بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
FAISALABAD:
مسلم لیگ اور تحریک پاکستان
مصنف : پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
قیمت:1600روپے، صفحات:328
ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ، لاہور(03014568820)
پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی، پرنسپل (ر) اینڈ چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ڈینٹل پبلک ہیلتھ کالج آف کمیونٹی میڈیسن لاہور، سابق صدر سائوتھ ایشیا ڈینٹل ایسوسی ایشن فیڈریشن ، سابق صدر پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن لاہور ایسے ہی متعدد اعزازات کے مالک ہیں۔
ان کے متعدد تحقیقی مضامین بین الاقوامی کتابوں میں شائع ہو چکے ہیں ، بے شمار عالمی کانفرنسز میں تحقیقی مقالے پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کوئی درجن سے زائد تصانیف ان کے زور قلم کا شاہکار ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ سماجی خدمت کاجذبہ بھی رکھتے ہیں اور متعدد سماجی تنظیموں کے ساتھ منسلک ہیں ۔گویا ان کی شخصیت ایک ایسا ادارہ ہے جو ہر طرح سے پاکستانی معاشرے کی خدمت میں پیش پیش ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب میں انھوں نے تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کے کردار پر روشنی ڈالی ہے ، دیکھا جائے تو مسلم لیگ ہی اصل میں تحریک پاکستان ہے ، کیونکہ مسلمانوں کے حقوق کے حصول کے لئے قائم کی گئی مسلم لیگ نے ہی انگریزوں سے آزادی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی آواز اٹھائی، اور مسلمانوں کو باور کرایا کہ اگر انھوں نے اپنے لئے الگ وطن حاصل نہ کیا تو وہ انگریزوں کے بعد ہندووں کے محکوم بن رہ جائیں گے ۔
مہاتما گاندھی جو ہندوستان میں سب قومیتوں کے برابر کے حقوق کے علمبردار تھے انھیں ایک ہندو انتہا پسند گوڈسے نے صرف اس لئے قتل کر دیا کہ وہ ہندوئوں کے علاوہ دوسری قومیتوں کی بات کیوں کرتے ہیں ۔ یہ قتل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اگر پاکستان معرض وجود میں نہ آتا تو ہندو مسلمانوں کا جینا حرام کئے رکھتے جیسا کہ آج کل مودی سرکار نے انڈین اقلیتوں کا کیا ہوا ہے ۔ تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کی جدوجہد کو پینسٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
آخر میں حضرت قائداعظم کی وہ تاریخی تقریر بھی دی گئی ہے جو انھوں نے منٹو پارک جسے اب مینار پاکستان پارک کہتے ہیں ، میں کی ۔ کتابیات کا باب بھی شامل ہے تاکہ تحقیقی پہلو نمایاں رہے ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے تاریخ پاکستان سے شغف رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ بڑے سائز کی مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
محمد بن سلمان
مصنف : بین ہوبارڈ،ترجمہ : محمد احسن
قیمت:1000 روپے،صفحات:411
ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، 14/Bعلی پلازہ ، ٹیمپل روڈ ، لاہور (03009482775)
مسلمان ممالک میں سعودی عرب کی اہمیت ایسے ہی ہے جیسے آسمان کے ستاروں میں ماہتاب کی ۔ کیونکہ مسلمانوں کے مقدس ترین شہر مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں ہیں ۔ اسی لئے پوری دنیا میں سعودی عرب کو اہم مقام حاصل ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی زندگی کے بارے میں لکھی گئی مگر مصنف نے ان کی زندگی پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ السعود خاندان کے اس خطے میں عروج کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے سلطنت عثمانیہ سے الگ ریاست بنانے میں انھیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور مذہبی رہنما شیخ محمد ابن عبدالوہاب کی مدد سے انھوں نے کیسے عروج حاصل کیا اور سعودی عرب میں بسنے والے قبائل کو کیسے اپنے زیر نگیں کیا۔
