جائیں تو جائیں کہاں

اب تو درمیانے درجے کے نجی اسپتال بھی ’’ پر، پرُزے ‘‘ نکالتے دکھائی دیتے ہیں



PARIS: ہمارے ملک میں بہت سے اسپتال ہیں ، چھوٹے ، بڑے ، درمیانے ، سرکاری ، نجی ، مہنگے ، سستے ، مفت ، اچھے ، بُرے ( یا اگر بُرے نہیں تو خطرناک حد تک بد حالی اور لاپرواہی کا شکار کہہ لیجیے ) غرضیکہ تمام اقسام کے اسپتال پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ بہت سے بڑے پرائیوٹ اسپتال اچھے تو ضرور ہیں لیکن 74 سالوں سے مصائب و پریشانیوں میں گھر ے ، دکھوں کے مارے ، پاکستان کے غریب اور بے بس لوگوں کی دسترس سے کوسوں دور ہیں۔

اب تو درمیانے درجے کے نجی اسپتال بھی '' پر، پرُزے '' نکالتے دکھائی دیتے ہیں ، ڈسچارج کیے جانے والے صحتیاب مریض کو گھر لے جاتے وقت لواحقین کے ہاتھوں میں تھما ، اچھا خاصا بھاری بھرکم '' بل'' ادائیگی کرتے ایک لاچار شخص کو '' بیمار'' یا کم از کم اس وقت شدید ذہنی صدمہ پہنچانے کا موجب تو ضرور بنتا ہے اور پھر وہی شخص '' مرتا کیا نہ کرتا '' کی حقیقی مثل بنتے ، مجبورا بل ادا کر ہی دیتا ہے ، پھر تیسرے درجے کے پرائیویٹ اسپتال ہیں۔

یہ اسپتال نسبتا سستے تو ضرور ہیں ، لیکن معیاری ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا بوجھ اپنے ناتواں سے وجود پر ہمیشہ ہی اٹھائے رکھتے ہیں۔ اب صحیح ہے یا غلط لیکن یہ بات بھی مشہور ہے کہ یہ تینوں درجات کے اسپتال ہمہ وقت زیادہ سے زیادہ پیسے اور منافع کمانے کے نت نئے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں ، بالخصوص خواتین کے '' قینچی'' (انگریزی میں C-section کہلائے جانے والے ) بیشتر آپریشن بلا ضرورت ہی کر ڈالتے ہیں تاکہ بل کا حجم کئی گُنا بڑھایا جاسکے۔ پھر باری ان اسپتالوں کی آتی ہے جو بالکل مفت صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، یہ سرکاری اسپتال کہلاتے ہیں۔

( پرائیوٹ تو کسی صورت نہیں ہو سکتے ) ، کراچی ، لاہور ، اسلام آباد اور اسی طرح کے بڑے شہروں میں سرکاری اسپتال قائم تو ہیں لیکن ان کی تعداد ضرورت مند آبادی کی کثیر مقدار کے مقابلے میں انتہائی کم دکھائی دیتی ہے۔ دیہی علاقوں میں تو شعورکی کمی گھروں کو ہی اسپتال بنائے رکھتی ہیں ، چونکہ گاؤں ، دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں قائم اسپتال بڑی اور موذی بیماریوں کا علاج کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

اس لیے پسماندہ علاقوں کی غربت زدہ عوام مفت ، بہتر اور معیاری علاج معالجے کی آس میں بڑے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور ان شہروں میں قائم ایسے گنیِ چُنے اسپتالوں کو (بقول اسپتال انتظامیہ ) overloaded بنا دیتے ہیں۔ سرکاری اسپتال تنقیدی اور تعریفی، دونوں حوالوں سے جانے پہچانے جاتے ہیں ، مثلا ان اسپتالوں میں ماہر ڈاکٹرز کی موجودگی، داخل مریضوں کو مفت خوراک ، ادویات اور طبی سہولیات کی فراہمی ، مہنگے آپریشنز کا Free of Cost ہو جانا ، OPD میں آتے مریضوں کا مفت معائنہ ، تشخیص اور ادویات کی فراہمی ، ایکسرے، الٹراساؤنڈ، لیبارٹری ٹیسٹ اور دیگر ٹیسٹ کی بلا معاوضہ فراہمی اور اسی طرح سے مستحق عوام کو دیگر سہولیات کا حصول قابل ستائش اور قابل تعریف ہے.

