روکو یہ سیلاب
کوئٹہ سے پیدل چلتے آ رہے ہیں، شدید سرد موسم سے مقابلہ کرتے ہوئے ہم اپنا پیدل لانگ مارچ جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔۔
بلوچستان سے تین ماہ پہلے شروع ہونے والا پیدل مارچ سرائے عالمگیر پہنچ چکا ہے اور اب اپنی منزل اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے۔ ایکسپریس کے صفحہ نمبر 3 پر دو کالمی خبر شایع ہوئی ہے۔ اس پیدل لانگ مارچ کے قائد ماما قادر بلوچ کی سربراہی میں 12 رکنی افراد کے قافلے کا سرائے عالمگیر پل پر سول سوسائٹی کے لوگوں نے استقبال کیا اور سرائے عالمگیر کی سماجی شخصیت حاجی شوکت علی نے قافلے کے شرکا کو پھولوں کے ہار پہنائے۔ ماما قادر بلوچ نے اس موقعے پر کہا کہ ہمیں اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اور حق کی آواز اور پرچم اٹھائے تین ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔
کوئٹہ سے پیدل چلتے آ رہے ہیں، شدید سرد موسم سے مقابلہ کرتے ہوئے ہم اپنا پیدل لانگ مارچ جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن بے حس حکمرانوں کی طرف سے تسلی کا ہی صحیح ایک لفظ نہیں بولا گیا۔ لانگ مارچ کے قائد ماما قادر بلوچ نے مزید کہا ہے کہ ہمیں اعلیٰ عدالتوں، نام نہاد حکمرانوں اور جھوٹے وزراء سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے، لہٰذا ہم ملکی اداروں سے مایوس ہو کر عالمی ادارے No کے دفتر کے باہر دھرنا دیں گے اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع No کے ذمے داران کو تحریری یادداشت پیش کریں گے۔ اب ہم عالمی اداروں کے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ماما قادر بلوچ نے کہا کہ کچھ ماہ پہلے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ہمیں ہمارے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کی یقین دہانی کروائی تھی، لیکن پھر وہ اپنے وعدے سے مکر گئے۔ ماما قادر بلوچ نے سرائے عالمگیر میں کہا کہ ہمارے لانگ مارچ کو بلوچستان اور سندھ میں تو پذیرائی ملی، لیکن پنجاب میں داخل ہوتے ہی ہمیں دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں اور ناروا سلوک کیا گیا۔
ابھی چند ہی روز پہلے ہمارے بلوچی بہن بھائی، مائیں بچے لاہور پہنچے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان دکھیاروں کو لاہور شہر میں کچھ دن کے لیے روکا جاتا۔ لاہور شہر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی اور ان کے کرتا دھرتاؤں کی بھرمار ہے اور خادم اعلیٰ شہباز شریف کو ان بلوچوں کے ساتھ بیٹھنا چاہیے تھا۔ حبیب جالبؔ کی نظم ''میں نہیں مانتا ' میں نہیں جانتا'' پڑھنا چاہیے تھی کم از کم دس روز پیدل لانگ مارچ کے شرکا کے دکھوں میں شریک رہنا چاہیے۔ مگر ماما قادر بلوچ اپنے ساتھیوں کے ساتھ لاہور جیسے پڑاؤ سے تیزی میں گزر گئے اور یہ بیان بھی دیا کہ پنجاب سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ کاش! جالبؔ زندہ ہوتا تو وہ زخم خوردہ بلوچوں کو کبھی مایوس نہ جانے دیتا۔ مگر سنو! سنو! لاہور کے شاہ فرید قبرستان، سبز زار ، ملتان روڈ، مرقد جالبؔ سے آوازیں آ رہی ہیں:
اٹھو پنجاب کے لوگو' بلوچستان جلتا ہے
بلوچستان جلتا ہے تو پاکستان جلتا ہے
.........