انیسیویں صدی عیسوی میں جب سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرا تو شاہ عبدالعزیز کو اپنی ریاست وسیع اور مضبوط کرنے کا موقع ملا ، صحیح معنوں میں کامرانیوں کے دروازے اس وقت کھلے جب یہاں سے تیل کے سرچشمے دریافت ہوئے۔
موجودہ شاہ سلمان روایت پرست ہونے کے باوجود جدید خیالات کے مالک ہیں انھوں نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کی تربیت جدید خطوط پر کی اور جیسے ہی وہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوا ، اسے حکومتی نظم و نسق میں اہم عہدے اور بے پناہ اختیارات تفویض کر دیئے ۔
اپنے جدید خیالات کی وجہ سے محمد سلمان سعودی عرب کو بدل رہا ہے، سعودی عرب کی قدامت پسندی کو بدلنا کچھ آسان نہیں ہے مگر بے پناہ اختیارات اور طاقت کی وجہ سے اس کے لئے سب کچھ آسان ہو گیا ہے ۔
وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کر دیتا ہے ۔ مصنف کو محمد بن سلمان کے حوالے سے مواد اکٹھا کرنے میں سالہا سال لگے کیونکہ اس کی زندگی کے بارے میں چیدہ چیدہ مختلف رسالوں اور اخبارات میں شائع ہوتا رہتا تھا اس کے علاوہ کوئی خاص زریعہ نہ تھا اس کے لئے مصنف کو سعودی عرب میں بھی کافی وقت گزارنا پڑا ۔
انتہائی شاندار کتاب ہے ، سعودی عرب کے بدلتے حالات کے بارے میں جاننے کے لئے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ، خاص طور پر محمد بن سلمان کے بارے میں اتنا مواد ایک جگہ اکٹھا کہیں اور نہیں مل سکتا ۔ مجلد کتاب دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گئی ہے ۔
جوہر قابل
مصنف: خالد ارشاد صوفی،صفحات:260
ناشر:کاروان علم فائونڈیشن مکان نمبر 604 بلاک سی فیصل ٹائون ، لاہور 03218461122
زندگی میں مشکلات تو بہت پیش آتی ہیں مگر ان سے گبھرانا نہیں چاہیے۔ بقول شاعر
تندی باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
مولا علیؑ کا فرمان عالی شان ہے کہ اگر زندگی میں کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی تو سوچنا چاہیے کہ کہیں غلط راستے پر تو نہیں جا رہے ، کیونکہ جب بھی صحیح راستے پر چلیں گے تو مشکلات ضرور پیش آئیں گی ۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر اس انسان کو اپنی منزل تک پہنچنے میں کئی نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑے گا جو درست سمت میں بڑھنے کی کوشش کر رہا ہو گا ، کیونکہ شیطان کا کام ہی یہی ہے کہ درست سمت میں بڑھنے والے کو پریشان کرے اس کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرے ، اس لئے مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے ۔
زیر تبصرہ کتاب ان طالبعلموں کی داستان جدوجہد پر مشتمل ہے جنھوں نے اپنی منزل حاصل کرنے کے لئے ہر مشکل کا سامنا کیا ایسے میں اللہ نے ان کی مدد کی اور کاروان علم فائونڈیشن ان کا سہارا بنی ۔ کاروان علم فائونڈیشن ہر اس قابل طالبعلم کا سہارا بنتی ہے جو مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری رکھنے میں مشکل محسوس کرتا ہے ، ایسے میں فائونڈیشن رابطہ کرنے والے ایسے جوہر قابل کا ٹیلنٹ بچانا اپنا فرض سمجھتی ہے ، کیونکہ یہی ہمارے مستقبل کے معمار ہیں گویا فائونڈیشن پاکستان کا مستقبل محفوظ کر رہی ہے ۔ کتاب میں ایسے سولہ طلبہ کی کہانیاں ہیں جو عزم کا پہاڑ ثابت ہوئے ۔
ان کہانیوں کو پڑھ کر دل جوش و جذبہ سے معمور ہو جاتا ہے ۔ تحریر بہت رواں اور دل کو چھو لینے والی ہے ۔ نئی نسل کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان کو عزم کے ان پہاڑوں کی داستانیں پڑھ کر منزل کو پا لینے کا ہمت و حوصلہ ملے۔ مجلدکتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
مناجات مدینہ
تدوین و خیال: شہاب ظفر،صفحات:80
ملنے کا پتہ:مکان نمبر 179 اسٹریٹ 33 ، سیکٹر آئی ایٹ ٹو ، اسلام آباد
احمد مجتبیٰ، ختم الرسل، صاحب لولاک، محبوب کبریا، تاجدار مدینہ حضرت محمد ﷺ اس کائنات کی عظیم ترین ہستی ہیں ، آپ ﷺ وہ ہستی ہیں جن کی تعریف دوسرے مذاہب کے دانشور بھی کرنے پر مجبور ہیں ، کیونکہ آپ اخلاق حسنہ کا اعلٰی ترین نمونہ ہیں ۔ اللہ جل شانہ خود اپنے محبوب کی شان بیان کرتا ہے ۔ تو ایسی ہستی کے در پر حاضری دینے کی خواہش کیوں پیدا نہیں ہو گی ۔
آپ ﷺ کے در پر حاضر ہونے کے لئے ہر مسلمان دعا کرتا ہے ۔ شعراء کو یہ تخصیص حاصل ہے وہ اپنی مناجات شاعری کے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ زیر تبصرہ مجلہ میں ایسے ایک ہزار سے زائد اشعار اکٹھے کئے گئے ہیں جن میں آپ ﷺ کے در پر حاضری کی درخواست کی گئی ہے اسی لئے اس کا عنوان ' مناجات مدینہ ' رکھا گیا ہے ۔ اتنے خوبصورت اشعار ہیں کہ پڑھتے ہی انسان پر وجد کی سی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے جیسے
حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کیلئے حاضر غلام ہو جائے
۔۔۔۔
بھرنے والا ہے میری عمر کا پیمانہ ریاض
کاش جا پہنچوں مدینے میں قضا سے پہلے
۔۔۔۔
آرزو تھی ہم در سرکار انورؐ دیکھتے
اور پھر آنکھوں کو اس در پر بچھا کر دیکھتے
۔۔۔۔
نعتیہ کلام کا انتہائی خوبصورت مجموعہ ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت میں گندھا ہوا ہے اور یہ محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے جس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا ۔ دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
جوئے زیست
شاعر: نواز محمود
قیمت:300 روپے،صفحات:159
ملنے کا پتہ: محلہ جعفریہ ، جھنگ (03355931244)
بہت دنوں کے بعد شاعری کا ایسا گلدستہ نظر سے گزرا ہے جس کے چند اشعار پڑھتے ہی دل باغ باغ ہو گیا ۔ ہر شعر ادب کے مروجہ معیار کے مطابق ہے ۔ کہتے ہیں شاعری آمد ہے تو نواز محمود صاحب کی شاعری کے مطالعہ سے یہ بات بالکل صحیح ثابت ہوتی ہے۔
آج کل ایسے شعراء کی بھرمار ہو چکی ہے جو شعر بناتے رہتے ہیں جیسے معمار کسی دیوار میں اینٹیں چن رہا ہو گویا یہ آمد نہیں کوئی ایسا کام ہے جسے جب چاہیں کیا جا سکتا ہے،آمد سے اس کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا ، حالانکہ شاعری سراسر آمد سے ہی تخلیق ہوتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے جس کا سرورق پر لکھا شعر ہی چونکا دیتا ہے
سانس ضرب تیشہ ہے آدمی ہے اک فرہاد!
وقت کے پہاڑوں سے کاٹتا ہے جوئے زیست
ڈاکٹر ناصر عباس کہتے ہیں '' ہست اور ہستی انساں کو ازل سے لاحق اساسی سوالات ، الجھنیں اور تناقضات ، نواز محمو دکی غزل کی شعریات کے اساسی عناصر قائم ہوتے ہیں ۔ اس ارض پر اور اس فانی جسم کے ساتھ ، سماج کی تاریکی سے ایک ابدی تاریکی کی طرف سفر شاعر کی آگہی کا محرک بھی ہے اور اس آگہی کو سوز و کرب سے بھی ہمکنار کرتا ہے ۔ '' اسی طرح پروفیسر عابد رضا عابد کہتے ہیں '' ادبی ہنگامہ آرائی کے اس دور میں جہاں ہر طرف کتب و تحاریر کے انبار نظر آتے ہیں وہاں اسلوب اور منطقی انداز کے ساتھ ساتھ فکری گہرائی خال خال نظر آتی ہے۔
اکثر لکھاری اپنے ادبی تجربہ کے اظہار اور ترسیل میں ضبط اور توازن کے قائل نظر نہیں آتے ۔ عجلت پسندی اور چند ماہ کی فکری ریاضت کے بعد کتاب لانا کوئی عیب نہیں لگتا اور نہ کتاب چھاپنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ ان تمام تحفظات کو سامنے رکھ کر میں نے نواز محمود کی کتاب کا مسودہ پڑھا ۔ حمد، نعت، منقبت ، سلام اور تمام غزلیں اپنے موضوعات اور تخیلات میں موصوف کی محنت ، ادب سے دلچسپی اور فنی پختگی کا واضح ثبوت ہیں ۔ ان کی زندگی بھر کی ریاضت کا حاصل واحد ادبی اثاثہ زیر نظر کتاب ہے۔ شعر کہنے کے لئے خود کو مجبور نہیں کرتے بلکہ شعر گوئی عطائے فطرت ہے۔'' مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
میں کہاں کہاں سے گزر گیا
مصنف : نذیر احمد خواجہ
قیمت: 1000روپے،صفحات: 252
ناشر: ماہنامہ آتش فشاں ،78 ۔ ستلج بلاک ، علامہ اقبال ٹائون ، لاہور(03334332930)
