دشمنی ۔۔۔ معاشرے کی دشمن
نوجوان اپنے خون میں دشمنی کا وائرس نہ پھیلنے دیں
CHITRAL:
پشتو کا ایک شعر ہے کہ
لیونیہ کہ پہ جنگ عزت موندے شوے
سپی بہ ٹول وو د خپل کلی مشران
''اگر جنگ وجد ل میں عزت ہوتی تو کتے اپنے اپنے گاؤں کے سرپنج (مشران) ہوتے'' مگر اس کے باوجود جب ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں، الیکٹرانک وسوشل میڈیا کے اور اخبارات پڑھتے اور سنتے ہیں تو ہر روز کسی نہ کسی علاقے میں ایک دوسرے کو مارنے اور قتل کرنے کا واقعہ سامنے آتا ہے۔
گذشتہ دنوں پشاور کے قریب ہزارخوانی کے علاقہ پنج پیر میں گھر میں مہندی کی تقریب میں میوزک تیز کرنے کے تنازع پر ایک بھائی نواب زادہ نے مشتعل ہوکر اپنے بھائی ثاقب اور بھابھی کو قتل کردیا جب کہ اس کا والد اور راہ گیر شدید زخمی ہوگیا اور اس طرح شادی والا گھر ماتم کدہ بن گیا۔
یہ واقعہ اس بات کا زندہ ثبوت پیش کرتا ہے کہ ہزاروں سال بیت گئے مگر ہابیل کے خون سے رنگین ہونے والے قابیل کے ہاتھوں کی سُرخی تاحال نہیں چھوٹ سکی بل کہ حضرت انسان اس کو گہرا کرتا جا رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ خاندانی دشمنیاں ہیں، جو دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کو چاٹ رہی ہیں۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ ہم اس سے چھٹکارا پانے کے بجائے اس کی ''پرورش'' میں لگے ہیں، اور اس اسلامی حکم ''ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے'' پر ''لوگ کیا کہیں گے'' کو فوقیت دے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسانی خون سستا بل کہ مفت ہوگیا ہے۔
''دشمنی'' ایک ایسا لفظ اور فعل ہے جسے شاید ہی کوئی پسند کرے، مگر اس کے باوجود اسے انسان نے سینے سے لگا رکھا ہے اور اپنی زندگی سے زیادہ دوسروں کی موت کی فکر رہتی ہے ۔ کسی بھی بڑی سے بڑی اور دیرینہ دشمنی کے اوراق ماضی پلٹائے جائیں تو سامنے آتا ہے کہ شروعات کسی چھوٹی سی بات سے ہوئی مگر اس چھوٹی سی بات کو اس لیے رفع دفع نہیں کیا گیا کیوں کہ جھوٹی انا بیچ میں دیوار چین بن گئی اور وہاں سے بھڑکنے والی آگ دونوں خاندانوں کو دھوئیں کی شکل میں ہوا کے دوش پر لاد کر ہی سرد ہوئی۔
ہمارے ہاں دشمنیاں خود رو پودوں کی طرح آئے دن پھوٹ پڑتی ہیں اور ''آکاس بیل'' کی مانند پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رہی ہیں، جس کا ثبوت اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں ہیں۔ اخبارات میں جس حساب سے مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل کی خبریں آرہی ہیں، اس سے لگتا ہے کہ دنیا میں کچھ اور ہو ہی نہیں رہا اور انسان کے مُنہ کو خون لگ گیا ہے جو انسانیت کو ختم کرکے ہی رہے گا۔
ایک پڑھے لکھے بزرگ جو دشمن دار بھی ہیں، سے عداوت کی بابت بات ہوئی تو گویا ہوئے کہ نشہ اور دشمنی ایسی چیزیں ہیں جنہیں انسان نہ چاہتے ہوئے بھی نبھاتا چلا جاتا ہے۔ دشمنی چھوڑنے کے سوال پر بولے کہ میں اگر دشمنی چھوڑ بھی دوں تو یہ مجھے نہیں چھوڑے گی۔ اس کی مثال بھیگے کمبل جیسی ہے، ان ساری باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں شاید دشمنی سے بڑی کوئی سزا نہیں، تاریخی اور حالیہ طور پر انسان اور جانوروں کا موازنہ کیا جائے تو انسان ''حیوانیت'' کے درجے بل کہ اس سے بھی بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔
جب سے دنیا بنی ہے کتنی جنگیں ہوئیں، کتنی دشمنیاں چلیں، انسان گاجر مولی کی طرح انسانوں کے ہی ہاتھوں کٹتے رہے، کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے، تیل کے لیے خون پانی کی طرح بہایا گیا، اسلام جیسے امن پسند دین کے نام پر قتل عام ہوئے، ملکوں پر ایٹم بم گرائے گئے، خواتین و بچوں کو ڈیزی کٹر بموں کا نشانہ بنایا گیا، فرقہ واریت کے نام پر خون کی ہولیاں کھیلی گئیں، اس کے علاوہ بھی ایسے لاتعداد تلخ حقائق ہیں جن میں کروڑوں انسان مختلف دشمنیوں کی بھینٹ چڑھے۔
آج تک انسان کے ہاتھوں جتنے انسان مرے ہیں جانوروں نے اتنے جانور نہیں مارے ہوں گے اور ہم ''اشرف المخلوقات'' ہونے کے باوجود حیوانیت کی حدیں عبور کرگئے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ انسان آئے دن نت نئے ہتھیار بناتا رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہتھیار صرف جان لے سکتے ہیں۔
دے نہیں سکتے، دوسری طرف آج تک جانوروں نے ایسی کوئی چیز نہیں بنائی جس سے جان لی جاسکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جانور قدرت کے بنائے ہوئے سسٹم کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں جب کہ انسان نام نہاد اور خود ساختہ معاملات کے پیچھے بھاگتا ہوا اس کی حدیں پھلانگ کر اتنا دور نکل گیا ہے کہ واپسی بہت مشکل ہوگئی ہے۔
آج بھی کسی ظالم اور سفاک شخص کو جانور سے تشبیہ دی جاتی ہے جو کہ جانوروں کے ساتھ ناانصافی سی معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی دشمنیوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے ''مسلمان ہونا'' اور اسلام میں مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیا ہے، اس کے باوجود بھائی کا بھائی کے خون کا پیاسا ہونا انتہائی تشویش ناک ہے۔ اگر بات حق و باطل کی ہو۔
ملکی سرحدوں کی ہو پھر بھی جنگ کا جواز بنتا ہے مگر اپنے ہی لوگوں کے گھر میں صف ماتم بچھانے کے لیے کوشاں رہنا، مسلمان بھائی کے قتل کی منصوبہ بندی کرنا کسی طور درست نہیں، کسی ایک فرد کی بھول سے اس خاندان پر ٹوٹ پڑنے والی قیامت تو اپنی جگہ مگر حد تو یہ ہے کہ اس خاندان کے دیگر افراد بھی اس آگ میں کودتے رہتے ہیں اور ایک دن جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔
چند ماہ قبل ضلع کرک کے سلیم بانڈہ میں جائیداد کے تنازع پر باپ تین بیٹوں سمیت قتل کردیے گئے اور جیسے ہی شوہر اور بیٹوں کی ہلاکت کی خبر ماں نے سنی تو وہ بھی اس صدمہ کو برداشت نہ کرسکی اور انتقال کرگئی، اس طرح گزشتہ عید قربان پر مردان کے قریب گاؤں طورو رقم کے تنازع پر رشتے داروں میں فائرنگ کے نتیجے میں چھ افراد جاں بحق جب کہ پانچ زخمی ہوئے تھے جس کے بعد مصیبت کی وہ آندھی چلی جو آج تک جاری ہے سب کو روپوش ہونا پڑا، خواتین کو رشتہ داروں کی طرف بھیجنا پڑا، گھر پر آئے روز چھاپے پڑتے رہے۔
مسلسل روپوشی سے کاروبار تباہ ہوگئے ہیں جب کہ پولیس اور دشمنوں کے خوف کے سائے اس کے علاوہ ہیں۔ اب اگر اس بات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی خود بڑھائی گئی، جھگڑا کرنے والے کو سمجھایا جاسکتا تھا، معززین کو بیچ میں ڈالا جاسکتا تھا، قانون کی مدد بھی لی جاسکتی تھی۔
اگر ان باتوں پر غور کر لیا جاتا تو شاید یہ معاملہ اتنا گمبھیر نہ ہوتا، اوپر قانون کا ذکر آیا ہے مگر کچھ لوگ اسے ہی دشمنی کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں کیوں کہ اکثر جرم کرنے والے کے خلاف درست طور پر رپورٹ درج نہیں کی جاتی اور اسی بنا پر وہ رہا ہوجاتا ہے اور یہی شخص جب آزادانہ طور پر متاثرین کے سامنے پھرے گا تو اس کے نتیجے میں قتل و غارت نہیں تو اور کیا ہوگا؟ اس لیے درست طور پر قانونی تقاضے پورے کیے جائیں تو ایسے بہت سے سلسلے چلنے سے پہلے ہی رک سکتے ہیں۔