مگر دوسری جانب انھی ماہر ڈاکٹرز کی مریضوں سے بدسلوکی، صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات ، تھکا دینے والا طویل انتظار کرواتی قطاریں ، مطلوبہ طبی عملے اور فنڈز کی عدم دستیابی ، غیر حاضر اسٹاف ،گروپ بندیاں ، منفی سیاسی سوچ ، فرسودہ طور طریقوں پر ہوتا کام ، طبی ساز وسامان بشمول جدید آلات کی کمی ،کرپشن اور اسی طرح کی دیگر افسوسناک باتیں حکومتی سر پرستی میں چلنے والوں اسپتالوں کی خاص پہچان بن چکی ہیں، اب تو ''ہڑتالیں'' ہونا بھی شروع ہوگئی ہیں جس کے باعث اسپتال کم از کم چند گھنٹوں یا پھر کم ازکم ایک دن کے لیے تو بند ہو ہی جاتا ہے۔

بند اسپتال، بند سانسوں کے ساتھ آتے مریضوں کے لیے موت کی یقینی علامت کے طور گردانا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ جدید طبی ساز و سامان اور قیمتی مشینری کی عدم موجودگی بھی غریب مریضوں کو شعبہ صحت سے جڑے Private اداروں کا راستہ دکھاتی ہے یا پھر اگر یہ Equipment موجود ہوں تو پھر ان کے ذریعے سے پہنچائی جانیوالی Services کی فیس وصول کی جاتی ہے، جیسے بیشتر بڑے سرکاری اسپتالوں میںCT Scan اور MRI جیسی سہولتیں موجود تو ہوتی ہیں لیکن وہ بلا معاوضہ نہیں ہیں۔

حکومتی سر پرستی کے حامل اسپتالوں یا ان کے کچھ حصوں کی ، این جی اوز (NGOs) کو سپردگی بھی دیکھنے میں آرہی ہے، اس موضوع نے بھی ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے، بہرحال اگر اندازہ صحیح یا غلط کا لگانا مقصود ہو تو پھر ایسے اسپتالوں یا پھر سپرد کیے جانے والے حصوں کی کارکردگی جانچ کر، یہ کام مشکل نہیں۔ یہاں ایک اور اہم بات جس کی نشاندہی بہت ضروری ہے وہ یہ کہ چھوٹے سرکاری اسپتالوں میں بیشتر Cases ایسے بھی آتے ہیں جو بڑے یا کسی Tertiary Care Hospital '' ریفر '' کر دیے جاتے ہیں، ایسے مریض باآسانی ریفرکر تو دیے جاتے ہیں لیکن یہ اتنی سادہ اور معمولی بات نہیں ہے ، نجی Tertiary اسپتال غریب عوام کی استطاعت سے قطعی باہر ہیں۔

دوسری جانب سرکاری Tertiary Careاسپتالوں کی تعداد کیونکہ انتہائی قلیل ہے اس لیے بالخصوصAdmit ہونے والے مریضوں کو '' جگہ نہیں ہے'' کا کہہ کر واپسی کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں مریض جائیں تو جائیں کہاں، اس بات سے کسی کا کوئی سروکار نہیں۔ اس صورتحال کا تو بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے غریبوں کو سامنا ہے ، گاؤں ، دیہاتوں کی تو آپ بات ہی رہنے دیجیے ، وہاں کی عوام بمعہ بوریا بسترا اور مریض شہروں کا رخ کرتے ہیںاور پھر وہ اور ان کی قسمت۔ سرکاری اسپتال کسی بھی پسماندہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

کیسے ؟ وہ ایسے کہ پسماندہ ممالک میں بسنے والے غریب عوام کی تعداد اشرافیہ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، مجموعی آبادی میں کثیر حصہ رکھتی ، عوام کے ہر فرد کا معاشی ، سماجی، سیاسی و ثقافتی شعبہ جات وغیرہ میں بلواسطہ یا بلاواسطہ اپنا ، اپنا حصہ اور اپنا ، اپنا کردار ہوتا ہے اور پھر اگر غریب عوام میں موجود افراد علاج و معالجے کی مخدوش صورتحال کے باعث مستقل بیمار ہی رہیں تو ملکی و معاشی ترقی میں اپنے ذمے ادا کیا جانے والا کردار ادا نہ کرسکیں گے- اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ Primary ، Secondary اور Tertiary Care سرکاری اسپتالوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے ہو ، تما م سہولتیں ، تمام تر ساز و سامان کے ساتھ بالکل مٖفت ہو۔ مثبت سوچ اور بہتر رویوں کو اپنایا جائے ، نیک نیتی سے فرائض منصبی کو انجام دینے کا عزم ، خوشگوار تبدیلیاں لانے کا سبب بنے گا۔ نجی اسپتالوں کا بھی کار ِخیر میں حصہ اہمیت کا حامل ہے۔

بے بس و لاچار اور مستحق مریضوں کے لیے مفت علاج و معالجے کی فراہمی کا فیصلہ ، خطیر منافع میں کچھ کمی لانے کا سبب تو بن سکتا ہے لیکن یہ دنیا و آخرت میں بے پناہ فوائد پہنچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے، بات سمجھنے کی ہے، احساس کی ہے، انسانیت کا درد رکھنے والے دل کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں