کراچی میں ٹینکر مافیا کا راج رمضان میں بھی شہر میں پانی کا شدید بحران
واٹربورڈ کے کرپٹ افسران نے بلندعمارتوں، غیر قانونی شادی ہالوں، کار واشنگ سینٹرزکو پانی کے غیرقانونی کنکشن دے رکھے ہیں
WASHINGTON:
موسم گرما اور رمضان کا آغاز ہوتے ہی شہر بھر میں پانی کا بحران شدید ہوگیا ہے۔
کراچی شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے اور اسے 1200ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے، حب ڈیم سے اسے 100ایم جی ڈی پانی جبکہ دریائے سندھ سے 480 ملین گیلن یومیہ مل رہاہے، مجموعی طور پر یہ شیئر 580 ایم جی ڈی بنتا ہے۔
واٹر بورڈ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کراچی کو یہ شیئر بھی منصفانہ طور پر تقسیم کر دیا جائے اور پانی ٹینکرز کی بجائے پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کیا جائے تو بہت حد تک مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن اس شیئر کا بڑا حصہ چوری ہوجاتا ہے یا پھر پانی کی لائنوں میں رساؤ میں ضائع ہوجاتا ہے، یوں کراچی کو صرف 415 ایم جی ڈی یا اس سے بھی کم پانی مل رہا ہے۔
واٹر بورڈ کے متعلقہ افسر کا کہنا ہے کہ کراچی کو دریائے سندھ اور حب ڈیم سے ملنے والے پانی کی مقدار کھلی کینال سے آبی بخارات بننے، زرعی اراضی کیلیے پانی کی چوری، پانی کی لائنوں میں رساؤ اور ناکارہ واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹم کے باعث 165 ایم جی ڈی کم ہو جاتا ہے، اس وقت نیوکراچی، نارتھ کراچی بلدیہ، اورنگی، لانڈھی، ملیر، کورنگی گلشن اقبال 13ڈی ٹو اور تیرہ ڈی تھری، گلستان جوہر، کھارادر، کیماڑی، شاہ فیصل کالونی، محمود آباد، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، لیاقت آباد، لائنز ایریا، پی ای سی ایچ ایس اور دیگر علاقوں کے شہریوں کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔
واٹر بورڈ کا فراہمی آب کا ڈسٹری بیوشن سسٹم بھی تباہ حالی کا شکار ہے، پانی کی لائنوں میں رساؤ، والو آپریشن میں گڑبڑ اور سرکاری ہائیڈرینٹس میں ہونی والی بے قاعدگیاں بھی پانی کے بحران کا سبب ہیں۔
شہر میں واٹر بورڈ کے 6 سرکاری ہائیڈرینٹس ہیں جو پیپری، لانڈھی، صفورا، نیپا، سخی حسن اور منگھوپیر میں واقع ہیں، یہ سرکاری ہائیڈرینٹس24 گھنٹے چلتے ہیں جس کے باعث اطراف کے علاقوں میں پانی کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔
متعلقہ آفیسر کا کہنا ہے کہ اس گمبھیر صورتحال کے پیش نظر فوری طور پران ہائیڈرینٹس کا دورانیہ 6 گھنٹے کر دیا جائے اور پانی کی فراہمی کے ناغہ سسٹم پر سختی ومنصفانہ طور پر عملدرآمد کردیا جائے تو بھی بیشتر علاقوں سے پانی کی قلت دور ہوجائے گی اور شہریوں کو پائپ لائنوں کے ذریعے ان کے گھروں کی دہلیز تک پانی کی فراہمی ممکن ہو جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ واٹر بورڈ کے اجلاس میں کئی بار یہ تجاویز پیش کی جا چکی ہیں لیکن واٹر بورڈ میں مافیا کی جڑیں اتنی گہری ہوچکی ہیں کہ ہر بار بااثر افسران اسے یہ کہہ کر مسترد کردیتے ہیں کہ یہ منصوبہ عمل درآمد کے قابل نہیں ہے۔
واٹر بورڈ کے ترجمان نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ واٹر بورڈ کے وائس چیئرمین نجمی عالم کی ہدایت پر انتظامیہ نے رمضان میں پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھا لیے ہیں، وائس چیئرمین نجمی عالم نے متعلقہ افسران کو ہدایت کی ہے کہ پانی کی منصفانہ بنیادوں پر تقسیم یقینی بنائی جائے، تمام مساجد بالخصوص تراویح کے مقامات کی انتظامیہ سے رابطہ رکھا جائے اور وہاں درپیش پانی و سیوریج کے مسائل حل کیے جائیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ جن مساجد اور تراویح کے مقامات پر پانی کی قلت ہے وہاں ڈپٹی کمشنر کوٹے پر پانی کے ٹینکرز بلامعاوضہ فراہم کیے جائیں گے۔
