استقبالِ رمضان
ملاوٹ ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی سے اس مبارک مہینے کا استقبال کرنے والوں کا سب سے بڑا سہارا اورمحافظ وہی لوگ ہوتے ہیں
بدقسمتی سے اس بار ماہِ رمضان کا آغاز ایک ا یسے ماحول میں ہو رہا ہے جسے کسی بھی طرح خوشگوار یا اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس اجمال کی تفصیل اس قدر پیچیدہ اور افسوس ناک ہے کہ میں اس کو چھیڑ کر نہ اپنی اور نہ آپ کی پریشانی میں مزید اضافہ کرنا چاہتا ہوں البتہ اتنا ضرور عرض کروں گا کہ مثبت اقدار کو فروغ دینے والی ''تبدیلی'' کا نعرہ اگر عملی شکل میں اچھی طرح سے نہ بھی ڈھل سکے تو بھی وہ اُس راستے سے بہتر ہوتا ہے جہاں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے اور حقائق سے نظریں چُرا کر کسی مقصد ، اَنّا اور ذمے داری کے بغیر دن گزارے جائیں۔
جہالت، غربت اور بے معنی روایات کی چکی میں پستی ہوئی یہ خلق خدا (جس کا بیشتر حصہ ظلم سہہ سہہ کر اب خود بھی اپنی اپنی پہنچ کی حد تک ظالم بن چکا ہے ) کب ہوش میں آئے گی اور کب اُسے احساس ہوگا کہ عزت کے ایک لقمے اور حرام کے وسیع دستر خوانوں میں کیا فرق ہوتاہے ؟ کب یہ ہجوم قافلہ بنے گا اورکب اس کے لیڈر ، رہنما اور ناخدا اس حقیقت کو جان پائیں گے کہ وطن کی حُرمت پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والوں کا انجام دینا اور آخرت دونوں میں ذلّت کا نشان بن جاتا ہے جہاں تک سیاسی جلسوں کا تعلق ہے یہ درست ہے کہ
سب کو گاہک مل جاتا ہے
سب کے سودے بک جاتے ہیں
مگر ان خریداروں میں زیادہ تعداد اُن تماش بینوں کی ہوتی ہے جو بغیر محنت کیے اور کسی اخلاقی اصول میں اُلجھے بغیر ہر راحت سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ان لوگوں کی زبانیں باہر کی طرف لٹکنا شروع کردیتی ہیں اور یہ بے دریغ ہر چیز کی قیمت میں ہوشربا اضافہ شروع کر دیتے ہیں اور ان میں سے بعض تو اس برکتوں والے مہینے کو بڑی ڈھٹائی سے پورے سال کا سب سے نفع آور مہینہ قرار دے کر لُوٹ مار کا وہ بازار گرم کرتے ہیں کہ غریب تورہا ایک طرف متوسط آمدنی والے طبقے کو بھی دن میں تارے نظر آجاتے ہیں۔
ملاوٹ ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی سے اس مبارک مہینے کا استقبال کرنے والوں کا سب سے بڑا سہارا اور محافظ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی ذمے داری ان پر گرفت یا ان کی سرکوبی ہوتا ہے اور یوں یہ دس پندرہ فی صد مفاد پرست سارے معاشرے کو پالتو جانوروں کی سطح پر زندگی گزارنے کی عادت ڈال دیتے ہیں اور یوں ضمیر کی آواز انقلاب اور تبدیلی کے بجائے اس انداز کی ''جگت'' کی شکل اختیار کرجاتی ہے کہ ''ضمیر کی آواز آپ کو گناہ سے روکتی تو نہیں البتہ اس کا مزہ ضرور خراب کردیتی ہے''۔
غور سے دیکھا جائے تو آج کل جس ''ضمیر کی آواز'' کے تذکرے اُٹھتے بیٹھتے کیے جارہے ہیں اس سے بھی صرف کچھ لوگوں کے منہ کا مزہ خراب ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہور ہا ۔ اقبالؔ نے کہا تھا ''غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں'' لیکن جو معاشرے ہماری طرح غیر ت کے معنی، موقعہ اور مفاد پرستی یا بزدلی اور ایمان دشمن نام نہاد حقیقت پسندی سے بدل دیں اُن کے لیے ''جہانِ تگ و دو'' بھی ایک ذہنی غلامی کی زنجیر کی شکل اختیا رکر لیتا ہے ۔
مجھے افسوس ہے کہ رمضان کے استقبال میں میں نے خلافِ دستور اگلی دنیا کی روحانی برکات کے بجائے اس دنیا کی سنگین اور دل شکن صورتِ حال کا نوحہ شروع کر دیا ہے میر ااپنا ہی
ایک شعر ہے :
کچھ وضاحت نہ التجا کیجے
سچ کہا ہے تو حوصلہ کیجے
لیکن اس طرزِ گفتار کی اصل وجہ غالباً غالبؔ کا یہ شعر ہوگا کہ
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتاہے
ربِ کریم سے دُعا ہے کہ وہ ہماری سختیوں کو معاف فرما دے اور ہمیں صحیح فیصلے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ بزرگوں کے مطابق رمضان کا مہینہ سب سے زیادہ برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہوتاہے ،سر جھکا کر سوبرس ذلت کی زندگی گزارنے سے سر اُٹھا کر اور حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک دن بھی زندہ رہنا زیادہ مستحسن ہوتا ہے۔ میں ہر برس رمضان میں لکھے جانے والے کالموں میں حمد اور نعت کے اشعار درج کیا کرتاہوں کہ یہ ''رسمِ دنیا نہ سہی مسلمان معاشروں کی حد تک موقع اور دستور'' ضرور ہے ۔
اب چونکہ اس نعت میں مناجات کا رنگ غالب ہے، سو یہ مجھے 2022 کے اس ماہِ رمضان کے استقبال کے لیے زیادہ برمحل اور بامعنی لگ رہی ہے، اس لیے میں اسی کے چند اشعار کو پوری قوم کو درپیش تناظر کی شکل میں پیش کررہا ہوں لیکن اس سے پہلے اقبالؔ کے اس شعر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں اُن کی تقدیریں
اب آیئے اس نعت نما مناجات کے ساتھ کچھ وقت اس اُمید اور دُعا کے ساتھ گزارتے ہیں کہ رسولِ پاک ؐ کی سفارش سے ربِ کریم ہم سب پر کرم فرمائیں گے اور ہمارے دلوں میں یہ ایمان روشن فرمائیں گے کہ ہم آزادی ، جراّت ، قربانی ، ایثار اور انصاف کے راستے کو دنیا کی ہر مصلحت پر ترجیح دے سکیں۔
ختم ہو رُوح سے یہ فشارِ زماں یا نبیؐ یا نبیؐ
زندگی ہوگئی ایک بار گراں، یا نبیؐ یا نبیؐ
آپ پر ہوں فدا مرے ماں باپ بھی، میری اولاد بھی
آپ کی سمت ہو ،میری عمرِ رواں، یا نبیؐ یا نبیؐ
فرقہ بندی کی تلوار سے کٹ گئے ، راہ سے ہٹ گئے
دُھند میں کھو گئے منزلوں کے نشاں، یانبیؐ یا نبیؐ
ہم نے سمجھا نہیںتیرے پیغام کو رحمتِ عام کو
بھائی سے بھائی ہے سرگراں ، بدگماں، یا نبیؐ یا نبیؐ
یہ جو اُمت روایات میں کھو گئی، بے نشاں ہوگئی
اس کے رستے میں بھی اب کوئی کہکشاں یا نبیؐ یا نبیؐ
آپ کے اَبرِ رحمت کی تو حدنہیں ، صرف امجدؔ نہیں
ساری آنکھوں کی شاداب ہوں کھیتیاں ، یا نبیؐ یا نبیؐ
اس اجمال کی تفصیل اس قدر پیچیدہ اور افسوس ناک ہے کہ میں اس کو چھیڑ کر نہ اپنی اور نہ آپ کی پریشانی میں مزید اضافہ کرنا چاہتا ہوں البتہ اتنا ضرور عرض کروں گا کہ مثبت اقدار کو فروغ دینے والی ''تبدیلی'' کا نعرہ اگر عملی شکل میں اچھی طرح سے نہ بھی ڈھل سکے تو بھی وہ اُس راستے سے بہتر ہوتا ہے جہاں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے اور حقائق سے نظریں چُرا کر کسی مقصد ، اَنّا اور ذمے داری کے بغیر دن گزارے جائیں۔
جہالت، غربت اور بے معنی روایات کی چکی میں پستی ہوئی یہ خلق خدا (جس کا بیشتر حصہ ظلم سہہ سہہ کر اب خود بھی اپنی اپنی پہنچ کی حد تک ظالم بن چکا ہے ) کب ہوش میں آئے گی اور کب اُسے احساس ہوگا کہ عزت کے ایک لقمے اور حرام کے وسیع دستر خوانوں میں کیا فرق ہوتاہے ؟ کب یہ ہجوم قافلہ بنے گا اورکب اس کے لیڈر ، رہنما اور ناخدا اس حقیقت کو جان پائیں گے کہ وطن کی حُرمت پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والوں کا انجام دینا اور آخرت دونوں میں ذلّت کا نشان بن جاتا ہے جہاں تک سیاسی جلسوں کا تعلق ہے یہ درست ہے کہ
سب کو گاہک مل جاتا ہے
سب کے سودے بک جاتے ہیں
مگر ان خریداروں میں زیادہ تعداد اُن تماش بینوں کی ہوتی ہے جو بغیر محنت کیے اور کسی اخلاقی اصول میں اُلجھے بغیر ہر راحت سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ان لوگوں کی زبانیں باہر کی طرف لٹکنا شروع کردیتی ہیں اور یہ بے دریغ ہر چیز کی قیمت میں ہوشربا اضافہ شروع کر دیتے ہیں اور ان میں سے بعض تو اس برکتوں والے مہینے کو بڑی ڈھٹائی سے پورے سال کا سب سے نفع آور مہینہ قرار دے کر لُوٹ مار کا وہ بازار گرم کرتے ہیں کہ غریب تورہا ایک طرف متوسط آمدنی والے طبقے کو بھی دن میں تارے نظر آجاتے ہیں۔
ملاوٹ ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی سے اس مبارک مہینے کا استقبال کرنے والوں کا سب سے بڑا سہارا اور محافظ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی ذمے داری ان پر گرفت یا ان کی سرکوبی ہوتا ہے اور یوں یہ دس پندرہ فی صد مفاد پرست سارے معاشرے کو پالتو جانوروں کی سطح پر زندگی گزارنے کی عادت ڈال دیتے ہیں اور یوں ضمیر کی آواز انقلاب اور تبدیلی کے بجائے اس انداز کی ''جگت'' کی شکل اختیار کرجاتی ہے کہ ''ضمیر کی آواز آپ کو گناہ سے روکتی تو نہیں البتہ اس کا مزہ ضرور خراب کردیتی ہے''۔
غور سے دیکھا جائے تو آج کل جس ''ضمیر کی آواز'' کے تذکرے اُٹھتے بیٹھتے کیے جارہے ہیں اس سے بھی صرف کچھ لوگوں کے منہ کا مزہ خراب ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہور ہا ۔ اقبالؔ نے کہا تھا ''غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں'' لیکن جو معاشرے ہماری طرح غیر ت کے معنی، موقعہ اور مفاد پرستی یا بزدلی اور ایمان دشمن نام نہاد حقیقت پسندی سے بدل دیں اُن کے لیے ''جہانِ تگ و دو'' بھی ایک ذہنی غلامی کی زنجیر کی شکل اختیا رکر لیتا ہے ۔
مجھے افسوس ہے کہ رمضان کے استقبال میں میں نے خلافِ دستور اگلی دنیا کی روحانی برکات کے بجائے اس دنیا کی سنگین اور دل شکن صورتِ حال کا نوحہ شروع کر دیا ہے میر ااپنا ہی
ایک شعر ہے :
کچھ وضاحت نہ التجا کیجے
سچ کہا ہے تو حوصلہ کیجے
لیکن اس طرزِ گفتار کی اصل وجہ غالباً غالبؔ کا یہ شعر ہوگا کہ
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتاہے
ربِ کریم سے دُعا ہے کہ وہ ہماری سختیوں کو معاف فرما دے اور ہمیں صحیح فیصلے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ بزرگوں کے مطابق رمضان کا مہینہ سب سے زیادہ برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہوتاہے ،سر جھکا کر سوبرس ذلت کی زندگی گزارنے سے سر اُٹھا کر اور حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک دن بھی زندہ رہنا زیادہ مستحسن ہوتا ہے۔ میں ہر برس رمضان میں لکھے جانے والے کالموں میں حمد اور نعت کے اشعار درج کیا کرتاہوں کہ یہ ''رسمِ دنیا نہ سہی مسلمان معاشروں کی حد تک موقع اور دستور'' ضرور ہے ۔
اب چونکہ اس نعت میں مناجات کا رنگ غالب ہے، سو یہ مجھے 2022 کے اس ماہِ رمضان کے استقبال کے لیے زیادہ برمحل اور بامعنی لگ رہی ہے، اس لیے میں اسی کے چند اشعار کو پوری قوم کو درپیش تناظر کی شکل میں پیش کررہا ہوں لیکن اس سے پہلے اقبالؔ کے اس شعر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں اُن کی تقدیریں
اب آیئے اس نعت نما مناجات کے ساتھ کچھ وقت اس اُمید اور دُعا کے ساتھ گزارتے ہیں کہ رسولِ پاک ؐ کی سفارش سے ربِ کریم ہم سب پر کرم فرمائیں گے اور ہمارے دلوں میں یہ ایمان روشن فرمائیں گے کہ ہم آزادی ، جراّت ، قربانی ، ایثار اور انصاف کے راستے کو دنیا کی ہر مصلحت پر ترجیح دے سکیں۔
ختم ہو رُوح سے یہ فشارِ زماں یا نبیؐ یا نبیؐ
زندگی ہوگئی ایک بار گراں، یا نبیؐ یا نبیؐ
آپ پر ہوں فدا مرے ماں باپ بھی، میری اولاد بھی
آپ کی سمت ہو ،میری عمرِ رواں، یا نبیؐ یا نبیؐ
فرقہ بندی کی تلوار سے کٹ گئے ، راہ سے ہٹ گئے
دُھند میں کھو گئے منزلوں کے نشاں، یانبیؐ یا نبیؐ
ہم نے سمجھا نہیںتیرے پیغام کو رحمتِ عام کو
بھائی سے بھائی ہے سرگراں ، بدگماں، یا نبیؐ یا نبیؐ
یہ جو اُمت روایات میں کھو گئی، بے نشاں ہوگئی
اس کے رستے میں بھی اب کوئی کہکشاں یا نبیؐ یا نبیؐ
آپ کے اَبرِ رحمت کی تو حدنہیں ، صرف امجدؔ نہیں
ساری آنکھوں کی شاداب ہوں کھیتیاں ، یا نبیؐ یا نبیؐ