اس گَرد کے منظر نامے میں
عزت اور غیرت مندی کے ساتھ جینے کے لیے ہمیں کون سا راستہ لینا چاہیئے
کراچی:
تقریباً 27 برس قبل میں نے اُمتِ مُسلمہ کی تاریخ، حالیہ صورتِ حال اور امکانات کے حوالے سے اس عنوان کے ساتھ ایک نظم لکھی تھی جو گزشتہ چند دنوں سے وطنِِ عزیز کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے مجھے بار بار یاد آرہی ہے۔
میں بغیر کسی مزید تبصرے یا وضاحت کے اپنے قارئین کو اس مسئلے میں شامل کرنا چاہ رہا ہوں تاکہ وہ خود فیصلہ کرسکیں کہ پانی کہاں مر رہا ہے اور یہ کہ عزت اور غیرت مندی کے ساتھ جینے کے لیے ہمیں کون سا راستہ لینا چاہیئے۔
اِس گَرد کے منظر نامے میں
تاریخ کی اُلجھی گلیوں میں
کچھ ڈھیر پڑے ہیں ملبے کے
ملبہ جو ہمارے درد کا ہے
ہر دیکھنے والی آنکھ کا ہے
ہر سوچنے و الے فرد کا ہے
ہر منظر دھندلا دھندلا ہے
کچھ ایسا پردہ گرد کا ہے
وہ لوگ جو آگے گزر گئے
کیا سچ تھا اُن کا جُھوٹ تھاکیا؟
کس حق کی خاطر لڑتے تھے
کس ظلم کے ہاتھوں مرتے تھے؟
کیا خواب تھے اُن کی آنکھوں میں
اور کیا اُن کی تعبیریں تھیں
جو سیلِ زماں کا رزق ہوئیں
وہ کیا محکم تعمیریں تھیں
ارژنگ جو لیرولیر ہوا
کیا کیا اس میں تصویریں تھیں!
اور پانی پر جو لکھی گئیں
وہ کیا مشکل تحریریں تھیں!
اک دشت کی جلتی مٹی پر
کیا بہتے لہُو نے لکھا تھا
پردیس کے قاتل رستوں میں
کیا مرتے ہوؤں نے سوچا تھا
جو اہلِ حَشم کی صف میں گئے
محلوں میں تخت نشین ہوئے
مُفلس کے لہو کے چھینٹوں سے
وہ دامن جو رنگین ہوئے
اور خلقِ خدا کی قسمت کے
جو مالک بن کر بیٹھ گئے
لاشوں پر مسند رکھّی اور
پھر اُس پر تن کر بیٹھ گئے
اور وہ جو عِلم کے جویا تھے
تاروں پہ کمندیں ڈالتے تھے
جو اپنی سوچ کے گلشن میں
آفاق کے طائر پالتے تھے
ٹکسال میں فکر ِ فردا کی
وجدان کے سکّے ڈھالتے تھے
اور وہ جو عشق میں رُسوا تھے
جو مرزا ،رانجھن ، ہیر ہوئے
خود ڈھونڈا حسن کے پھندے کو
پھر چل کر آپ اسیر ہوئے
باطن میں اُتر کر حرفوں کے
جو غالبؔ، خسروؔ، میرؔ ہوئے
یہ سب اور ان سے اور کئی
اس سیلِ زماں کا رزق بنے
اس گرد کے منظر نامے میں
اک ابرِ گماں کا رزق بنے
سب اپنی اپنی رو میں ہیں
ہے کس کو فرصت ، کون رُکے
کیا راز ہیں دل دروازوں کے
اب کون سنے اور کون کہے!
کچھ گُھٹتی مرتی چیخیں ہیں
کچھ لرزے ہوئے آوازے ہیں
کچھ خوف ہے پتھر بننے کا
کچھ ٹھٹھکے ہوئے اندازے ہیں
کچھ زخم ہیں جن کے نام نہیں
کچھ بُھگتے ہوئے خمیازے ہیں
ترتیب ہو کیسے صفحوں کی
سب بکھرے ہوئے شیرازے ہیں
مُرغوں کی طرح اس ملبے میں
منقار دیا کر کیا ہوگا!