موسم گرما اور رمضان کا آغاز ہوتے ہی شہر بھر میں پانی کا بحران شدید ہوگیا ہے۔
کراچی شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے اور اسے 1200ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے، حب ڈیم سے اسے 100ایم جی ڈی پانی جبکہ دریائے سندھ سے 480 ملین گیلن یومیہ مل رہاہے، مجموعی طور پر یہ شیئر 580 ایم جی ڈی بنتا ہے۔
واٹر بورڈ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کراچی کو یہ شیئر بھی منصفانہ طور پر تقسیم کر دیا جائے اور پانی ٹینکرز کی بجائے پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کیا جائے تو بہت حد تک مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن اس شیئر کا بڑا حصہ چوری ہوجاتا ہے یا پھر پانی کی لائنوں میں رساؤ میں ضائع ہوجاتا ہے، یوں کراچی کو صرف 415 ایم جی ڈی یا اس سے بھی کم پانی مل رہا ہے۔
واٹر بورڈ کے متعلقہ افسر کا کہنا ہے کہ کراچی کو دریائے سندھ اور حب ڈیم سے ملنے والے پانی کی مقدار کھلی کینال سے آبی بخارات بننے، زرعی اراضی کیلیے پانی کی چوری، پانی کی لائنوں میں رساؤ اور ناکارہ واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹم کے باعث 165 ایم جی ڈی کم ہو جاتا ہے، اس وقت نیوکراچی، نارتھ کراچی بلدیہ، اورنگی، لانڈھی، ملیر، کورنگی گلشن اقبال 13ڈی ٹو اور تیرہ ڈی تھری، گلستان جوہر، کھارادر، کیماڑی، شاہ فیصل کالونی، محمود آباد، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، لیاقت آباد، لائنز ایریا، پی ای سی ایچ ایس اور دیگر علاقوں کے شہریوں کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔
واٹر بورڈ کا فراہمی آب کا ڈسٹری بیوشن سسٹم بھی تباہ حالی کا شکار ہے، پانی کی لائنوں میں رساؤ، والو آپریشن میں گڑبڑ اور سرکاری ہائیڈرینٹس میں ہونی والی بے قاعدگیاں بھی پانی کے بحران کا سبب ہیں۔
شہر میں واٹر بورڈ کے 6 سرکاری ہائیڈرینٹس ہیں جو پیپری، لانڈھی، صفورا، نیپا، سخی حسن اور منگھوپیر میں واقع ہیں، یہ سرکاری ہائیڈرینٹس24 گھنٹے چلتے ہیں جس کے باعث اطراف کے علاقوں میں پانی کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔
متعلقہ آفیسر کا کہنا ہے کہ اس گمبھیر صورتحال کے پیش نظر فوری طور پران ہائیڈرینٹس کا دورانیہ 6 گھنٹے کر دیا جائے اور پانی کی فراہمی کے ناغہ سسٹم پر سختی ومنصفانہ طور پر عملدرآمد کردیا جائے تو بھی بیشتر علاقوں سے پانی کی قلت دور ہوجائے گی اور شہریوں کو پائپ لائنوں کے ذریعے ان کے گھروں کی دہلیز تک پانی کی فراہمی ممکن ہو جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ واٹر بورڈ کے اجلاس میں کئی بار یہ تجاویز پیش کی جا چکی ہیں لیکن واٹر بورڈ میں مافیا کی جڑیں اتنی گہری ہوچکی ہیں کہ ہر بار بااثر افسران اسے یہ کہہ کر مسترد کردیتے ہیں کہ یہ منصوبہ عمل درآمد کے قابل نہیں ہے۔
واٹر بورڈ کے ترجمان نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ واٹر بورڈ کے وائس چیئرمین نجمی عالم کی ہدایت پر انتظامیہ نے رمضان میں پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھا لیے ہیں، وائس چیئرمین نجمی عالم نے متعلقہ افسران کو ہدایت کی ہے کہ پانی کی منصفانہ بنیادوں پر تقسیم یقینی بنائی جائے، تمام مساجد بالخصوص تراویح کے مقامات کی انتظامیہ سے رابطہ رکھا جائے اور وہاں درپیش پانی و سیوریج کے مسائل حل کیے جائیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ جن مساجد اور تراویح کے مقامات پر پانی کی قلت ہے وہاں ڈپٹی کمشنر کوٹے پر پانی کے ٹینکرز بلامعاوضہ فراہم کیے جائیں گے۔