رمضان المبارک کے فضائل و حکمتیں

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے  پہلی امتّوں پر کیے گئے تاکہ تم پرہیزگار بنو اور تقویٰ حاصل کرو

فوٹو : فائل

لاہو ر:
ماہ رمضان جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت و راہ نمائی ہے۔

اسلام وہ نظام حیات ہے جس میں قرآن حکیم جو ماہ رمضان کی روشن دلیل اور خشیت الٰہی کا سرچشمہ ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے پر ہر بشر کی راہ نمائی کرتا ہے۔ ہادی برحق حضرت محمدؐ کی تعلیمات پر عمل کرنا سکھاتا اور حیات انسانی کے ہر گوشے کو تاب ناک و منور کرتا ہے۔

نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اس نظام کے وہ ارکان ہیں جو تعبیر سیرت کے ضامن اور ان میں روزہ وہ عطائے خداوندی ہے جو بندوں پر ایسی رحمت و برکت جس کے تصور سے ہی انسانی ذہن قاصر ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی جزا دوں گا۔ تو پھر کون بدبخت ہوگا جو رب کے اس مہمان کے استقبال کے لیے دل و جان نہ بچھا دے، رحمتوں کے خزینے اور بخشش کے اس سفینے کو پانے کے لیے بے چین نہ ہو۔ روزے کے لیے جسم و روح کی مشترکہ تیاری ہوتی ہے جو ایمان میں جوش پیدا کرتی ہے۔ اﷲ کے بندے اپنے رب سے ملاقات کے لیے وہ تیاری کرلیتے ہیں کہ کانوں کان خبر نہیں ہوتی، ان کی بندگی کا یہ قرینہ، جذبۂ عبودیت سے معمور آغاز سفر اپنی اختتامی منزل پر ان کی بخشش کا سبب بن جاتا ہے۔

حدیث نبوی کا مفہوم پے کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمضان کیا ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہی رہے۔ کیوں کہ خدائے ذوالجلال کی بے انتہاء نعمتوں میں سے بلاشبہ راہ ہدایت کے نُور سے روشن رمضان المبارک کا مہینہ وہ بیش بہا نعمت و عطیہ جو خدا نے اپنی رحمت کاملہ سے اپنے نبی آخر الزماں ﷺ کی امت کو عطا فرمایا تاکہ وہ اپنے بندوں کی سال بھر کی کثافت دور کرکے ان کی روح کو لطافتوں سے ہم کنار کرکے، بالیدگی عطا کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتّوں پر کیے گئے تاکہ تم پرہیزگار بنو اور تقویٰ حاصل کرو۔''

انسان کو عالم ملکوت کی طرف ترقی دینے کے لیے اس ماہ مبارک کو خاص مسلمانوں کے لیے مخصوص کیا گیا۔ رمضان کی آمد، ہدایت، سعادت، روحانیت، توبہ و مغفرت کی دعوت عام اور عبدیت سے غافل دلوں کی اصلاح و فلاح کے لیے ندائے الٰہی ہے۔

ماہ رمضان کے روزے گویا رحمتوں کی وہ بارش اور برکتوں کا وہ باب جس کا در کھلتے ہی فیض کا وہ دریا جاری ہوجاتا ہے جس سے فیض یاب ہونے کے لیے دنیا کے کروڑوں مسلمان بے تاب ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ اس مہینے کی ہر ایک ساعت برکتوں و سعادتوں کی حامل ہے۔ کچھ لوگ عمداً روزہ نہیں رکھتے کہ قضا رکھ لیں گے، قضا روزہ رکھنے سے روزہ تو ادا ہوجاتا ہے لیکن آپ اس سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں جو رمضان میں حاصل ہوتی ہے۔

