آلودگی سے ڈینگی تک
عالمی ادارہ صحت کے ایک جائزے کے مطابق ایشیائی ممالک میں آلودگی کی بڑھتی ہوئی صورت حال تشویشناک حد تک خطرناک ہے
کراچی کی آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ کے لگ بھگ ہے، آبادی کے تیزی سے بڑھتے تناسب کی وجہ سے اسے دنیا کے گنجان ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس گنجان ترین شہر میں آلودگی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اس سے یہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ آیندہ دس برسوں میں اس شہر کا ہر دوسرا فرد سر درد، نزلہ، زکام، دل کے امراض اور الرجی وغیرہ میں مبتلا ہو سکتا ہے اور اس کی بڑی وجہ ہے اس شہر کی فضا میں پیدا ہونے والے وہ آلودہ عناصر جو انسانی صحت کے لیے کسی طرح بھی مناسب نہیں ہیں۔
اگست 2008سے 2009کے درمیان آغا خان یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر 68.6 فیصد افراد نے ایمرجنسی وارڈ میں علاج کروایا اور 31.4 فی صد نے اسپتالوں میں باقاعدہ علاج کے لیے داخلہ لیا۔ اسپتال کا ریکارڈ یہ بناتا ہے کہ ان مریضوں میں اکثریت کی تعداد دل کے امراض کی تھی، ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ فضائی آلودگی کے مستقل بڑھنے کی وجہ سے دل کے امراض میں اضافہ ہوا ہے۔ شہر کے دو معروف ترین علاقے کورنگی جہاں صنعتی علاقے میں فیکٹریوں اور ملوں سے نکلنے والا دھواں جو خاصا آلودہ اور مضر صحت اجزاء سے بھرپور ہوتا ہے پوری آبادی پر اثر انداز ہوتا ہے جب کہ شہر کے وسط میں تبت سینٹر کا علاقہ بھی جہاں روزانہ تقریباً تین لاکھ گاڑیاں گزرتی ہیں اپنی مضر صحت گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کی بدولت شہریوں کی زندگی کو ابتر کر رہی ہیں۔ کورنگی جہاں ریفائنریاں، ٹیکسٹائل ملیں اور دوسری کیمیائی فیکٹریاں شامل ہیں نہ صرف اپنے دھوئیں بلکہ خارج ہونے والے آلودہ پانی کی بدولت بھی سنگین صورت حال پیدا کر رہی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے ایک جائزے کے مطابق ایشیائی ممالک میں آلودگی کی بڑھتی ہوئی صورت حال تشویشناک حد تک خطرناک ہے جہاں اس وجہ سے خطرناک بیماریاں پھیل رہی ہیں اور سالانہ آٹھ لاکھ افراد موت کا شکار بن رہے ہیں۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں عام عوام کے لیے ٹرانسپورٹ کی صورت حال خاصی ابتر ہے لیکن گاڑیوں کی شکستہ حالی کی بدولت فضا میں خارج ہونے والا دھواں جو ان گاڑیوں کی بدولت لوگوں کی صحت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے دراصل ہمارے اپنے عوام کی کم علمی اور حکومتی اداروں کی نا اہلی کا ثبوت ہے جہاں دن رات تیز آواز میں کھڑکھڑاتے رکشے دم دار جانوروں کی مانند مستقل دھواں انڈیلتے فضائی آلودگی کے مرتکب ہوتے ہیں تو وہیں عام ٹرانسپورٹ کی بسیں ویگنیں بھی اس میں اپنا پورا حصہ ڈال رہی ہیں لیکن اس طرح ٹوٹتی پھوٹتی دھواں اگلتی گاڑیوں کی روک تھام کے لیے کوئی روک تھام کا سلسلہ نہیں۔ جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر سب کام ہو رہا ہے، یہ مضر صحت دھواں اپنے اندر ایسے خطرناک عناصر رکھتا ہے جو انسانی سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوتے ہیں جہاں یہ اتنی گہرائی پر جا کر پیوست ہوتے ہیں جو عمومی علاج سے بھی صاف نہیں ہوتے یہ بھی زہریلے عناصر دل کے خلیات کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں، تو دوسری جانب فضائی آلودگی جس میں شور بھی شامل ہے ڈپریشن، سر درد، اختلاج اور دوسرے ذہنی امراض کا باعث بن رہا ہے۔ شہر کے وسطی علاقے جہاں ٹریفک کی آمد و رفت دور دراز کے علاقوں کے معاملے میں زیادہ ہے خاصے متاثر کن ہیں، یہاں تک کہ قائد اعظم کے سفید مقبرے پر بھی شہر کا دھواں اپنے اثرات چھوڑ رہا ہے۔
فضائی آلودگی کا شکار نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر جن میں لاہور، فیصل آباد اور اسلام آباد شامل ہیں۔ فیصل آباد کا درجہ اس اعتبار سے خاصا بلند ہے جب کہ لاہور دوسرے نمبر پر آتا ہے۔
موسم سرما جاتے جاتے بھی اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ آتے موسم میں کچھ تردد اور جاتے موسم میں اتنا جوبن کہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں اب بھی سردی راج کر رہی ہے لیکن آتے اور جاتے اس موسم سرما کا ایک خوفناک عذاب ڈینگی بخار بھی ہوتا ہے جو اس سیزن میں خوب سر چڑھ کر بولتا ہے پچھلے چند برسوں میں اس مرض میں نجانے کتنے لوگ شکار بنے اور کتنے جہان فانی سے گزر گئے لیکن تاحال اس سے بچاؤ کی تدابیر کچھ خاص نظر نہیں آرہی ہیں۔ اگر صرف کراچی کے خالی ایک علاقے کی بات کی جائے تو گلستان جوہر ایک ایسا مظلوم علاقہ ہے جہاں ڈینگی نام کے مچھروں کے لیے گویا محلات تعمیر کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مچھر صاف پانی پر بیٹھتا ہے اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس مچھر کے آنے جانے پر کسی طرح کی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ یہ خدا کے حکم سے جدھر منہ اٹھتا ہے نکل جاتا ہے۔ سب ٹھیک ہے اپنی جگہ پر لیکن بحیثیت ایک فرد ہمارا فرض ہے کہ ہم اس مچھر کی ممکنہ قیام گاہوں کو تلف کریں جس میں صرف ایک ڈینگی نام کا مچھر ہی ہمارا دشمن نہیں ہے۔
بچپن سے ہم سنتے آئے ہیں کہ مچھروں کے پیدا ہونے سے بچاؤ کے لیے گھروں کے نزدیک پانی جمع ہونے سے بچائیے اور بارشوں کے بعد جمع ہونے والے پانی کی درست طرح سے نکاسی کی جائے اور گھروں کے باہر جمع شدہ پانی پر مٹی کا تیل ڈالا جائے اور گڑھوں کو مٹی سے بھر دیا جائے تا کہ مچھروں کی افزائش نہ ہو سکے لیکن حقیقت میں کورس کی کتابوں میں جو لکھا ہے اس کے برخلاف کچھ بھی نہیں ہوتا، مثلاً گلستان جوہر کے بلاک نمبر 18 جہاں کبھی ریلوے لائن پر ٹرینیں چلا کرتی تھیں اب اونچی اونچی جھاڑیاں لہراتی رہتی ہیں ان سرسبز جھاڑیوں کے بیچ ایک جدید قسم کا نالہ بہتا جا رہا ہے یہ جدید نالہ خود ساختہ ہے یعنی اسے حکومت نے ہرگز تعمیر نہیں کرایا بلکہ قیمتی ٹرین کی پٹریوں پر اردگرد کی آبادیوں نے اپنی سیوریج کی لائنیں یوں چھوڑ رکھی ہیں کہ جیسے قانوناً وہ اس ٹرین کی پٹری پر سیوریج کا گندا غلیظ پانی بہانے کے حقدار ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے یہی ہو رہا ہے۔ اس نالے کے اردگرد رہائشی گھر قائم ہیں جب کہ ریلوے کالونی کی تعمیرات بھی نالے کے ساتھ ساتھ قائم ہیں ان ہی گھروں میں ایک ایسا بھی گھر ہے جسے اس کے مکین نے بہت آرزوؤں سے بنایا اور سنوارا تھا وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ بہت خوش تھے کہ اچانک چند مہینوں قبل ان کی زندگی میں ہلچل سی مچ گئی۔
ان کی اہلیہ کو جو مقامی اسکول میں پڑھاتی تھیں بخار نے آ گھیرا چند دن بخار رہا لیکن جب حالت خراب ہوئی تو اسپتال لے جایا گیا پتہ چلا کہ ڈینگی بخار ہے اور یوں چند ہی دنوں میں ایک ہنستی مسکراتی تین چار بچوں کی ماں چپ چاپ اس دنیا سے چلی گئی۔ صرف یہی نہیں اس نالے کے ذرا فاصلے پر ایک صاحب چھوٹے چھوٹے بچوں کے باپ اس بخار میں مبتلا ہوئے نہ صرف وہ بلکہ ان کا چودہ سالہ بیٹا بھی اسی بخار کا شکار ہوا لیکن بروقت علاج سے جان بخشی ہوئی۔ پچھلے برس لاہور میں ڈینگی مچھر سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ فورس تیار کی گئی تھی اس برس یہ فورس عمل کرتی ہے یا تمام آلات پر دھول پڑ چکی ہے بہرحال کراچی اور دوسرے شہر بھی اسی حکومت کا حصہ ہیں ہم اٹھارہ کروڑ کی آبادی کے ملک کے باسی ہیں اٹھارہ ہزار نہیں کہ پھر پیدا ہو جائیں گے۔ عوام کے بچے بچے کی ذمے داری حکومت کی ہے یوں تو ہم سب کو مرنا ہے ایک دن لیکن کون کس کے خنجر کا شکار ہوتا ہے یہ حساب کتاب تو اس دن کے لیے باقی ہے ضرورت اس بات کی ہے فی الحال اپنے کھاتے درست کرنے کے لیے شہری انتظامیہ اور کنٹونمنٹ بورڈ والے ذمے داری کا مظاہرہ کریں ورنہ اس بڑے حساب کتاب والے دن کسی کی بچت نہ ہو گی ذرا سوچیے۔
اگست 2008سے 2009کے درمیان آغا خان یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر 68.6 فیصد افراد نے ایمرجنسی وارڈ میں علاج کروایا اور 31.4 فی صد نے اسپتالوں میں باقاعدہ علاج کے لیے داخلہ لیا۔ اسپتال کا ریکارڈ یہ بناتا ہے کہ ان مریضوں میں اکثریت کی تعداد دل کے امراض کی تھی، ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ فضائی آلودگی کے مستقل بڑھنے کی وجہ سے دل کے امراض میں اضافہ ہوا ہے۔ شہر کے دو معروف ترین علاقے کورنگی جہاں صنعتی علاقے میں فیکٹریوں اور ملوں سے نکلنے والا دھواں جو خاصا آلودہ اور مضر صحت اجزاء سے بھرپور ہوتا ہے پوری آبادی پر اثر انداز ہوتا ہے جب کہ شہر کے وسط میں تبت سینٹر کا علاقہ بھی جہاں روزانہ تقریباً تین لاکھ گاڑیاں گزرتی ہیں اپنی مضر صحت گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کی بدولت شہریوں کی زندگی کو ابتر کر رہی ہیں۔ کورنگی جہاں ریفائنریاں، ٹیکسٹائل ملیں اور دوسری کیمیائی فیکٹریاں شامل ہیں نہ صرف اپنے دھوئیں بلکہ خارج ہونے والے آلودہ پانی کی بدولت بھی سنگین صورت حال پیدا کر رہی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے ایک جائزے کے مطابق ایشیائی ممالک میں آلودگی کی بڑھتی ہوئی صورت حال تشویشناک حد تک خطرناک ہے جہاں اس وجہ سے خطرناک بیماریاں پھیل رہی ہیں اور سالانہ آٹھ لاکھ افراد موت کا شکار بن رہے ہیں۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں عام عوام کے لیے ٹرانسپورٹ کی صورت حال خاصی ابتر ہے لیکن گاڑیوں کی شکستہ حالی کی بدولت فضا میں خارج ہونے والا دھواں جو ان گاڑیوں کی بدولت لوگوں کی صحت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے دراصل ہمارے اپنے عوام کی کم علمی اور حکومتی اداروں کی نا اہلی کا ثبوت ہے جہاں دن رات تیز آواز میں کھڑکھڑاتے رکشے دم دار جانوروں کی مانند مستقل دھواں انڈیلتے فضائی آلودگی کے مرتکب ہوتے ہیں تو وہیں عام ٹرانسپورٹ کی بسیں ویگنیں بھی اس میں اپنا پورا حصہ ڈال رہی ہیں لیکن اس طرح ٹوٹتی پھوٹتی دھواں اگلتی گاڑیوں کی روک تھام کے لیے کوئی روک تھام کا سلسلہ نہیں۔ جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر سب کام ہو رہا ہے، یہ مضر صحت دھواں اپنے اندر ایسے خطرناک عناصر رکھتا ہے جو انسانی سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوتے ہیں جہاں یہ اتنی گہرائی پر جا کر پیوست ہوتے ہیں جو عمومی علاج سے بھی صاف نہیں ہوتے یہ بھی زہریلے عناصر دل کے خلیات کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں، تو دوسری جانب فضائی آلودگی جس میں شور بھی شامل ہے ڈپریشن، سر درد، اختلاج اور دوسرے ذہنی امراض کا باعث بن رہا ہے۔ شہر کے وسطی علاقے جہاں ٹریفک کی آمد و رفت دور دراز کے علاقوں کے معاملے میں زیادہ ہے خاصے متاثر کن ہیں، یہاں تک کہ قائد اعظم کے سفید مقبرے پر بھی شہر کا دھواں اپنے اثرات چھوڑ رہا ہے۔
فضائی آلودگی کا شکار نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر جن میں لاہور، فیصل آباد اور اسلام آباد شامل ہیں۔ فیصل آباد کا درجہ اس اعتبار سے خاصا بلند ہے جب کہ لاہور دوسرے نمبر پر آتا ہے۔
موسم سرما جاتے جاتے بھی اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ آتے موسم میں کچھ تردد اور جاتے موسم میں اتنا جوبن کہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں اب بھی سردی راج کر رہی ہے لیکن آتے اور جاتے اس موسم سرما کا ایک خوفناک عذاب ڈینگی بخار بھی ہوتا ہے جو اس سیزن میں خوب سر چڑھ کر بولتا ہے پچھلے چند برسوں میں اس مرض میں نجانے کتنے لوگ شکار بنے اور کتنے جہان فانی سے گزر گئے لیکن تاحال اس سے بچاؤ کی تدابیر کچھ خاص نظر نہیں آرہی ہیں۔ اگر صرف کراچی کے خالی ایک علاقے کی بات کی جائے تو گلستان جوہر ایک ایسا مظلوم علاقہ ہے جہاں ڈینگی نام کے مچھروں کے لیے گویا محلات تعمیر کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مچھر صاف پانی پر بیٹھتا ہے اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس مچھر کے آنے جانے پر کسی طرح کی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ یہ خدا کے حکم سے جدھر منہ اٹھتا ہے نکل جاتا ہے۔ سب ٹھیک ہے اپنی جگہ پر لیکن بحیثیت ایک فرد ہمارا فرض ہے کہ ہم اس مچھر کی ممکنہ قیام گاہوں کو تلف کریں جس میں صرف ایک ڈینگی نام کا مچھر ہی ہمارا دشمن نہیں ہے۔
