سامراجی تقسیم سے تحریکیں نہیں رکتیں
بنگلہ دیش میں مزدوروں، کسانوں اور عام شہریوں کی معاشی حالات بہت ہی دگرگوں ہے۔۔۔
عالمی سامراج دنیا کے عوام کو رنگ و نسل، علاقے، مذہب، زبان اور فرقوں میں تقسیم در تقسیم کرنے کے باوجود عوامی تحریکوں کو نہیں روک سکتے۔ بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ بھوک کا کوئی مذہب یا رنگ و نسل نہیں ہوتا، وہ سب کو لگتی ہے، سابق سوویت یونین کا ایک سابقہ صوبہ یوکرائن اب ایک الگ ملک بن گیا۔ یہ ایک یورپی ملک ہے اور سابق سوویت یونین کا سب سے زیادہ زرعی، زرخیز صوبہ۔ الگ ہونے کے بعد چونکہ اب یہاں سرمایہ داری رائج ہو گئی ہے اس لیے سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ مار میں تیزی آئی ہے تو دوسری جانب افلاس زدہ شہریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حکومت مخالف مظاہرین نے مغربی حصے میں دھاوا بولتے ہوئے 6 بڑے شہروں کی انتظامی امور کی اہم عمارتوں پر قبضہ کر لیا، علاقائی گورنروں سے زبردستی استعفے لکھوا لیے جس سے صدر وکٹریونو کووچ کو نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ مظاہرین کے ان اقدامات سے امکان ہے کہ صدر ملک میں اپنا کنٹرول کھو بیٹھے۔ جب کہ دارالخلافہ کیف میں بھی بڑے مظاہروں کا سامنا ہے۔
مغربی شہرلویو میں مشتعل مظاہرین نے گورنر ہاؤس پر دھاوا بول دیا اور گورنر لیگ سالو کو استعفیٰ لکھنے پر مجبور کر دیا۔ بہر حال کیف میں حکومت مخالف مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز میں جھڑپوں کے دوران 5 مظاہرین ہلاک اور 300 زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں یوکرائن کے وزیر اعظم میکولاآزاروف اور ان کی تمام کابینہ نے ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کی ایک کوشش کے طور پر اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس کے باوجود آزادی چوک پر مظاہرہ جاری ہے۔ ادھر سابقہ سوشلسٹ ملک یوگو سلاویہ جہاں کے معروف صدر مارشل ٹیٹو ہوا کرتے تھے۔ یہ ملک آج 6 حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ جن میں سے ایک بوسنیا ہے، اسے مسلمانوں کے لیے الگ ملک تشکیل کیا گیا، امریکا کا اس کی تشکیل میں گہرا ہاتھ تھا۔ مگر مسائل مذاہب یا نسلوں کے نہیں بلکہ طبقوں کے ہوتے ہیں۔ ایک طبقہ دولت کا انبار جمع کر لیتا ہے اور دوسرا بھوک سے مر جاتا ہے۔ یہی صورت حال اب بوسنیا میں نظر آ رہی ہے۔ بوسنیا ہر زی گووینا میں بیروزگاری سے تنگ افراد نے حکومت مخالف مظاہرے شروع کر دیے۔
مشتعل مظاہرین نے متعدد سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی، مظاہرین نے ایوان صدر میں گھسنے کی کوشش کی اور پتھراؤ کیا، پولیس سے جھڑپوں میں 130 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ مظاہرے رواں ہفتے کے آغاز میں قصبے توزلہ میں اس وقت شروع ہوئے جب کچھ فیکٹریوں کو بند کر کے انھیں فروخت کر دیا گیا۔ مقامی آبادی کے زیادہ تر افراد انھی فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔ کئی دنوں سے مسلسل مظاہروں کی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور سیاست دانوں میں بیروزگاری کے حل کی صلاحیتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دارالحکومت سرائیوو اور شمالی قصبے توزلہ میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں چلائیں اور آنسو گیس استعمال۔ سرائیوو میں ایوان صدر سے دھویں کے کالے بادل اٹھتے رہے۔ پولیس نے ایوان صدر پر پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال بھی کیا۔ لوگوں نے ایوان میں گھسنے کی کوشش بھی کی۔ واضح رہے کہ بوسنیا میں بیروزگاری کی شرح 40 فی صد ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ ''ہمارے پاس روزگار نہیں ہے، حکومت مستعفی ہو جائے''
سوڈان کا صوبہ دار فر جہاں کی اکثریتی آبادی عیسائیوں کی ہے۔ سوڈانی حکمرانوں کے خلاف شورش کے خاتمے کے لیے عیسائی آبادی والے صوبے کو سامراجیوں نے خاص کر امریکا اور فرانس کی سازشوں سے الگ ملک بنا دیا گیا۔ مگر آج دار فر کے عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آ کر مسلسل احتجاج، مظاہرے اور ہڑتالیں کر رہے ہیں۔
اسی طرح پرتگال کی نو آبادی کا علاقہ ''تیمور'' جب سیاسی طور پر آزاد ہوا تو انڈونیشیا کی فوج نے اس پر قبضہ کر لیا اور ان پو مظالم توڑے۔ پھر سامراجیوں نے تیمور کو عیسائیت کی بنیاد پر (یہاں کی اکثریت عیسائیوں کی ہے) اسے الگ ملک بنا دیا۔ کئی سال گزرنے کے بعد یہاں کے عوام نے بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور مہنگائی کے خلاف پر تشدد مظاہرے اور ہڑتالیں شروع کر دیں۔
مصر میں حسنی مبارک کی 30 سالہ جابرانہ آمریت کے خلاف عوام نے انقلاب برپا کیا لیکن یہ انقلابی جد وجہد سازشوں کا شکار ہو گئی اور سامراجیوں نے خاص کر ایک خلیجی بادشاہت نے سازشوں اور دیناروں کے بل بوتے پر اخوان المسلمون کو 26 فی صد ووٹ دلوا کر (وہ بھی دھاندلی سے) جتوایا۔ چند سال بعد ایک کروڑ 70 لاکھ افراد مرسی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، اس لیے کہ عوام معاشی طور پر بد حال ہو رہے تھے۔ اس انقلاب کی کامیابی سے قبل ایک عرب بادشاہت کے ایما پر مصری فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اب وہاں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے، اخوان کو ایک بادشاہت اور فوجی حکومت کو دوسری بادشاہت کی حمایت حاصل ہے۔ سیاسی اور مالی امداد بھی کر رہی ہیں۔
ہال ہی میں شام کے صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ سعودیہ کا سیاسی اور اسلامی نظریہ دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ شام میں بغاوت کے پیچھے اسی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ شام کے عوام اس محاذ آرائی کے خلاف ہیں۔ ادھر کویت میں شام کے لیے ہونے والی ڈونر کانفرنس میں مختلف ملکوں کی طرف سے 2 ارب ڈالر سے زائد امداد کے دعوے کیے گئے ہیں۔
تھائی لینڈ کا دارالحکومت بنکاک میں کئی ہفتوں سے مسلسل مظاہرے، ریلیاں، ہڑتالیں، یہاں تک کہ دو ماہ سے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو عوام نے بند رکھا ہوا ہے۔ تھائی لینڈ کی حکومت نے عام انتخابات کا انعقاد کروایا لیکن ہزاروں پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کا عمل ہوا ہی نہیں۔ حزب اختلاف نے 10 ہزار پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ ہونے ہی نہیں دی۔ ووٹنگ کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں نئی حکومت نہیں بن سکتی یا پھر بہت ہی نحیف اور بے کار ہو گی۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوبی حصے میں جہاں حزب اختلاف کا زور زیادہ ہے وہاں بیلٹ پیپرز پہنچ ہی نہیں پائے۔
بنگلہ دیش میں مزدوروں، کسانوں اور عام شہریوں کی معاشی حالات بہت ہی دگرگوں ہے۔ گارمنٹ کے ایک مزور کو (یہاں 90 فیصد خواتین مزدور ہیں) اوور ٹائم ملا کر 3000 ٹکا ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ 21 نومبر 2012ء کو ایک گارمنٹ فیکٹری میں آگ لگنے کے سبب فیکٹری کے 112 ملازمین ہلاک ہو گئے تھے۔ مزدوروں کے شدید احتجاج پر گزشتہ دنوں فیکٹری کے دو مالکان نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ جرم ثابت ہونے پر انھیں عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ فیکٹری مالکان کی غفلتوں کی وجہ سے یہ سانحہ ہوا تھا۔ 13 میں سے اب بھی 4 ملزمان فرار ہیں۔ جب کہ یہاں مسور کی دال 120، دودھ 60 ، چینی 90 اور چاول 40-50 ٹکہ کلو ہے۔ اس کے خلاف محنت کش جد وجہد کر رہے ہیں۔ جس میں عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹ جائے۔ ہر چند کہ اس جماعت کے لوگ سزا کے مستحق ہیں مگر انھیں پھانسی کے بجائے عمر قید ہونی چاہیے تھی۔ در حقیقت مسلم دنیا میں اقتدار کی پر امن منتقلی کے لیے یہ ساری اٹھا پٹخ ہو رہی ہے۔ جس میں مصر اور بنگلہ دیش کچھ آگے آگے ہیں۔ ویسے تو مسلم تاریخ میں کبھی بھی اقتدار کی پر امن منتقلی ہوئی نہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک ہمہ گیر طبقاتی اور بے ریاستی نظام میں ہی مضمر ہے جہاں ساری دنیا کے لوگ مل کر پیداوار کریں گے اور ملکر بانٹ لیں گے۔ امداد باہمی کے معاشرے کے تحت عبوری کمیٹیاں سارے کام انجام دیں گی۔
مغربی شہرلویو میں مشتعل مظاہرین نے گورنر ہاؤس پر دھاوا بول دیا اور گورنر لیگ سالو کو استعفیٰ لکھنے پر مجبور کر دیا۔ بہر حال کیف میں حکومت مخالف مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز میں جھڑپوں کے دوران 5 مظاہرین ہلاک اور 300 زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں یوکرائن کے وزیر اعظم میکولاآزاروف اور ان کی تمام کابینہ نے ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کی ایک کوشش کے طور پر اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس کے باوجود آزادی چوک پر مظاہرہ جاری ہے۔ ادھر سابقہ سوشلسٹ ملک یوگو سلاویہ جہاں کے معروف صدر مارشل ٹیٹو ہوا کرتے تھے۔ یہ ملک آج 6 حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ جن میں سے ایک بوسنیا ہے، اسے مسلمانوں کے لیے الگ ملک تشکیل کیا گیا، امریکا کا اس کی تشکیل میں گہرا ہاتھ تھا۔ مگر مسائل مذاہب یا نسلوں کے نہیں بلکہ طبقوں کے ہوتے ہیں۔ ایک طبقہ دولت کا انبار جمع کر لیتا ہے اور دوسرا بھوک سے مر جاتا ہے۔ یہی صورت حال اب بوسنیا میں نظر آ رہی ہے۔ بوسنیا ہر زی گووینا میں بیروزگاری سے تنگ افراد نے حکومت مخالف مظاہرے شروع کر دیے۔
مشتعل مظاہرین نے متعدد سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی، مظاہرین نے ایوان صدر میں گھسنے کی کوشش کی اور پتھراؤ کیا، پولیس سے جھڑپوں میں 130 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ مظاہرے رواں ہفتے کے آغاز میں قصبے توزلہ میں اس وقت شروع ہوئے جب کچھ فیکٹریوں کو بند کر کے انھیں فروخت کر دیا گیا۔ مقامی آبادی کے زیادہ تر افراد انھی فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔ کئی دنوں سے مسلسل مظاہروں کی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور سیاست دانوں میں بیروزگاری کے حل کی صلاحیتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دارالحکومت سرائیوو اور شمالی قصبے توزلہ میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں چلائیں اور آنسو گیس استعمال۔ سرائیوو میں ایوان صدر سے دھویں کے کالے بادل اٹھتے رہے۔ پولیس نے ایوان صدر پر پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال بھی کیا۔ لوگوں نے ایوان میں گھسنے کی کوشش بھی کی۔ واضح رہے کہ بوسنیا میں بیروزگاری کی شرح 40 فی صد ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ ''ہمارے پاس روزگار نہیں ہے، حکومت مستعفی ہو جائے''
سوڈان کا صوبہ دار فر جہاں کی اکثریتی آبادی عیسائیوں کی ہے۔ سوڈانی حکمرانوں کے خلاف شورش کے خاتمے کے لیے عیسائی آبادی والے صوبے کو سامراجیوں نے خاص کر امریکا اور فرانس کی سازشوں سے الگ ملک بنا دیا گیا۔ مگر آج دار فر کے عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آ کر مسلسل احتجاج، مظاہرے اور ہڑتالیں کر رہے ہیں۔
اسی طرح پرتگال کی نو آبادی کا علاقہ ''تیمور'' جب سیاسی طور پر آزاد ہوا تو انڈونیشیا کی فوج نے اس پر قبضہ کر لیا اور ان پو مظالم توڑے۔ پھر سامراجیوں نے تیمور کو عیسائیت کی بنیاد پر (یہاں کی اکثریت عیسائیوں کی ہے) اسے الگ ملک بنا دیا۔ کئی سال گزرنے کے بعد یہاں کے عوام نے بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور مہنگائی کے خلاف پر تشدد مظاہرے اور ہڑتالیں شروع کر دیں۔