اس کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد کا مفہوم: ''جو رمضان میں جان بوجھ کر روزہ چھوڑے غیر عذر شرعی اور بلا مرض کے تو تمام عمر کا روزہ بھی اس کا بدلہ نہیں اتار سکتا۔'' (ترمذی) حضرت جبرائیلؑ آپؐ کے پاس آئے اور فرمایا: ''اس آدمی کے لیے ہلاکت ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنے گناہوں کی بخشش و معافی نہ مانگ سکا اور آپ ﷺ نے اس کے جواب میں آمین کہا۔ روزہ کے لیے نیت کی درستی کا اشارہ بھی ہے کہ روزہ خالص آخرت کے اجر کے لیے رکھیے۔ حدیث رسولؐ کا مفہوم: ''جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا۔'' ''جس نے ماہ رمضان کے روزے ایمان کی حالت اور ثواب کی نیّت سے رکھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔'' (صحیح بخاری)

ماہ رمضان کے تین عشرے:

ہادی برحق ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''ماہ رمضان کا ابتدائی عشرہ رحمت، درمیانی مغفرت اور آخری عشرہ جہنّم سے رہائی ہے۔ ان تینوں عشروں میں ندا دی جاتی ہے: ہے کوئی رحمت طلب کرنے والا، ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا، ہے کوئی نجات حاصل کرنے والا۔ اے خیر و نیکی کے طالب! قدم بڑھا اور اے بدی کے شائق! رک جا۔ بنی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ''جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو جنّت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

اس کا کوئی دروزہ بند نہیں کیا جاتا اور جہنّم کے تمام دروازے بند کردیے جاتے ہیں اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور تمام شیاطین اور جنّات کو جکڑ لیا جاتا ہے۔'' جنّت کے ایک دروازے کا نام الریان ہے اس دروازے سے صرف روزہ داروں کا داخلہ ہوگا۔

پہلا عشرہ: رحمت بن کر ہم سے یہ دعا کراتا ہے: ''اے میرے رب! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، تُو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔'' دوسرا عشرہ: مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھواتا ہے: ''میں اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں، جو میرا رب ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔'' تیسرا عشرہ: نجات کی دعا لیے ہوئے: ''اے اﷲ! تُو بے شک معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، ہمیں تو معاف کردے۔''

روزے کی حکمتیں: روزے کی پہلی حکمت: ''روزہ ہر برائی سے پرہیز کا نام ہے۔'' ماہ مقدس کی فضاء انسان کو ایسے اعمال پر اکساتی ہے جو اسے جنّت میں لے جانے کا سبب بنتی ہے، اسی لیے یہ خوش خبری اﷲ نے روزہ داروں کو دی ہے، روزہ دار صدق دل سے، جذبہ عبدیت سے معمور ہوکر روزہ رکھتا ہے، تسبیح و ثناء کرتا ہے تو اس کی یہ یکسوئی قلب و نظر کو جلا بخشتی ہے اور ہر برائی سے بچاتی ہے۔

روزہ ناصرف خور و نوش سے بچنے کا نام ہے بل کہ اس کے ساتھ بہت سی پابندیوں کو بھی قبول کرنے کا نام ہے۔ یعنی آنکھ، ناک ، کان، زبان غرض یہ کہ بدن کے تمام اعضا کا روزہ ہو، انسان کا پورا جسم رب العالمین کے احکامات کا پابند ہو یعنی آنکھ کو بُری نظر، زبان کو فضولیات، کان کو غلط بات سننے اور ہاتھوں کو مار پیٹ و چوری چکاری سے روکا گیا۔


بہت سے روزے دار درحقیقت بے روزہ ہوتے ہیں، وہ کھانے پینے سے تو رک جاتے ہیں لیکن اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں روکتے، حالاں کہ انسانی جسم کو روزے میں ان تمام باتوں سے قطعی احتراز کے لیے کہا گیا ہے جو کہ حیوانیت و اخلاق سے گری ہوئی ہوں اور رضائے الٰہی کے خلاف ہوں۔ حدیث رسولؐ کا مفہوم: ''روزہ ایک ڈھال ہے پس روزہ دار کو چاہیے کہ نہ کوئی فحش بات کرے، نہ بدتمیزی کرے۔

اگر کوئی گالی گلوچ و لڑائی پہ اتر آئے تو اسے کہہ دے بھائی میں روزے سے ہوں۔'' (صحیح بخاری) ''جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اﷲ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔'' جو لوگ روزہ رکھ کر حرام سے نہیں چوکتے ، نماز نہیں پڑھتے تو ایسے میں بھوک پیاس کے علاوہ اﷲ انہیں کچھ نہیں دیتا۔ روزہ جہنّم کی آگ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال اور محفوظ قلعہ ہے۔ ماہ رمضان کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے، اپنے تمام اعضاء کو گناہوں اور برائیوں سے روکنا ہی حقیقی روزہ ہے۔ روزے کی دوسری حکمت: تقویٰ سے سیرت و کردار میں ہمہ گیر انقلاب ہے۔

تقویٰ کے حصول کے لیے سب سے موثر طریقہ روزہ ہے۔ اس مہینے چوں کہ انسان کو اس بات کی خصوصاً یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ اسے ایک متقی و پرہیزگار شخص کی حیثیت سے جینا ہے، جس کے نتیجے میں بندہ دنیا سے کٹ کر اﷲ کی رضا کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے اور یہی تقویٰ کا حاصل ہے جو آخرت میں ہماری کام یابی کا راستہ ہے۔ یقین اور تقویٰ کے ساتھ تھوڑی عبادت غلط کاریوں کے ساتھ پہاڑ کے برابر عبادت سے افضل ہے۔

لہٰذا جہاں تک ہوسکے خدا کے احکامات کی پابندی کرکے روزے سے تقویٰ حاصل کریں۔ یہی آپ کی سیرت و کردار میں انقلاب کا سبب ہے۔ روزہ کی تیسری حکمت: رب کی شُکر گزاری ہے۔ کھانا پینا انسان کی سب سے بڑی ضرورتیں ہیں، خالی پیٹ رہنا نفس کو قابو کرنا ہے۔ جب پیاس سے حلق کانٹا اور بھوک سے آنتیں خشک ہونے لگتی ہیں اور سارا دن کی بھوک پیاس کے بعد بندہ جب خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے افطار کرتا ہے تو افطار کی دعا شُکر گزاری کا پورا اظہار بن جاتی ہے: ''پیاس چلی گئی، رگیں تر ہوگئیں اور اگر اﷲ نے چاہا تو اجر ثابت ہوگیا۔''

افطاری کرتے ہوئے بندہ جب یہ کہتا ہے: ''اے اﷲ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور میں نے تجھ پر بھروسا کیا اور تیرے عطا کردہ رزق سے روزہ افطار کیا۔'' تو درحقیقت وہ اپنی شُکر گزاری کے ان جذبات کا اظہار کرتا ہے جو اسے اپنے عجز اور خدا کی عظمت اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر کراتے ہیں یوں روزہ بہ یک وقت نفس پر قابو کے ساتھ تقویٰ اور شُکر گزاری لازمی امر بن جاتی ہے۔ چوتھی حکمت: روزہ دار کی خوش قسمتی ہے کہ روزہ اسے رب کے قریب لاتا ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اﷲ کے ہاں مُشک کی خوش بُو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم کہ روزہ، بندے کی طرف سے خاص میرے لیے تحفہ ہے۔ میرا بندہ میری رضا کے لیے اپنی خواہش کی نفی اور کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں ایک افطاری کے وقت، دوسرے اپنے مالک و مولی کی بارگاہ میں شرف باریابی کے وقت۔ پانچویں حکمت: روزہ انسانی صحت کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے، کم کھانا انسان کو بہت ساری بیماریوں سے نجات دیتا ہے۔

اسلام نے روزے فرض کرکے دوسرے بے شمار فوائد و حکمتوں کے علاوہ ان میں ایک بڑا فائدہ یہ بھی رکھا ہے کہ انسان روزے کے ذریعے اپنے جسم کا تزکیہ کرے اور کئی قسم کی بیماریوں سے بچ جائے۔ روزے کی چھٹی حکمت صبر و استقامت: سحر و افطار کے مقررہ اوقات جہاں وقت کی پابندی سکھاتے ہیں وہیں نماز پنج گانہ کے لیے بھی کھڑا کردیتے ہیں۔

سحری و افطاری کے فوراً بعد نماز کے لیے کھڑا ہونا اور عشاء کی نماز کے ساتھ ہی تراویح لازم و ملزوم بن جاتا ہے اور یوں یہ مہینہ جو صبر و شکر و عبادت کا مہینہ ہے ہمیں نماز پنجگانہ ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور ساتھ ہی نوید سناتا ہے کہ اس میں عبادت کا ثواب ستر گنا بڑھ کر عطا ہوتا ہے۔ اور افطاری کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں جاتی۔

آٹھویں حکمت قرآن مجید کی یاددہانی: رمضان شریف کا سب سے بڑا تحفہ قرآن مجید ہے۔ روزہ اور قرآن دونوں روزہ دار کی سفارش کریں گے اور دونوں کی سفارش روزدار کے حق میں قبول کی جائے گی۔ روزے کی نویں حکمت ہم درد و غم خواری ہے: یہ مہینہ چوں کہ ہم دردی و غم خواری کا ہے اس لیے مخلوق خدا کی مدد ذہنی آسودگی کا سبب بنتی ہے۔

کسی روزہ دار کا روزہ رکھوایا تو وہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اسے روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا اور یہ ثواب اس کو بھی دیا جائے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی یا ایک کھجور سے یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے گا۔ حضورؐ رمضان میں سب سے زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ آپؐ کی سخاوت تیز ہوا سے زیادہ تیز ہوتی تھی۔

خالق کی عبادت کے ساتھ، اس کی مخلوق کی خبرگیری، ہم دردی، مسکینوں کی مدد اور ایسے جو محتاج ہونے کے باوجود دست سوال دراز نہیں کرتے ان کی صدقہ خیرات سے مدد اور حسن سلوک، بے پناہ اجر اور خیرو برکت کا باعث بن جاتا ہے۔ دسویں حکمت اعتکاف: روزہ کا اصل مقصد دل و دماغ، جسم و روح سب کا خدا کی طرف رجوع ہونا ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے روزے کے ساتھ اعتکاف کو بھی شامل کیا گیا۔ اعتکاف روزے کی طرح لازم نہیں ہے لیکن رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف چند دن کی وہ تربیت ہے جو خدا کی نافرمانی سے بچنے اور قلب و روح کے سکون میں مدد دیتی ہے۔ روزہ خیالات کے ایک نظام کو ترتیب دیتا ہے۔ اس کی حکمتیں انسان میں صحیح عمل کرنے کی توفیق و قوت پیدا کرتی ہیں، ہر قسم کی نیکی مومن کی فطرت کا لازمی جز بن کر اسے رمضان کی بے پناہ فضیلتوں سے نوازتی ہیں۔

رمضان کی فضیلتیں: اس ماہ فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے مہینوں کے ستّر فرضوں کے برابر ہے۔ تین قسم کے لوگوں کی دعا رد نہیں جاتی مسافر، روزہ دار اور والد۔ رمضان میں عمرے کا وہی اجر ہے جو حج کرنے کا ہے۔ اس ماہ مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔

خداوند عالم کا شکر اور ہزار احسان ہے کہ اس نے رمضان المبارک کے مہینے کا عطیہ ہمیں عطا کیا۔ اس مبارک لمحات کا تقاضا یہی ہے کہ انسان اس میں جتنا ثواب کما سکتا ہے کمائے اور اپنی مغفرت کا سامان کرے۔ خاص کر رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر کی تلاش سے کسی شخص کو بھی غافل و بیگانہ نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ جو شخص اس رات کی بھلائی سے محروم رہ گیا وہ سارے خیر سے ہی محروم رہ گیا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم ہوسکتا ہے جو حقیقتاً محروم ہو۔

ہوسکتا ہے رمضان کی آخری رات جب امت کی مغفرت و بخشش کا فیصلہ سنایا جاتا ہے اور عمل کرنے والے کو اپنا عمل پورا کرنے پر پوری اجرت و جزا مل جاتی ہے تو آپ کو بھی رمضان میں کی ہوئی دعاؤں اور ریاضتوں کے صلے میں بخشش کے وہ پھول آپ کی جھولی میں بھی آن گریں جو آپ کے لیے خاص تحفہ توشہ آخرت بن جائیں۔

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہ مبارک کے روزے پورے آداب و احترام کے ساتھ رکھنے اور اس کی فضیلتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story