مخدوم خلیق الزماں

اب تو اتنی بار میری موت سے ملاقات ہو چکی ہے کہ یوں گماں ہوتا ہے کہ ایک دن یہ میری دہلیز پر بھی ایسے ہی دستک دے گی


جاوید قاضی April 03, 2022
[email protected]

عمر کے اس حصے میں ،زندگی کے بہت سے زینے میں چڑھ چکا،اب تو روز خبر آتی ہے ، کسی یار، دوست یا پھر عزیز و اقارب میں سے کسی کی رحلت کی۔

بس ایسے ہی یہ خبر بھی میری دہلیز تک آئی کہ مخدوم خلیق الزمان خالق حقیقی سے جاملے۔ میری آنکھوں پر ایم آر ڈی تحریک عکس بن کر یوں ابھری جیسے کل ہی کی بات ہو۔ میری عمر اس وقت اٹھارہ برس کی ہوگی، جب بے نظیربھٹو جلا وطنی ختم کرکے وطن کو لوٹتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا اتنا بڑا استقبال جس کا ریکارڈ ابھی تک نہ ٹوٹ پایا ،جو بے نظیر کا اہل لاہور نے کیا تھا۔ بے نظیر واپس وطن آئیں،ایم آر ڈی تحریک کے پس منظر میں۔

یوں تو تحریک چلی پورے پاکستان میں تھی مگر اس تحریک کا مرکز اندرون سندھ تھا ، میں اس تحریک میں دو مرتبہ جیل جاتے جا تے بچا۔ یہ تھی وہ تحریک جب بے نظیربھٹو جلا وطن تھی ۔ جب پارٹی کے لیڈران ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ، غلام مصطفیٰ جتوئی آہستہ آہستہ پارٹی سے دور ہونے لگے۔ یوں تو کون نہیں تھا جس نے اس زمانے میں غاصب کے ہاتھوں جیل ''یاترا '' نہ کی ہو، وڈیرے پیر ، میر سے لے کر ادنیٰ کارکن تک، سرخ انقلاب کی بات کرنے والوں سے لے کر (جن میں، میں بھی شامل تھا) دانشور، وکیل، ڈاکٹر ، انجینئر ہر چند کہ خواتین بھی ، سب ایک ہی صفحے پر تھے۔

ان دور میں مخدوم خلیق الزماں تیس سال کے لگ تھے ، انھیں پی پی پی سندھ کا صدر بنایا گیا، بے نظیر کا ان پر بھروسہ تھا، یہ وہ وقت تھا جب سندھ کے شرفا نے جیل جانا پسند کیا تھا، مخدوم خلیق الزمان پابند سلاسل رہے تو پارٹی میں کون ہوگا جو ان کے مد مقابل ٹھہرتا، ـ '' مچھ '' جیل سے لے کر کوٹ لکھپت تک وہ کون سی جیل تھی جہاں سندھ کے اسیر نہ ٹھہرے ہوں۔

جب بے نظیر بھٹو وطن آئیں تو ہر وقت ان کے ساتھ جو چند ٹھہرنے والے تھے ان میں ایک خلیق الزماں بھی ہوا کرتے تھے۔ سندھ کے لوگوں نے جو والہانہ محبت بھٹوز کے ساتھ کی تھی اس کے بعد اگر کسی کو اس عقیدت کے ساتھ دیکھا تھا ،وہ خلیق الزماں تھے، اس کی وجہ بھی یہ تھی۔ غاصب کے سامنے کوئی بھی قد آور لیڈر ٹھہر نہ سکا۔ ان بڑے گھرانوں میں اگر کوئی چٹان بن کے ٹھہرا تو وہ ہا لا کا مخدوم خاندان تھا اور اسی مخدوم طالب المولیٰ کے دو بیٹے مخدوم امین فہیم اور مخدوم خلیق الزماں تھے اور پھر مخدوم خلیق الزماں کا اپنا ہی انداز تھا، ان میں وہ پیروں ، گدیوں والی روایتیں نہیں تھیں، وہ سوچ کی اعتبار سے سرخے تھے۔ ان کو کارل مارکس، چی گویرا، روس کا انقلاب اچھا لگتا تھا۔ سندھی ٹوپی کی جو شناخت بنی وہ اصل خلیق الزماں سے بنی، یہ وہی تھے جنھوں نے ماڈرن سندھ میں اسی کو فیشن بنا دیا۔

پھر خلیق الزماں اپنے پچیس سالہ سیاسی کیریئر کو خیر آباد کہہ کر 1996 گوشہ نشین ہو گئے۔ وہ کیا وجوہات تھیں ، یہ بھی ایک طویل داستان ہے۔ میری ان سے پہلی ملاقات 2004 میں ایک ٹیلی وژن کے لیے انٹرویو کرنے کے حوالے سے ہوئی اور پھر یہ ملاقات دوستی میں تبدیل ہوئی۔ اس سفر میں نواب اکبر بگٹی میرے دوست بنے، وہ تو خیر میرے والد کے ساتھ شیخ مجیب الرحمان کی پارٹی عوامی لیگ میں بھی رہے، مخدوم خلیق الزماں ہمارے والد کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔

مخدوم خلیق الزماں کا اتنا ابھر کر آنا کہ وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ بنے بہت سے لوگوں کو اچھا نہیں لگا۔ لوگوں نے بے نظیر صاحبہ کے کان بھرنے شروع کردیے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ پارٹی کے لیڈر کی برابری کررہا ہے۔ کچھ نے کہا وہ پیر ہے، وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے، مگر ایسا نہ تھا، وہ تو کارکنوں میں گھل مل جاتا تھا ۔ وہ جیالوں کے ساتھ فرش پر بھی بیٹھ جاتے تھے۔ اور پھر پارٹی سے دوریاں بڑھتی گئیں ، انھوں نے پارٹی کی سندھ کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔

یہ بھی ہوا کہ جام صادق کے ساتھ بھی ٹھہرے، سینیٹر بنے، اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی نشست پر ایم این اے بھی بنے، پھر جب مرتضیٰ بھٹو کی شہادت ہوئی، یہ ان کے ساتھ تھے، تو آخرکار سیاست چھوڑ دی۔ وہ سندھ کی روایتی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے کہ بے نظیر بھٹواور اس کی پارٹی کے خلاف کسی بھی سیاسی دھڑے کے ساتھ وہ الحاق نہیں کریں گے ، چاہے وہ پارٹی کا حصہ ہوں یا نہ ہوں ۔ سیاست یا تو خلیق الزماں کا سبجیکٹ نہ تھا یا سیاست اس معیار کی نہ تھی جو پیمانہ خلیق الزماں کا تھا۔

ان کی دشت تنہائی میں مجھے بار بار جانے کا موقع ملا ۔ ہم کبھی سندھ کلب ،کبھی ''اوکرا '' تو کبھی کیفے فلو پے شام میں بیٹھا کرتے ۔ وہ سندھ کے دیوداس تھے۔ سگار پیتے تھے ، میں نے بھی ان کو دیکھ کر یہ عادت پکڑی تو چند لوگوں نے کہا ''وہ ٹھہرے نواب، تم کیسے یہ عادت سنبھال سکو گے'' ہم فیض کو بہت گنگناتے ۔

شاعری ان کے گھر کی لونڈیا تھی، ایکدم سے پکڑ لیتے کہ '' تم نے فیض کی کس سطر کو غلط پڑھا ہے۔ ان کے والد کی شاعری کو تو رونا لیلیٰ نے بھی گایا ، وہ خود بھی شاعر تھے۔ ان کے بھائی مخدوم امین فہیم بھی تو بھتیجے سجادہ نشین مخدوم جمیل الزماں ، یہ مخدوم نوح شریف سے تعلق رکھتے ہیں، جس کو سروری جماعت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سندھ کی دو بڑی گدیاں ہیں، ایک پیر پگارا کی حر جماعت تو دوسری سروری جماعت، جن کے مرید ہندوستان تک ہیں۔ نوح شریف کا مزار پانچ سو سال قدیم اور قلندر کے مزار کے بعد دوسرا قدیم ترین مزارہے۔

میں نے مخدوم خلیق الزماں کے جسدِ خاکی کو لحد میں اپنے ہاتھوں سے اتارا ، ان کے سجادہ نشین مخدوم جمیل الزماں ان کے خاندان والوں کے ساتھ۔ آج سے دو ہفتہ قبل مورخہ چودہ مارچ کو وہ لامکاں میں گھر بنا کے بیٹھ گئے، اتنی بڑی عمر نہ تھی ان کی۔ مگر حساس تھے بہت، دکھوں کا دفتر تھا ان کا دل ، جو آیا دیتا گیا اور وہ لیتے گئے اور ہنستے گئے، کبھی اف تک نہ کی۔ ان زمانوں میں وہ ہر سال دو مرتبہ دنیا گھومنے نکل جاتے۔ مہینوں تک ان کی خبر نہ آتی ، افریقہ کے جنگلوں سے لے کر، لاطینی امریکا ، انٹارٹیکا، الاسکا۔ دھرتی کی چھت (الاسکا)سے لے کر دھرتی کے فرش (انٹارٹیکا) تک چپہ چپہ گھوما دنیا کا ، واپسی پر ہفتوں ہفتوں پیرس میں ٹھہر جاتے۔

مگر جو ان کا پیارا اور یادگار سفر ہوا وہ جے پور کی یاترا تھا۔ وہ اس کا ذکر بار بار مجھ سے کرتے۔ کتنی ساری شامیں تھیں جو صحن میں بیٹھے گذری، کتنے سارے جمالیات سے لے کر، فلسفہ، سیاست ، تاریخ پر موضوع سخن ہوئے اور پھر ایک طویل نشست ٹھہرتی شاعری کی۔ وہ سب سے زیادہ رفیق سفی اور مجھ سے ملتے۔ ان کو لوگوں کے مجمعے میں جانا اچھا نہیں لگتا تھا ۔

اسی طرح کے دوست تھے حاصل بزنجو بھی ،مجھے حا صل سے دوستی بھی بڑوں سے نصیب میں ملی، ان کے والد اور میرے والد 24 مارچ کو ڈھاکا سے آخری جہاز میں ایک ساتھ لو ٹے تھے اور صبح ہی وہاں فوجی آپریشن شروع ہوگیا۔ جب تک نواب اکبر بگٹی حیات تھے تو کوئی دن ہی مشکل سے گذرتا تھا جب میری ان سے فون پر بات نہ ہو۔ وہ چاہے پہاڑوں پر کیوں نہ چلے گئے ہوں اور اسی طرح سے مخدوم خلیق الزماں ۔ یہ سب وہیں پڑا ہے۔ وہ سگار کی مہک ، وہ شام ، وہ صحن مگر خلیق الزماں نہ رہے ،نہ رہوں گا میں بھی۔

اب تو اتنی بار میری موت سے ملاقات ہو چکی ہے کہ یوں گماں ہوتا ہے کہ ایک دن یہ میری دہلیز پر بھی ایسے ہی دستک دے گی۔مگر پھر دوستوں میں یا پھر بہن، بھائیوں میں سے کوئی چلا جاتا، مجھے رلاتا ضرور ہے۔میری بہن اسوقت اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ہے، ڈاکٹر انھیں جواب دے چکے ہیں، وہ امریکا سے پاکستان آ گئی ہیں۔ روز ان کے گھر جا کر ا ن کو نیند سے جگاتا ہوں، ا ن کے ہاتھوں پر بوسہ دیتا ہوں اور وہ اس حالت میں بھی میرے ہاتھوں پر بوسہ دینا نہیں بھولتیں۔

مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمر گزشتہ کی کتاب

اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہد شباب

اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب

کیا کروں بھائی یہ اعزاز میں کیوں کر پہنوں
مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیصوں کا حساب

آخری بار ہے لو مان لو اک یہ بھی سوال
آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوس جواب

آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لوٹا دو مری عمر گزشتہ کی کتاب

(فیض احمد فیضؔ)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