ہاکی کے ممتاز کھلاڑی عبدالوحید خان

ایک دور تھا جب دنیا میں ہماری ہاکی ٹیم کی بڑی دھوم اور شہرت تھی


یونس ہمدم April 08, 2022
[email protected]

BERLIN: ایک دور تھا جب دنیا میں ہماری ہاکی ٹیم کی بڑی دھوم اور شہرت تھی۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب کراچی کے ہاکی کے کھلاڑی عبدالوحید خان کا بڑا نام تھا جنھوں نے روم اولمپکس 1960 میں اپنے شاندار کھیل سے پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا تھا اور انھوں نے اپنے عمدہ کھیل سے پاکستان کا دنیا میں بڑا وقار بڑھایا تھا۔ عبدالوحید خان کے چھوٹے بھائی عبدالسعید کاشانی اسلامیہ کالج میں ہمارے کلاس فیلو تھے اور عبدالوحید خان جب بھی بین الاقوامی دورے سے واپس کراچی لوٹتے تھے تو ان کے گھر میں دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔

ان کے گھر کی شاندار دعوتوں میں پاکستان کے بیشتر نامور کھلاڑی شرکت کیا کرتے تھے اور پھر ہر دعوت کے ساتھ ایک فنکشن ضرور ہوا کرتا تھا اور اس فنکشن میں معین اختر سے لے کر کراچی کے تمام نمایاں فنکار شرکت کیا کرتے تھے ان کے گھر کی موسیقی کی محفلوں کا بھی بڑا چرچا رہتا تھا، اپنے کالج کے دوست سعید کاشانی کی وجہ سے ہم بھی ان کے گھر کی دعوتوں اور موسیقی کی محفلوں میں شرکت کرتے تھے، اس سے پہلے کہ میں ان موسیقی کی محفلوں کا تذکرہ کروں۔

ہاکی کے نامور کھلاڑی عبدالوحید خان جن کا 85 برس کی عمر میں کراچی ہی میں کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوا تھااور اس انتقال کی خبر مجھے کراچی کے اخبارات اور ٹی وی چینل سے ملی تھی مشہور کھلاڑی عبدالوحید خان 30 نومبر 1936 میں ہندوستان میں مدھیہ پردیش کے علاقے راج پور میں پیدا ہوئے تھے جب یہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آئے تو پاکستان کی ہاکی ٹیم میں انھیں کھیلنے کا موقعہ ملا اور پھر یہ اپنی شاندار کارکردگی کے ساتھ قومی ٹیم میں اپنی نمایاں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔

عبدالوحید خان قومی ٹیم کے سینئر فارورڈ تھے اور انھوں نے 1966 میں جکارتہ ایشین گیم میں پہلا گولڈ میڈل جیتا پھر بنکاک ایشین گیم میں میڈل حاصل کیا۔ عبدالوحید خان کو ایشین گیمز میں سب سے زیادہ گول کرنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے ۔ عبدالوحید خان نے 1962 میں ایشین گیمز میں ڈبل ہیٹ ٹرک بھی حاصل کی تھی اور انھوں نے اپنے کیریئر میں 52 گول کرنے کا بھی اعزاز حاصل کیا ہے پھر جب انھوں نے کھیل سے ریٹائرمنٹ لی تو ان کو قومی ٹیم کے منیجر کا عہدہ سونپ دیا گیا تھا اور اس منصب کو بھی بہت بہتر طریقے سے نبھایا اور قومی ٹیم کے وقار کو بلند کیا۔

انھوں نے ایک کتاب بہ عنوان (How to become world champions) بھی لکھی جسے بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ عبدالوحید خان کسٹم میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے اور آخری عمر تک بڑے فٹ رہے وہ نہایت خوش گفتار اور خوش لباس بھی تھے۔ شعر و ادب اور موسیقی کو بہت پسند کرتے تھے ان کے چھوٹے بھائی سعید کاشانی جو میرے کالج میں کلاس فیلو تھے وہ بھی اپنے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی ہاکی ٹیم کا حصہ بن گئے تھے۔

عبدالوحید خان اور سعید خان کاشانی کے گھر کی دعوتیں اور موسیقی کی محفلیں کراچی کی یادگار محفلوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کے گھر جب بھی کوئی فنکشن ہوتا تھا تو کراچی کے ہر فنکار کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ان کے گھر کے فنکشن میں شرکت کرے اور اپنی پرفارمنس دے اور ان فنکاروں کے لیے یہ بھی ایک اعزاز کی بات ہوتی تھی۔

ان کے گھر کی دعوتوں میں ملک کے نامور ہاکی کھلاڑی، کرکٹ کے کھلاڑی اور اسکواش کے کھلاڑی بھی شامل ہوتے تھے۔ اور ان کھلاڑیوں سے ملاقات کا ہمیں بھی شرف حاصل ہوتا تھا۔ ان کے گھر کی جو محفلیں ہوتی تھیں ایسی محفلیں شاید ہی کسی کو نصیب ہوئی ہوں گی ان کے گھر کی موسیقی کی محفلوں میں نامور غزل گائیک مہدی حسن، استاد امراؤ بندو خان، استاد امیر احمد خان، احمد رشدی، اخلاق احمد، تحسین جاوید اور خاص طور پر معین اختر اور لہری کی موجودگی ان محفلوں کی شان بڑھا دیتی تھی۔