دشمنی ایک ایسا جادوئی حصار ہے جس کے اندر پہنچ کر عقل مند اور پڑھے لکھے لوگ بھی سب کچھ بھول جاتے ہیں اور ان پر ایک ہی دھن سوار رہتی ہے۔ ہم اس پیغمبرﷺ کے پیروکار ہیں جن کے صبر کی مثالوں سے دیگر مذاہب کی کتابیں بھی بھری پڑی ہیں جنہوں نے مشرکوں کی طرف سے پھینکے جانے والے پتھر خندہ پیشانی سے سہے، آپ کے دانت مبارک شہید ہوئے، عزیزو اقارب کو شہید کیا گیا، الزامات لگائے گئے، مگر آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ظلم کرنے والوں کو ہدایت کی دعا دی۔ دوسری طرف ہم ان سے محبت کے دعوے دار ہیں، مگر ہم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا تو درکنار سرے سے پکڑا ہی نہیں اور ہدایات سے روگردانی ہمارے اوپر ٹوٹنے والے مصائب کے پہاڑ کی بنیادی وجہ ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر دشمنی مسلط کی گئی، ہم تو اسے مجبوراً نبھا رہے ہیں کیوں کہ ہمارے پیارے کی جان گئی ہے اور اسلام آنکھ کے بدلے آنکھ، ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور جان کے بدلے جان کا حکم دیتا ہے۔ ان لوگوں کی بات بالکل درست ہے کیوں کہ اپنے کسی پیارے کے خون سے نظریں نہیں پھیری جاسکتیں مگر یہ بات بھی تو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ معاف کر دینا حضرت محمدﷺ کی سنت ہے۔
پاکستان کیا دنیا بھر میں بڑھتی دشمنی کے نمونے اخبارات کی شکل میں روز ہی ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں ، فائرنگ، دھماکے، قتل، زخمی، جاںبحق، ہلاک، چھلنی، سمیت کتنے ہی ایسے دل دہلا دینے والے الفاظ سالہاسال سے تواتر کے ساتھ اخبارات کا پیٹ بھر رہے ہیں۔
افغانستان، عراق سمیت دیگر ممالک میں بے گناہوں کے قتل پر ہم افسوس اور اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں مگر اپنے گلی محلوں میں قتل و غارت کی نرسریاں بننے والی دشمنیوں کے بارے میں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں اور ساری ذمے داری ''مشران یا بزرگوں'' پر ڈالتے رہتے ہیں۔ پشتو کے لفظ ''مشر'' کا مطلب بڑا یا بزرگ اور مہ کوہ شر یعنی شر نہ کرنے والا ہے، مگر عقل و دانش کے لیے بزرگ ہونا شرط نہیں، اس لیے نوجوانوں سمیت تمام طبقات بھی اس کے تدارک میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ایسے نوجوان جن کے خاندانوں میں دشمنی کی چنگاریاں موجود ہیں، ان کے دوست احباب آگے آئیں اور امن و محبت کی شبنم سے اسے ٹھنڈا کریں اور ایسے لوگ جن کا جانی یا کسی قسم کا نقصان ہوا ہے وہ بھی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضورﷺ کی معاف کرنے کی سنت دہرائیں کیوں کہ آگ اسی وقت بجھ سکتی ہے جب اسے بجھانے کی کوشش کی جائے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر بھی بجھ جاتی ہے لیکن سب کچھ جلانے کے بعد۔ دریں اثناء دشمنی کے خاتمے کے لیے کردار تو سب کو ہی ادا کرنا چاہیے لیکن نوجوانوں کا کردار اس لحاظ سے کافی مثبت نتائج لا سکتا ہے۔
چوں کہ نوجوان معاشرے کا حال اور مستقبل ہوتے ہیں، اس لیے ان سے گزارش ہے کہ اس تازہ خون میں دشمنی اور نفرت سمیت دوسرے وائرس نہ پھیلنے دیں۔ اور نفرتوں کا خاتمہ محبت سے کریں کیوں کہ نفرت کا خاتمہ نفرت سے کبھی نہیں ہو سکتا۔
