پاکستان میں نومولود بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے بین الاقوامی سروے رپورٹ
پاکستان میں ہر ایک گھنٹےمیں 3 خواتین زچگی کے دوران پیدا ہونے والی پچیدگیوں کی وجہ سے خالق حقیقی سے جاملتی ہیں،رپورٹ
ATLANTA:
بین الاقوامی تنظیم ''سیو دی چلڈرن '' کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نومولود بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں گزشتہ 12 برس کے دوران نومولود بچوں کی شرح اموات میں 50 فیصد کمی آئی ہے لیکن پاکستان میں اس میں کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہوئی۔ پاکستان میں زچگی کی مناسب سہولتوں کے فقدان کے باعث ماں اور بچہ کئی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں نومولود بچوں کی شرح اموات دنیا کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق نمونیا اور ہیضے کی وجہ سے پاکستان میں ہر ہزار میں سے 55 نومولود بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، اس طرح ہر سال2 لاکھ بچوں کی سانسوں کی ڈوریں پیدائش کے بعد 28 دنوں میں ہی ٹوٹ جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں ہر ایک گھنٹےمیں 3 خواتین زچگی کے دوران پیدا ہونے والی پچیدگیوں کی وجہ سے خالق حقیقی سے جاملتی ہیں۔ پاکستان میں ایک ماہ سے زائد اور پانچ سال سے کم بچوں کی شرح اموات میں کمی ہوئی ہے تاہم اب بھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی تنظیم ''سیو دی چلڈرن '' کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نومولود بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں گزشتہ 12 برس کے دوران نومولود بچوں کی شرح اموات میں 50 فیصد کمی آئی ہے لیکن پاکستان میں اس میں کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہوئی۔ پاکستان میں زچگی کی مناسب سہولتوں کے فقدان کے باعث ماں اور بچہ کئی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں نومولود بچوں کی شرح اموات دنیا کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق نمونیا اور ہیضے کی وجہ سے پاکستان میں ہر ہزار میں سے 55 نومولود بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، اس طرح ہر سال2 لاکھ بچوں کی سانسوں کی ڈوریں پیدائش کے بعد 28 دنوں میں ہی ٹوٹ جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں ہر ایک گھنٹےمیں 3 خواتین زچگی کے دوران پیدا ہونے والی پچیدگیوں کی وجہ سے خالق حقیقی سے جاملتی ہیں۔ پاکستان میں ایک ماہ سے زائد اور پانچ سال سے کم بچوں کی شرح اموات میں کمی ہوئی ہے تاہم اب بھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