دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قومی سلامتی پالیسی کی منظوری

یہ فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا کہ مذاکرات یا آپریشن کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اسمبلی اجلاس کے دوران پالیسی بیان۔۔۔

پاک افغان بارڈر کو دونوں ممالک کے لیے محفوظ بنانے کے لیے انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے۔ فوٹو : فائل

انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والے طالبان کے ساتھ قیام امن کے لیے بات چیت کے آغاز میں ہی وزیراعظم محمد نواز شریف نے ایک بات بہت واضح انداز میں کہہ دی تھی کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اور پھر ہوا بھی یہی کہ طالبان نے جونہی کراچی میں پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا سالوں قبل اغوا کیے گئے ۔

ایف سی اہلکاروں کو قتل کیے جانے اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی وڈیوز ریلیز کی گئیں، بات چیت اور مذاکرات کا سلسلہ تعطل کا شکار ہوگیا جو تاحال بحال نہیں ہو سکا اور پاکستان بھر میں کسی کو اس تعطل پر ذرا برابر بھی پریشانی نہیں کیونکہ مذاکرات کا سلسلہ بتدریج آگے بڑھ رہا تھا کہ طاقت کے استعمال کاآپشن ایک فریق نے اختیار کر دکھایا۔ اب مذاکرات کی میز پر بیٹھے دوسرے فریق پر بھی لازم ہو چکا تھا کہ وہ بھی حزب مخالف کو اسی زبان میں جواب دے جس زبان کے استعمال میں اس نے پہل کی ۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی جب بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کی راہیں تلاشنے میں مصروف تھی، عین اسی دوران حکومت کے انٹیلی جنس اداروں کو یہ اطلاعات مل رہی تھیں کہ انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والے وزیرستان کے بعض علاقوں میں بیٹھے اس منصوبہ سازی میں مصروف ہیں کہ پاکستان بھر کے مختلف شہروں میں کہاں، کیسے اور کب دہشت گردی کی کارروائیاں کی جائیں۔

انہی انٹیلی جنس اطلاعات کی روشنی میں سکیورٹی فورسز نے پاک فضائیہ کے طیاروں کے ذریعے میر علی، شوال میرانشاہ اور دیگر قبائلی علاقوں میں انتہائی کامیاب حملے کیے جن کے نتیجے میں درجنوں انتہا پسند اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے منصوبہ ساز مارے گئے۔ ان حملوں کے حوالے سے ایسی شکایات بھی اب تک سامنے نہیں آئیں کہ کہیں عام شہریوں یا سول آبادیوں کو نقصان پہنچا ہو۔ البتہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے پرامن شہریوں کی نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دو اہم فیصلے سامنے آئے ہیں، پہلا یہ کہ کابینہ نے قومی سلامتی پالیسی کے مسودے کی منظوری دے دی ہے جس کے مطابق قومی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہونے والے تمام عوامل کے خاتمے کے لیے اداروں اور حکام کو سخت ترین اقدامات کے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو بھی زیادہ موثر بنانے کے لیے اسے براہ راست وزیراعظم پاکستان کی زیر نگرانی کر دیا گیا ہے جبکہ چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، مسلح افواج کے سربراہان، ڈی جی آئی ایس آئی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اس کے ممبران میں شامل ہوں گے۔

پاک افغان بارڈر کو دونوں ممالک کے لیے محفوظ بنانے کے لیے انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے جس سے پاک افغان بارڈر پر ہونے والی انتہا پسندوں کی دراندازی روکنے میں مدد ملے گی۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ آج (بروز بدھ) قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پیش کریں گے جبکہ وزیراعظم نواز شریف خود بھی اسمبلی ہال میں موجود ہوں گے۔




یہ فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا کہ مذاکرات یا آپریشن کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اسمبلی اجلاس کے دوران پالیسی بیان دیں گے یا نہیں البتہ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اس حوالے سے جب بھی بولے وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اعلان کے وقت کی گئی اپنی ہی تقریر کے ان الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے اپنا موقف واضح کریں گے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اعلان کے ساتھ ہی میں نے واضح کر دیا تھا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اور یہی فیصلہ آج (بروز منگل) ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سامنے آیا کہ طالبان غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کر دیں۔ بات چیت دوبارہ شروع کی جا سکتی ہے۔ پاکستان بھر کے عوام اس حوالے سے بھی بہت کلیئر ہیں کہ اب کی بار انتہا پسندوں کے پاس یہ عذر پیش کرنے کی بھی گنجائش باقی نہیں بچی کہ اب (اللہ نہ کرے) اگر کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہوئی تو وہ اس کا الزام کسی دوسرے گروپ کے سر تھونپ دیں اور اگر کوئی گروپ ان کے کنٹرول میں نہیں تو انہیں ایسے افراد اور گروپوں کے نام پہلے ہی پبلک کر دینا ہوں گے۔