مصر میں حسنی مبارک کی 30 سالہ جابرانہ آمریت کے خلاف عوام نے انقلاب برپا کیا لیکن یہ انقلابی جد وجہد سازشوں کا شکار ہو گئی اور سامراجیوں نے خاص کر ایک خلیجی بادشاہت نے سازشوں اور دیناروں کے بل بوتے پر اخوان المسلمون کو 26 فی صد ووٹ دلوا کر (وہ بھی دھاندلی سے) جتوایا۔ چند سال بعد ایک کروڑ 70 لاکھ افراد مرسی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، اس لیے کہ عوام معاشی طور پر بد حال ہو رہے تھے۔ اس انقلاب کی کامیابی سے قبل ایک عرب بادشاہت کے ایما پر مصری فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اب وہاں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے، اخوان کو ایک بادشاہت اور فوجی حکومت کو دوسری بادشاہت کی حمایت حاصل ہے۔ سیاسی اور مالی امداد بھی کر رہی ہیں۔
ہال ہی میں شام کے صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ سعودیہ کا سیاسی اور اسلامی نظریہ دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ شام میں بغاوت کے پیچھے اسی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ شام کے عوام اس محاذ آرائی کے خلاف ہیں۔ ادھر کویت میں شام کے لیے ہونے والی ڈونر کانفرنس میں مختلف ملکوں کی طرف سے 2 ارب ڈالر سے زائد امداد کے دعوے کیے گئے ہیں۔
تھائی لینڈ کا دارالحکومت بنکاک میں کئی ہفتوں سے مسلسل مظاہرے، ریلیاں، ہڑتالیں، یہاں تک کہ دو ماہ سے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو عوام نے بند رکھا ہوا ہے۔ تھائی لینڈ کی حکومت نے عام انتخابات کا انعقاد کروایا لیکن ہزاروں پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کا عمل ہوا ہی نہیں۔ حزب اختلاف نے 10 ہزار پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ ہونے ہی نہیں دی۔ ووٹنگ کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں نئی حکومت نہیں بن سکتی یا پھر بہت ہی نحیف اور بے کار ہو گی۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوبی حصے میں جہاں حزب اختلاف کا زور زیادہ ہے وہاں بیلٹ پیپرز پہنچ ہی نہیں پائے۔
بنگلہ دیش میں مزدوروں، کسانوں اور عام شہریوں کی معاشی حالات بہت ہی دگرگوں ہے۔ گارمنٹ کے ایک مزور کو (یہاں 90 فیصد خواتین مزدور ہیں) اوور ٹائم ملا کر 3000 ٹکا ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ 21 نومبر 2012ء کو ایک گارمنٹ فیکٹری میں آگ لگنے کے سبب فیکٹری کے 112 ملازمین ہلاک ہو گئے تھے۔ مزدوروں کے شدید احتجاج پر گزشتہ دنوں فیکٹری کے دو مالکان نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ جرم ثابت ہونے پر انھیں عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ فیکٹری مالکان کی غفلتوں کی وجہ سے یہ سانحہ ہوا تھا۔ 13 میں سے اب بھی 4 ملزمان فرار ہیں۔ جب کہ یہاں مسور کی دال 120، دودھ 60 ، چینی 90 اور چاول 40-50 ٹکہ کلو ہے۔ اس کے خلاف محنت کش جد وجہد کر رہے ہیں۔ جس میں عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹ جائے۔ ہر چند کہ اس جماعت کے لوگ سزا کے مستحق ہیں مگر انھیں پھانسی کے بجائے عمر قید ہونی چاہیے تھی۔ در حقیقت مسلم دنیا میں اقتدار کی پر امن منتقلی کے لیے یہ ساری اٹھا پٹخ ہو رہی ہے۔ جس میں مصر اور بنگلہ دیش کچھ آگے آگے ہیں۔ ویسے تو مسلم تاریخ میں کبھی بھی اقتدار کی پر امن منتقلی ہوئی نہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک ہمہ گیر طبقاتی اور بے ریاستی نظام میں ہی مضمر ہے جہاں ساری دنیا کے لوگ مل کر پیداوار کریں گے اور ملکر بانٹ لیں گے۔ امداد باہمی کے معاشرے کے تحت عبوری کمیٹیاں سارے کام انجام دیں گی۔