بچپن سے ہم سنتے آئے ہیں کہ مچھروں کے پیدا ہونے سے بچاؤ کے لیے گھروں کے نزدیک پانی جمع ہونے سے بچائیے اور بارشوں کے بعد جمع ہونے والے پانی کی درست طرح سے نکاسی کی جائے اور گھروں کے باہر جمع شدہ پانی پر مٹی کا تیل ڈالا جائے اور گڑھوں کو مٹی سے بھر دیا جائے تا کہ مچھروں کی افزائش نہ ہو سکے لیکن حقیقت میں کورس کی کتابوں میں جو لکھا ہے اس کے برخلاف کچھ بھی نہیں ہوتا، مثلاً گلستان جوہر کے بلاک نمبر 18 جہاں کبھی ریلوے لائن پر ٹرینیں چلا کرتی تھیں اب اونچی اونچی جھاڑیاں لہراتی رہتی ہیں ان سرسبز جھاڑیوں کے بیچ ایک جدید قسم کا نالہ بہتا جا رہا ہے یہ جدید نالہ خود ساختہ ہے یعنی اسے حکومت نے ہرگز تعمیر نہیں کرایا بلکہ قیمتی ٹرین کی پٹریوں پر اردگرد کی آبادیوں نے اپنی سیوریج کی لائنیں یوں چھوڑ رکھی ہیں کہ جیسے قانوناً وہ اس ٹرین کی پٹری پر سیوریج کا گندا غلیظ پانی بہانے کے حقدار ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے یہی ہو رہا ہے۔ اس نالے کے اردگرد رہائشی گھر قائم ہیں جب کہ ریلوے کالونی کی تعمیرات بھی نالے کے ساتھ ساتھ قائم ہیں ان ہی گھروں میں ایک ایسا بھی گھر ہے جسے اس کے مکین نے بہت آرزوؤں سے بنایا اور سنوارا تھا وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ بہت خوش تھے کہ اچانک چند مہینوں قبل ان کی زندگی میں ہلچل سی مچ گئی۔
ان کی اہلیہ کو جو مقامی اسکول میں پڑھاتی تھیں بخار نے آ گھیرا چند دن بخار رہا لیکن جب حالت خراب ہوئی تو اسپتال لے جایا گیا پتہ چلا کہ ڈینگی بخار ہے اور یوں چند ہی دنوں میں ایک ہنستی مسکراتی تین چار بچوں کی ماں چپ چاپ اس دنیا سے چلی گئی۔ صرف یہی نہیں اس نالے کے ذرا فاصلے پر ایک صاحب چھوٹے چھوٹے بچوں کے باپ اس بخار میں مبتلا ہوئے نہ صرف وہ بلکہ ان کا چودہ سالہ بیٹا بھی اسی بخار کا شکار ہوا لیکن بروقت علاج سے جان بخشی ہوئی۔ پچھلے برس لاہور میں ڈینگی مچھر سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ فورس تیار کی گئی تھی اس برس یہ فورس عمل کرتی ہے یا تمام آلات پر دھول پڑ چکی ہے بہرحال کراچی اور دوسرے شہر بھی اسی حکومت کا حصہ ہیں ہم اٹھارہ کروڑ کی آبادی کے ملک کے باسی ہیں اٹھارہ ہزار نہیں کہ پھر پیدا ہو جائیں گے۔ عوام کے بچے بچے کی ذمے داری حکومت کی ہے یوں تو ہم سب کو مرنا ہے ایک دن لیکن کون کس کے خنجر کا شکار ہوتا ہے یہ حساب کتاب تو اس دن کے لیے باقی ہے ضرورت اس بات کی ہے فی الحال اپنے کھاتے درست کرنے کے لیے شہری انتظامیہ اور کنٹونمنٹ بورڈ والے ذمے داری کا مظاہرہ کریں ورنہ اس بڑے حساب کتاب والے دن کسی کی بچت نہ ہو گی ذرا سوچیے۔