خدشات و علاج
قانون کی حکمرانی ناکامی سے دوچار ہے۔ مافیاؤں کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے
کراچی:
تحریک عدم اعتماد کے پس پشت سازش ہو نہ ہو، یہ پوری ایک سائنس ہوتی ہے، بڑی پیچیدہ اور منظم۔ اس کے باوجود کہ یہ کسی قوم کی سیاسی پارلیمانی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس قسم کے واقعات دور رس اثرات رکھتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ایک دن کاواقعہ ہے جس کے بعد سیاسی زندگی کے ایک نئے دور کی ابتدا ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں بھی ان دنوں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے ، اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن ایک معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس واقعے کے نتائج کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ کر کچھ دیگر عوامل پر غور کیا جائے جن کی اہمیت اس واقعے سے بھی بڑھ کر ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد وطن عزیز کے ایک سنجیدہ اور روشن فکردانش ور ہیں۔ ان کی تمام عمر اگر چہ تعلیم و تعلم میں گزری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تحقیق و جستجو کاسلسلہ بھی جاری رہا۔ وہ پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی کے سربراہ رہے ہیں اور ان دنوں انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے سربراہ ہیں۔
پاکستان کے پیچیدہ سیاسی، سماجی اور تاریخی امور خاص طور پر ان کا موضوع ہیں۔ اس ادارے کا ایک نسبتاً تازہ کارنامہ پاکستان کے عمرانی معاہدے سے متعلق ہے جس میں ریاست اور معاشرے کے تعلق باہم کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اردو میں یہ کتاب ' پاکستان میں معاہدہ عمرانی: ریاست اور معاشرے کی تجدید اور توسیع' کے عنوان سے شایع ہوئی ہے۔ پاکستان کے سیاسی، آئینی اور سماجی معاملات پر اس تحقیق میں بین الاقوامی تحقیقی ادارے فیڈرل ایبریٹ اسٹفٹنگ نے بھی تعاون کیا ہے ۔ اس تحقیق میں ظفر جونیجو نے ڈاکٹر صاحب کی معاونت کی ہے۔
اس تحقیق میں پاکستان کے صرف سیاسی معاملات ہی کو زیر بحث نہیں لایا گیا بلکہ سماجی تبدیلیوں ڈیموگرافی میں بڑے پیمانے پر رونما ہونے والی تبدیلیوں ، اربنائزیشن، پرانے سیاسی و سماجی اداروں کی شکست و ریخت اور بالکل نئے اداروں کی تشکیل، ملک کی مختلف انتظامی اکائیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیاں نیز تعلیم، معیشت اور معاشرت سمیت کئی دیگر موضوعات شامل ہیں۔
پاکستان کس طرح تبدیل ہو رہا ہے،یہ جاننے کے لیے معاشرے کے مختلف مظاہر اور تبدیلیوں کو سمجھنے کے دیگر انڈی کیٹرز کے علاوہ ملک کے تمام انتظامی یونٹوں میں محققین نے خود پہنچ کر اور دور دراز علاقوں میں جا کر نہ صرف ان تبدیلوں اورمظاہر کا مشاہدہ کیا بلکہ عوام اور رائے عامہ کی قیادت کرنے والی شخصیات سے طویل مباحث بھی کیے۔ یوں جا کر یہ ایک ایسی تحقیق وجود میں آئی جو نہ صرف بدلے ہوئے پاکستان میں آنے والی تبدیلیوں کی خبر دیتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان تبدیلیوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ریاست کو کیا کرنا ہے۔
یوں کہنے کو یہ تحقیق ایک نظری معاملہ ہے لیکن حال ہی میں تحریک عدم اعتماد کے دوران میں رونما ہونے والے واقعات نے اس تحقیق کی اہمیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں ریاست کا اختیار اور قانون ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ریاست کے اداروں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ان میں نا اہلی اور بدعنوانی کا عنصر فروغ پا رہا ہے۔
