وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے چیف جسٹس
حکومت اپوزیشن آپس میں لڑ رہے ہیں، معاملہ ہمارے گلے ڈالا جا رہا ہے، سپریم کورٹ
PESHAWAR:
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت اپوزیشن آپس میں لڑ رہے ہیں، معاملہ ہمارے گلے ڈالا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار نے کہا کہ سابق امریکی سفیر اسد مجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آ جائے گا۔
یہ بھی پڑھین: تحریک عدم اعتماد؛ ڈپٹی اسپیکر کو ایسی رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا، سپریم کورٹ
پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے دلائل دیے عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنی ہے، جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لاء ہی قرار دیا جا سکتا ہے، سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیرآئینی ہے، ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا، ان کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ تھی، کیا اسپیکر عدالتی فائینڈنگ کے بغیر رولنگ دے سکتے تھے، انہوں نے تحریری رولنگ دیکر اپنی زبانی رولنگ کو غیر موثر کر دیا، یہ رولنگ آئین کے خلاف ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ اگر قرارداد پارلیمنٹ میں آ جائے تو وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے، عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیراعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے، صدر مملکت ازخود بھی وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہ سکتے ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کر سکتے، وزیر اعظم نے اپنے بیان میں تین آپشن کی بات کی، جس کی اسٹبلشمنٹ نےتردید کی۔
رضا ربانی نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد لانے والے ممبران اسے واپس لے لیں تو ایسا ہو سکتا ہے، جب تحریک عدم اعتماد ٹیبل ہو جائے تو اس پر ووٹنگ کرانا ضروری ہے، آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو استثنی حاصل ہوتا ہے، اسپیکر کارروائی چلانے کیلئے جو فیصلہ کرے اسے تحفظ حاصل ہوگا، آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 کی تشریح کرکے ارکان پر اطلاق کردیا، اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95(2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
رضا ربانی نے دلائل مکمل کرتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ غیرآئینی قرار دے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے، عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیکر اسمبلی کو بحال کرے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہا کہ رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، لیکن قرار داد پر بحث نہیں کرائی گئی، 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی، وزیراعظم اکثریت کھو دیں تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے کہ وہ وزیراعظم رہیں۔
جسٹس منیب اختر نے وکیل سے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں، تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے تمام طریقہ کار اسمبلی رولز میں ہے، ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق سات دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے، اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟
وکیل نے جواب دیا کہ آٹھویں دن ووٹنگ غیرآئینی نہیں ہوگی، مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ کی ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا، ڈپٹی اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ اسپیکر کے علاوہ پورا ایوان وزیراعظم کیخلاف ہو لیکن اسپیکر پھر بھی عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے؟ تحریک عدم اعتماد کیلئے وجوہات بتانا ضروری نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کو رولز کے ذریعے غیر موثر نہیں بنایا جا سکتا، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے؟وکیل نے جواب دیا کہ غیرآئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، بلکہ صرف دیکھنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں، صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے،پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی۔
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ عدالت چاہے تو حساس ادارے کے سربراہ سے چیمبر میں یا ان کیمرا بریفنگ لے سکتی ہے، سابق چیف جسٹس کو قائمقام چیف جسٹس بنانا عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے، رولنگ کالعدم ہوئی تو اسمبلی کی تحلیل بھی ختم ہو جائے گی۔
وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا موقف بھی سنا جائے، خدشہ ہے کہ وزیراعلی کا الیکشن شاید کل بھی نہ ہو، 40 اراکین کو معطل کرتے ہوئے ووٹنگ سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی پنجاب اسمبلی کا اجلاس کل ہونے کی یقین دہانی
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ غلط بیانی کر رہے ہیں، تین اپریل کو اسمبلی میں شدید جھگڑا ہوا جس پر اجلاس ملتوی ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی جس ایجنڈے کیلئے طلب ہوئی وہ ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا کہ اتنا بتا دیں کل پنجاب میں وزیراعلی کا الیکشن ہوگا یا نہیں؟۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی آئین کی مکمل پاسداری کرینگے، کل پنجاب اسمبلی کا اجلاس صبح 11:30 بجے ہوگا، پنجاب میں بھی جمہوریت کا مذاق بنایا جا رہا ہے، حکومتی اراکین کو ہوٹلوں میں قید رکھا گیا ہے، نئے وزیراعلی کے انتخاب تک عثمان بزدار کام جاری رکھے ہوئے ہیں، پنجاب اسمبلی اور ہوٹلز میں جو ہو رہا ہے اسکی عدالت انکوائری کرائے۔
وزیراعلی کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ وزیراعلی کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے، کل سماعت کے دوران پنجاب اسمبلی کے حوالے سے اپ ڈیٹ لیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہی ہے اور معاملہ ہمارے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ بار کے وکیل نے دلائل دیے کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ میں اسپیکر کا کوئی کردار نہیں ہوتا، سیکرٹری اسمبلی اور عملہ گنتی جبکہ اسپیکر اعلان کرتا ہے، اسپیکر کا کردار تو عام قانون سازی میں ہوتا ہے جہاں اراکین کی آواز سے اکثریت کا فیصلہ ہو۔
سندھ بار کونسل کے وکیل نے بھی کہا کہ اسپیکر کے پاس اختیار نہیں تھا کہ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرتے، اسپیکر کسی صورت آئین کی تشریح کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔
پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتے
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتے، ماضی میں عدالت غیرآئینی اقدامات پر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرتی رہی ہے۔
عمران خان وزیراعظم ہی نہیں تو نمائندگی کیسے
عمران خان کی جانب سے امتیاز صدیقی عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمران خان وزیراعظم ہی نہیں تو ان کی نمائندگی کیسے کررہے ہیں۔
نگراں حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، کوشش ہے کل فیصلہ سنا دیں
چیف جسٹس نے کہا کہ نگراں حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنا دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوازشریف کیس میں اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگران حکومت بن چکی تھی، عدالت نے نوازشریف کیس میں ایک ماہ بعد فیصلہ سنایا تھا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت اپوزیشن آپس میں لڑ رہے ہیں، معاملہ ہمارے گلے ڈالا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار نے کہا کہ سابق امریکی سفیر اسد مجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آ جائے گا۔
یہ بھی پڑھین: تحریک عدم اعتماد؛ ڈپٹی اسپیکر کو ایسی رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا، سپریم کورٹ
پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے دلائل دیے عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنی ہے، جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لاء ہی قرار دیا جا سکتا ہے، سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیرآئینی ہے، ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا، ان کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ تھی، کیا اسپیکر عدالتی فائینڈنگ کے بغیر رولنگ دے سکتے تھے، انہوں نے تحریری رولنگ دیکر اپنی زبانی رولنگ کو غیر موثر کر دیا، یہ رولنگ آئین کے خلاف ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ اگر قرارداد پارلیمنٹ میں آ جائے تو وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے، عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیراعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے، صدر مملکت ازخود بھی وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہ سکتے ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کر سکتے، وزیر اعظم نے اپنے بیان میں تین آپشن کی بات کی، جس کی اسٹبلشمنٹ نےتردید کی۔
رضا ربانی نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد لانے والے ممبران اسے واپس لے لیں تو ایسا ہو سکتا ہے، جب تحریک عدم اعتماد ٹیبل ہو جائے تو اس پر ووٹنگ کرانا ضروری ہے، آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو استثنی حاصل ہوتا ہے، اسپیکر کارروائی چلانے کیلئے جو فیصلہ کرے اسے تحفظ حاصل ہوگا، آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 کی تشریح کرکے ارکان پر اطلاق کردیا، اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95(2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
