اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں آخری حصہ
اسلامیہ کالج لاہور کے ایک مقابلہ موسیقی میں بہت سی آوازوں نے حصہ لیا
نیرہ نور نے اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ طالب علمی کے زمانے میں کالج کے موسیقی کے فنکشنوں میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا، ان کی آواز میں سروں کا رچاؤ تھا ، آواز کی دلکشی نے انھیں کالج کی لڑکیوں میں بڑا مقبول کردیا تھا۔
اسلامیہ کالج لاہور کے ایک مقابلہ موسیقی میں بہت سی آوازوں نے حصہ لیا۔ نیرہ نور نے بھی غزل کی عمدہ گائیکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موسیقی کے اس مقابلے میں پہلا انعام حاصل کرلیا تو ان کی سارے لاہور میں دھوم مچ گئی تھی۔ اس مقابلے کے جج پروفیسر اسرار نے نیرہ نور کو مشورہ دیا کہ وہ پہلی فرصت میں لاہور ریڈیو سے اپنی گائیکی کا آغاز کرے۔ پھر ریڈیو پر نیرہ نور کی آواز میں غزلیں ریکارڈ ہو کر نشر ہونے لگیں۔ اس دوران نیرہ نور نے بڑی عمدگی کے ساتھ اساتذہ کا کلام گایا۔
مرزا غالب، مومن خان مومن کے علاوہ علامہ اقبال کا کلام اور پھر فیض احمد فیض کی غزلیں بھی ریکارڈ ہو کر لاہور ریڈیو کے علاوہ پاکستان کے دیگر ریڈیو اسٹیشنوں سے بھی نشر ہونے لگیں اور پسندیدگی کی سند بنتی رہیں اسی دوران بزرگ شاعر بہزاد لکھنوی کی ایک غزل کو بڑی شہرت ملی تھی جس کا مطلع تھا:
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے
نیرہ نور کی گائی ہوئی اس غزل کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، پھر تو نیرہ نور ریڈیو کی حدود سے نکل کر ٹیلی وژن تک آگئی پھر ایک اور غزل کو بڑی شہرت ملی:
کہاں ہو تم چلے آؤ محبت کا تقاضا ہے
غم دنیا سے گھبرا کر تمہیں دل نے پکارا ہے
نیرہ نور کی آواز میں غزل کی گائیکی کے اعتبار سے بڑی ہی انفرادیت تھی اور سہل پسندی کے ساتھ آواز کی خوبصورتی دلوں پر دستک دینے لگتی تھی اسی دوران نیرہ نور کی آواز میں بہت سے ٹیلی وژن ڈراموں کے ٹائٹل سانگ بھی بڑے پسند کیے گئے اور چند گیتوں کو تو بہت ہی پذیرائی ملی تھی۔
کبھی ہم بھی خوبصورت تھے
جلے تو جلاؤ گوری
پھر ساون کی پون چلی تم یاد آئے
اسی دوران ہندوستان کی مشہور گلوکارہ شمشاد بیگم کی گائی ہوئی ایک مشہور نعت کو نیرہ نور نے بھی ری مکس کرکے گایا ،تو اس نعت کو نئی تازگی ملی اور بہت مشہور ہوئی تھی:
پیغام صبا لائی ہے گلزار نبیؐ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیؐ سے
ای۔ایم گراموفون کمپنی نے نیرہ نور کی آواز میں کئی میوزک البم ریکارڈ کرکے ریلیز کیے اور وہ تمام البم بڑے پسند کیے گئے ہیں۔ اس دوران میں بحیثیت مصنف و نغمہ نگار لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہو گیا تھا اور ان دنوں میں فلم ساز، ہدایت کار و اداکار رنگیلا کی فلم ''صبح کا تارا'' کے گیت لکھ رہا تھا۔ ایک گیت مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ ہوچکا تھا، وہ گیت اداکار رنگیلا پر فلمایا جانا تھا پھر ایک اور گیت جو فلم کی ہیروئن سنگیتا پر عکس بند ہونا تھا وہ گیت نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا، گیت کے بول تھے:
مرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
کبھی ہنساتا ہے مجھ کو کبھی رلاتا ہے
اس گیت کی ریکارڈنگ کے دوران میری نیرہ نور سے ایک تفصیلی ملاقات رہی تھی۔ نیرہ نور نے لاہور کے تمام نامور موسیقاروں کے لیے گیت گائے تھے جن میں موسیقار ایم۔اشرف، کمال احمد، نثار بزمی اور خاص طور پر روبن گھوش کی موسیقی میں گائے ہوئے گیتوں کو بڑی شہرت ملی تھی۔ لاہور ہی میں ان کی ملاقات پھر شہریار زیدی سے ہوئی، کچھ عرصہ بعد شادی ہوگئی، انھیں بھی موسیقی سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ بھی ریڈیو سے گاتے تھے پھر انھوں نے گائیکی کے ساتھ ساتھ ٹیلی وژن ڈراموں میں اداکاری بھی شروع کردی اور ان کی اداکاری ان کی گائیکی پر غالب آتی چلی گئی اور اب وہ ٹیلی وژن ڈراموں پر بطور کریکٹرایکٹر مشہور ہیں۔ نیرہ نور اب فلمی دنیا سے کنارہ کش ہو چکی ہیں مگر غزل کی گائیکی کا سفر اب بھی جاری و ساری ہے۔ ان کی شخصیت میں بھی سادگی ہے اور ان کی گائیکی میں بھی بڑی شائستگی و خوبصورت ہے۔ یہاں میں ان کے چند مشہور ترین گیتوں کا ضرور تذکرہ کرنا چاہوں گا جو مندرجہ ذیل ہیں۔
روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں پیا
(فلم آئینہ)
او ذرا بول ری گڑیا بول
(فلم آس)
تو ہی بتا پگلی پون کس کے لیے جلے میرا من
(فلم پھول میرے گلشن کا)
پھول بن جاؤں گی میں
(فلم قسمت)
موسم تو دیوانہ ہے
(فلم دو ساتھی)
بولیے آپ کا حضور کیا خیال ہے
(فلم آدمی)
آج غم ہے تو وہ دن بھی ضرور آئے گا
جب ترا غم خوشی میں بدل جائے گا
(فلم مستانہ)
اچھا اچھا لاگے رے
پیارا پیارا لاگے رے
(فلم بندش)
جو بھی کسی سے پیار کرے گا
روز جئے گا روز مرے گا
(فلم آہٹ)
ہو میرے سجنا میں دریا تری
تو میرا کنارہ ہے
(فلم سوسائٹی)
رت آئے رت جائے
پیا میرے کیوں نہ آئے
(فلم آہٹ)
نیرہ نور کی گائیکی کا جداگانہ انداز ہے اور بہت ہی جاندار ہے۔ان کی آواز میں ایک ٹھہرائو ہے جیسے کوئی بہتا ہوا چشمہ ہے۔ آواز میں سرور ہے اور ایک الگ انداز کا سوز و گداز ہے جو نیرہ نور کو دیگر گلوکاروں سے ممتاز اور جدا حیثیت دیتا ہے۔ نیرہ نور دنیائے موسیقی کا انمول سرمایہ ہے۔
اسلامیہ کالج لاہور کے ایک مقابلہ موسیقی میں بہت سی آوازوں نے حصہ لیا۔ نیرہ نور نے بھی غزل کی عمدہ گائیکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موسیقی کے اس مقابلے میں پہلا انعام حاصل کرلیا تو ان کی سارے لاہور میں دھوم مچ گئی تھی۔ اس مقابلے کے جج پروفیسر اسرار نے نیرہ نور کو مشورہ دیا کہ وہ پہلی فرصت میں لاہور ریڈیو سے اپنی گائیکی کا آغاز کرے۔ پھر ریڈیو پر نیرہ نور کی آواز میں غزلیں ریکارڈ ہو کر نشر ہونے لگیں۔ اس دوران نیرہ نور نے بڑی عمدگی کے ساتھ اساتذہ کا کلام گایا۔
مرزا غالب، مومن خان مومن کے علاوہ علامہ اقبال کا کلام اور پھر فیض احمد فیض کی غزلیں بھی ریکارڈ ہو کر لاہور ریڈیو کے علاوہ پاکستان کے دیگر ریڈیو اسٹیشنوں سے بھی نشر ہونے لگیں اور پسندیدگی کی سند بنتی رہیں اسی دوران بزرگ شاعر بہزاد لکھنوی کی ایک غزل کو بڑی شہرت ملی تھی جس کا مطلع تھا:
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے
نیرہ نور کی گائی ہوئی اس غزل کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، پھر تو نیرہ نور ریڈیو کی حدود سے نکل کر ٹیلی وژن تک آگئی پھر ایک اور غزل کو بڑی شہرت ملی:
کہاں ہو تم چلے آؤ محبت کا تقاضا ہے
غم دنیا سے گھبرا کر تمہیں دل نے پکارا ہے