پشتو کا ایک شعر ہے کہ
لیونیہ کہ پہ جنگ عزت موندے شوے
سپی بہ ٹول وو د خپل کلی مشران
''اگر جنگ وجد ل میں عزت ہوتی تو کتے اپنے اپنے گاؤں کے سرپنج (مشران) ہوتے'' مگر اس کے باوجود جب ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں، الیکٹرانک وسوشل میڈیا کے اور اخبارات پڑھتے اور سنتے ہیں تو ہر روز کسی نہ کسی علاقے میں ایک دوسرے کو مارنے اور قتل کرنے کا واقعہ سامنے آتا ہے۔
گذشتہ دنوں پشاور کے قریب ہزارخوانی کے علاقہ پنج پیر میں گھر میں مہندی کی تقریب میں میوزک تیز کرنے کے تنازع پر ایک بھائی نواب زادہ نے مشتعل ہوکر اپنے بھائی ثاقب اور بھابھی کو قتل کردیا جب کہ اس کا والد اور راہ گیر شدید زخمی ہوگیا اور اس طرح شادی والا گھر ماتم کدہ بن گیا۔
یہ واقعہ اس بات کا زندہ ثبوت پیش کرتا ہے کہ ہزاروں سال بیت گئے مگر ہابیل کے خون سے رنگین ہونے والے قابیل کے ہاتھوں کی سُرخی تاحال نہیں چھوٹ سکی بل کہ حضرت انسان اس کو گہرا کرتا جا رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ خاندانی دشمنیاں ہیں، جو دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کو چاٹ رہی ہیں۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ ہم اس سے چھٹکارا پانے کے بجائے اس کی ''پرورش'' میں لگے ہیں، اور اس اسلامی حکم ''ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے'' پر ''لوگ کیا کہیں گے'' کو فوقیت دے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسانی خون سستا بل کہ مفت ہوگیا ہے۔
''دشمنی'' ایک ایسا لفظ اور فعل ہے جسے شاید ہی کوئی پسند کرے، مگر اس کے باوجود اسے انسان نے سینے سے لگا رکھا ہے اور اپنی زندگی سے زیادہ دوسروں کی موت کی فکر رہتی ہے ۔ کسی بھی بڑی سے بڑی اور دیرینہ دشمنی کے اوراق ماضی پلٹائے جائیں تو سامنے آتا ہے کہ شروعات کسی چھوٹی سی بات سے ہوئی مگر اس چھوٹی سی بات کو اس لیے رفع دفع نہیں کیا گیا کیوں کہ جھوٹی انا بیچ میں دیوار چین بن گئی اور وہاں سے بھڑکنے والی آگ دونوں خاندانوں کو دھوئیں کی شکل میں ہوا کے دوش پر لاد کر ہی سرد ہوئی۔
ہمارے ہاں دشمنیاں خود رو پودوں کی طرح آئے دن پھوٹ پڑتی ہیں اور ''آکاس بیل'' کی مانند پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رہی ہیں، جس کا ثبوت اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں ہیں۔ اخبارات میں جس حساب سے مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل کی خبریں آرہی ہیں، اس سے لگتا ہے کہ دنیا میں کچھ اور ہو ہی نہیں رہا اور انسان کے مُنہ کو خون لگ گیا ہے جو انسانیت کو ختم کرکے ہی رہے گا۔
ایک پڑھے لکھے بزرگ جو دشمن دار بھی ہیں، سے عداوت کی بابت بات ہوئی تو گویا ہوئے کہ نشہ اور دشمنی ایسی چیزیں ہیں جنہیں انسان نہ چاہتے ہوئے بھی نبھاتا چلا جاتا ہے۔ دشمنی چھوڑنے کے سوال پر بولے کہ میں اگر دشمنی چھوڑ بھی دوں تو یہ مجھے نہیں چھوڑے گی۔ اس کی مثال بھیگے کمبل جیسی ہے، ان ساری باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں شاید دشمنی سے بڑی کوئی سزا نہیں، تاریخی اور حالیہ طور پر انسان اور جانوروں کا موازنہ کیا جائے تو انسان ''حیوانیت'' کے درجے بل کہ اس سے بھی بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔
جب سے دنیا بنی ہے کتنی جنگیں ہوئیں، کتنی دشمنیاں چلیں، انسان گاجر مولی کی طرح انسانوں کے ہی ہاتھوں کٹتے رہے، کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے، تیل کے لیے خون پانی کی طرح بہایا گیا، اسلام جیسے امن پسند دین کے نام پر قتل عام ہوئے، ملکوں پر ایٹم بم گرائے گئے، خواتین و بچوں کو ڈیزی کٹر بموں کا نشانہ بنایا گیا، فرقہ واریت کے نام پر خون کی ہولیاں کھیلی گئیں، اس کے علاوہ بھی ایسے لاتعداد تلخ حقائق ہیں جن میں کروڑوں انسان مختلف دشمنیوں کی بھینٹ چڑھے۔
آج تک انسان کے ہاتھوں جتنے انسان مرے ہیں جانوروں نے اتنے جانور نہیں مارے ہوں گے اور ہم ''اشرف المخلوقات'' ہونے کے باوجود حیوانیت کی حدیں عبور کرگئے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ انسان آئے دن نت نئے ہتھیار بناتا رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہتھیار صرف جان لے سکتے ہیں۔
دے نہیں سکتے، دوسری طرف آج تک جانوروں نے ایسی کوئی چیز نہیں بنائی جس سے جان لی جاسکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جانور قدرت کے بنائے ہوئے سسٹم کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں جب کہ انسان نام نہاد اور خود ساختہ معاملات کے پیچھے بھاگتا ہوا اس کی حدیں پھلانگ کر اتنا دور نکل گیا ہے کہ واپسی بہت مشکل ہوگئی ہے۔
آج بھی کسی ظالم اور سفاک شخص کو جانور سے تشبیہ دی جاتی ہے جو کہ جانوروں کے ساتھ ناانصافی سی معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی دشمنیوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے ''مسلمان ہونا'' اور اسلام میں مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیا ہے، اس کے باوجود بھائی کا بھائی کے خون کا پیاسا ہونا انتہائی تشویش ناک ہے۔ اگر بات حق و باطل کی ہو۔
ملکی سرحدوں کی ہو پھر بھی جنگ کا جواز بنتا ہے مگر اپنے ہی لوگوں کے گھر میں صف ماتم بچھانے کے لیے کوشاں رہنا، مسلمان بھائی کے قتل کی منصوبہ بندی کرنا کسی طور درست نہیں، کسی ایک فرد کی بھول سے اس خاندان پر ٹوٹ پڑنے والی قیامت تو اپنی جگہ مگر حد تو یہ ہے کہ اس خاندان کے دیگر افراد بھی اس آگ میں کودتے رہتے ہیں اور ایک دن جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔
چند ماہ قبل ضلع کرک کے سلیم بانڈہ میں جائیداد کے تنازع پر باپ تین بیٹوں سمیت قتل کردیے گئے اور جیسے ہی شوہر اور بیٹوں کی ہلاکت کی خبر ماں نے سنی تو وہ بھی اس صدمہ کو برداشت نہ کرسکی اور انتقال کرگئی، اس طرح گزشتہ عید قربان پر مردان کے قریب گاؤں طورو رقم کے تنازع پر رشتے داروں میں فائرنگ کے نتیجے میں چھ افراد جاں بحق جب کہ پانچ زخمی ہوئے تھے جس کے بعد مصیبت کی وہ آندھی چلی جو آج تک جاری ہے سب کو روپوش ہونا پڑا، خواتین کو رشتہ داروں کی طرف بھیجنا پڑا، گھر پر آئے روز چھاپے پڑتے رہے۔
مسلسل روپوشی سے کاروبار تباہ ہوگئے ہیں جب کہ پولیس اور دشمنوں کے خوف کے سائے اس کے علاوہ ہیں۔ اب اگر اس بات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی خود بڑھائی گئی، جھگڑا کرنے والے کو سمجھایا جاسکتا تھا، معززین کو بیچ میں ڈالا جاسکتا تھا، قانون کی مدد بھی لی جاسکتی تھی۔
اگر ان باتوں پر غور کر لیا جاتا تو شاید یہ معاملہ اتنا گمبھیر نہ ہوتا، اوپر قانون کا ذکر آیا ہے مگر کچھ لوگ اسے ہی دشمنی کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں کیوں کہ اکثر جرم کرنے والے کے خلاف درست طور پر رپورٹ درج نہیں کی جاتی اور اسی بنا پر وہ رہا ہوجاتا ہے اور یہی شخص جب آزادانہ طور پر متاثرین کے سامنے پھرے گا تو اس کے نتیجے میں قتل و غارت نہیں تو اور کیا ہوگا؟ اس لیے درست طور پر قانونی تقاضے پورے کیے جائیں تو ایسے بہت سے سلسلے چلنے سے پہلے ہی رک سکتے ہیں۔