جاگ مرے پنجاب کہ پاکستان جلا
ٹوٹ چلے سب خواب کہ پاکستان جلا
سندھ' بلوچستان تو کب سے روتے ہیں
اور اہل پنجاب ابھی تک سوتے ہیں
آنکھیں ہیں پُر آب کہ پاکستان جلا
جن کو ذات کا غم ہے کب وہ مانے ہیں
بے بس لوگوں پر بندوقیں تانے ہیں
قاتل ہیں اسباب کہ پاکستان جلا
آگ کی بارش سے ہے گلشن دھواں دھواں
روشن اب کلیوں کی مہکار کہاں
سپنا ہوئے گلاب کہ پاکستان جلا
انھی چلن پہ ہم سے جدا بنگال ہوا
پوچھ نہ اس دکھ پر جو دل کا حال ہوا
روکو یہ سیلاب کہ پاکستان جلا
جاگ مرے پنجاب کہ پاکستان جلا
یہ سب کچھ جو کالم میں ہو رہا ہے۔ یہ سب عظیم پیدل لانگ مارچ والوں کے سامنے ہونا چاہیے تھا جالبؔ کی نظمیں پڑھی جاتیں، فیضؔ کے گیت گائے جاتے مگر خادم اعلیٰ سے لے کر انسانی حقوق والوں تک سب چپ رہے اور ماما قادر بلوچ اپنے ساتھیوں کو لے کر آگے بڑھ گیا۔
اے مرے لاہور تیری عظمتوں کو کیا ہوا/ آئے تھے وہ زخم دل تجھ کو دکھانے کے لیے/ اور تو نے ان کو جانے دیا! یہ کیا کیا! کراچی پریس کلب کے باہر ایک ہفتہ یا شاید دس روز ماما قادر بلوچ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا رہا۔ میں بھی گھڑی بھر کو ان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ کراچی شہر میں لاپتہ بلوچوں کا ذکر چلتا رہا۔ اس سے کہیں زیادہ فضا لاہور میں بننا چاہیے تھی کہ لاہور کا اثر زیادہ ہوتا خیر اب یہ قافلہ راولپنڈی اسلام آباد سے بنتا ہے۔ ماما قادر بلوچ اور ان کے ساتھی بہت مایوس شکستہ دل مگر حوصلے اور یقین کی چمک آنکھوں میں لیے چہروں پر آزادی کے اجالے اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یہ بوڑھے، جوان، عورتیں، مرد، لڑکیاں ، لڑکے، بچے اپنا حق مانگنے غیروں کے پاس جا رہے ہیں۔ انھیں راستے ہی میں تھام لو، گلے لگا لو، انھیں یقین دلاؤ کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم ساتھ جئیں گے، ساتھ مریں گے۔ دیکھو یہ سرد ترین موسم میں ہزار میل سے اوپر پیدل سفر کر کے آئے ہیں اور یہ کیا کریں پاکستان سے اپنی حب الوطنی کا کیا ثبوت پیش کریں، ہم سب تو اپنے محلوں، حویلیوں، کوٹھیوں، فارم ہاؤسوں، کچے پکے گھروں میں ہیں اور یہ بستی بستی نگر نگر گھومتے پھر رہے ہیں، اپنے بچھڑے ہوؤں کی صورتیں آنکھوں میں بسائے دنیا والوں کے لیے ان کی تصویریں اٹھائے یہ چل رہے ہیں ان کی قسمت میں یہ دکھ تھے، سو یہ دکھ اٹھا رہے ہیں یہ ہمارے ملک کی بقا کی ضمانت بن چکے ہیں۔ یہ رہیں گے تو ہم رہیں گے، ملک رہے گا۔ ہزار میل پیدل چل کر ماما قادر بلوچ اور ان کے ساتھی کندن بن چکے ہیں، بہت بڑے مجاہدے کے بعد یہ شعلہ بار لوگ، جدھر پھوک ماریں گے آگ لگ جائے گی، یہ حق و صداقت کا پرچم بن چکے ہیں، یہ انقلاب کے نقیب ہیں، خوش حال مستقبل کی نوید ہیں۔
انھیں تھام لو
انھیں تھام لو
یہ اس زمین کے مالک ہیں جہاں سونا ہے جہاں پہاڑوں میں قیمتی خزانے ہیں جہاں گیس کے ذخائر ہیں جہاں خوشبودار پھلوں کے باغات ہیں مگر یہ لوگ پھر بھی اپنے پیاروں کی تلاش میں دربدر ہیں اپنی زمینوں سے نکالے ہوئے ہیں ان کے قبرستان بھر چکے ہیں۔ قبروں کے سلسلے دور دور تک پھیل چکے ہیں، باغوں میں بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے گھروں میں بچے بوڑھے اور عورتیں ہیں۔ جوان پہاڑوں پر چڑھ گئے ہیں۔
یہ کیسا انصاف ہے
یہ کیا ہو رہا ہے
یہ کیوں ہو رہا ہے؟