خبر کی دوڑ میں جنون کی حدوں کو چھوتے میڈیا کی موجودگی میں ویسے بھی کون سی بات چھپی رہ سکتی ہے۔ اسی میڈیا کے توسط سے قوم کو معلوم ہوا کہ طالبان کی سیاسی شوریٰ کے ارکان بھی کرکٹ جیسے عام سے موضوع پر ہم خیال قرار نہیں دیے جا سکتے کہ گزشتہ روز وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے طالبان کو کرکٹ کھیلنے کی دعوت دی تو طالبان کے ایک گروپ کی جانب سے یہ ردعمل سامنے آیا کہ کرکٹ میچ تو کھیل لیں مگر نیوٹرل امپائر کہاں سے آئیں گے، اس لیے شریعت کے نفاذ تک نیوٹرل امپائروں کا دستیاب ہونا ممکن نہیں جبکہ دوسرے گروپ نے کرکٹ کے کھیل سے شدید نفرت کا اظہارکیا۔ اب عام آدمی یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ طالبان کے مختلف رہنما اور گروپ اگر کرکٹ جیسے معاملے پر ایک موقف نہیں رکھتے تو پھر مذاکرات، دہشت گردی اور پاکستان کے خلاف جاری عالمی سازشوں جیسے پیچیدہ معاملات میں کیسے ان کے تمام گروپ ہم خیال اور یک زبان ہو سکتے ہیں۔ امن اب مذاکرات کے ذریعے آئے یا آپریشن کے نتیجے میں پاکستان بھر کے عوام سکھ کا سانس لیں۔

اسی موقع پر دونوں فریقین کو اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ پرامن انداز میں مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوئی بھی کوشش جب سنجیدگی کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے کامیابی کی جانب چند قدم ہی بڑھاتی ہے تو نادیدہ ہاتھ اس سارے عمل کو تلپٹ کر کے رکھ دیتے ہیں ۔ پاکستان دشمن ممالک اور وہاں چھپے بیٹھے عالمی امن کے مخالفوں پر بھی کڑی نگاہ رکھنا ہو گی۔ ادھر حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں اہم کردار نہ دیے جانے پر وزیراعظم نواز شریف سے نالاں ان کے اتحادی مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر اپنی ناراضگی کا کھل کر اظہار یوں کر دیا کہ منگل کے روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ان کے دونوں بے محکمہ وزراء اکرم خان درانی اور مولانا غفور حیدری شریک نہ ہوئے۔ عدم شرکت کی اب تک سامنے آنے والی اطلاعات یہ ہیں کہ جے یو آئی (ف) نے اپنے وزراء کو محکمے الاٹ نہ کیے جانے پر اظہار ناراضگی کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف خود تو وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے البتہ ان کی ہدایت پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا اور ان کے تمام تحفظات دور کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ خارجہ محاذ پر بھی وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔

سعودی نائب وزیراعظم شہزادہ سلمان بن سلطان بن عبدالعزیز السعود کے دورۂ پاکستان سے جہاں یہ افواہیں گرم ہوئیں کہ سعودی حکام پاکستان سے اسلحہ خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ اسلحہ مبینہ طور پر شام میں حکومت کے خلاف برسر پیکار شامی باغیوں تک پہنچایا جائے گا۔ حکومت پاکستان اس کی باقاعدہ تردید جاری کر چکی ہے مگر امریکی سی آئی اے کے سربراہ جان برنن کے ہنگامی دورۂ پاکستان سے شکوک و شبہات کو تقویت ضرور ملی ہے۔ عالمی سیاست اور بدلتے تناظر میں ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں اور مجبوریوں کے پیش نظر اہم فیصلے کرے مگر وزیراعظم نواز شریف کو تاریخ کے اس اہم موڑ پر اپنی ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے بہترین مفاد اور روشن مستقبل کے لیے جرأتمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔
Load Next Story