دھاندلی کا معمہ معمہ ہی رہے گا
الیکشن 2013 میں دھاندلی کے الزامات کی حقیقت کیا ہے، یہ تو کسی صاف اور شفاف عدالتی تحقیقات سے ہی معلوم ہو سکتا ہے
الیکشن 2013 کو6 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن دھاندلی کا شورگاہے گاہے برپا ہوتا رہتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ذکا اشرف کی پھر سے معزولی اور سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کی بطور چیئرمین کرکٹ بورڈ دوبارہ تعیناتی نے اس تنازع کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔ حقیقتاً، الیکشن 2013 پاکستان کی تاریخ کے منفرد ترین الیکشن تھے کہ اس الیکشن میں شریک تمام پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔ مسلم لیگ ن کو سندھ میں پیپلزپارٹی سے شکایت تھی۔ تحریک ِانصاف کو پنجاب میں مسلم لیگ ن سے گلہ تھا۔ جے یو آئی اور اے این پی، خیبر پختون خوا میں تحریک ِ انصاف سے نالاں تھیں ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی، بلوچستان میں نیشنل پارٹی اور بلوچستان ملی عوامی پارٹی سے ناخوش تھی ۔چنانچہ الیکشن کے فوراً بعد جس بڑی تعداد میں انتخابی عذرداریاں داخل کی گئیں ، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ الیکشن کے انعقاد کے بعد الیکشن کمیشن تو ' قوم' کو کامیاب الیکشن پر مبارک باد دے رہا تھا ، اور 'قوم' جگہ جگہ دھرنا دے رہی تھی ۔ صرف ہارنے والے نہیں ، جیتنے والے بھی حیران تھے۔
ایک اور ستم ظریفی یہ تھی کہ الیکشن سے پہلے ہر طرف سے ایک ہی صدا آ رہی تھی کہ اب 'تبدیلی'آکے رہے گی، یہاں تک کہ مسلم لیگ ن بھی 'انقلاب' کا نعرہ لگا رہی تھی ، لیکن ادھر انتخابی نعروں کا شور تھما اور بلند بانگ دعوؤں کی گرد بیٹھ گئی تو معلوم ہوا کہ حقیقی تبدیلی تو دور کی بات ، برائے نام تبدیلی کے آثار بھی نہیں۔ صرف یہ ہوا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے سے پوزیشن بدلی لی ۔ پیپلزپارٹی کے وزیر ِاعظم کی جگہ مسلم لیگ ن کے وزیر ِاعظم منتخب ہوگئے ۔ مسلم لیگ ن کے قائد حزب ِ اختلاف کی جگہ پیپلزپارٹی کے قائد ِ حزب اختلاف مقرر ہو گئے۔ سندھ میں پہلے بھی پیپلزپارٹی کی حکومت تھی ، اب بھی پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ پنجاب میں پہلے بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، اب بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، وہی قائم علی شاہ اور میاں شہبازشریف ۔ ایوان ِ بالا سینیٹ میں پہلے بھی پیپلزپارٹی کی بالادستی تھی، اب بھی اس کا ڈنکا بج رہا تھا ۔ بلوچستان میں ہمیشہ سے وفاقی حکومت کی آشیر باد سے حکومت قائم ہوتی ہے ۔ سو، یہاں اگر پہلے آصف علی زرداری کے حمایت یافتہ اسلم رئیسانی تسبیح پھیر رہے تھے، تو اب نوازشریف کے حمایت یافتہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ مسیحائی فرما رہے تھے ۔ خیبر پختون خوا میں تحریک ِ انصاف نے حکومت تو قائم کرلی، لیکن یہ بات ناقابل ِفہم نہ تھی کہ تحریک ِانصاف کو صرف اس لیے حکومت بنانے دی گئی کہ کہیں وہ مشتعل ہو کے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کے خلاف احتجاجی تحریک کی راہ پر نہ چل پڑے۔ تحریک ِ انصاف کے خلاف مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی یہ متفقہ حکمت ِعملی کامیاب رہی۔
ہر چند کہ بالعموم ہر الیکشن میں انتخابی امیدوار ایک دوسرے کے خلاف دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہی ہیں، لیکن جیسا کہ ابتدائی سطو رمیں نشاندہی کی گئی کہ حالیہ الیکشن میں دھاندلی کا معاملہ ماضی سے مختلف تھا، لہٰذا بدستور معما بنا ہوا ہے ۔ مثلاً :1، الیکشن سے پہلے سروے پر سروے آرہا تھا کہ مسلم لیگ ن کو ملک گیر کامیابی حاصل ہو گی۔ مسلم لیگ ن کو مگر نہ صرف یہ کہ سندھ ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا ، بلکہ پنجاب کے اہم ترین شہروں لاہور، راولپنڈی ، اسلام آباد اور ملتان میں بھی اس کی مقبولیت کا وہ گراف نظر نہیں آیا ، جو یہاں اس کی پہچان تھا۔ اس کے برعکس ، اس کی ' محیر العقول جیت' پنجاب کے ان علاقوں میں نظر آئی، جہاں مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کے ' انتخابی اتحاد'کی پوزیشن مستحکم تھی ۔2 ، انتخابی روایت کے برخلاف پولنگ کا دورانیہ پورے ملک میں ایک گھنٹے تک بڑھا دیا گیا۔ اس خلاف ِ معمول اقدام کے بعد خیال یہ تھا کہ اب انتخابی نتائج سے متعلق رات گئے ہی حقیقت ِ حال واضح ہو گی۔ ہر حلقے میں اوسطاً 250 سے 300 تک پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں اور جب تک تین چوتھائی پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ سامنے نہ آئے، حتمی انتخابی نتیجے کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن ابھی ہر حلقے سے اوسطاً 15 پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ سامنے آیا تھا ، مسلم لیگ ن کے قائد کی طرف سے نہ صرف یہ کہ اپنی جیت کا اعلان کر دیا گیا ،بلکہ ووٹروں کا شکریہ بھی ادا کر دیا گیا۔3 ، الیکشن کے فوراً بعد الیکشن کمیشن میں پیٹیشنز کا تانتا بندھ گیا۔
ان پیٹیشنزمیں سب سے زیادہ اعتراضات ریٹرننگ افسروں پر عائد کیے گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ الیکشن کمیشن ان پیٹیشنز کو جلد ازجلد نمٹاتا ، لیکن حیرت انگیز طورپر الیکشن کمیشن نے اس معاملے میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں لی، بلکہ اب تو سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کی بازپرس کر نا پڑ رہی ہے۔4، سندھ اور پنجاب میں الیکشن کمیشن کی ہدایت پر جن اکا دکا حلقوں میں ووٹوں ازسر ِنوگنتی کی گئی ، یا انگوٹھوں کے نشانات چیک کیے گئے ، ان حلقوں میں جعل سازی کی تصدیق ہو گئی ۔ قصور کے ایک حلقہ میں ووٹوں کی ازسر ِنو گنتی کے لیے ووٹوں کے تھیلے کھولے گئے، تو کئی تھیلے ردی سے بھرے ہوئے تھے ۔جن حلقوں میں نادرا کی طرف سے انگوٹھوں کے نشانات کو غیر مصدقہ قرار دیا گیا ، اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ یہاں مقناطیسی سیاہی استعمال نہیں کی گئی تھی۔ لطف یہ ہے کہ اس سے پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے کبھی نہیں کہا گیا کہ ان حلقوںکو مقناطیسی سیاہی مہیا نہیں کی گئی ۔ نادرا کی جانب سے انگوٹھوں کی شناخت کا معاملہ ابھی زیر ِ بحث ہی تھا کہ حکومت نے راتوں رات نادرا کے چیئرمین طارق ملک کو برخاست کردیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی برطرفی کا حکم کالعدم قرار دیدیا ، لیکن وہ حکومت کا دباو برداشت نہ کر سکے اور استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ 6۔ تحریک ِ انصاف نے مطالبہ کیاکہ اور نہیں تو کم ازکم لاہور اورسیالکوٹ کے چار حلقوں میں ازسرنو گنتی اورانگوٹھوں کی شناخت کرا دیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ ان حلقوں کا جو بھی نتیجہ نکلے، نوازشریف حکومت کی آئینی مدت کو چیلنج نہیں کیا جائے گا۔ بجائے اس کے کہ حکومت اس پیش کش کا خیرمقدم کرتی اور رضا کارانہ طورپر ازسر ِنو گنتی اورانگوٹھوں کی شناخت کراکے یہ قضیہ ختم کرتی،اس کے برعکس لاہور کے جس ایک حلقے میں الیکشن کمیشن نے ازسر ِنو گنتی اور انگوٹھوں کی شناخت کرانے کا حکم دیا تھا ، حکومتی امیدوار نے اس کے خلاف بھی ہائی کورٹ سے حکم ِ امتناعی حاصل کر لیا۔
