سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف اکٹھی

ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی کے مابین الزام تراشیاں

شاہراہ قائدین پر ایم کیو ایم کی ریلی کے شرکا سیاسی راہ نمائوں کا خطاب سن رہے ہیں۔

شہر قائد میں سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس، امن ریلیوں کی صورت میں اکٹھی نظر آرہی ہیں۔

پچھلے دنوں میں کراچی میں مسلم لیگ ن کی آواز پر سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت شہر میں قیام امن کے لیے ایک جگہ تھیں، جب کہ اتوار کے دن متحدہ قومی موومنٹ کا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یک جہتی کے لیے اجتماع ہوا تو اس میں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے راہ نماؤں نے بھی شرکت کی اور پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

گزشتہ روز شاہراہ قائدین پر ریلی کے شرکا سے الطاف حسین، ایم کیو ایم کے راہ نماؤں اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے خطاب کیا۔ شہر کے سیاسی، مذہبی اور باشعور عوامی حلقوں میں اس ریلی کو دہشت گردی کے خلاف اور ملک میں قیام امن کے لیے متحدہ قومی موومنٹ کی اہم کاوش قرار دیا جارہا ہے۔ اس ریلی سے خطاب میں متحدہ کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے، اگر حکومت، فوج اور پالیسی ساز اداروں نے بروقت قدم نہیں اٹھایا تو پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں ملک کو درپیش کئی اہم مسائل سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو ملک میں ڈنڈا بردار شریعت نافذ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، تمام سیاسی جماعتیں اختلافات بھلا کر اکٹھی ہوجائیں اور واضح پیغام دیں کہ طالبان کا یار پاکستان کا غدار ہے، جو راہ نما اور جماعتیں طالبان کو شہید، لیکن فوج کے جوانوں کو شہید قرار نہیں دیتیں، وہ پاکستان توڑنے والوں کے ایجنٹ ہیں، قوم کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ملک توڑنے والوں کا ساتھ ہیں یا پاکستان بچانے والوں کے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم واحد جماعت ہے جس نے پاک افواج، رینجرز، پیرا ملٹری فورسز، دفاعی ایجنسیوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے یہ ریلی نکالی ہے۔ ان کا کہنا تھ اکہ ماضی میں کئی خطروں کی نشان دہی کی اور طالبانائزیشن کے خطرے سے بھی سب کو آگاہ کیا، لیکن ان باتوں کا مذاق اڑایا گیا، اسے پٹھانوں، سندھ کے خلاف سازش اور کبھی بیرونی اشارے پر پروپیگنڈا قرار دیا گیا، لیکن وہ سب درست ثابت ہوا۔


الطاف حسین کا کہنا تھا کہ طالبان نے ہمیں مسلمان نہیں بنایا، قوم مسلح افواج کے ساتھ ہے، جو طالبان کے حامی ہیں وہ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔ الطاف حسین نے کہا کہ گردنیں کاٹنا، بچیوں پر کوڑے برسانا، ان کے اسکولوں کو تباہ کرنا وحشت اور درندگی ہے۔ کیا ہم ان کی حمایت کریں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ایم کیوایم میں شامل نہ ہو، لیکن پاکستان کی بقا کی خاطر اپنی اپنی جماعتوں کے راہ نماؤں سے جرأت کے ساتھ سوال ضرور کرے کہ وہ کس طرح طالبان کی حمایت کررہے ہیں، اگر تسلی بخش جواب نہ ملے تو ایسے لیڈر کا ساتھ چھوڑ دے۔ الطاف حسین نے کہا کہ اسماعیلی، گجراتی، بوہرہ معصوم برادریاں ہیں، ان کے گھروں، بستیوں پر حملے کیے جاتے ہیں، یہ کون سا اسلام ہے؟

ایم کیو ایم کے قائد نے طالبان کے ہاتھوں صحافیوں کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو ہمت و جرأت کرنی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور میدان عمل میں آئیں۔ الطاف حسین نے کہا کہ ہمارا گناہ اور قصور یہ ہے کہ ہم مظلوم لوگوںکی حکم رانی چاہتے ہیں، ملک سے جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ نظام، کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں، انصاف کی حکم رانی چاہتے ہیں، الطاف حسین نے کہا کہ خدارا اردو اور سندھی بولنے والے کی تفریق کے بجائے سندھ میں بھی یک جہتی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، اردو بولنے والے سندھ کے مستقل باشندے ہیں، پنجابی، بلوچی، پختون، سرائیکی، گلگتی، کشمیری جو کراچی اور سندھ میں مستقل آباد ہیں، وہ سب سندھی ہیں، ان کا بھی سندھ پر اتنا ہی حق ہے، جتنا پانچ ہزار سال سے رہنے والے سندھی کا ہے۔

الطاف حسین نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ پاکستانی افواج کے ساتھ کوئی ہو نہ ہو، ایم کیوایم، اس کے ہم درد اور کارکن ضرور ساتھ ہیں۔ سیاسی اور عوامی حلقوں میں الطاف حسین کے اس خطاب کو بہت اہمیت دی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے درمیان ایک مرتبہ پھر سیاسی تناؤ دیکھنے میں آیا۔ ایم کیو ایم نے جماعت اسلامی پر پابندی کا مطالبہ کیا اور اسے اسمبلی میں بھی پہنچا دیا۔ دونوں طرف سے الزامات کا سلسلہ شروع ہوا اور جماعت اسلامی نے متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی لگانے کا مطالبہ کردیا۔ ایم کیو ایم کی ریلی سے متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کُن وقت آچکا ہے، ہم بارود والوں سے ڈرنے والے نہیں، ضرورت پڑی تو ایم کیوایم کے کارکنان پاک افواج کے شانہ بشانہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہوں گے۔ اس موقع پر مختلف مسالک کے علمائے کرام، پیپلزپارٹی کے نجمی عالم، مسلم لیگ ن کے نہال ہاشمی، اے پی ایم ایل کی آسیہ اسحاق و دیگر راہ نماؤں نے بھی خطاب کیا۔

ریلی میں شرکا نے مسلح افواج، رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہل کاروں سے یک جہتی کا اظہار، طالبان کے خلاف کارروائیوں کی مکمل حمایت، مساجد، مزارات، غیر مسلموں کی عبادت گاہوں، اسکولوں اور بازاروں میں خودکش حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ شرکاء نے طالبان کے ہاتھوں شہید ہونے والے مختلف اداروں کے اہل کاروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر مختلف قرار دادوں میں شرکا کی جانب سے حیدر عباس رضوی نے کہا کہ یہ اجتماع پاکستان کو ایک آزاد اسلامی ریاست سمجھتا ہے اور کسی ایک عقیدے کے ماننے والوں کی جاگیر نہیں، غیر مسلم پاکستانی کے حقوق بھی مسلمان پاکستانی کے مساوی ہیں، یہ اجتماع متفقہ طور پر قرارداد منظور کرتا ہے کہ پاکستان اور طالبان ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور اس کا مطالبہ ہے کہ طالبان دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔
Load Next Story