بلیو بیری کے اجزا دیرینہ زخم مندمل کرنے میں مددگار ثابت
ذیابیطس اور دیگر کیفیات میں ہونے والے ناسور بلیو بیری کے اہم جزو سے دور کئے جاسکتے ہیں
چند روز قبل خبر آئی تھی کہ بلیو بیری کھانے سے دماغ اور حافظہ بہترین رہتا ہے۔ اب ایک اور تحقیق سے یہ ننھا میٹھا پھل سپرفوڈ بن گیا ہے کہ اس سے ذیابیطس اور دیگر کیفیات کے زخم اور ناسور تیزی سے ٹھیک ہوسکتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ زخم بھرنے کے لیے عین اس جگہ خون کی رگوں کا بننا اور سرگرمی بہت ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ خون دیگر اہم اجزا کو وہاں تک لاتا ہے اور کھال اور بافتیں بنتی ہیں ۔ اس عمل کو ویسکیولرائزیشن کہا جاتا ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کے پیر اور دیگر مقامات کے زخم اس وجہ سے ٹھیک نہیں ہوتے کہ خون کی نالیاں بننے کا عمل بہت سست ہوجاتا ہے۔ زخم ناسور میں ڈھل جاتا ہے اور بعض مرتبہ انفیکشن پھیلنے سے ہاتھ پیر کاٹنے کی نوبت پیش آتی ہے جو شمع حیات بھی بجھاسکتی ہے۔
بلیوبیری میں فینول نامی اینٹی آکسیڈنٹ اس ضمن میں جادوئی اثر رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف مین نے ان کی آزمائش کی ہے اور دیکھا کہ فینول نامی مرکب زخموں پر خون کی رگیں بننے لگیں اور وہاں خلیات جمع ہوئے، جن کی بارک تہیں بنیں جو آخر کار کھال میں ڈھل گئیں۔ یہ تجربات انسانی آنول نال کے خلیات پر کئے گئے تھے۔
اس کے بعد یونیورسٹی آف مین کی پروفیسر ڈورتھی اور ان کے شریک سائنسدانوں نے ایک طرح کا جل والا مرہم بنایا جس میں بلیوبیری کے فینول ملائے گئے تھے۔ پھر انہیں چوہوں کے گہرے زخموں پر آزمایا گیا۔ اس طرح مرہم کے استعمال کے 6 دن کے اندر ہی اینڈوتھیلیئل خلیات یعنی باریک کھال بننے کا عمل شروع ہوگیا اور دیگر کے مقابلے میں زخم 12 فیصد تک تیزی سے بھرنے لگا۔ اس کے علاوہ خون کی باریک نالیاں بھی نمودار ہونے لگیں۔
اس طرح ثابت ہوا کہ جنگلی بلیوبیریوں میں موجود کیمیکلز بہت ہی مؤثر انداز میں زخموں کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ توقع ہے کہ یہ طریقہ جلنے کے گہرے زخم، پریشر السر اور ذیابیطس کے ناسوروں کو یکساں تیزی سے مندمل کرسکتا ہے۔ تاہم اگلے مرحلے پر اسے انسانوں پرآزمایا جائے گا۔
ہم جانتے ہیں کہ زخم بھرنے کے لیے عین اس جگہ خون کی رگوں کا بننا اور سرگرمی بہت ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ خون دیگر اہم اجزا کو وہاں تک لاتا ہے اور کھال اور بافتیں بنتی ہیں ۔ اس عمل کو ویسکیولرائزیشن کہا جاتا ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کے پیر اور دیگر مقامات کے زخم اس وجہ سے ٹھیک نہیں ہوتے کہ خون کی نالیاں بننے کا عمل بہت سست ہوجاتا ہے۔ زخم ناسور میں ڈھل جاتا ہے اور بعض مرتبہ انفیکشن پھیلنے سے ہاتھ پیر کاٹنے کی نوبت پیش آتی ہے جو شمع حیات بھی بجھاسکتی ہے۔
بلیوبیری میں فینول نامی اینٹی آکسیڈنٹ اس ضمن میں جادوئی اثر رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف مین نے ان کی آزمائش کی ہے اور دیکھا کہ فینول نامی مرکب زخموں پر خون کی رگیں بننے لگیں اور وہاں خلیات جمع ہوئے، جن کی بارک تہیں بنیں جو آخر کار کھال میں ڈھل گئیں۔ یہ تجربات انسانی آنول نال کے خلیات پر کئے گئے تھے۔
اس کے بعد یونیورسٹی آف مین کی پروفیسر ڈورتھی اور ان کے شریک سائنسدانوں نے ایک طرح کا جل والا مرہم بنایا جس میں بلیوبیری کے فینول ملائے گئے تھے۔ پھر انہیں چوہوں کے گہرے زخموں پر آزمایا گیا۔ اس طرح مرہم کے استعمال کے 6 دن کے اندر ہی اینڈوتھیلیئل خلیات یعنی باریک کھال بننے کا عمل شروع ہوگیا اور دیگر کے مقابلے میں زخم 12 فیصد تک تیزی سے بھرنے لگا۔ اس کے علاوہ خون کی باریک نالیاں بھی نمودار ہونے لگیں۔
اس طرح ثابت ہوا کہ جنگلی بلیوبیریوں میں موجود کیمیکلز بہت ہی مؤثر انداز میں زخموں کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ توقع ہے کہ یہ طریقہ جلنے کے گہرے زخم، پریشر السر اور ذیابیطس کے ناسوروں کو یکساں تیزی سے مندمل کرسکتا ہے۔ تاہم اگلے مرحلے پر اسے انسانوں پرآزمایا جائے گا۔