکھا ہوا گیت ریکارڈ کرنے میں مصروف تھے۔ فلم ''گھرانہ'' کے لیے گایا ہوا نیرہ نور کا یہ پہلا فلمی گیت تھا جس کے بول تھے۔
تیرا سایا جہاں بھی ہو سجنا
پلکیں بچھا دوں ساری عمر بتا دوں
یہ گیت فلم میں اداکارہ شبنم پر فلمایا گیا تھا۔ شبنم بھی ان دنوں ڈھاکا سے آ کر نئی نئی لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئی تھی۔ اس کے نین نقش اور اس کا دل کش پیکر فلم بینوں کو بڑا پسند آیا تھا۔
اس کی اداکاری کا انداز دلوں کو چھوگیا تھا۔ نیرہ نورکا گایا ہوا گیت بھی شبنم پر بڑا سوٹ ہوا تھا اور اس گیت کو بڑی شہرت ملی تھی۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان کے ہر اسٹیشن سے یہ گیت کئی کئی بار دن اور رات نشر کیا جاتا تھا اور نیرہ نور کو اپنے پہلے ہی گیت کی بے پناہ پسندیدگی کی وجہ سے سال کی بہترین گلوکارہ کے نگار فلم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا اور پھر نیرہ نور کی آواز کی دھوم سارے پاکستان میں مچ گئی تھی۔
اس سے پہلے کہ میں نیرہ نور کی فلمی گائیکی کے سفر کا تذکرہ کروں میں اس کی ابتدائی زندگی اور اس کی شخصیت پر روشنی ڈالوں گا۔ نیرہ نور 3 نومبر 1950 میں ہندوستان کے شہر آسام کے علاقے گوہاٹی میں پیدا ہوئی تھیں ، والدین کا تعلق امرتسر سے تھا۔ ان کے والد ایک تجارت پیشہ شخص تھے ، وہ تجارت کی غرض سے امرتسر سے آسام میں آ کر بس گئے تھے جس علاقے میں ان کی رہائش تھی وہاں ہندو مسلم گھرانے آس پاس تھے۔
یہ وہ دور تھا جب ہندو اور مسلم گھرانوں میں آپس میں بڑا میل جول تھا دونوں قومیتیں ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتی تھیں اور ایک دوسرے کے تہواروں میں بڑی محبت اور رواداری کے ساتھ شریک ہوتی تھیں۔ اس زمانے میں آل انڈیا ریڈیو سے کبھی کبھی لتا منگیشکر کی آواز میں ریکارڈ کی گئی ، نعت بھی نشر ہوتی تھی اور گلوکار محمد رفیع کی آواز میں بھجن بھی نشر کیے جاتے تھے۔
نیرہ نور جس اسکول میں پڑھتی تھی اس اسکول میں تعلیم کا آغاز بھجن سے ہوا کرتا تھا اور اس طرح نیرہ نورکو بھجن کی موسیقی سن کر موسیقی سے اور پھر گانے سے بھی شوق پیدا ہوتا چلا گیا ، وہ زمانہ گراموفون ریکارڈز کا زمانہ تھا اور اکثر گھروں میں گرامو فون ریکارڈز پر گیت سنے جاتے تھے۔ نیرہ نور کے گھر میں بھی گراموفون ریکارڈز کی سہولت تھی، ان کے والد اپنے فرصت کے اوقات میں غزلوں کے ریکارڈ سنا کرتے تھے اور اس دور میں غزل کی سب سے زیادہ مشہور آواز بیگم اختر کی تھی جس کی گائیکی کا بڑا منفرد انداز تھا اور بیگم اختر کی غزلوں کی اس دور میں بڑی دھوم تھی۔
نیرہ نور کو جب موسیقی کا کچھ شعور ہوا تو اس کے کانوں میں بیگم اختر کی آواز رس گھولنے لگی تھی اور اس کا پہلا رجحان غزل گائیکی کی طرف ہی ہوا تھا۔ اس دوران ہندوستان میں سیاسی جماعت کانگریس کے مقابلے پر مسلمانوں کی جماعت مسلم لیگ بھی منظر عام پر آگئی تھی اور آسام میں نیرہ نورکے والد مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے اور مسلم لیگ کی تحریک میں پیش پیش تھے۔
جب پہلی بار قائد اعظم محمد علی جناح آسام میں ایک جلسے کی غرض سے آئے تھے تو نیرہ نور کے والد نے ان کے میزبان ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا ، پھر جب 1947 میں پاکستان کا قیام وجود میں آیا تو ہندوستان میں ہندو مسلم رواداری ختم ہو چکی تھی اور تقسیم ہند کے بعد سارے ہندوستان میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور آسام کا علاقہ بھی ان کی زد میں آچکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ نیرہ نور کا خاندان ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوا اور پھر ہجرت کرکے اس کے والدین پاکستان آگئے۔ پہلے کچھ عرصہ کراچی میں رہائش اختیار کی اور پھر لاہور آ کر سکونت پذیر ہوگئے۔
(جاری ہے۔)