سندھ کے سکیورٹی اداروں کو چیلنجز کا سامنا

اگر سندھ کا موازنہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے ساتھ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طالبان کے ایشو پر سندھ کا۔۔۔

یہاں طالبان کے وجود میں آنے سے پہلے عام لوگوں کا جو قتل عام ہو رہا تھا، وہ آج بھی ہو رہا ہے۔ فوٹو : فائل

حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ختم ہونے اور انتہا پسندی کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد سندھ میں سکیورٹی اداروں کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔

طالبان کے رد عمل یا طالبان کی آڑ میں دیگر دہشت گرد گروہوں کی کارروائیوں کے امکان کے پیش نظر سکیورٹی اداروں کو متعدد اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اگلے روز وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت سندھ کابینہ کا اجلاس چیف منسٹرہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں ملکی صورت حال کے تناظر میں امن و امان کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور قیام امن کے لیے اہم فیصلے کیے گئے ۔ اجلاس میں بعض اداروں نے یہ رپورٹس دیں کہ وزیرستان میں انتہا پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد دہشت گرد سندھ کا رخ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا سکیورٹی اداروں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پنجاب اور بلوچستان کے داخلی راستوں پر سخت چیکنگ کریں اور سندھ میں داخل ہونے والی گاڑیوں پر کڑی نظر رکھیں ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تمام شہروں کے داخلی راستوں پر چوکیاں قائم کریں اور شمالی علاقوں سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کو سندھ میں داخل ہونے سے ہر حال میں روکا جائے۔ سندھ کابینہ کے اجلاس کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ کابینہ نے دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) تو بہت پہلے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت اور ان کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اس طرح پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت بھی اُس کی ''ہم نوا'' بن گئی ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے گذشتہ اتوار کو طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے حق میں اور فوج ، رینجرز ، پولیس ، لیویز اور ایف سی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک بڑی ریلی نکالی گئی اور جلسہ عام منعقد کیا گیا۔ جلسے سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے خطاب میں طالبان کی حامی قوتوں کو پاکستان کا غدار قرار دیا اور کہا کہ فوج اور دیگر سکیورٹی ادارے طالبان کے خلاف آگے بڑھیں ۔ پوری قوم ان کے ساتھ ہے۔ ایم کیو ایم ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے ، جس نے طالبان کے خلاف اور سکیورٹی فورسز سے اظہار یکجہتی کے لیے عوامی اجتماع منعقد کیا۔


پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی بھی اگرچہ طالبان کی بہت بڑی مخالف سیاسی جماعتیں تصور کی جاتی ہیں ۔ مگر وہ اس طرح کے عوامی اجتماعات منعقد نہیں کر سکتی ہیں کیونکہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھا چکی ہیں ۔ سندھ کابینہ کی طرف سے فوجی کارروائی کی حمایت اور ایم کیو ایم کی ریلی کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ سندھ کی نمائندہ دو بڑی سیاسی جماعتیں مذاکرات سے زیادہ فوجی کارروائی کے حق میں ہیں ۔ سندھ کے وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام میمن نے تو سندھ اسمبلی میں یہ کہہ دیا کہ طالبان کے خلاف فوجی آپریشن ہوناچاہئے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جب وفاقی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی تھی، اس وقت سندھ حکومت طالبان سمیت دیگر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی تھی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری بہت پہلے سے طالبان کے خلاف کھل کر باتیں کر رہے تھے اور وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں تھے ۔ بلاول بھٹو زرداری کے ان بیانات کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی باقی قیادت نے فوجی کارروائی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور طالبان کے خلاف دیگر رہنما بھی کھل کر بیانات دینے لگے۔

اگر سندھ کا موازنہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے ساتھ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طالبان کے ایشو پر سندھ کا مؤقف زیادہ واضح ہے۔ کسی دوسرے صوبے میں مذاکرات کی مخالفت اور فوجی آپریشن کی حمایت میں اس طرح کی آواز نہیں اٹھی ہے ۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) اب بھی مذاکرات کی حامی ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی حکومت طالبان کے بارے میں انتہائی نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ عوانی نیشنل پارٹی فی الوقت انتہا پسند قوتوں کے خلاف عوامی طاقت کے مظاہرے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اس معاملے میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور کھل کر اپنے مؤقف کا اظہار نہیں کر رہی ہیں۔ صرف سندھ میں فوجی آپریشن کے حق میں ایک بلند آواز موجود ہے لیکن سندھ کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے کیونکہ یہاں گذشتہ تین عشرے سے مسلسل دہشت گردی ہو رہی ہے۔

یہاں طالبان کے وجود میں آنے سے پہلے عام لوگوں کا جو قتل عام ہو رہا تھا، وہ آج بھی ہو رہا ہے۔ اس شہر میں دہشت گردی کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کے ڈانڈے بہت دور تک جا ملتے ہیں ۔ کراچی میں اگرچہ طالبان کے ساتھ کچھ گروہ سرگرم عمل ہیں لیکن روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے قتل عام کی ساری ذمہ داری طالبان پر نہیں ڈالی جا سکتی ۔ اس شہر میں طالبان نے بھی بڑی بڑی کارروائیاں کی ہیں اور ان کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے ۔ اس کے باوجود سکیورٹی ادارے دہشت گردی کے پرانے نیٹ ورکس کی کارروائیوں کے امکانات کو مسترد نہیں کر رہے۔ یہ خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مؤقف کے بعد نہ صرف طالبان زیادہ رد عمل ظاہر کرسکتے ہیں بلکہ طالبان کی آڑ میں دیگر دہشت گرد گروہ بھی اپنی کارروائیوں میں تیزی لا سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔ اس لیے سندھ خصوصا کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
Load Next Story