مسلم لیگ ن اور تحریک ِانصاف کے درمیان دھاندلی پر زوروشور سے بحث جاری تھی کہ وزیر ِاعظم نوازشریف نے نجم سیٹھی کو، جو الیکشن 2013 کے دوران پنجاب میں نگران وزیر ِاعلیٰ تھے، پاکستان کرکٹ بورڈ کا قائم مقام چیئر مین مقرر کردیا۔ تحریک ِ انصاف کو اس تقرر پر اعتراض تھا۔ عمران خان نے بجا طور پر سوال کیاکہ آخر حکومت کی ایسی کونسی مجبوری ہے کہ وہ' سابق نگران وزیراعلیٰ' کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جیسا کہ توقع تھی، انھوں نے اس تقرر کو دھاندلی کے معمہ سے جوڑتے ہوئے کہا کہ اب اس امر میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ انھی خدمات کا انعام ہے،جو الیکشن 2013 میں موصوف نے مسلم لیگ ن کی خوشنودی کے لیے تحریک انصاف کے خلاف انجام دی تھیں ۔ تحریک انصاف کے ذرایع کا دعویٰ ہے کہ ثبوت کے طور پر ان کے پاس ایک ٹیپ بھی موجود ہے، اور عنقریب یہ''35 پنکچر'' فیم ٹیپ سوشل میڈیا پر دستیاب ہوگی ۔ نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ اگر عمران خان یہ ثابت کردیںکہ یہ ٹیپ ان کی ہے تو وہ خودکشی کرلیں گے۔ سوال یہ ہے ثابت کون کرے گا اور کیسے کرے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔
الیکشن 2013 میں دھاندلی کے الزامات کی حقیقت کیا ہے، یہ تو کسی غیر جانبدارانہ ، صاف اور شفاف عدالتی تحقیقات سے ہی معلوم ہو سکتا ہے، جس کا امکان کم ہی نہیں، نہ ہونے کے برابر ہے۔ مستزاد یہ کہ ، مسلم لیگ ن کی حکومت کو دھاندلی کے الزامات کے بنیاد پر اپنے خلاف کسی احتجاجی تحریک کا فی الحال کوئی خطرہ نہیں ۔ یہ خطرہ الیکشن کے فوراً بعد ضرور تھا ، لیکن ایک بار جب تحریک ِانصاف ، خیبر پختون خوا میں حکومت بنا کے بالواسطہ طورپر شریک ِ اقتدار ہو گئی ، تو یہ خطرہ ٹل گیا۔ سو، اندازہ یہی ہے کہ سر دست مسلم لیگ ن اور تحریک ِ انصاف برسرِ اقتدار بھی رہیں گی اوراپنے اپنے کارکنوں اور ووٹروںکا لہو گرم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی گولہ باری بھی جاری رکھیں گی۔ دھاندلی کا معمہ ، مگر معمہ ہی رہے گا، ما سوا ئے یہ کہ کوئی بڑا اپ سیٹ ہو اور پنڈوراباکس ہی کھل جائے ۔ شاعر نے کہا تھا،
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
ایک اور ستم ظریفی یہ تھی کہ الیکشن سے پہلے ہر طرف سے ایک ہی صدا آ رہی تھی کہ اب 'تبدیلی'آکے رہے گی، یہاں تک کہ مسلم لیگ ن بھی 'انقلاب' کا نعرہ لگا رہی تھی ، لیکن ادھر انتخابی نعروں کا شور تھما اور بلند بانگ دعوؤں کی گرد بیٹھ گئی تو معلوم ہوا کہ حقیقی تبدیلی تو دور کی بات ، برائے نام تبدیلی کے آثار بھی نہیں۔ صرف یہ ہوا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے سے پوزیشن بدلی لی ۔ پیپلزپارٹی کے وزیر ِاعظم کی جگہ مسلم لیگ ن کے وزیر ِاعظم منتخب ہوگئے ۔ مسلم لیگ ن کے قائد حزب ِ اختلاف کی جگہ پیپلزپارٹی کے قائد ِ حزب اختلاف مقرر ہو گئے۔ سندھ میں پہلے بھی پیپلزپارٹی کی حکومت تھی ، اب بھی پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ پنجاب میں پہلے بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، اب بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، وہی قائم علی شاہ اور میاں شہبازشریف ۔ ایوان ِ بالا سینیٹ میں پہلے بھی پیپلزپارٹی کی بالادستی تھی، اب بھی اس کا ڈنکا بج رہا تھا ۔ بلوچستان میں ہمیشہ سے وفاقی حکومت کی آشیر باد سے حکومت قائم ہوتی ہے ۔ سو، یہاں اگر پہلے آصف علی زرداری کے حمایت یافتہ اسلم رئیسانی تسبیح پھیر رہے تھے، تو اب نوازشریف کے حمایت یافتہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ مسیحائی فرما رہے تھے ۔ خیبر پختون خوا میں تحریک ِ انصاف نے حکومت تو قائم کرلی، لیکن یہ بات ناقابل ِفہم نہ تھی کہ تحریک ِانصاف کو صرف اس لیے حکومت بنانے دی گئی کہ کہیں وہ مشتعل ہو کے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کے خلاف احتجاجی تحریک کی راہ پر نہ چل پڑے۔ تحریک ِ انصاف کے خلاف مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی یہ متفقہ حکمت ِعملی کامیاب رہی۔
ہر چند کہ بالعموم ہر الیکشن میں انتخابی امیدوار ایک دوسرے کے خلاف دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہی ہیں، لیکن جیسا کہ ابتدائی سطو رمیں نشاندہی کی گئی کہ حالیہ الیکشن میں دھاندلی کا معاملہ ماضی سے مختلف تھا، لہٰذا بدستور معما بنا ہوا ہے ۔ مثلاً :1، الیکشن سے پہلے سروے پر سروے آرہا تھا کہ مسلم لیگ ن کو ملک گیر کامیابی حاصل ہو گی۔ مسلم لیگ ن کو مگر نہ صرف یہ کہ سندھ ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا ، بلکہ پنجاب کے اہم ترین شہروں لاہور، راولپنڈی ، اسلام آباد اور ملتان میں بھی اس کی مقبولیت کا وہ گراف نظر نہیں آیا ، جو یہاں اس کی پہچان تھا۔ اس کے برعکس ، اس کی ' محیر العقول جیت' پنجاب کے ان علاقوں میں نظر آئی، جہاں مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کے ' انتخابی اتحاد'کی پوزیشن مستحکم تھی ۔2 ، انتخابی روایت کے برخلاف پولنگ کا دورانیہ پورے ملک میں ایک گھنٹے تک بڑھا دیا گیا۔ اس خلاف ِ معمول اقدام کے بعد خیال یہ تھا کہ اب انتخابی نتائج سے متعلق رات گئے ہی حقیقت ِ حال واضح ہو گی۔ ہر حلقے میں اوسطاً 250 سے 300 تک پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں اور جب تک تین چوتھائی پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ سامنے نہ آئے، حتمی انتخابی نتیجے کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن ابھی ہر حلقے سے اوسطاً 15 پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ سامنے آیا تھا ، مسلم لیگ ن کے قائد کی طرف سے نہ صرف یہ کہ اپنی جیت کا اعلان کر دیا گیا ،بلکہ ووٹروں کا شکریہ بھی ادا کر دیا گیا۔3 ، الیکشن کے فوراً بعد الیکشن کمیشن میں پیٹیشنز کا تانتا بندھ گیا۔
ان پیٹیشنزمیں سب سے زیادہ اعتراضات ریٹرننگ افسروں پر عائد کیے گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ الیکشن کمیشن ان پیٹیشنز کو جلد ازجلد نمٹاتا ، لیکن حیرت انگیز طورپر الیکشن کمیشن نے اس معاملے میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں لی، بلکہ اب تو سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کی بازپرس کر نا پڑ رہی ہے۔4، سندھ اور پنجاب میں الیکشن کمیشن کی ہدایت پر جن اکا دکا حلقوں میں ووٹوں ازسر ِنوگنتی کی گئی ، یا انگوٹھوں کے نشانات چیک کیے گئے ، ان حلقوں میں جعل سازی کی تصدیق ہو گئی ۔ قصور کے ایک حلقہ میں ووٹوں کی ازسر ِنو گنتی کے لیے ووٹوں کے تھیلے کھولے گئے، تو کئی تھیلے ردی سے بھرے ہوئے تھے ۔جن حلقوں میں نادرا کی طرف سے انگوٹھوں کے نشانات کو غیر مصدقہ قرار دیا گیا ، اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ یہاں مقناطیسی سیاہی استعمال نہیں کی گئی تھی۔ لطف یہ ہے کہ اس سے پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے کبھی نہیں کہا گیا کہ ان حلقوںکو مقناطیسی سیاہی مہیا نہیں کی گئی ۔ نادرا کی جانب سے انگوٹھوں کی شناخت کا معاملہ ابھی زیر ِ بحث ہی تھا کہ حکومت نے راتوں رات نادرا کے چیئرمین طارق ملک کو برخاست کردیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی برطرفی کا حکم کالعدم قرار دیدیا ، لیکن وہ حکومت کا دباو برداشت نہ کر سکے اور استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ 6۔ تحریک ِ انصاف نے مطالبہ کیاکہ اور نہیں تو کم ازکم لاہور اورسیالکوٹ کے چار حلقوں میں ازسرنو گنتی اورانگوٹھوں کی شناخت کرا دیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ ان حلقوں کا جو بھی نتیجہ نکلے، نوازشریف حکومت کی آئینی مدت کو چیلنج نہیں کیا جائے گا۔ بجائے اس کے کہ حکومت اس پیش کش کا خیرمقدم کرتی اور رضا کارانہ طورپر ازسر ِنو گنتی اورانگوٹھوں کی شناخت کراکے یہ قضیہ ختم کرتی،اس کے برعکس لاہور کے جس ایک حلقے میں الیکشن کمیشن نے ازسر ِنو گنتی اور انگوٹھوں کی شناخت کرانے کا حکم دیا تھا ، حکومتی امیدوار نے اس کے خلاف بھی ہائی کورٹ سے حکم ِ امتناعی حاصل کر لیا۔
مسلم لیگ ن اور تحریک ِانصاف کے درمیان دھاندلی پر زوروشور سے بحث جاری تھی کہ وزیر ِاعظم نوازشریف نے نجم سیٹھی کو، جو الیکشن 2013 کے دوران پنجاب میں نگران وزیر ِاعلیٰ تھے، پاکستان کرکٹ بورڈ کا قائم مقام چیئر مین مقرر کردیا۔ تحریک ِ انصاف کو اس تقرر پر اعتراض تھا۔ عمران خان نے بجا طور پر سوال کیاکہ آخر حکومت کی ایسی کونسی مجبوری ہے کہ وہ' سابق نگران وزیراعلیٰ' کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جیسا کہ توقع تھی، انھوں نے اس تقرر کو دھاندلی کے معمہ سے جوڑتے ہوئے کہا کہ اب اس امر میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ انھی خدمات کا انعام ہے،جو الیکشن 2013 میں موصوف نے مسلم لیگ ن کی خوشنودی کے لیے تحریک انصاف کے خلاف انجام دی تھیں ۔ تحریک انصاف کے ذرایع کا دعویٰ ہے کہ ثبوت کے طور پر ان کے پاس ایک ٹیپ بھی موجود ہے، اور عنقریب یہ''35 پنکچر'' فیم ٹیپ سوشل میڈیا پر دستیاب ہوگی ۔ نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ اگر عمران خان یہ ثابت کردیںکہ یہ ٹیپ ان کی ہے تو وہ خودکشی کرلیں گے۔ سوال یہ ہے ثابت کون کرے گا اور کیسے کرے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔
الیکشن 2013 میں دھاندلی کے الزامات کی حقیقت کیا ہے، یہ تو کسی غیر جانبدارانہ ، صاف اور شفاف عدالتی تحقیقات سے ہی معلوم ہو سکتا ہے، جس کا امکان کم ہی نہیں، نہ ہونے کے برابر ہے۔ مستزاد یہ کہ ، مسلم لیگ ن کی حکومت کو دھاندلی کے الزامات کے بنیاد پر اپنے خلاف کسی احتجاجی تحریک کا فی الحال کوئی خطرہ نہیں ۔ یہ خطرہ الیکشن کے فوراً بعد ضرور تھا ، لیکن ایک بار جب تحریک ِانصاف ، خیبر پختون خوا میں حکومت بنا کے بالواسطہ طورپر شریک ِ اقتدار ہو گئی ، تو یہ خطرہ ٹل گیا۔ سو، اندازہ یہی ہے کہ سر دست مسلم لیگ ن اور تحریک ِ انصاف برسرِ اقتدار بھی رہیں گی اوراپنے اپنے کارکنوں اور ووٹروںکا لہو گرم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی گولہ باری بھی جاری رکھیں گی۔ دھاندلی کا معمہ ، مگر معمہ ہی رہے گا، ما سوا ئے یہ کہ کوئی بڑا اپ سیٹ ہو اور پنڈوراباکس ہی کھل جائے ۔ شاعر نے کہا تھا،
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے