لاہور کا نیا گورنر ہاؤس
پاکستان میں کسی مقام ومرتبے کا طلبگاراگرکوئی پنجاب جیسے بڑے اوراپنے آبائی صوبے کا گورنر بن جائے تو گویا انتہا ہو گئی
پنجاب میں اقتدار کا سب سے اونچا اور بڑا مرکز یہاں کی مال روڈ پر واقع سڑکوں کے دائرے میں گھری ہوئی ایک لمبی چوڑی عمارت ہے جو اکثر خاموش اور اپنے اندر سمٹی رہتی ہے جیسے اس پر کوئی افسردگی طاری ہو۔ اس عمارت کا مکین کسی بہت ہی اہم مصروفیت کی وجہ سے ہی بڑے ہی رکھ رکھاؤ کے ساتھ باہر نکلتا ہے۔ برطانوی دور میں چونکہ برطانیہ کے اکثر لارڈ ہی گورنر بنائے جاتے تھے اس لیے ہم پنجابی اسے لاٹ صاحب کا گھر کہا کرتے تھے اور مال روڈ کے دوسرے سرے پر واقع سرکاری دفتر سول سیکریٹریٹ کو دفتر لاٹ صاحب کہا جاتا تھا۔ گورنر صاحب اگر لاہور سے باہر کہیں جاتے تھے تو ذریعہ آمد و رفت چونکہ ریلوے ہی تھی اس لیے لاہور ریلوے اسٹیشن سے گورنر ہاؤس تک ایک سیدھی سڑک بنائی گئی جسے ایمپریس روڈ کہا گیا۔ گورنر لوگوں کی پہنچ سے دور ایک حاکم تھا جو صرف وائسرائے ہند کے سامنے جوابدہ تھا۔ گورنر اپنے صوبے کا ایک مطلق العنان حکمران تھا اور جو چاہتا تھا وہ کرتا تھا لیکن تاج برطانیہ کا نمایندہ تھا اس لیے اس کے مفادات کا نگہبان تھا۔ مختصراً یہ ایک زندہ برطانیہ تھا جو آزادی کے بعد فوت ہوا اور اس کی جگہ پاکستانی گورنر نے لے لی۔
آزاد پاکستان کے کئی گورنر تو اپنے آپ کو برطانوی گورنر کے جانشین ہی سمجھتے تھے اور عوام سے کٹ کر زندگی بسر کرتے تھے لیکن کئی ایسے گورنر بھی آئے جن کی وجہ سے گورنر ہاؤس لاہور کا کسی حد تک عوامی مرکز بھی بن گیا اور یہاں مجلسیں آراستہ ہونے لگیں مثلاً ایک گورنر پنجاب مشتاق احمد گورمانی تھے جو مجلس آرائی کے لیے بہت مشہور تھے بعد میں بھی کئی ایسے سیاستدان گورنر بنائے گئے جو الگ تھلگ نہیں رہ سکتے تھے مثلاً جناب ملک غلام مصطفے کھر۔ بھٹو صاحب کے قریبی ساتھی جن کو یہ اعزازی مگر حقیقت میں با اختیار منصب دیا گیا۔ جناب کھر صاحب نے گورنر ہاؤس اس کی تاریخ میں پہلی بار ایک غیر مانوس اور نئے انداز میں متعارف کرایا۔ یہ ہاؤس سیاسی مرکز بھی تھا اور ثقافتی بھی۔ یہاں پہلی بار رکشے میں سوار کچھ ملاقاتی بھی آتے دیکھے گئے۔ ان کے بعد ایک اور گورنر بھی آئے چوہدری الطاف حسین جو بنیادی طور پر اونچے گھر کے سیاستدان تھے، ان کے دور میں یہ گھر سیاسی بن گیا اور ایک اشرافیہ مگر عوامی انداز میں چلتا رہا۔ بہر حال جو بھی اس گھر میں آیا اس نے اپنی پسند کے مطابق اس کا ماحول بنا دیا۔
اب جب ہمارے میاں صاحبان نے ایک برطانوی پاکستانی کو جو پیشہ کے تاجر ہیں اسی منصب پر فائز کر دیا تو مجھے یہ فیصلہ اچھا نہ لگا۔ میاں صاحب کی کامیابی کی خواہش کی وجہ سے میں ان کی نہیں بلکہ ان کی سیاسی ضرورت کو سامنے رکھ کر لکھتا رہتا ہوں میرے لیے صرف ان کی تعریف ہی ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان کی بہت ساری خوبیاں اپنی جگہ لیکن ان کی سیاست سے اختلاف ان کی خیر خواہی ہے۔ بہر کیف چوہدری محمد سرور صاحب برطانیہ سے پاکستان آ گئے۔ پرانے زمانوں میں اس علاقے کے جو لوگ برطانیہ گئے وہ سب معاشی اسباب کی تلاش میں گئے، انھوں نے وہاں محنت کی، انگریزوں سے زیادہ اور برطانوی شہریت ملنے کے باوجود عملاً دوسرے درجے کے شہری بن کر بھی قسمت آزمائی کرتے رہے۔ وہاں کے ہاؤس آف لارڈز کے رکن بھی بن گئے جیسے ایک پاکستانی محترم نذیر صاحب اور بعض برطانیہ کی پارلیمنٹ کے منتخب رکن بھی رہے جیسے ہمارے گورنر صاحب لیکن ایک پاکستانی ملک سے باہر کچھ بھی بن جائے وہ پاکستانی ہی رہتا ہے اور پاکستان میں کسی مقام و مرتبے کا طلب گار اگر کوئی پنجاب جیسے بڑے اور اپنے آبائی صوبے کا گورنر بن جائے تو گویا انتہا ہو گئی۔
جناب چوہدری سرور صاحب اس انتہا پر پہنچے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ میاں صاحب کی شاہانہ پسند کے مطابق گورنر ہاؤس میں شاید کوئی غیر موزوں شخص آ گیا ہے لیکن نئے گورنر نے تو اس خاموش اور کسی حد تک مردہ گھر کو زندہ کر دیا، اب پنجاب کی انتظامی اور سرکاری زندگی میں گورنر ہاؤس کا ایک جاندار اور موثر کردار ہے اور پنجابیوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ایک حکمران ان کے قریب ترین موجود ہے۔ گورنر ہاؤس وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے گھروں کے مقابلے میں لاہور کے اندر ہے۔ لاہوری گھر سے باہر قدم رکھیں تو سامنے گورنر ہاؤس آ جاتا ہے۔ ان کی سب سے زیادہ پسندیدہ سیر گاہ باغ جناح کے بالکل سامنے ہے یعنی مال روڈ کی دوسری طرف انگریز گورنر لارنس نے یہ باغ بنوایا تھا اور لارنس گارڈن کہلاتا تھا اس کے مال روڈ کی طرف کے حصے میں ایک خوبصورت عمارت بھی بنوائی گئی جو کبھی جمخانہ کلب ہوتی تھی، اب یہ قائد اعظم لائبریری ہے۔ خود گورنر ہاؤس کے اندر سبزہ زار اتنے وسیع ہیں کہ کوئی گورنر ان کا ایک چکر بھی نہیں لگا سکتا۔ البتہ بھٹو صاحب جو بے خوابی کے مریض تھے، ان سبزہ زاروں میں نصف رات تک ٹہلتے رہتے تھے اور ان کا ساتھ دینے والے اے ڈی سی کے پاؤں سوج جاتے تھے۔
چوہدری سرور صاحب سب سے مختلف ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کارکن کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ محنت اور کام کے عادی ہیں۔ اشرافیہ کی خرابیوں سے محفوظ ہیں اور عوام کے ساتھ ربط و ضبط کو عیب نہیں سمجھتے اسے پسند کرتے ہیں۔ یہ سب انھوں نے اپنے گورنری کے اس مختصر سے عرصہ میں ہمیں کر دکھایا ہے۔ وہ ایک روایتی گورنر کی طرح اجنبی نہیں ہیں اور لوگ اپنے مسائل لے کر ان کے پاس آتے جاتے ہیں۔ اقتدار میں وہ میاں صاحبان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ اگر وہ ایک کارکن کی طرح چوہدری محمد سرور رہے اور گورنر نہ بنے تو میاں صاحبان کے لیے ان کا وجود خوشگوار رہے گا، ویسے تو وہ چاہیں تو گورنر راج بھی نافذ کر سکتے ہیں۔ خدا کرے ان کا ہاؤس کسی دھماکے سے محفوظ رہے اور وہ ذہنی آسودگی سے عوام کے ساتھ رابطہ جاری رکھیں۔