یہ روندے ہوئے سے تاج و کلاہ
ماتھوں پر سجا کر کیا ہوگا
جو نوحوں میں تبدیل ہوئے
وہ نغمے گا کر کیا ہوگا!
اگلوں کی جیت اور ہار سے ہم
کیوں خوش ہیں ؟ کیوں شرمندہ ہیں؟
ہے لوحِ جہاں پہ درج یہی
ہم اپنا آپ آیندہ ہیں
بس ایک حقیقت یاد رہے
جس سانس تلک ہم زندہ ہیں
''اُس پار کے منظر ڈوب چکے
اِ س پار کے پَل رخشندہ ہیں
وہ لوگ جو ہم سے پہلے تھے
اور وہ جو ابھی آیندہ ہیں
اس بیچ میں جو بھی وقفہ ہے
بس اُس کے ہم یابندہ ہیں
وہ جس ملبے کا رزق بنے
ہم اس ملبے میں زندہ ہیں''
آؤ کہ چُنیں اس ملبے سے
جو خواب ابھی تابندہ ہیں
اُن جذبوں کی توقیر کریں
جو انمِٹ ہیں، پائندہ ہیں
بس اُ ن تاروں کی بات کریں
جو بُجھ کر بھی رخشندہ ہیں
اِس گرد کے منظر نامے میں
جو اپنے کہے سے رُک جائے
ایسا تو کوئی موسم بھی نہیں!
یہ سچ ہے آنکھ جھپکنے تک
منظر بھی نہیں اور ہم بھی نہیں
اے بادِ فنا سے ڈرتے دل
جو دیکھ سکے تو کم بھی نہیں!
یہ نظارّے کی فرصت بھی
کچھ کر سکنے کی طاقت بھی
یہ پَل دو پَل کی مہلت بھی!
تقریباً 27 برس قبل میں نے اُمتِ مُسلمہ کی تاریخ، حالیہ صورتِ حال اور امکانات کے حوالے سے اس عنوان کے ساتھ ایک نظم لکھی تھی جو گزشتہ چند دنوں سے وطنِِ عزیز کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے مجھے بار بار یاد آرہی ہے۔
میں بغیر کسی مزید تبصرے یا وضاحت کے اپنے قارئین کو اس مسئلے میں شامل کرنا چاہ رہا ہوں تاکہ وہ خود فیصلہ کرسکیں کہ پانی کہاں مر رہا ہے اور یہ کہ عزت اور غیرت مندی کے ساتھ جینے کے لیے ہمیں کون سا راستہ لینا چاہیئے۔
اِس گَرد کے منظر نامے میں
تاریخ کی اُلجھی گلیوں میں
کچھ ڈھیر پڑے ہیں ملبے کے
ملبہ جو ہمارے درد کا ہے
ہر دیکھنے والی آنکھ کا ہے
ہر سوچنے و الے فرد کا ہے
ہر منظر دھندلا دھندلا ہے
کچھ ایسا پردہ گرد کا ہے
وہ لوگ جو آگے گزر گئے
کیا سچ تھا اُن کا جُھوٹ تھاکیا؟
کس حق کی خاطر لڑتے تھے
کس ظلم کے ہاتھوں مرتے تھے؟
کیا خواب تھے اُن کی آنکھوں میں
اور کیا اُن کی تعبیریں تھیں
جو سیلِ زماں کا رزق ہوئیں
وہ کیا محکم تعمیریں تھیں
ارژنگ جو لیرولیر ہوا
کیا کیا اس میں تصویریں تھیں!
اور پانی پر جو لکھی گئیں
وہ کیا مشکل تحریریں تھیں!
اک دشت کی جلتی مٹی پر
کیا بہتے لہُو نے لکھا تھا
پردیس کے قاتل رستوں میں
کیا مرتے ہوؤں نے سوچا تھا
جو اہلِ حَشم کی صف میں گئے
محلوں میں تخت نشین ہوئے
مُفلس کے لہو کے چھینٹوں سے
وہ دامن جو رنگین ہوئے
اور خلقِ خدا کی قسمت کے
جو مالک بن کر بیٹھ گئے
لاشوں پر مسند رکھّی اور
پھر اُس پر تن کر بیٹھ گئے
اور وہ جو عِلم کے جویا تھے
تاروں پہ کمندیں ڈالتے تھے
جو اپنی سوچ کے گلشن میں
آفاق کے طائر پالتے تھے
ٹکسال میں فکر ِ فردا کی
وجدان کے سکّے ڈھالتے تھے
اور وہ جو عشق میں رُسوا تھے
جو مرزا ،رانجھن ، ہیر ہوئے
خود ڈھونڈا حسن کے پھندے کو
پھر چل کر آپ اسیر ہوئے
باطن میں اُتر کر حرفوں کے
جو غالبؔ، خسروؔ، میرؔ ہوئے
یہ سب اور ان سے اور کئی
اس سیلِ زماں کا رزق بنے
اس گرد کے منظر نامے میں
اک ابرِ گماں کا رزق بنے
سب اپنی اپنی رو میں ہیں
ہے کس کو فرصت ، کون رُکے
کیا راز ہیں دل دروازوں کے
اب کون سنے اور کون کہے!
کچھ گُھٹتی مرتی چیخیں ہیں
کچھ لرزے ہوئے آوازے ہیں
کچھ خوف ہے پتھر بننے کا
کچھ ٹھٹھکے ہوئے اندازے ہیں
کچھ زخم ہیں جن کے نام نہیں
کچھ بُھگتے ہوئے خمیازے ہیں
ترتیب ہو کیسے صفحوں کی
سب بکھرے ہوئے شیرازے ہیں
مُرغوں کی طرح اس ملبے میں
منقار دیا کر کیا ہوگا!
یہ روندے ہوئے سے تاج و کلاہ
ماتھوں پر سجا کر کیا ہوگا
جو نوحوں میں تبدیل ہوئے
وہ نغمے گا کر کیا ہوگا!
اگلوں کی جیت اور ہار سے ہم
کیوں خوش ہیں ؟ کیوں شرمندہ ہیں؟
ہے لوحِ جہاں پہ درج یہی
ہم اپنا آپ آیندہ ہیں
بس ایک حقیقت یاد رہے
جس سانس تلک ہم زندہ ہیں
''اُس پار کے منظر ڈوب چکے
اِ س پار کے پَل رخشندہ ہیں
وہ لوگ جو ہم سے پہلے تھے
اور وہ جو ابھی آیندہ ہیں
اس بیچ میں جو بھی وقفہ ہے
بس اُس کے ہم یابندہ ہیں
وہ جس ملبے کا رزق بنے
ہم اس ملبے میں زندہ ہیں''
آؤ کہ چُنیں اس ملبے سے
جو خواب ابھی تابندہ ہیں
اُن جذبوں کی توقیر کریں
جو انمِٹ ہیں، پائندہ ہیں
بس اُ ن تاروں کی بات کریں
جو بُجھ کر بھی رخشندہ ہیں
اِس گرد کے منظر نامے میں
جو اپنے کہے سے رُک جائے
ایسا تو کوئی موسم بھی نہیں!
یہ سچ ہے آنکھ جھپکنے تک
منظر بھی نہیں اور ہم بھی نہیں
اے بادِ فنا سے ڈرتے دل
جو دیکھ سکے تو کم بھی نہیں!
یہ نظارّے کی فرصت بھی
کچھ کر سکنے کی طاقت بھی
یہ پَل دو پَل کی مہلت بھی!