نیرہ نور کی آواز میں غزل کی گائیکی کے اعتبار سے بڑی ہی انفرادیت تھی اور سہل پسندی کے ساتھ آواز کی خوبصورتی دلوں پر دستک دینے لگتی تھی اسی دوران نیرہ نور کی آواز میں بہت سے ٹیلی وژن ڈراموں کے ٹائٹل سانگ بھی بڑے پسند کیے گئے اور چند گیتوں کو تو بہت ہی پذیرائی ملی تھی۔
کبھی ہم بھی خوبصورت تھے
جلے تو جلاؤ گوری
پھر ساون کی پون چلی تم یاد آئے
اسی دوران ہندوستان کی مشہور گلوکارہ شمشاد بیگم کی گائی ہوئی ایک مشہور نعت کو نیرہ نور نے بھی ری مکس کرکے گایا ،تو اس نعت کو نئی تازگی ملی اور بہت مشہور ہوئی تھی:
پیغام صبا لائی ہے گلزار نبیؐ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیؐ سے
ای۔ایم گراموفون کمپنی نے نیرہ نور کی آواز میں کئی میوزک البم ریکارڈ کرکے ریلیز کیے اور وہ تمام البم بڑے پسند کیے گئے ہیں۔ اس دوران میں بحیثیت مصنف و نغمہ نگار لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہو گیا تھا اور ان دنوں میں فلم ساز، ہدایت کار و اداکار رنگیلا کی فلم ''صبح کا تارا'' کے گیت لکھ رہا تھا۔ ایک گیت مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ ہوچکا تھا، وہ گیت اداکار رنگیلا پر فلمایا جانا تھا پھر ایک اور گیت جو فلم کی ہیروئن سنگیتا پر عکس بند ہونا تھا وہ گیت نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا، گیت کے بول تھے:
مرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
کبھی ہنساتا ہے مجھ کو کبھی رلاتا ہے
اس گیت کی ریکارڈنگ کے دوران میری نیرہ نور سے ایک تفصیلی ملاقات رہی تھی۔ نیرہ نور نے لاہور کے تمام نامور موسیقاروں کے لیے گیت گائے تھے جن میں موسیقار ایم۔اشرف، کمال احمد، نثار بزمی اور خاص طور پر روبن گھوش کی موسیقی میں گائے ہوئے گیتوں کو بڑی شہرت ملی تھی۔ لاہور ہی میں ان کی ملاقات پھر شہریار زیدی سے ہوئی، کچھ عرصہ بعد شادی ہوگئی، انھیں بھی موسیقی سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ بھی ریڈیو سے گاتے تھے پھر انھوں نے گائیکی کے ساتھ ساتھ ٹیلی وژن ڈراموں میں اداکاری بھی شروع کردی اور ان کی اداکاری ان کی گائیکی پر غالب آتی چلی گئی اور اب وہ ٹیلی وژن ڈراموں پر بطور کریکٹرایکٹر مشہور ہیں۔ نیرہ نور اب فلمی دنیا سے کنارہ کش ہو چکی ہیں مگر غزل کی گائیکی کا سفر اب بھی جاری و ساری ہے۔ ان کی شخصیت میں بھی سادگی ہے اور ان کی گائیکی میں بھی بڑی شائستگی و خوبصورت ہے۔ یہاں میں ان کے چند مشہور ترین گیتوں کا ضرور تذکرہ کرنا چاہوں گا جو مندرجہ ذیل ہیں۔
روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں پیا
(فلم آئینہ)
او ذرا بول ری گڑیا بول
(فلم آس)
تو ہی بتا پگلی پون کس کے لیے جلے میرا من
(فلم پھول میرے گلشن کا)
پھول بن جاؤں گی میں
(فلم قسمت)
موسم تو دیوانہ ہے
(فلم دو ساتھی)
بولیے آپ کا حضور کیا خیال ہے
(فلم آدمی)
آج غم ہے تو وہ دن بھی ضرور آئے گا
جب ترا غم خوشی میں بدل جائے گا
(فلم مستانہ)
اچھا اچھا لاگے رے
پیارا پیارا لاگے رے
(فلم بندش)
جو بھی کسی سے پیار کرے گا
روز جئے گا روز مرے گا
(فلم آہٹ)
ہو میرے سجنا میں دریا تری
تو میرا کنارہ ہے
(فلم سوسائٹی)
رت آئے رت جائے
پیا میرے کیوں نہ آئے
(فلم آہٹ)
نیرہ نور کی گائیکی کا جداگانہ انداز ہے اور بہت ہی جاندار ہے۔ان کی آواز میں ایک ٹھہرائو ہے جیسے کوئی بہتا ہوا چشمہ ہے۔ آواز میں سرور ہے اور ایک الگ انداز کا سوز و گداز ہے جو نیرہ نور کو دیگر گلوکاروں سے ممتاز اور جدا حیثیت دیتا ہے۔ نیرہ نور دنیائے موسیقی کا انمول سرمایہ ہے۔