شفاف انتخابات کا الجھا معاملہ
ریٹرننگ افسران نے پولنگ کے عملے کے تقرر میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔۔۔
CANBERRA:
مئی2013 کے عام انتخابات میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد حیرت انگیزطور پربڑھ گئی ہے۔ شفاف انتخابات کے لیے سرگرداں ایک غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک نے قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے 266 کے انتخابی نتائج پر مشتمل ایک جامع رپورٹ شایع کی ہے ۔ اس رپورٹ میں ووٹوں کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی 35 نشستوں کے انتخابی نتائج میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی شرح حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی تھی ۔ فیفن کے ڈاکٹر باری نے صحافیوں کو بتایا کہ 35 حلقے چاروں صوبوں میں ہیں یوں پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ نجم سیٹھی سے منسوب 35 پینکچرز کے جڑنے کی بات کا اس تحقیق سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کل ووٹوں کی تعداد ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب حیرت انگیز ہے ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے جن 35 حلقوں کے نتائج میں مسترد ہونے والے ووٹروں کی شرح بڑھی ہے جہاں کامیاب ہونے والے امیدواروں نے ریکارڈ ووٹ حاصل کیے ہیں ۔ ڈاکٹر باری نے رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اگر جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں کاتناسب مسترد ہونے والے ووٹوں سے زیادہ ہوتو یہ معمول کے انتخابی اعداد وشمار کہلائیں گے مگر ڈاکٹر باری نے قومی اسمبلی کے حلقہ 266 کے انتخابی نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حلقے میں 25ہزار سے زائد ووٹ مسترد ہوئے اور کامیاب ہونے والا امیدوار پانچ ہزار86 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوا ۔ یہ صورتحال انتخابات کی شفافیت کے بارے میں اہم سوالات کو اجاگر کرتی ہے ۔ اس طرح رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2002کے انتخابات میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد 775,720تھی ۔ 2008میں ووٹوں کی تعداد بڑھ کر 973,694تک پہنچ گئی ۔ مئی 2013 کے انتخابات میں1,507,717تک پہنچ گئی۔ اس طرح 2008کے انتخابات کے مقابلے میں حالیہ انتخابات میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد میں حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ پولنگ کے دن سے 15دن پہلے پولنگ اسٹیشن کا نوٹیفیکیشن جاری کرے ۔
ریٹرننگ افسر الیکشن کمیشن کی مرضی کے بغیر پولنگ اسٹیشن کے بارے میںکوئی فیصلہ نہیں کرسکتا ، مگر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے 93 حلقوں میں کئی ریٹرننگ افسران نے پولنگ اسکیم میں تبدیلی کی ۔ اس طرح فیفن کی اس رپورٹ نے عام انتخابات کے بارے میںبنیادی سوالات اٹھائے ہیں ۔ موجودہ انتخابات ملک کے اپنی نوعیت کے پہلے انتخابات تھے جس میں ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے علاوہ ووٹروں کی تصاویروالی انتخابی فہرست استعمال کی گئی تھی ۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو شفاف انتخابات کے لیے بھرپورطریقے سے استعمال کیا جائے گا ۔ کمیشن نے اس مقصد کے لیے خود کار کیمروں کی تنصیب ووٹر کے فوری طور پر ووٹر کی تصدیق کے لیے جدید مشین کے استعمال کو نوید بتائی گئی تھی جو فوری طور پر ووٹرکے انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کردے گی مگر انتخابات والے دن الیکشن کمیشن کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی تھی ، یوں محسوس ہوتا تھا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ریٹرننگ افسروں نے شفاف انتخابات کے لیے کیے گئے وعدوں پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا ۔ اگرچہ نادرانے ووٹرز لسٹ الیکشن کمیشن کو فراہم کی تھی مگر ان لسٹوں میں بہت سی غلطیاں تھیں بہت سے ووٹر ز کے نام قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں درج تھے تو ان کی اہلیہ اور بچوں کے نام قومی اسمبلی کے دوسرے حلقے کی انتخابی فہرست میں درج کردیے تھے ۔ افسران نے آنکھیں بند کرکے حلقہ بندیاں کی تھیں پھر سپریم کورٹ کی یہ ہدایت کہ ووٹروں کی پولنگ اسٹیشن لے جانے کے لیے کوئی امیدوار ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کرے گا اور پولنگ اسٹیشن ووٹر کے گھر کے قریب بنائے جائیں گے۔
ریٹرننگ افسران نے پولنگ کے عملے کے تقرر میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا یہ ہی وجہ تھی کہ بہت سے پولنگ اسٹیشنوں میں تعداد کے مطابق عملہ موجود نہیں تھا ۔ ملک کے بیشتر حلقوں میں دن 12بجے تک پولنگ شروع نہیں ہوسکی تھی۔ اس بد نظمی کی بناء پر کچھ حلقوں میں دوپہر کے بعد پولنگ شروع ہوئی تھی۔ الیکشن کمیشن نے اس بناء پر پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کی توسیع کی تھی مگر بہت سے ووٹر ز اپنا بنیادی حق استعمال نہیں کرسکے تھے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انتخابی نتائج کے اعلان کے فوراََ بعد نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا شور مچ گیااور انتخابی نتائج کو الیکشن ٹریبونل میں ریکارڈ تعدا د میںچیلنج کیا گیا ، اس دفعہ انتخابی نتائج چیلنج کرنے والے امیدواروں کے وکلاء نے ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مطالبہ کیایوں جب کراچی کے دو سے زیادہ حلقوں میں ووٹ ڈالنے والے ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی نادرا نے تصدیق نہ کی تو پھر پنجاب اور اندرون سندھ کے امیدواروں کی درخواستوں کی بھر مار ہوگئی ۔
اس بناء پر الیکشن ٹریبونل مقررہ وقت پر مقدمات کا فیصلہ نہ کرسکے مگر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو خطر ے کا احساس ہوا ، انھوں نے نادرا کے معاملات ٹھیک کرنے کی ٹھانی مگر نادرا کے سربراہ طارق ملک وزیر داخلہ کی اطاعت پر تیار نہیں ہوئے، اس بناء پر طارق ملک کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر طارق ملک کو بحال کیا گیا تو وزیر داخلہ خود ان کی کردار کشی کی مہم میں لگ گئے ۔ طارق ملک کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کے الزامات لگے مگر طارق ملک حکومت کے دباؤبرداشت نہیں کرسکے اور مستعفی ہوگئے پھر متعلقہ ہائی کورٹس نے نادرا کی رپورٹ کی بنیاد پر انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی عرضداشتوں پر الیکشن ٹریبونلز کو کارروائی سے روک دیا یوں ووٹروں کے انگوٹھوں کی تصدیق کے بارے میں پیدا ہونے والا بحران وقتی طور پر ٹل گیا ۔
صدار تی انتخابات کی تاریخ کے بارے میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے فیصلے اور الیکشن کمیشن کے اراکین کے رویے سے مایوس ہوکر چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے استعفیٰ دے دیامگر ان کے استعفیٰ کی وجوہات پر قومی اسمبلی میں بحث نہیں ہوئی ۔ فیفن کی رپورٹ میں جن انتخابی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ الیکشن کمیشن کے انتخابات کے ناقص انتظامات سے منسلک تھی ۔ اس حقیقت کا سب کو اعتراف کرناچاہیے کہ موجودہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی مایوس کن تھی ۔ انتخابات سے قبل کمیشن نے شفاف انتخابات کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے جو وعدے کیے گئے تھے ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ بعد میں لیبارٹری رپورٹ سے یہ ثابت ہوا کہ انگوٹھوں کو لگائے جانے والی سیاہی مقناطیسی استعمال نہیں ہوئی تھی ۔
پولیس اور رینجرز اور قانون نافذ کرنے والی دوسری ایجنسیوں نے انتخابی عملے اور ووٹرز کی تصدیق کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے تھے جو وقت کی ضرورت تھے یوں ان خامیوں کے ساتھ انتخابی نتائج مرتب ہوئے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب حکومت حزب اختلاف کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے مشاورت کررہی ہے۔ اس مشاورت میں اس رپورٹ کو بھی مد نظر رکھا جانا چاہیے اور ایسے فرد کا انتخاب ہونا چاہیے یوں ان خامیوں کا تدارک کرے اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں ۔ اس موقعے پر ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کے اختیارات کا جائزہ لیا جائے ۔ کہا جاتا ہے کہ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم اس بناء پر غیر موثر ہوئے کہ الیکشن کمیشن کے چار اراکین نے ان سے تعاون نہیں کیا ۔ ان چار اراکین کا تقرر متعلقہ صوبے کے چیف جسٹس کرتے ہیں۔ انتخابات کے بارے میں مختلف رپورٹوں کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو مکمل طور پر با اختیار بنایا جائے مگر چاروں اراکین سے مشاورت کو بھی ضرور ی قرار دیا جائے ۔ بھارت میں 50کی دہائی میں انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئی تھی۔
بھارت کے آئین کے تحت بیوروکریسی الیکشن کمیشن کا انتظام چلاتی ہیں، ایک بیوروکریٹ کمیشن کے سربراہ ہوتے ہیں مگر مسلسل انتخابات کے ذریعے دھاندلیوں کو روکا گیا اور الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر با اختیار کیا گیا۔ عدلیہ میڈیا اور سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو خود مختار بنانے کے عمل کو مستحکم کیا ۔ بھارت میں الیکشن کمیشن پر عوام کا اعتماد اتنابڑھا کہ اب 15 دن سے ووٹوں کا عمل جاری رہتا ہے مگر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے ہمیں بھارت کے تجربے سے سیکھنا چاہیے۔ ان سب باتوں میں اہم ترین بات یہ ہے کہ موجودہ انتخابات کی کمزوریوں کو بنیاد بناکر منتخب حکومتوں کی کم کرنے کی کوشش نہ کی جائے ۔ اس دوران انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے تمام تقاضے پورے کیے جائیں ۔ فیفن کی رپورٹ شفاف جمہوری نظام کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ اس رپورٹ پر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں کھل کر بحث ہونی چاہیے۔
مئی2013 کے عام انتخابات میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد حیرت انگیزطور پربڑھ گئی ہے۔ شفاف انتخابات کے لیے سرگرداں ایک غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک نے قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے 266 کے انتخابی نتائج پر مشتمل ایک جامع رپورٹ شایع کی ہے ۔ اس رپورٹ میں ووٹوں کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی 35 نشستوں کے انتخابی نتائج میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی شرح حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی تھی ۔ فیفن کے ڈاکٹر باری نے صحافیوں کو بتایا کہ 35 حلقے چاروں صوبوں میں ہیں یوں پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ نجم سیٹھی سے منسوب 35 پینکچرز کے جڑنے کی بات کا اس تحقیق سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کل ووٹوں کی تعداد ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب حیرت انگیز ہے ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے جن 35 حلقوں کے نتائج میں مسترد ہونے والے ووٹروں کی شرح بڑھی ہے جہاں کامیاب ہونے والے امیدواروں نے ریکارڈ ووٹ حاصل کیے ہیں ۔ ڈاکٹر باری نے رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اگر جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں کاتناسب مسترد ہونے والے ووٹوں سے زیادہ ہوتو یہ معمول کے انتخابی اعداد وشمار کہلائیں گے مگر ڈاکٹر باری نے قومی اسمبلی کے حلقہ 266 کے انتخابی نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حلقے میں 25ہزار سے زائد ووٹ مسترد ہوئے اور کامیاب ہونے والا امیدوار پانچ ہزار86 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوا ۔ یہ صورتحال انتخابات کی شفافیت کے بارے میں اہم سوالات کو اجاگر کرتی ہے ۔ اس طرح رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2002کے انتخابات میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد 775,720تھی ۔ 2008میں ووٹوں کی تعداد بڑھ کر 973,694تک پہنچ گئی ۔ مئی 2013 کے انتخابات میں1,507,717تک پہنچ گئی۔ اس طرح 2008کے انتخابات کے مقابلے میں حالیہ انتخابات میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد میں حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ پولنگ کے دن سے 15دن پہلے پولنگ اسٹیشن کا نوٹیفیکیشن جاری کرے ۔
ریٹرننگ افسر الیکشن کمیشن کی مرضی کے بغیر پولنگ اسٹیشن کے بارے میںکوئی فیصلہ نہیں کرسکتا ، مگر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے 93 حلقوں میں کئی ریٹرننگ افسران نے پولنگ اسکیم میں تبدیلی کی ۔ اس طرح فیفن کی اس رپورٹ نے عام انتخابات کے بارے میںبنیادی سوالات اٹھائے ہیں ۔ موجودہ انتخابات ملک کے اپنی نوعیت کے پہلے انتخابات تھے جس میں ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے علاوہ ووٹروں کی تصاویروالی انتخابی فہرست استعمال کی گئی تھی ۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو شفاف انتخابات کے لیے بھرپورطریقے سے استعمال کیا جائے گا ۔ کمیشن نے اس مقصد کے لیے خود کار کیمروں کی تنصیب ووٹر کے فوری طور پر ووٹر کی تصدیق کے لیے جدید مشین کے استعمال کو نوید بتائی گئی تھی جو فوری طور پر ووٹرکے انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کردے گی مگر انتخابات والے دن الیکشن کمیشن کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی تھی ، یوں محسوس ہوتا تھا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ریٹرننگ افسروں نے شفاف انتخابات کے لیے کیے گئے وعدوں پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا ۔ اگرچہ نادرانے ووٹرز لسٹ الیکشن کمیشن کو فراہم کی تھی مگر ان لسٹوں میں بہت سی غلطیاں تھیں بہت سے ووٹر ز کے نام قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں درج تھے تو ان کی اہلیہ اور بچوں کے نام قومی اسمبلی کے دوسرے حلقے کی انتخابی فہرست میں درج کردیے تھے ۔ افسران نے آنکھیں بند کرکے حلقہ بندیاں کی تھیں پھر سپریم کورٹ کی یہ ہدایت کہ ووٹروں کی پولنگ اسٹیشن لے جانے کے لیے کوئی امیدوار ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کرے گا اور پولنگ اسٹیشن ووٹر کے گھر کے قریب بنائے جائیں گے۔
ریٹرننگ افسران نے پولنگ کے عملے کے تقرر میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا یہ ہی وجہ تھی کہ بہت سے پولنگ اسٹیشنوں میں تعداد کے مطابق عملہ موجود نہیں تھا ۔ ملک کے بیشتر حلقوں میں دن 12بجے تک پولنگ شروع نہیں ہوسکی تھی۔ اس بد نظمی کی بناء پر کچھ حلقوں میں دوپہر کے بعد پولنگ شروع ہوئی تھی۔ الیکشن کمیشن نے اس بناء پر پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کی توسیع کی تھی مگر بہت سے ووٹر ز اپنا بنیادی حق استعمال نہیں کرسکے تھے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انتخابی نتائج کے اعلان کے فوراََ بعد نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا شور مچ گیااور انتخابی نتائج کو الیکشن ٹریبونل میں ریکارڈ تعدا د میںچیلنج کیا گیا ، اس دفعہ انتخابی نتائج چیلنج کرنے والے امیدواروں کے وکلاء نے ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مطالبہ کیایوں جب کراچی کے دو سے زیادہ حلقوں میں ووٹ ڈالنے والے ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی نادرا نے تصدیق نہ کی تو پھر پنجاب اور اندرون سندھ کے امیدواروں کی درخواستوں کی بھر مار ہوگئی ۔
اس بناء پر الیکشن ٹریبونل مقررہ وقت پر مقدمات کا فیصلہ نہ کرسکے مگر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو خطر ے کا احساس ہوا ، انھوں نے نادرا کے معاملات ٹھیک کرنے کی ٹھانی مگر نادرا کے سربراہ طارق ملک وزیر داخلہ کی اطاعت پر تیار نہیں ہوئے، اس بناء پر طارق ملک کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر طارق ملک کو بحال کیا گیا تو وزیر داخلہ خود ان کی کردار کشی کی مہم میں لگ گئے ۔ طارق ملک کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کے الزامات لگے مگر طارق ملک حکومت کے دباؤبرداشت نہیں کرسکے اور مستعفی ہوگئے پھر متعلقہ ہائی کورٹس نے نادرا کی رپورٹ کی بنیاد پر انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی عرضداشتوں پر الیکشن ٹریبونلز کو کارروائی سے روک دیا یوں ووٹروں کے انگوٹھوں کی تصدیق کے بارے میں پیدا ہونے والا بحران وقتی طور پر ٹل گیا ۔
صدار تی انتخابات کی تاریخ کے بارے میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے فیصلے اور الیکشن کمیشن کے اراکین کے رویے سے مایوس ہوکر چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے استعفیٰ دے دیامگر ان کے استعفیٰ کی وجوہات پر قومی اسمبلی میں بحث نہیں ہوئی ۔ فیفن کی رپورٹ میں جن انتخابی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ الیکشن کمیشن کے انتخابات کے ناقص انتظامات سے منسلک تھی ۔ اس حقیقت کا سب کو اعتراف کرناچاہیے کہ موجودہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی مایوس کن تھی ۔ انتخابات سے قبل کمیشن نے شفاف انتخابات کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے جو وعدے کیے گئے تھے ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ بعد میں لیبارٹری رپورٹ سے یہ ثابت ہوا کہ انگوٹھوں کو لگائے جانے والی سیاہی مقناطیسی استعمال نہیں ہوئی تھی ۔
پولیس اور رینجرز اور قانون نافذ کرنے والی دوسری ایجنسیوں نے انتخابی عملے اور ووٹرز کی تصدیق کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے تھے جو وقت کی ضرورت تھے یوں ان خامیوں کے ساتھ انتخابی نتائج مرتب ہوئے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب حکومت حزب اختلاف کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے مشاورت کررہی ہے۔ اس مشاورت میں اس رپورٹ کو بھی مد نظر رکھا جانا چاہیے اور ایسے فرد کا انتخاب ہونا چاہیے یوں ان خامیوں کا تدارک کرے اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں ۔ اس موقعے پر ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کے اختیارات کا جائزہ لیا جائے ۔ کہا جاتا ہے کہ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم اس بناء پر غیر موثر ہوئے کہ الیکشن کمیشن کے چار اراکین نے ان سے تعاون نہیں کیا ۔ ان چار اراکین کا تقرر متعلقہ صوبے کے چیف جسٹس کرتے ہیں۔ انتخابات کے بارے میں مختلف رپورٹوں کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو مکمل طور پر با اختیار بنایا جائے مگر چاروں اراکین سے مشاورت کو بھی ضرور ی قرار دیا جائے ۔ بھارت میں 50کی دہائی میں انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئی تھی۔
بھارت کے آئین کے تحت بیوروکریسی الیکشن کمیشن کا انتظام چلاتی ہیں، ایک بیوروکریٹ کمیشن کے سربراہ ہوتے ہیں مگر مسلسل انتخابات کے ذریعے دھاندلیوں کو روکا گیا اور الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر با اختیار کیا گیا۔ عدلیہ میڈیا اور سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو خود مختار بنانے کے عمل کو مستحکم کیا ۔ بھارت میں الیکشن کمیشن پر عوام کا اعتماد اتنابڑھا کہ اب 15 دن سے ووٹوں کا عمل جاری رہتا ہے مگر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے ہمیں بھارت کے تجربے سے سیکھنا چاہیے۔ ان سب باتوں میں اہم ترین بات یہ ہے کہ موجودہ انتخابات کی کمزوریوں کو بنیاد بناکر منتخب حکومتوں کی کم کرنے کی کوشش نہ کی جائے ۔ اس دوران انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے تمام تقاضے پورے کیے جائیں ۔ فیفن کی رپورٹ شفاف جمہوری نظام کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ اس رپورٹ پر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں کھل کر بحث ہونی چاہیے۔