قانون کی حکمرانی ناکامی سے دوچار ہے۔ مافیاؤں کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشرے میں اسلحے کے استعمال کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ انصاف کا نظام کمزور اور انحطاط پذیر ہے جب کہ ملک مجموعی طور پر نظم حکمرانی کے بحران کا شکار ہو چکا ہے۔جن نکات کا یہاں ذکر کیا گیا ہے، ڈاکٹر سید جعفر احمد نے ان کا ذکر اس تحقیق کے تعارفی نوٹ میں شامل کیا ہے ۔ یوں یہ تحقیق اپنے صفحہ اول سے ہی پاکستان کے قومی معاملات سے دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد اور اس کے نتیجے میں ہونیوالے اہم واقعے کے بعد اس تحقیق کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔حالیہ واقعات پر غور کرتے ہوئے ہمیں صرف یہیں تک محدود نہیں رہنا چاہیے کہ یہ کامیاب ہوئی یا ناکام، کوئی حکمراں گھر چلا گیا یا کسی نے بحران پیدا کر دیا۔ وجہ یہ ہے کہ اس واقعے کے نتیجے میں وہ تمام عوارض کھل کر پاکستان کے ہر شہری کے سامنے آگئے ہیں جن کی نشان دہی ڈیڑھ دو برس قبل محققین نے اس تحقیق میں کر دی تھی اور ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدے کی تجدید اور اس میں توسیع کا تصور پیش کیا تھا۔
معاملات پارلیمان کے اندر ہوں یا باہر، یہ تمام سرگرمی کسی اصول ، نظام کار اور ایک سماجی معاہدے کے تحت انجام پاتی ہے جس پر پوری قوم کا اتفاق ہوتا ہے لیکن قومی زندگی کے اس اہم، دلچسپ اور حساس مرحلے پر یہ معاملہ کھلا کہ وہ معاہدے جو کسی ریاست کے وجود کو ضمانت فراہم کرتے ہیں، ریاست کے بعض فریق بلکہ خاص طور پر کچھ سیاست دان ان سب کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اس انکار کے پس پشت خواہ جیسے دلائل کا بھی انبار کھڑا ہو، ریاست کے شہری کی حیثیت سے ان اصولوں کو نہ صرف تسلیم کرنا بلکہ ان کے سامنے سر جھکانا بھی ضروری ہے۔
اب سے پہلے تک یہ تصور صرف ایک مفروضہ تھا کہ اس ریاست کے بعض عوامل، خواہ ان کا تعلق حکمراں طبقات سے ہو یا وہ عوام کے بعض طبقات سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اگر ریاست کے متفقہ طور پر طے شدہ اصول و ضوابط کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے بعد یہ مفروضہ حقیقت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ علامت معمولی نہیں بلکہ ایک ایسے مرض کی نشان دہی کرتی ہے جو ہلاکت خیز ہے۔ ناگزیر ہے کہ قوم کے سر پر منڈلانے والے اس ہلاکت خیز مرض سے نجات کی تدبیر سوچی جائے یعنی عمرانی معاہدے پر ازسر نو غور کر کے اسے بدلے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے پہلے مرحلے پر ڈاکٹر سید جعفر احمد اور ظفر جونیجو ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے پس پشت سازش ہو نہ ہو، یہ پوری ایک سائنس ہوتی ہے، بڑی پیچیدہ اور منظم۔ اس کے باوجود کہ یہ کسی قوم کی سیاسی پارلیمانی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس قسم کے واقعات دور رس اثرات رکھتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ایک دن کاواقعہ ہے جس کے بعد سیاسی زندگی کے ایک نئے دور کی ابتدا ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں بھی ان دنوں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے ، اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن ایک معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس واقعے کے نتائج کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ کر کچھ دیگر عوامل پر غور کیا جائے جن کی اہمیت اس واقعے سے بھی بڑھ کر ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد وطن عزیز کے ایک سنجیدہ اور روشن فکردانش ور ہیں۔ ان کی تمام عمر اگر چہ تعلیم و تعلم میں گزری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تحقیق و جستجو کاسلسلہ بھی جاری رہا۔ وہ پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی کے سربراہ رہے ہیں اور ان دنوں انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے سربراہ ہیں۔
پاکستان کے پیچیدہ سیاسی، سماجی اور تاریخی امور خاص طور پر ان کا موضوع ہیں۔ اس ادارے کا ایک نسبتاً تازہ کارنامہ پاکستان کے عمرانی معاہدے سے متعلق ہے جس میں ریاست اور معاشرے کے تعلق باہم کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اردو میں یہ کتاب ' پاکستان میں معاہدہ عمرانی: ریاست اور معاشرے کی تجدید اور توسیع' کے عنوان سے شایع ہوئی ہے۔ پاکستان کے سیاسی، آئینی اور سماجی معاملات پر اس تحقیق میں بین الاقوامی تحقیقی ادارے فیڈرل ایبریٹ اسٹفٹنگ نے بھی تعاون کیا ہے ۔ اس تحقیق میں ظفر جونیجو نے ڈاکٹر صاحب کی معاونت کی ہے۔