دشمنی ایک ایسا جادوئی حصار ہے جس کے اندر پہنچ کر عقل مند اور پڑھے لکھے لوگ بھی سب کچھ بھول جاتے ہیں اور ان پر ایک ہی دھن سوار رہتی ہے۔ ہم اس پیغمبرﷺ کے پیروکار ہیں جن کے صبر کی مثالوں سے دیگر مذاہب کی کتابیں بھی بھری پڑی ہیں جنہوں نے مشرکوں کی طرف سے پھینکے جانے والے پتھر خندہ پیشانی سے سہے، آپ کے دانت مبارک شہید ہوئے، عزیزو اقارب کو شہید کیا گیا، الزامات لگائے گئے، مگر آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ظلم کرنے والوں کو ہدایت کی دعا دی۔ دوسری طرف ہم ان سے محبت کے دعوے دار ہیں، مگر ہم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا تو درکنار سرے سے پکڑا ہی نہیں اور ہدایات سے روگردانی ہمارے اوپر ٹوٹنے والے مصائب کے پہاڑ کی بنیادی وجہ ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر دشمنی مسلط کی گئی، ہم تو اسے مجبوراً نبھا رہے ہیں کیوں کہ ہمارے پیارے کی جان گئی ہے اور اسلام آنکھ کے بدلے آنکھ، ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور جان کے بدلے جان کا حکم دیتا ہے۔ ان لوگوں کی بات بالکل درست ہے کیوں کہ اپنے کسی پیارے کے خون سے نظریں نہیں پھیری جاسکتیں مگر یہ بات بھی تو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ معاف کر دینا حضرت محمدﷺ کی سنت ہے۔
پاکستان کیا دنیا بھر میں بڑھتی دشمنی کے نمونے اخبارات کی شکل میں روز ہی ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں ، فائرنگ، دھماکے، قتل، زخمی، جاںبحق، ہلاک، چھلنی، سمیت کتنے ہی ایسے دل دہلا دینے والے الفاظ سالہاسال سے تواتر کے ساتھ اخبارات کا پیٹ بھر رہے ہیں۔
افغانستان، عراق سمیت دیگر ممالک میں بے گناہوں کے قتل پر ہم افسوس اور اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں مگر اپنے گلی محلوں میں قتل و غارت کی نرسریاں بننے والی دشمنیوں کے بارے میں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں اور ساری ذمے داری ''مشران یا بزرگوں'' پر ڈالتے رہتے ہیں۔ پشتو کے لفظ ''مشر'' کا مطلب بڑا یا بزرگ اور مہ کوہ شر یعنی شر نہ کرنے والا ہے، مگر عقل و دانش کے لیے بزرگ ہونا شرط نہیں، اس لیے نوجوانوں سمیت تمام طبقات بھی اس کے تدارک میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ایسے نوجوان جن کے خاندانوں میں دشمنی کی چنگاریاں موجود ہیں، ان کے دوست احباب آگے آئیں اور امن و محبت کی شبنم سے اسے ٹھنڈا کریں اور ایسے لوگ جن کا جانی یا کسی قسم کا نقصان ہوا ہے وہ بھی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضورﷺ کی معاف کرنے کی سنت دہرائیں کیوں کہ آگ اسی وقت بجھ سکتی ہے جب اسے بجھانے کی کوشش کی جائے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر بھی بجھ جاتی ہے لیکن سب کچھ جلانے کے بعد۔ دریں اثناء دشمنی کے خاتمے کے لیے کردار تو سب کو ہی ادا کرنا چاہیے لیکن نوجوانوں کا کردار اس لحاظ سے کافی مثبت نتائج لا سکتا ہے۔
چوں کہ نوجوان معاشرے کا حال اور مستقبل ہوتے ہیں، اس لیے ان سے گزارش ہے کہ اس تازہ خون میں دشمنی اور نفرت سمیت دوسرے وائرس نہ پھیلنے دیں۔ اور نفرتوں کا خاتمہ محبت سے کریں کیوں کہ نفرت کا خاتمہ نفرت سے کبھی نہیں ہو سکتا۔