رضا ربانی نے دلائل مکمل کرتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ غیرآئینی قرار دے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے، عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیکر اسمبلی کو بحال کرے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہا کہ رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، لیکن قرار داد پر بحث نہیں کرائی گئی، 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی، وزیراعظم اکثریت کھو دیں تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے کہ وہ وزیراعظم رہیں۔
جسٹس منیب اختر نے وکیل سے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں، تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے تمام طریقہ کار اسمبلی رولز میں ہے، ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق سات دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے، اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟
وکیل نے جواب دیا کہ آٹھویں دن ووٹنگ غیرآئینی نہیں ہوگی، مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ کی ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا، ڈپٹی اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ اسپیکر کے علاوہ پورا ایوان وزیراعظم کیخلاف ہو لیکن اسپیکر پھر بھی عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے؟ تحریک عدم اعتماد کیلئے وجوہات بتانا ضروری نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کو رولز کے ذریعے غیر موثر نہیں بنایا جا سکتا، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے؟وکیل نے جواب دیا کہ غیرآئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، بلکہ صرف دیکھنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں، صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے،پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی۔
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ عدالت چاہے تو حساس ادارے کے سربراہ سے چیمبر میں یا ان کیمرا بریفنگ لے سکتی ہے، سابق چیف جسٹس کو قائمقام چیف جسٹس بنانا عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے، رولنگ کالعدم ہوئی تو اسمبلی کی تحلیل بھی ختم ہو جائے گی۔
وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا موقف بھی سنا جائے، خدشہ ہے کہ وزیراعلی کا الیکشن شاید کل بھی نہ ہو، 40 اراکین کو معطل کرتے ہوئے ووٹنگ سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی پنجاب اسمبلی کا اجلاس کل ہونے کی یقین دہانی
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ غلط بیانی کر رہے ہیں، تین اپریل کو اسمبلی میں شدید جھگڑا ہوا جس پر اجلاس ملتوی ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی جس ایجنڈے کیلئے طلب ہوئی وہ ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا کہ اتنا بتا دیں کل پنجاب میں وزیراعلی کا الیکشن ہوگا یا نہیں؟۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی آئین کی مکمل پاسداری کرینگے، کل پنجاب اسمبلی کا اجلاس صبح 11:30 بجے ہوگا، پنجاب میں بھی جمہوریت کا مذاق بنایا جا رہا ہے، حکومتی اراکین کو ہوٹلوں میں قید رکھا گیا ہے، نئے وزیراعلی کے انتخاب تک عثمان بزدار کام جاری رکھے ہوئے ہیں، پنجاب اسمبلی اور ہوٹلز میں جو ہو رہا ہے اسکی عدالت انکوائری کرائے۔
وزیراعلی کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ وزیراعلی کا الیکشن آئین کے مطابق ہونا ضروری ہے، کل سماعت کے دوران پنجاب اسمبلی کے حوالے سے اپ ڈیٹ لیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہی ہے اور معاملہ ہمارے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ بار کے وکیل نے دلائل دیے کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ میں اسپیکر کا کوئی کردار نہیں ہوتا، سیکرٹری اسمبلی اور عملہ گنتی جبکہ اسپیکر اعلان کرتا ہے، اسپیکر کا کردار تو عام قانون سازی میں ہوتا ہے جہاں اراکین کی آواز سے اکثریت کا فیصلہ ہو۔
سندھ بار کونسل کے وکیل نے بھی کہا کہ اسپیکر کے پاس اختیار نہیں تھا کہ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرتے، اسپیکر کسی صورت آئین کی تشریح کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔
پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتے
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتے، ماضی میں عدالت غیرآئینی اقدامات پر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرتی رہی ہے۔
عمران خان وزیراعظم ہی نہیں تو نمائندگی کیسے
عمران خان کی جانب سے امتیاز صدیقی عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمران خان وزیراعظم ہی نہیں تو ان کی نمائندگی کیسے کررہے ہیں۔
نگراں حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، کوشش ہے کل فیصلہ سنا دیں
چیف جسٹس نے کہا کہ نگراں حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنا دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوازشریف کیس میں اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگران حکومت بن چکی تھی، عدالت نے نوازشریف کیس میں ایک ماہ بعد فیصلہ سنایا تھا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