اس تحقیق میں پاکستان کے صرف سیاسی معاملات ہی کو زیر بحث نہیں لایا گیا بلکہ سماجی تبدیلیوں ڈیموگرافی میں بڑے پیمانے پر رونما ہونے والی تبدیلیوں ، اربنائزیشن، پرانے سیاسی و سماجی اداروں کی شکست و ریخت اور بالکل نئے اداروں کی تشکیل، ملک کی مختلف انتظامی اکائیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیاں نیز تعلیم، معیشت اور معاشرت سمیت کئی دیگر موضوعات شامل ہیں۔
پاکستان کس طرح تبدیل ہو رہا ہے،یہ جاننے کے لیے معاشرے کے مختلف مظاہر اور تبدیلیوں کو سمجھنے کے دیگر انڈی کیٹرز کے علاوہ ملک کے تمام انتظامی یونٹوں میں محققین نے خود پہنچ کر اور دور دراز علاقوں میں جا کر نہ صرف ان تبدیلوں اورمظاہر کا مشاہدہ کیا بلکہ عوام اور رائے عامہ کی قیادت کرنے والی شخصیات سے طویل مباحث بھی کیے۔ یوں جا کر یہ ایک ایسی تحقیق وجود میں آئی جو نہ صرف بدلے ہوئے پاکستان میں آنے والی تبدیلیوں کی خبر دیتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان تبدیلیوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ریاست کو کیا کرنا ہے۔
یوں کہنے کو یہ تحقیق ایک نظری معاملہ ہے لیکن حال ہی میں تحریک عدم اعتماد کے دوران میں رونما ہونے والے واقعات نے اس تحقیق کی اہمیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں ریاست کا اختیار اور قانون ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ریاست کے اداروں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ان میں نا اہلی اور بدعنوانی کا عنصر فروغ پا رہا ہے۔
قانون کی حکمرانی ناکامی سے دوچار ہے۔ مافیاؤں کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشرے میں اسلحے کے استعمال کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ انصاف کا نظام کمزور اور انحطاط پذیر ہے جب کہ ملک مجموعی طور پر نظم حکمرانی کے بحران کا شکار ہو چکا ہے۔جن نکات کا یہاں ذکر کیا گیا ہے، ڈاکٹر سید جعفر احمد نے ان کا ذکر اس تحقیق کے تعارفی نوٹ میں شامل کیا ہے ۔ یوں یہ تحقیق اپنے صفحہ اول سے ہی پاکستان کے قومی معاملات سے دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد اور اس کے نتیجے میں ہونیوالے اہم واقعے کے بعد اس تحقیق کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔حالیہ واقعات پر غور کرتے ہوئے ہمیں صرف یہیں تک محدود نہیں رہنا چاہیے کہ یہ کامیاب ہوئی یا ناکام، کوئی حکمراں گھر چلا گیا یا کسی نے بحران پیدا کر دیا۔ وجہ یہ ہے کہ اس واقعے کے نتیجے میں وہ تمام عوارض کھل کر پاکستان کے ہر شہری کے سامنے آگئے ہیں جن کی نشان دہی ڈیڑھ دو برس قبل محققین نے اس تحقیق میں کر دی تھی اور ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدے کی تجدید اور اس میں توسیع کا تصور پیش کیا تھا۔
معاملات پارلیمان کے اندر ہوں یا باہر، یہ تمام سرگرمی کسی اصول ، نظام کار اور ایک سماجی معاہدے کے تحت انجام پاتی ہے جس پر پوری قوم کا اتفاق ہوتا ہے لیکن قومی زندگی کے اس اہم، دلچسپ اور حساس مرحلے پر یہ معاملہ کھلا کہ وہ معاہدے جو کسی ریاست کے وجود کو ضمانت فراہم کرتے ہیں، ریاست کے بعض فریق بلکہ خاص طور پر کچھ سیاست دان ان سب کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اس انکار کے پس پشت خواہ جیسے دلائل کا بھی انبار کھڑا ہو، ریاست کے شہری کی حیثیت سے ان اصولوں کو نہ صرف تسلیم کرنا بلکہ ان کے سامنے سر جھکانا بھی ضروری ہے۔
اب سے پہلے تک یہ تصور صرف ایک مفروضہ تھا کہ اس ریاست کے بعض عوامل، خواہ ان کا تعلق حکمراں طبقات سے ہو یا وہ عوام کے بعض طبقات سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اگر ریاست کے متفقہ طور پر طے شدہ اصول و ضوابط کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے بعد یہ مفروضہ حقیقت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ علامت معمولی نہیں بلکہ ایک ایسے مرض کی نشان دہی کرتی ہے جو ہلاکت خیز ہے۔ ناگزیر ہے کہ قوم کے سر پر منڈلانے والے اس ہلاکت خیز مرض سے نجات کی تدبیر سوچی جائے یعنی عمرانی معاہدے پر ازسر نو غور کر کے اسے بدلے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے پہلے مرحلے پر ڈاکٹر سید جعفر احمد اور ظفر جونیجو ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