بجلی کی چوری بھی تو چوری ہے
پاکستان میں صارفین کی بڑی تعداد بجلی کی چوری کو چوری ہی نہیں سمجھتی
LODHRAN:
نیوز روم میں ماحول خوش گوار تھا اور رمضان المبارک کے سلسلے میں کوریج پلان بنایا جارہا تھا۔ ایسے میں چراغاں کرکے تراویح اور کھیل کے اتنظام کا ذکر ہوا تو اسائمنٹ ایڈیٹر نے ایک عالم دین کے بیان کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ چراغاں کے حوالے سے ان کے بیان کی روشنی میں انٹرویو ریکارڈ کرکے پیکیج بنایا جائے کیونکہ عالم دین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مذہبی اجتماعات کےلیے کنڈے لگا کر بجلی استعمال نہ کی جائے۔ پہلے بل ادا کیجئے، پھر اس کا استعمال کیجئے۔
اس بات پر اسپورٹس رپورٹر نے اچانک کہا کہ کیا بجلی کی چوری بھی کوئی چوری ہوتی ہے؟ ہمارے بچپن سے ہی نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ تو بجلی کے کنڈے لگا کر ہوتے ہیں۔ ہر جلسے، محلے میں ہونے والی شادی بیاہ کی تقریب میں صرف ایک کنڈا ہی تو ڈالنا پڑتا ہے اور پوری شادی کی تقریب جگمگ جگمگ ہوجاتی ہے۔ اسے چوری تو نہیں کہتے۔ اور پھر گفتگو کسی اور سمت مڑ گئی مگر میرے ذہن میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ ''بجلی کی چوری، چوری تھوڑی ہوتی ہے''۔
پاکستان میں عجب سی بات ہے کہ یوٹیلٹیز کی چوری کو چوری تصور ہی نہیں کیا جاتا۔ لوگ بڑے پیمانے پر پانی، بجلی اور قدرتی گیس کو چوری کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے تمام یوٹیلٹیز کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراچی میں پانی کی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے جو حالت ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ شہر میں پانی کی فراہمی کی یہ صورتحال ہے کہ واٹر بورڈ اپنے بل کی وصولی کےلیے بھی نہیں آتا۔ اسی طرح قدرتی گیس کی چوری کی وجہ سے سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کو سالانہ اربوں روپے خسارے کا سامنا ہے۔ مگر سب سے زیادہ چوری بجلی کی ہورہی ہے۔
بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کا شعبہ پاکستان میں ایک بڑا شعبہ ہے۔ ملک میں بجلی کی فراہمی کا نیٹ ورک واہگہ باڈر سے کراچی کے ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔ یعنی مشرق، مغرب، شمال و جنوب ہر طرف بجلی کا نیٹ ورک ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ اور یہی نیٹ ورک پاکستان میں سب سے زیادہ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اگر سب سے بڑی سرمایہ کاری کسی شعبے میں کی گئی ہے تو وہ یہی بجلی کی پیداوار کا شعبہ ہے۔ اس بجلی کی پیداوار اور ترسیل پر سالانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
آخر پاکستان میں لوگ بجلی کی چوری کو چوری تصور کیوں نہیں کرتے؟ اس بات کا جواب واپڈا کے ایک سابق افسر نے کچھ یوں دیا کہ پاکستان نے بہت سے کام اس وقت کیے جب نہ تو قوم اس کےلیے تیار تھی اور نہ ہی خطہ۔ پاکستان نے تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے اور بجلی کی بڑے پیمانے پر پیداوار شروع ہوئی تو صرف پن بجلی کے ٹربائن کو چلانے کےلیے اس بجلی کے استعمال کرنے والے بھی چاہیے تھے۔ اس وجہ سے بغیر کسی منصوبہ بندی کے ملک میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا نظام بچھانا شروع کردیا۔ واپڈا نے لوگوں کو میٹر تو لگا کر دیے مگر بہت سے علاقوں میں نہ تو کبھی میٹر پر ریڈنگ لی گئی اور نہ ہی انہیں بجلی کے بل ارسال کیے گئے۔ اور یہ سلسلسہ کئی سال تک جاری رہا اور عوام کو بجلی کے مفت استعمال کی عادت پڑ گئی۔ اور اب یہ عادت اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ وہ بجلی کی چوری کو چوری تصور ہی نہیں کرتے۔ جبکہ بجلی کو پیدا کرنے اور اس کو عوام تک پہنچانے میں حکومت اور نجی شعبے کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں تقریباً 4 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور متعدد منصوبے اس وقت زیر تکمیل ہیں، جس کے بعد سال 2023 میں 53504 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت حاصل ہوجائے گی۔ پاکستان میں پن بجلی، پون بجلی اور تھرمل بجلی شامل ہے۔ تھرمل بجلی پیدا کرنے کے متعدد ذرائع جس میں ایٹمی توانائی، کوئلے، مقامی قدرتی گیس، درآمدی آر ایل این جی، فرنس آئل، وغیرہ شامل ہیں۔ بجلی تھرمل ذرائع سے پیدا ہو، پون ہو یا پن بجلی کی پیداوار پر اخراجات آتے ہیں۔ ان اخراجات میں، پیدا شدہ بجلی صارفین تک پہنچانے کےلیے ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے گرڈ اسٹیشن پہنچتی ہے۔ وہاں سے بجلی کو سب اسٹیشن تک لایا جاتا ہے۔ جہاں سے بجلی پی ایم ٹی اور تاروں سے صارفین تک پہنچتی ہے۔ اس پورے عمل میں بہت زیادہ ٹیکنالوجی، مہنگے آلات اور اس نظام کو چلانے کےلیے ہنرمند افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس پر بھی بھاری اخرجات صَرف ہوتے ہیں۔ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے اخراجات کو شامل کرکے بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت کا تعین کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بجلی پر دی جانے والی سبسڈی پر عالمی بینک نے سال 2017 میں رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان میں بجلی پر حکومت جی ڈی پی کا اعشاریہ 8 فیصد سبسڈی دے رہی ہے، جس کو کم کرکے جی ڈی پی کا اعشاریہ چار فیصد پر لانا ہوگا۔ اس سبسڈی کا مقصد غریب عوام کو بجلی کے استعمال پر سہولت فراہم کرنا ہے مگر یہ سبسڈی امیر طبقے کو بھی دی جارہی ہے۔ اس سبسڈی کے باوجود ملک میں بجلی کی چوری کسی طور ختم ہونے یا کم ہونے میں نہیں آرہی۔
نیپرا کی جاری کردہ اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیسکوز کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات اور بلوں کی عدم وصولی کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ڈیسکوز بجلی کی چوری میں ملوث افراد کے خلاف انفرادی سطح پر بل وصول کرنے اور کارروائی کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ پشاور، حیدرآباد، سکھر اور کوئٹہ اپنے مطلوبہ کوٹے سے کم بجلی لے رہے ہیں اور زیادہ لوڈشیڈنگ کررہے ہیں تاکہ بلوں کے نقصانات کو کم کیا جائے۔ بڑھتا ہوا گردشی قرضہ نہ صرف توانائی کے شعبے کو متاثر کررہا ہے بلکہ یہ پوری معیشت کو نقصان پہنچارہا ہے۔
بجلی کی بڑے پیمانے پر چوری اور حکومت کی جانب سے سبسڈی کا بوجھ عدم ادائیگی کی وجہ سے توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں پر پڑ رہا ہے۔ جون 2017 میں بجلی کی چوری سے پیدا ہونے والا گردشی قرضہ 729 ارب روپے تھا، جو کہ 30 جون 2018 کو بڑھ کر 1148 ارب روپے ہوگیا۔ مالی سال 2019 کے اختتام پر 1612 ارب روپے، مالی سال 2020 کے اختتام پر 2150 ارب روپے اور مالی سال 2021 کے اختتام پر 2327 ارب روپے ہوگیا۔ اس سال فروری تک پاکستان میں گردشی قرضہ 2500 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اور اگر اس میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو یہ قرض 2025 تک 4000 ارب روپے سے تجاوز کرسکتا ہے۔
کے الیکٹرک کے ترجمان عمران رانا کا کہنا ہے کہ سال 2009 سے اب تک کے الیکٹرک نے اپنے نظام کو اپ گریڈ کرنے میں 415 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ جس سے بجلی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنایا ہے۔ کے الیکٹرک نے سابقہ اور اوور لوڈڈ گرڈز کو اپ گریڈ کیا۔ اس کے علاوہ پرانے پی ایم ٹیز کو تبدیل کیا گیا۔ جبکہ سب سے اہم کے الیکٹرک نے کھلی تاروں کی جگہ ایئریل بنڈل کیبل کی تنصیب کی ہے۔ کھلے تاروں پر جہاں چاہیں کنڈے ڈال کر بجلی چوری کی جاسکتی تھی، مگر ایئرل بنڈل کیبلز میں کنڈے لگانا مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ اسی طرح کے الیکٹرک 39 فیصد بجلی چوری کو کم کرتے ہوئے اس کو 16 فیصد تک لے آئی ہے اور شہر کے 75 فیصد سے زائد علاقوں کو لوڈشیڈنگ فری کردیا ہے۔ جس سے شہر میں صنعتی پیداوار کے ساتھ ساتھ کاروباری سرگرمیوں پر مثبب اثرات پڑے ہیں۔
نیپرا نے اپنی اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ برائے سال 2021 اور 2022 میں کہا ہے کہ بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کی وجوہات میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کو چلانے والوں میں پائی جانے والی نااہلی ہے۔ بڑھتے ہوئے گردشتی قرضے کی وجہ سے نہ صرف قومی خزانے پر بوجھ پڑ رہا ہے بلکہ اس سے ملکی معیشت کے مستقبل سے متعلق تشویش بڑھ رہی ہے۔ اس گردشی قرضے کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں پر منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔
پاکستان کی طرح دنیا بھر میں بجلی کی چوری کی جاتی ہے۔ پاکستان میں مہنگی بجلی کی وجہ بڑے پیمانے پر بجلی کی چوری ہے۔ پائیڈ کے مطابق پاکستان میں بجلی کے 100 یونٹ استعمال کرنے والا صارف امریکا میں اتنے ہی یونٹ بجلی استعمال کرنے والے کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ بجلی کی قیمت ادا کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی چوری روکنے کےلیے قانون کے ساتھ ساتھ ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے جس سے چوری کرنا مشکل ہوجائے۔ جیسا کہ کے الیکٹرک نے کیا ہے۔ کے الیکٹرک نے شہر کے بیشتر علاقوں میں ایئریل بنڈل کیبلز کی تنصیب کردی ہے۔ اب کھلی تاریں دستیاب ہی نہیں کہ ان پر کنڈا ڈال لیا جائے۔ دیگر ڈیسکوز بھی اس پر عمل کرکے اور کے الیکٹرک کے تجربات سے سیکھ کر بجلی کی چوری میں کمی کرسکتے ہیں۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ ڈیولپمنٹ اکنامکس کی جانب سے دنیا بھر میں ہونے والی بجلی کی چوری اور اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات پر ایک رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔ جس کے مطابق اقتصادی نظریہ بتاتا ہے کہ معاشی جرم کا ارتکاب اس وقت ہوتا ہے جب جرم سے حاصل ہونے والا نفع جرم کرنے والے کی متوقع ادائیگی کی لاگت سے زیادہ ہو۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی چوری ان مقامات پر ہوتی ہے جہاں بجلی فراہم کرنے والے ادارے بل وصول کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اور ملازمین کے غیر پیشہ ورانہ طرز عمل، کاہلی اور بعض اوقات ملی بھگت بجلی چوری کا باعث بنتی ہے۔
دنیا بھر میں بجلی کی چوری کی وجوہات میں بجلی کی قیمت اور فی کس آمدنی کے درمیان ایک تعلق کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ فی کس آمدنی کا بجلی کی چوری سے منفی تعلق ہے۔ یعنی جتنی فی کس آمدنی زیادہ ہوگی بجلی کی چوری کم ہوگی۔ اس لیے ماہرین بجلی کی چوری روکنے کےلیے فی کس آمدنی میں اضافے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یعنی بجلی کی چوری روکنے کےلیے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو بڑھایا جائے جس سے ملک میں عوام کی آمدنی میں اضافہ ہو۔
سب سے اہم ہے کہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے سستے ذرائع کو فروغ دیا جائے، جس میں شمسی توانائی اور پون توانائی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کی چوری کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور بجلی کے بڑے چوروں کو سزائیں دی جائیں تاکہ وہ دیگر افراد کےلیے عبرت کا نشان بن سکیں۔ اور عوام میں یہ شعور بھی اجاگر کیا جاسکے کہ بجلی کی چوری بھی چوری ہوتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نیوز روم میں ماحول خوش گوار تھا اور رمضان المبارک کے سلسلے میں کوریج پلان بنایا جارہا تھا۔ ایسے میں چراغاں کرکے تراویح اور کھیل کے اتنظام کا ذکر ہوا تو اسائمنٹ ایڈیٹر نے ایک عالم دین کے بیان کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ چراغاں کے حوالے سے ان کے بیان کی روشنی میں انٹرویو ریکارڈ کرکے پیکیج بنایا جائے کیونکہ عالم دین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مذہبی اجتماعات کےلیے کنڈے لگا کر بجلی استعمال نہ کی جائے۔ پہلے بل ادا کیجئے، پھر اس کا استعمال کیجئے۔
اس بات پر اسپورٹس رپورٹر نے اچانک کہا کہ کیا بجلی کی چوری بھی کوئی چوری ہوتی ہے؟ ہمارے بچپن سے ہی نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ تو بجلی کے کنڈے لگا کر ہوتے ہیں۔ ہر جلسے، محلے میں ہونے والی شادی بیاہ کی تقریب میں صرف ایک کنڈا ہی تو ڈالنا پڑتا ہے اور پوری شادی کی تقریب جگمگ جگمگ ہوجاتی ہے۔ اسے چوری تو نہیں کہتے۔ اور پھر گفتگو کسی اور سمت مڑ گئی مگر میرے ذہن میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ ''بجلی کی چوری، چوری تھوڑی ہوتی ہے''۔
پاکستان میں عجب سی بات ہے کہ یوٹیلٹیز کی چوری کو چوری تصور ہی نہیں کیا جاتا۔ لوگ بڑے پیمانے پر پانی، بجلی اور قدرتی گیس کو چوری کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے تمام یوٹیلٹیز کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراچی میں پانی کی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے جو حالت ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ شہر میں پانی کی فراہمی کی یہ صورتحال ہے کہ واٹر بورڈ اپنے بل کی وصولی کےلیے بھی نہیں آتا۔ اسی طرح قدرتی گیس کی چوری کی وجہ سے سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کو سالانہ اربوں روپے خسارے کا سامنا ہے۔ مگر سب سے زیادہ چوری بجلی کی ہورہی ہے۔
بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کا شعبہ پاکستان میں ایک بڑا شعبہ ہے۔ ملک میں بجلی کی فراہمی کا نیٹ ورک واہگہ باڈر سے کراچی کے ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔ یعنی مشرق، مغرب، شمال و جنوب ہر طرف بجلی کا نیٹ ورک ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے۔ اور یہی نیٹ ورک پاکستان میں سب سے زیادہ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اگر سب سے بڑی سرمایہ کاری کسی شعبے میں کی گئی ہے تو وہ یہی بجلی کی پیداوار کا شعبہ ہے۔ اس بجلی کی پیداوار اور ترسیل پر سالانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
آخر پاکستان میں لوگ بجلی کی چوری کو چوری تصور کیوں نہیں کرتے؟ اس بات کا جواب واپڈا کے ایک سابق افسر نے کچھ یوں دیا کہ پاکستان نے بہت سے کام اس وقت کیے جب نہ تو قوم اس کےلیے تیار تھی اور نہ ہی خطہ۔ پاکستان نے تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے اور بجلی کی بڑے پیمانے پر پیداوار شروع ہوئی تو صرف پن بجلی کے ٹربائن کو چلانے کےلیے اس بجلی کے استعمال کرنے والے بھی چاہیے تھے۔ اس وجہ سے بغیر کسی منصوبہ بندی کے ملک میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا نظام بچھانا شروع کردیا۔ واپڈا نے لوگوں کو میٹر تو لگا کر دیے مگر بہت سے علاقوں میں نہ تو کبھی میٹر پر ریڈنگ لی گئی اور نہ ہی انہیں بجلی کے بل ارسال کیے گئے۔ اور یہ سلسلسہ کئی سال تک جاری رہا اور عوام کو بجلی کے مفت استعمال کی عادت پڑ گئی۔ اور اب یہ عادت اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ وہ بجلی کی چوری کو چوری تصور ہی نہیں کرتے۔ جبکہ بجلی کو پیدا کرنے اور اس کو عوام تک پہنچانے میں حکومت اور نجی شعبے کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں تقریباً 4 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور متعدد منصوبے اس وقت زیر تکمیل ہیں، جس کے بعد سال 2023 میں 53504 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت حاصل ہوجائے گی۔ پاکستان میں پن بجلی، پون بجلی اور تھرمل بجلی شامل ہے۔ تھرمل بجلی پیدا کرنے کے متعدد ذرائع جس میں ایٹمی توانائی، کوئلے، مقامی قدرتی گیس، درآمدی آر ایل این جی، فرنس آئل، وغیرہ شامل ہیں۔ بجلی تھرمل ذرائع سے پیدا ہو، پون ہو یا پن بجلی کی پیداوار پر اخراجات آتے ہیں۔ ان اخراجات میں، پیدا شدہ بجلی صارفین تک پہنچانے کےلیے ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے گرڈ اسٹیشن پہنچتی ہے۔ وہاں سے بجلی کو سب اسٹیشن تک لایا جاتا ہے۔ جہاں سے بجلی پی ایم ٹی اور تاروں سے صارفین تک پہنچتی ہے۔ اس پورے عمل میں بہت زیادہ ٹیکنالوجی، مہنگے آلات اور اس نظام کو چلانے کےلیے ہنرمند افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس پر بھی بھاری اخرجات صَرف ہوتے ہیں۔ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے اخراجات کو شامل کرکے بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت کا تعین کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بجلی پر دی جانے والی سبسڈی پر عالمی بینک نے سال 2017 میں رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان میں بجلی پر حکومت جی ڈی پی کا اعشاریہ 8 فیصد سبسڈی دے رہی ہے، جس کو کم کرکے جی ڈی پی کا اعشاریہ چار فیصد پر لانا ہوگا۔ اس سبسڈی کا مقصد غریب عوام کو بجلی کے استعمال پر سہولت فراہم کرنا ہے مگر یہ سبسڈی امیر طبقے کو بھی دی جارہی ہے۔ اس سبسڈی کے باوجود ملک میں بجلی کی چوری کسی طور ختم ہونے یا کم ہونے میں نہیں آرہی۔
نیپرا کی جاری کردہ اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیسکوز کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات اور بلوں کی عدم وصولی کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ڈیسکوز بجلی کی چوری میں ملوث افراد کے خلاف انفرادی سطح پر بل وصول کرنے اور کارروائی کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ پشاور، حیدرآباد، سکھر اور کوئٹہ اپنے مطلوبہ کوٹے سے کم بجلی لے رہے ہیں اور زیادہ لوڈشیڈنگ کررہے ہیں تاکہ بلوں کے نقصانات کو کم کیا جائے۔ بڑھتا ہوا گردشی قرضہ نہ صرف توانائی کے شعبے کو متاثر کررہا ہے بلکہ یہ پوری معیشت کو نقصان پہنچارہا ہے۔
بجلی کی بڑے پیمانے پر چوری اور حکومت کی جانب سے سبسڈی کا بوجھ عدم ادائیگی کی وجہ سے توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں پر پڑ رہا ہے۔ جون 2017 میں بجلی کی چوری سے پیدا ہونے والا گردشی قرضہ 729 ارب روپے تھا، جو کہ 30 جون 2018 کو بڑھ کر 1148 ارب روپے ہوگیا۔ مالی سال 2019 کے اختتام پر 1612 ارب روپے، مالی سال 2020 کے اختتام پر 2150 ارب روپے اور مالی سال 2021 کے اختتام پر 2327 ارب روپے ہوگیا۔ اس سال فروری تک پاکستان میں گردشی قرضہ 2500 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اور اگر اس میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو یہ قرض 2025 تک 4000 ارب روپے سے تجاوز کرسکتا ہے۔
کے الیکٹرک کے ترجمان عمران رانا کا کہنا ہے کہ سال 2009 سے اب تک کے الیکٹرک نے اپنے نظام کو اپ گریڈ کرنے میں 415 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ جس سے بجلی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنایا ہے۔ کے الیکٹرک نے سابقہ اور اوور لوڈڈ گرڈز کو اپ گریڈ کیا۔ اس کے علاوہ پرانے پی ایم ٹیز کو تبدیل کیا گیا۔ جبکہ سب سے اہم کے الیکٹرک نے کھلی تاروں کی جگہ ایئریل بنڈل کیبل کی تنصیب کی ہے۔ کھلے تاروں پر جہاں چاہیں کنڈے ڈال کر بجلی چوری کی جاسکتی تھی، مگر ایئرل بنڈل کیبلز میں کنڈے لگانا مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ اسی طرح کے الیکٹرک 39 فیصد بجلی چوری کو کم کرتے ہوئے اس کو 16 فیصد تک لے آئی ہے اور شہر کے 75 فیصد سے زائد علاقوں کو لوڈشیڈنگ فری کردیا ہے۔ جس سے شہر میں صنعتی پیداوار کے ساتھ ساتھ کاروباری سرگرمیوں پر مثبب اثرات پڑے ہیں۔
نیپرا نے اپنی اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ برائے سال 2021 اور 2022 میں کہا ہے کہ بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کی وجوہات میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کو چلانے والوں میں پائی جانے والی نااہلی ہے۔ بڑھتے ہوئے گردشتی قرضے کی وجہ سے نہ صرف قومی خزانے پر بوجھ پڑ رہا ہے بلکہ اس سے ملکی معیشت کے مستقبل سے متعلق تشویش بڑھ رہی ہے۔ اس گردشی قرضے کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں پر منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔
پاکستان کی طرح دنیا بھر میں بجلی کی چوری کی جاتی ہے۔ پاکستان میں مہنگی بجلی کی وجہ بڑے پیمانے پر بجلی کی چوری ہے۔ پائیڈ کے مطابق پاکستان میں بجلی کے 100 یونٹ استعمال کرنے والا صارف امریکا میں اتنے ہی یونٹ بجلی استعمال کرنے والے کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ بجلی کی قیمت ادا کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی چوری روکنے کےلیے قانون کے ساتھ ساتھ ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے جس سے چوری کرنا مشکل ہوجائے۔ جیسا کہ کے الیکٹرک نے کیا ہے۔ کے الیکٹرک نے شہر کے بیشتر علاقوں میں ایئریل بنڈل کیبلز کی تنصیب کردی ہے۔ اب کھلی تاریں دستیاب ہی نہیں کہ ان پر کنڈا ڈال لیا جائے۔ دیگر ڈیسکوز بھی اس پر عمل کرکے اور کے الیکٹرک کے تجربات سے سیکھ کر بجلی کی چوری میں کمی کرسکتے ہیں۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ ڈیولپمنٹ اکنامکس کی جانب سے دنیا بھر میں ہونے والی بجلی کی چوری اور اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات پر ایک رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔ جس کے مطابق اقتصادی نظریہ بتاتا ہے کہ معاشی جرم کا ارتکاب اس وقت ہوتا ہے جب جرم سے حاصل ہونے والا نفع جرم کرنے والے کی متوقع ادائیگی کی لاگت سے زیادہ ہو۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی چوری ان مقامات پر ہوتی ہے جہاں بجلی فراہم کرنے والے ادارے بل وصول کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اور ملازمین کے غیر پیشہ ورانہ طرز عمل، کاہلی اور بعض اوقات ملی بھگت بجلی چوری کا باعث بنتی ہے۔
دنیا بھر میں بجلی کی چوری کی وجوہات میں بجلی کی قیمت اور فی کس آمدنی کے درمیان ایک تعلق کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ فی کس آمدنی کا بجلی کی چوری سے منفی تعلق ہے۔ یعنی جتنی فی کس آمدنی زیادہ ہوگی بجلی کی چوری کم ہوگی۔ اس لیے ماہرین بجلی کی چوری روکنے کےلیے فی کس آمدنی میں اضافے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یعنی بجلی کی چوری روکنے کےلیے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو بڑھایا جائے جس سے ملک میں عوام کی آمدنی میں اضافہ ہو۔
سب سے اہم ہے کہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے سستے ذرائع کو فروغ دیا جائے، جس میں شمسی توانائی اور پون توانائی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کی چوری کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور بجلی کے بڑے چوروں کو سزائیں دی جائیں تاکہ وہ دیگر افراد کےلیے عبرت کا نشان بن سکیں۔ اور عوام میں یہ شعور بھی اجاگر کیا جاسکے کہ بجلی کی چوری بھی چوری ہوتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