اپنی زندگی کی پرتیں دوسروں کے سامنے کھولنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ انسان اپنی خوبیاں تو بیان کرنا پسند کرتا ہے مگر خامیوں پر پردہ پڑا رہنے دینا چاہتا ہے ، اس لئے عموماً آپ بیتی لکھنے سے کنارہ ہی کیا جاتا ہے ۔ نذیر احمد خواجہ اہم سرکاری عہدوں پر متعین رہے تاہم ان کا زیادہ تر وقت ریلوے کے اہم عہدوں پرگزرا، اہم سرکاری افسر ہونے کی وجہ سے ان کا تجربہ اور مشاہدہ دوسروں کی نسبت بہت گہرا اور پختہ ہے ایسا فرد جب بھی قلم اٹھائے گا تو اس کا قلم نشتر کا کام کرے گا ، یعنی وہ اگر قومی مسائل کو زیر بحث لائے گا تو صرف تنقید ہی نہیں کرے گا بلکہ حل بھی بتائے گا ۔
معروف دانشور ادیب و صحافی منیر احمد منیر کہتے ہیں، '' میں کہاں کہاں سے گزر گیا '' ایسی بلبل ہزار داستان قومی بے راہ روی پر جس میں سلگتی اور سسکتی یادیں ہویدا ۔ اگر حکام اس قیمتی اور اہم قومی اثاثے ، ریلوے ، پر سے تباہی ٹالنے میں مخلص ہیں تو انھیں اس کتاب کے ان مندرجات پر دیانت داری سے غور کرنا ہو گا ، کہ اس میں اجاڑ کی وجوہ کے ساتھ علاج بھی تجویز کیا گیا ہے ۔ جو یقیناً تیر بہ ہدف ہو گا ، کہ وہ نہ ایلوپیتھی ہے نہ ہومیو پیتھی ، خالص دیسی ٹوٹکا ہے ۔
ویسے تو مصنف ریلوے ہی نہیں سب قومی رویوں اور سوچ پر محض شہد حال ہی نہیں چارہ پرداز ہے اور چارہ گر بھی ۔ مسلکی تعصبات ، مقامی حکومتوں ، نظام تعلیم اور کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیز سے متعلق اس کے مشاہدات فکر انگیز اور توجہ طلب ہیں ۔ ''
مصنف کا انداز بیاں انتہائی بے تکلفانہ ہے، یوں لگتا ہے جیسے وہ سامنے بیٹھے کہانی سنا رہے ہوں، جگہ جگہ پنجابی کے الفاظ کے استعمال سے تحریر مزید جاندار ہو گئی ہے، روانی اور سلاست کی بات کی جائے تو پڑھنے والا تحریر کے بہائو میں بہتا چلا جاتا ہے ۔ یہ آپ بیتی ایسی ہے جس میں دوسروں کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
یاد اقبال
مرتب: جمیل اطہر قاضی
قیمت:1000روپے،صفحات:216
ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)
حضرت علامہ محمد اقبالؒ شاعر ، مفکر ، سیاستدان ،ایڈووکیٹ ، دانشور، فلاسفر غرض کیا کچھ نہ تھے ، ان کی نظر نہ صرف مسلم امہ کے ماضی پر تھی بلکہ وہ مسلمانوں کے آنے والے وقت کو شاندار بنانے کے خواہاں تھے۔
ان کی بصیرت وہ کچھ دیکھتی تھی جس سے دوسرے دانشور نابلد تھے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں علم کے ساتھ ساتھ معرفت بھی عطا فرمائی تھی ، بزرگان دین کا فیض ان کی رہنمائی کر رہا تھا ۔ ان کی شخصیت پر سینکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں ، ہزاروں مضامین لکھے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری ، مضامین اور تقاریر کا جب بھی مطالعہ کیا جائے تحقیق کا کوئی نیا پہلو سامنے آ جاتا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں حضرت علامہ اقبال کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر مضامین یکجا کئے گئے ہیں جو ہفت روزہ وفاق کے مختلف شماروں میں شائع ہوتے رہے ، یہی ہفت روزہ بعد میں روزنامہ کے طور پر شائع ہونے لگا ۔ مضامین لکھنے والی شخصیات کا علمی مرتبہ ایسا ہے کہ خود ان کی شخصیت پر مضامین لکھے جانے کی ضرورت ہے جیسے پروفیسر افتخار احمد چشتی ، پروفیسر منور مرزا ، مولانا عبدالمجید سالک ، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد ، شریف احسن ، ڈاکٹر وزیر آغا ، کوثر نیازی خلیق قریشی و دیگر ، اسی سے ان مضامین کے علمی و ادبی مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مضامین کے موضوعات میں یاد اقبال، حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور علامہ اقبال، اقبال حضور رسالت مآبﷺ میں، اقبال اور فنون لطیفہ ، اقبال اپنے خطوط کے آئینہ میں ، اقبال کا تصور تعلیم ، اقبال کی فطرت پرستی ، پاکستان کا تخیل اور اقبال ، اقبال اور پاکستان ، بانگ درا کا مطالعہ ، اقبال بحیثیت مرثیہ گو ، سلام عقیدت ، اقبال کی اردو نظمیں ، اقبال کی شاعری کا دوسرا دور ، اقبال کا شاعرانہ لب و لہجہ ، اقبال بحیثیت اقبال شامل ہیں ۔ علامہ اقبال ؒ کی فکر اور سوچ کو سمجھنے کے لئے ان مضامین کا مطالعہ بہت مفید ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
مسلم لیگ اور تحریک پاکستان
مصنف : پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
قیمت:1600روپے، صفحات:328
ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ، لاہور(03014568820)
پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی، پرنسپل (ر) اینڈ چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ڈینٹل پبلک ہیلتھ کالج آف کمیونٹی میڈیسن لاہور، سابق صدر سائوتھ ایشیا ڈینٹل ایسوسی ایشن فیڈریشن ، سابق صدر پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن لاہور ایسے ہی متعدد اعزازات کے مالک ہیں۔
ان کے متعدد تحقیقی مضامین بین الاقوامی کتابوں میں شائع ہو چکے ہیں ، بے شمار عالمی کانفرنسز میں تحقیقی مقالے پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کوئی درجن سے زائد تصانیف ان کے زور قلم کا شاہکار ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ سماجی خدمت کاجذبہ بھی رکھتے ہیں اور متعدد سماجی تنظیموں کے ساتھ منسلک ہیں ۔گویا ان کی شخصیت ایک ایسا ادارہ ہے جو ہر طرح سے پاکستانی معاشرے کی خدمت میں پیش پیش ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب میں انھوں نے تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کے کردار پر روشنی ڈالی ہے ، دیکھا جائے تو مسلم لیگ ہی اصل میں تحریک پاکستان ہے ، کیونکہ مسلمانوں کے حقوق کے حصول کے لئے قائم کی گئی مسلم لیگ نے ہی انگریزوں سے آزادی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی آواز اٹھائی، اور مسلمانوں کو باور کرایا کہ اگر انھوں نے اپنے لئے الگ وطن حاصل نہ کیا تو وہ انگریزوں کے بعد ہندووں کے محکوم بن رہ جائیں گے ۔
مہاتما گاندھی جو ہندوستان میں سب قومیتوں کے برابر کے حقوق کے علمبردار تھے انھیں ایک ہندو انتہا پسند گوڈسے نے صرف اس لئے قتل کر دیا کہ وہ ہندوئوں کے علاوہ دوسری قومیتوں کی بات کیوں کرتے ہیں ۔ یہ قتل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اگر پاکستان معرض وجود میں نہ آتا تو ہندو مسلمانوں کا جینا حرام کئے رکھتے جیسا کہ آج کل مودی سرکار نے انڈین اقلیتوں کا کیا ہوا ہے ۔ تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کی جدوجہد کو پینسٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
آخر میں حضرت قائداعظم کی وہ تاریخی تقریر بھی دی گئی ہے جو انھوں نے منٹو پارک جسے اب مینار پاکستان پارک کہتے ہیں ، میں کی ۔ کتابیات کا باب بھی شامل ہے تاکہ تحقیقی پہلو نمایاں رہے ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے تاریخ پاکستان سے شغف رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ بڑے سائز کی مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
محمد بن سلمان
مصنف : بین ہوبارڈ،ترجمہ : محمد احسن
قیمت:1000 روپے،صفحات:411
ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، 14/Bعلی پلازہ ، ٹیمپل روڈ ، لاہور (03009482775)
مسلمان ممالک میں سعودی عرب کی اہمیت ایسے ہی ہے جیسے آسمان کے ستاروں میں ماہتاب کی ۔ کیونکہ مسلمانوں کے مقدس ترین شہر مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں ہیں ۔ اسی لئے پوری دنیا میں سعودی عرب کو اہم مقام حاصل ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی زندگی کے بارے میں لکھی گئی مگر مصنف نے ان کی زندگی پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ السعود خاندان کے اس خطے میں عروج کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے سلطنت عثمانیہ سے الگ ریاست بنانے میں انھیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور مذہبی رہنما شیخ محمد ابن عبدالوہاب کی مدد سے انھوں نے کیسے عروج حاصل کیا اور سعودی عرب میں بسنے والے قبائل کو کیسے اپنے زیر نگیں کیا۔
انیسیویں صدی عیسوی میں جب سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرا تو شاہ عبدالعزیز کو اپنی ریاست وسیع اور مضبوط کرنے کا موقع ملا ، صحیح معنوں میں کامرانیوں کے دروازے اس وقت کھلے جب یہاں سے تیل کے سرچشمے دریافت ہوئے۔
موجودہ شاہ سلمان روایت پرست ہونے کے باوجود جدید خیالات کے مالک ہیں انھوں نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کی تربیت جدید خطوط پر کی اور جیسے ہی وہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوا ، اسے حکومتی نظم و نسق میں اہم عہدے اور بے پناہ اختیارات تفویض کر دیئے ۔
اپنے جدید خیالات کی وجہ سے محمد سلمان سعودی عرب کو بدل رہا ہے، سعودی عرب کی قدامت پسندی کو بدلنا کچھ آسان نہیں ہے مگر بے پناہ اختیارات اور طاقت کی وجہ سے اس کے لئے سب کچھ آسان ہو گیا ہے ۔
وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کر دیتا ہے ۔ مصنف کو محمد بن سلمان کے حوالے سے مواد اکٹھا کرنے میں سالہا سال لگے کیونکہ اس کی زندگی کے بارے میں چیدہ چیدہ مختلف رسالوں اور اخبارات میں شائع ہوتا رہتا تھا اس کے علاوہ کوئی خاص زریعہ نہ تھا اس کے لئے مصنف کو سعودی عرب میں بھی کافی وقت گزارنا پڑا ۔
انتہائی شاندار کتاب ہے ، سعودی عرب کے بدلتے حالات کے بارے میں جاننے کے لئے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ، خاص طور پر محمد بن سلمان کے بارے میں اتنا مواد ایک جگہ اکٹھا کہیں اور نہیں مل سکتا ۔ مجلد کتاب دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گئی ہے ۔
جوہر قابل
مصنف: خالد ارشاد صوفی،صفحات:260
ناشر:کاروان علم فائونڈیشن مکان نمبر 604 بلاک سی فیصل ٹائون ، لاہور 03218461122
زندگی میں مشکلات تو بہت پیش آتی ہیں مگر ان سے گبھرانا نہیں چاہیے۔ بقول شاعر
تندی باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
مولا علیؑ کا فرمان عالی شان ہے کہ اگر زندگی میں کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی تو سوچنا چاہیے کہ کہیں غلط راستے پر تو نہیں جا رہے ، کیونکہ جب بھی صحیح راستے پر چلیں گے تو مشکلات ضرور پیش آئیں گی ۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر اس انسان کو اپنی منزل تک پہنچنے میں کئی نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑے گا جو درست سمت میں بڑھنے کی کوشش کر رہا ہو گا ، کیونکہ شیطان کا کام ہی یہی ہے کہ درست سمت میں بڑھنے والے کو پریشان کرے اس کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرے ، اس لئے مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے ۔
زیر تبصرہ کتاب ان طالبعلموں کی داستان جدوجہد پر مشتمل ہے جنھوں نے اپنی منزل حاصل کرنے کے لئے ہر مشکل کا سامنا کیا ایسے میں اللہ نے ان کی مدد کی اور کاروان علم فائونڈیشن ان کا سہارا بنی ۔ کاروان علم فائونڈیشن ہر اس قابل طالبعلم کا سہارا بنتی ہے جو مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری رکھنے میں مشکل محسوس کرتا ہے ، ایسے میں فائونڈیشن رابطہ کرنے والے ایسے جوہر قابل کا ٹیلنٹ بچانا اپنا فرض سمجھتی ہے ، کیونکہ یہی ہمارے مستقبل کے معمار ہیں گویا فائونڈیشن پاکستان کا مستقبل محفوظ کر رہی ہے ۔ کتاب میں ایسے سولہ طلبہ کی کہانیاں ہیں جو عزم کا پہاڑ ثابت ہوئے ۔
ان کہانیوں کو پڑھ کر دل جوش و جذبہ سے معمور ہو جاتا ہے ۔ تحریر بہت رواں اور دل کو چھو لینے والی ہے ۔ نئی نسل کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان کو عزم کے ان پہاڑوں کی داستانیں پڑھ کر منزل کو پا لینے کا ہمت و حوصلہ ملے۔ مجلدکتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
مناجات مدینہ
تدوین و خیال: شہاب ظفر،صفحات:80
ملنے کا پتہ:مکان نمبر 179 اسٹریٹ 33 ، سیکٹر آئی ایٹ ٹو ، اسلام آباد
احمد مجتبیٰ، ختم الرسل، صاحب لولاک، محبوب کبریا، تاجدار مدینہ حضرت محمد ﷺ اس کائنات کی عظیم ترین ہستی ہیں ، آپ ﷺ وہ ہستی ہیں جن کی تعریف دوسرے مذاہب کے دانشور بھی کرنے پر مجبور ہیں ، کیونکہ آپ اخلاق حسنہ کا اعلٰی ترین نمونہ ہیں ۔ اللہ جل شانہ خود اپنے محبوب کی شان بیان کرتا ہے ۔ تو ایسی ہستی کے در پر حاضری دینے کی خواہش کیوں پیدا نہیں ہو گی ۔
آپ ﷺ کے در پر حاضر ہونے کے لئے ہر مسلمان دعا کرتا ہے ۔ شعراء کو یہ تخصیص حاصل ہے وہ اپنی مناجات شاعری کے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ زیر تبصرہ مجلہ میں ایسے ایک ہزار سے زائد اشعار اکٹھے کئے گئے ہیں جن میں آپ ﷺ کے در پر حاضری کی درخواست کی گئی ہے اسی لئے اس کا عنوان ' مناجات مدینہ ' رکھا گیا ہے ۔ اتنے خوبصورت اشعار ہیں کہ پڑھتے ہی انسان پر وجد کی سی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے جیسے
حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کیلئے حاضر غلام ہو جائے
۔۔۔۔
بھرنے والا ہے میری عمر کا پیمانہ ریاض
کاش جا پہنچوں مدینے میں قضا سے پہلے
۔۔۔۔
آرزو تھی ہم در سرکار انورؐ دیکھتے
اور پھر آنکھوں کو اس در پر بچھا کر دیکھتے
۔۔۔۔
نعتیہ کلام کا انتہائی خوبصورت مجموعہ ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت میں گندھا ہوا ہے اور یہ محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے جس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا ۔ دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
جوئے زیست
شاعر: نواز محمود
قیمت:300 روپے،صفحات:159
ملنے کا پتہ: محلہ جعفریہ ، جھنگ (03355931244)
بہت دنوں کے بعد شاعری کا ایسا گلدستہ نظر سے گزرا ہے جس کے چند اشعار پڑھتے ہی دل باغ باغ ہو گیا ۔ ہر شعر ادب کے مروجہ معیار کے مطابق ہے ۔ کہتے ہیں شاعری آمد ہے تو نواز محمود صاحب کی شاعری کے مطالعہ سے یہ بات بالکل صحیح ثابت ہوتی ہے۔
آج کل ایسے شعراء کی بھرمار ہو چکی ہے جو شعر بناتے رہتے ہیں جیسے معمار کسی دیوار میں اینٹیں چن رہا ہو گویا یہ آمد نہیں کوئی ایسا کام ہے جسے جب چاہیں کیا جا سکتا ہے،آمد سے اس کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا ، حالانکہ شاعری سراسر آمد سے ہی تخلیق ہوتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے جس کا سرورق پر لکھا شعر ہی چونکا دیتا ہے
سانس ضرب تیشہ ہے آدمی ہے اک فرہاد!
وقت کے پہاڑوں سے کاٹتا ہے جوئے زیست
ڈاکٹر ناصر عباس کہتے ہیں '' ہست اور ہستی انساں کو ازل سے لاحق اساسی سوالات ، الجھنیں اور تناقضات ، نواز محمو دکی غزل کی شعریات کے اساسی عناصر قائم ہوتے ہیں ۔ اس ارض پر اور اس فانی جسم کے ساتھ ، سماج کی تاریکی سے ایک ابدی تاریکی کی طرف سفر شاعر کی آگہی کا محرک بھی ہے اور اس آگہی کو سوز و کرب سے بھی ہمکنار کرتا ہے ۔ '' اسی طرح پروفیسر عابد رضا عابد کہتے ہیں '' ادبی ہنگامہ آرائی کے اس دور میں جہاں ہر طرف کتب و تحاریر کے انبار نظر آتے ہیں وہاں اسلوب اور منطقی انداز کے ساتھ ساتھ فکری گہرائی خال خال نظر آتی ہے۔
اکثر لکھاری اپنے ادبی تجربہ کے اظہار اور ترسیل میں ضبط اور توازن کے قائل نظر نہیں آتے ۔ عجلت پسندی اور چند ماہ کی فکری ریاضت کے بعد کتاب لانا کوئی عیب نہیں لگتا اور نہ کتاب چھاپنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ ان تمام تحفظات کو سامنے رکھ کر میں نے نواز محمود کی کتاب کا مسودہ پڑھا ۔ حمد، نعت، منقبت ، سلام اور تمام غزلیں اپنے موضوعات اور تخیلات میں موصوف کی محنت ، ادب سے دلچسپی اور فنی پختگی کا واضح ثبوت ہیں ۔ ان کی زندگی بھر کی ریاضت کا حاصل واحد ادبی اثاثہ زیر نظر کتاب ہے۔ شعر کہنے کے لئے خود کو مجبور نہیں کرتے بلکہ شعر گوئی عطائے فطرت ہے۔'' مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
میں کہاں کہاں سے گزر گیا
مصنف : نذیر احمد خواجہ
قیمت: 1000روپے،صفحات: 252
ناشر: ماہنامہ آتش فشاں ،78 ۔ ستلج بلاک ، علامہ اقبال ٹائون ، لاہور(03334332930)
