ملکی معیشت کی بحالی
رواں سال پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح چار فی صد اور اگلے سال ساڑھے چار فی صد رہنے کی توقع ہے
ISLAMABAD:
میڈیا کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے پاکستان میں معاشی شرح نمو میں کمی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح چار فی صد اور اگلے سال ساڑھے چار فی صد رہنے کی توقع ہے جب کہ مہنگائی کی شرح گیارہ فیصد رہنے کی توقع ہے۔
جاری کردہ رپورٹ کے حوالے سے خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ سخت معاشی اور مانیٹری پالیسی کے باعث معیشت سست روی کا شکار ہوسکتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے پاکستان میں بھی اشیاء ضروریہ کے نرخوں میں اضافے کا امکان ہے ۔ بڑھتے افراط زر اور عدم توازن پر قابو کے لیے موزوں مالیاتی پالیسیاں اور اصلاحات ضروری ہیں ۔
یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ پاکستان کی معیشت خطرات میں گھرتی چلی جا رہی ہے، روپے کی قدر میں مسلسل اور تیزی سے کمی، معیشت کی شرح نمو، ٹیکسوں کی وصولی، بچتوں و سرمایہ کاری کی شرحیں، برآمدات، غذائی قلت، بیروزگاری اور غربت کی صورت حال خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔
افراطِ زر، مہنگائی اور ملک پر قرضوں کا بوجھ نا قابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ حکومتی ماہرین گزشتہ سال کی منفی شرح نمو کی بنیاد پر معاشی شرح نمو کی نئی سطح کا اعلان کررہے ہیں، اگر ایک مرتبہ پھر حکومت نے معاشی شرح نمو کے اعداد و شمار کو تبدیل کیا اور شرح حقیقی طور پر 3.94 فیصد نہ رہی تو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں اور مالیاتی ادار وں کا پاکستان سے اعتماد اٹھ جانے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا جس کی تلافی کسی کے بس میں نہیں ہوگی۔
مسئلہ یہ ہے کہ عنقریب بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آرہے ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حکومت عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھائے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیے بغیر اپنی معیشت کو ترقی نہیں دے سکتی ؟ یقینا ہم ملکی وسائل سے معیشت کو ترقی دے سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کیسے ممکن ہو، اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جن سرمایہ داروں کے نام پاناما لیکس، پینڈورا لیکس اور دوسری رپورٹ میں آئے ہیں۔
ان کی دولت واپس لائی جائے۔ پاکستانیوں کے بیرونِ ملک کاروبار، جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس ہیں، جن لوگوں نے قومی وسائل لوٹ کر یا ٹیکس بچانے کے لیے دولت بیرون ملک منتقل کردی، ایسی دولت وطن عزیز میں لانے میں ہماری حکومتیں مسلسل ناکام ہوتی آئی ہیں۔ اسی طرح کھربوں روپے ملک کے نامور شرفاء نے قرضوں کی شکل میں بینکوں سے لیے اور بعد میں قرض معاف کروا لیے۔ بینکوں سے بھاری قرضے لینے اور پھر انھیں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر معاف کرانے کی داستان بڑی طویل ہے۔
ماضی میں سب سے زیادہ زرعی قرضے بڑے بڑے لینڈ لارڈز نے حاصل کیے۔ تاجر، صنعت کار اور کاروباری طبقے کے افراد بھی صنعتی ترقی کے نام پر اس دوڑ میں شامل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے قرضوں کی معافی کے لیے سیاسی وفا داریوں بھی تبدیل کرتے رہے۔
اس طرح انھوں نے جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قومی معیشت کو متزلزل کرنے اور قومی مالیاتی اداروں کو خسارے سے دوچار کرنے میں کون سے عناصر سرفہرست تھے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے اس بدعنوانی اور لوٹ مار کا نوٹس لینے اور قومی سرمائے کی واپسی کے لیے کوئی قدم اُٹھانے کی زحمت ہی نہیں کی اور نہ ہی قانونی اصلاحات کرکے لوٹ مار کرنے کے قانونی چور دروازے بند کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان میں براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری بہت کم ہوگئی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کم ہونے کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کاروں کو یہاں کے حالات اور بیوروکریسی کے بے جا اختیارات اور قانوی الجھاؤ کی وجہ سے اپنے سرمائے کے محفوظ رہنے کا یقین نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ داخلی سطح پر حالات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ حکومت کو ٹیکس وصولیوں میں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات کر کے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔
حکومت ان تمام شعبوں پر جو اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھا سکتی ہے۔ دوست ممالک سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ زراعت میں بہتری لا کر زرعی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ عالمی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے بھی یہ معراج زراعت کو ترقی دیکر حاصل کی ہے۔ یہ ممالک آج بھی اپنے زرعی شعبے کو بے تحاشا سبسڈیز فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زرعی پیداوار سستی ہوتی ہے اور ملکی معیشت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافے کے موجودہ رجحان کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہو چکا ہے کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو بجلی اور گیس کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پائیدار اور جائز ٹیرف دیا جائے۔ آج سے دو دہائی قبل بھی پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ترقی کی جانب رواں دواں تھی اور امریکا و یورپی یونین کی جانب سے ملنے والی مراعات کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی نمو جاری تھی۔ اس وقت حکومت نے انڈسٹری کی انرجی کے حوالے سے ضروریات کو ہنگامی بنیادوں پر پورا کرنے کے لیے گیس سے بجلی پیدا کرنے کی اجازت دے دی تھی جس کی وجہ سے انڈسٹری کے بڑے حصے نے اپنے جنریٹرز لگا کر گیس سے بجلی کی پیداوار شروع کر دی تھی لیکن بعد میں جب ملک میں گیس کا بحران پیدا ہوا تو انڈسٹری کو یک دم گیس کی فراہمی رو ک دی گئی جس سے تقریبا 20 سے 30 دن تک انڈسٹری بند رہی۔
اس فیصلے سے بڑے بڑے صنعتی یونٹس یک دم خسارے میں چلے گئے تھے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں تاریخی اضافے کے باوجود ہماری درآمدات اب بھی انتہائی زیادہ ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو مالیاتی دباؤ کا سامنا ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے چین، انڈیا اور بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری سے موازنے کے لیے کسی انٹرنیشنل ادارے سے تحقیق کروائے تاکہ جن پہلوؤں میں پاکستان ان ممالک سے پیچھے ہے ، ان کی نشاندہی ہو سکے اور ان میں بہتری کے لیے حکمت ِ عملی تشکیل دی جا سکے۔
آبادی کے بڑھتے دباؤ اور توقعات کی موجودگی میں ان محدود وسائل اور پیچیدہ مسائل کے ساتھ بجٹ بنانا آسان نہیں۔ ٹیکس کلچر فروغ دینے اور معیشت میں ٹیکنالوجی کے سہارے بہتر ویلیو ایڈڈ سے قومی پیداوار میں سالانہ چھ سات فی صد اضافے سے چند سالوں میں معیشت ایک مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہو سکتی ہے لیکن فی الحال یوں لگ رہا ہے کہ بنیادی مسائل کا بھاری پتھر آسانی سے راستے سے ہٹنے والا نہیں۔ معیشت میں ایک بار پھر وسط اور طویل مدت پلاننگ کی ضرورت ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ سی پیک کی صورت میں آنے والی سرمایہ کاری، موجود وسائل کے لیے مناسب ترجیحات اور کفایتی استعمال کے ساتھ ساتھ بہتر گورننس کو اپنا کر معیشت کو ایک بار پھر سے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکے۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان کے بارے میں بین الاقوامی خیالات میں اگرچہ اس کے دہشت گردی سے تعلقات پر ہی زور دیا گیا ہے تاہم ملک کی سلامتی صورتحال کافی حد تک بہتر ہوچکی ہے۔ سیاحت کی صنعت اور ثقافتی ڈپلومیسی میں سرمایہ کاری اس کے مثبت سمت میں جاری سفر کو ظاہر کرتی ہیں۔
غیر متوقع طور پر سیاحت معاشی پیداوار کا باعث بھی ہوتی ہے۔ یہ محصول اکھٹا کرنے اور نوکریوں کے مواقعے پیدا کرتی ہے۔ سیاحت میں چھپے ممکنہ فوائد کا محض اسی وقت مکمل ادراک ہوسکتا ہے جب اس کے ڈھانچے میں موجود رکاوٹوں سے پوری طرح نمٹ لیا جائے۔
پاکستان میں حکام کو محفوظ اور پائیدار سیاحت کو یقینی بنانے کے لیے ویزہ پالیسیوں میں نرمی، سیاحتی مواقعوں میں اضافے کے لیے تربیت متعارف کرنے اور ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر کو باقاعدہ شکل دینے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ سیاحت میں مزید سرمایہ کاری سے وسائل کا منافع بخش انداز میں استعمال اور پاکستان میں سلامتی کی بہتر ہوتی صورتحال کے بارے میں عالمی سطح پر آگاہی، دونوں کام ہوسکتے ہیں۔ متعدد اعتبار سے رنگارنگ ثقافت کا حامل ایک روادار ملک کی حیثیت سے پاکستان کا تشخص اجاگر کرنے کے ضمن میں یہ ایک اہم قدم ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ایسے دانشمندانہ فیصلے کیے جائیں جن سے ملکی معیشت کی بحالی کے امکانات پیدا ہوسکیں ۔