اپنی زندگی کی پرتیں دوسروں کے سامنے کھولنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ انسان اپنی خوبیاں تو بیان کرنا پسند کرتا ہے مگر خامیوں پر پردہ پڑا رہنے دینا چاہتا ہے ، اس لئے عموماً آپ بیتی لکھنے سے کنارہ ہی کیا جاتا ہے ۔ نذیر احمد خواجہ اہم سرکاری عہدوں پر متعین رہے تاہم ان کا زیادہ تر وقت ریلوے کے اہم عہدوں پرگزرا، اہم سرکاری افسر ہونے کی وجہ سے ان کا تجربہ اور مشاہدہ دوسروں کی نسبت بہت گہرا اور پختہ ہے ایسا فرد جب بھی قلم اٹھائے گا تو اس کا قلم نشتر کا کام کرے گا ، یعنی وہ اگر قومی مسائل کو زیر بحث لائے گا تو صرف تنقید ہی نہیں کرے گا بلکہ حل بھی بتائے گا ۔
معروف دانشور ادیب و صحافی منیر احمد منیر کہتے ہیں، '' میں کہاں کہاں سے گزر گیا '' ایسی بلبل ہزار داستان قومی بے راہ روی پر جس میں سلگتی اور سسکتی یادیں ہویدا ۔ اگر حکام اس قیمتی اور اہم قومی اثاثے ، ریلوے ، پر سے تباہی ٹالنے میں مخلص ہیں تو انھیں اس کتاب کے ان مندرجات پر دیانت داری سے غور کرنا ہو گا ، کہ اس میں اجاڑ کی وجوہ کے ساتھ علاج بھی تجویز کیا گیا ہے ۔ جو یقیناً تیر بہ ہدف ہو گا ، کہ وہ نہ ایلوپیتھی ہے نہ ہومیو پیتھی ، خالص دیسی ٹوٹکا ہے ۔
ویسے تو مصنف ریلوے ہی نہیں سب قومی رویوں اور سوچ پر محض شہد حال ہی نہیں چارہ پرداز ہے اور چارہ گر بھی ۔ مسلکی تعصبات ، مقامی حکومتوں ، نظام تعلیم اور کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیز سے متعلق اس کے مشاہدات فکر انگیز اور توجہ طلب ہیں ۔ ''
مصنف کا انداز بیاں انتہائی بے تکلفانہ ہے، یوں لگتا ہے جیسے وہ سامنے بیٹھے کہانی سنا رہے ہوں، جگہ جگہ پنجابی کے الفاظ کے استعمال سے تحریر مزید جاندار ہو گئی ہے، روانی اور سلاست کی بات کی جائے تو پڑھنے والا تحریر کے بہائو میں بہتا چلا جاتا ہے ۔ یہ آپ بیتی ایسی ہے جس میں دوسروں کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
یاد اقبال
مرتب: جمیل اطہر قاضی
قیمت:1000روپے،صفحات:216
ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)
حضرت علامہ محمد اقبالؒ شاعر ، مفکر ، سیاستدان ،ایڈووکیٹ ، دانشور، فلاسفر غرض کیا کچھ نہ تھے ، ان کی نظر نہ صرف مسلم امہ کے ماضی پر تھی بلکہ وہ مسلمانوں کے آنے والے وقت کو شاندار بنانے کے خواہاں تھے۔
ان کی بصیرت وہ کچھ دیکھتی تھی جس سے دوسرے دانشور نابلد تھے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں علم کے ساتھ ساتھ معرفت بھی عطا فرمائی تھی ، بزرگان دین کا فیض ان کی رہنمائی کر رہا تھا ۔ ان کی شخصیت پر سینکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں ، ہزاروں مضامین لکھے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری ، مضامین اور تقاریر کا جب بھی مطالعہ کیا جائے تحقیق کا کوئی نیا پہلو سامنے آ جاتا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں حضرت علامہ اقبال کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر مضامین یکجا کئے گئے ہیں جو ہفت روزہ وفاق کے مختلف شماروں میں شائع ہوتے رہے ، یہی ہفت روزہ بعد میں روزنامہ کے طور پر شائع ہونے لگا ۔ مضامین لکھنے والی شخصیات کا علمی مرتبہ ایسا ہے کہ خود ان کی شخصیت پر مضامین لکھے جانے کی ضرورت ہے جیسے پروفیسر افتخار احمد چشتی ، پروفیسر منور مرزا ، مولانا عبدالمجید سالک ، پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد ، شریف احسن ، ڈاکٹر وزیر آغا ، کوثر نیازی خلیق قریشی و دیگر ، اسی سے ان مضامین کے علمی و ادبی مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مضامین کے موضوعات میں یاد اقبال، حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور علامہ اقبال، اقبال حضور رسالت مآبﷺ میں، اقبال اور فنون لطیفہ ، اقبال اپنے خطوط کے آئینہ میں ، اقبال کا تصور تعلیم ، اقبال کی فطرت پرستی ، پاکستان کا تخیل اور اقبال ، اقبال اور پاکستان ، بانگ درا کا مطالعہ ، اقبال بحیثیت مرثیہ گو ، سلام عقیدت ، اقبال کی اردو نظمیں ، اقبال کی شاعری کا دوسرا دور ، اقبال کا شاعرانہ لب و لہجہ ، اقبال بحیثیت اقبال شامل ہیں ۔ علامہ اقبال ؒ کی فکر اور سوچ کو سمجھنے کے لئے ان مضامین کا مطالعہ بہت مفید ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