میرے ذہن اور خیالوں میں آج بھی ان کے گھر کی محفلیں احساس کو جگمگاتی رہتی ہیں۔ عبدالوحید خان اور ان کے چھوٹے بھائی سعید کاشانی کے گھر محفلوں کا انعقاد ہوتا تھا تو دعوت میں ایک خاص خوبی کاشانی کی بیگم صاحبہ کچھ ڈشیں جو وہ خود بناتی تھیں اور ان کھانوں کا سواد ہی کچھ اور ہوتا تھا جب ہم وہ کھانا کھاتے تھے تو ہم اکثر دوست یہ دعا کرتے تھے کہ اللہ کاشانی کی بیگم کو سلامت رکھے اور ہمارے ہر غیر شادی شدہ دوست کو کاشانی کے جیسی بیگم عطا کرے اور ان دوستوں میں معین اختر خاص طور پر اونچی آواز میں آمین کہا کرتا تھا۔ مگر میں یہ بتاتا چلوں کہ اب کاشانی کی بیگم صاحبہ اور ہم سب کی پیاری بھابی اس دنیا میں نہیں رہیں۔ اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور کاشانی کو اور ان کے افراد خاندان کو صبر جمیل عطا کرے۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ دنیا کے اچھے لوگوں کو اللہ جلد ہی دنیا سے اپنے پاس بلا لیتے تھے۔ اب میں پھر کاشانی کے گھر کی محفلوں کی طرف آتا ہوں۔ معین اختر کے بارے میں ایک بات بڑی مشہور تھی، کسی محفل میں معین اختر جب کسی دوست کی ٹائی کی تعریف کرتا تھا تو محفل ختم ہونے پر وہ دوست اپنی ٹائی اخبار میں لپیٹ کر معین اختر کو پیش کردیا کرتا تھا تو معین اختر مسکراتے ہوئے کہتا تھا ''یار میری تعریف کا یہ مقصد تو نہیں تھا کہ تم اپنی خوبصورت ٹائی بھی مجھے دے دو''تو ٹائی دینے والا دوست مسکراتے ہوئے جواب دیتا تھا '' میرے پیارے! یہ جملہ تم گزشتہ دس سال سے دہراتے رہے ہو، چلو اب چپ چاپ یہ ٹائی رکھ لو، آج سے یہ ٹائی تمہاری ہوئی'' اور پھر محفل میں تمام دوستوں کے ہونٹوں پر قہقہے بکھر جاتے تھے۔

ایک دن کاشانی نے مجھے فون پر بتایا یار، آیندہ ہفتے تم نے اپنی ہر مصروفیت چھوڑ کر میرے گھر آنا ہے، اس بار کی پارٹی میں سب دوستوں کے لیے ایک سرپرائز ہے۔ پھر جب میں استاد امیر احمد خان کے ساتھ کاشانی کے نئے گھر پہنچا تھا تو وہاں پہلے سے بہت سے دوست جمع تھے اور سب ڈرائنگ روم میں فرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔کچھ دیر کے بعد استاد بشیر احمد خان بھی محفل میں آگئے اور ان کے آنے کے بعد کاشانی نے سرپرائز کو توڑتے ہوئے کہا ''دوستو! اور میرے دیرینہ ساتھیو! آج سے میں بھی موسیقی کی دنیا میں باقاعدہ قدم رکھ رہا ہوں، اور استاد بشیر خان کی شاگردی میں آ رہا ہوں اور گائیکی کا پہلا سبق استاد بشیر خان سے لے رہا ہوں۔

میں نے ہاکی کے میدان میں بہت اپنے آپ کو منوایا، اب میں گائیکی کے میدان میں بھی آنے کی جرأت کر رہا ہوں، میرے سنگر حضرات دوست امید ہے مجھے برداشت کرنے کے لیے اپنے دل میں حوصلہ پیدا کریں گے۔ ''اس پر خوب تالیاں اور قہقہے لگائے گئے پھر سعید کاشانی نے استاد بیر خان سے شاگردی کا گنڈا بندھوایا، پھر استاد کو کچھ رقم بطور نذرانہ پیش کی اور پہلی بار استاد کے ہارمونیم کے ساتھ غزل پیش کی۔ غزل کا مطلع تھا:

رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے

پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہوگئے

کاشانی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ وہ غزل گائی اور غزل کے اختتام پر اپنے استاد کا شکریہ ادا کیا۔ تمام دوستوں نے خوب تالیاں بجا کر کاشانی کی گائیکی کو سراہا، اسی دوران منی بیگم کی آمد ہوئی اور انھوں نے تاخیر سے آنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا:

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا

منی بیگم کے آتے ہی محفل میں جان پڑ گئی۔ منی بیگم نے بھی کاشانی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا اب تم بھی گائیکی کی طرف آ رہے ہو۔ اپنے سینئرز کا احترام کروگے تو عزت ملے گی۔ موسیقی کوئی کھیل نہیں ہے، اس میں جو تال میل ہے اس کے لیے بڑے ریاض کی ضرورت ہوتی ہے۔ کاشانی نے بے ساختہ کہا سینئر سٹیزن کی پسندیدہ گلوکارہ آپ نے بجا فرمایا۔ اب آپ اپنا باجا سنبھالیں اور محفل میں چار چاند لگا دیں۔

پھر بے شمار تالیوں کی گونج میں منی بیگم نے اپنا ہارمونیم سنبھالا اور محفل کا رنگ دوبالا ہوتا چلا گیا، بیچ میں کھانے کا وقفہ ہوا اور پھر موسیقی کی یہ یادگار محفل رات بھر جاری رہی۔ آخر میں استاد امیر احمد خان اور استاد بشیر خان نے راگ راگنیوں کے ساتھ جگل بندی کا شاندار مظاہرہ کیا جس نے ایک سماں باندھ دیا تھا۔ مجھے آج بھی موسیقی کی وہ محفل بھولی نہیں ہے۔ کراچی اور کراچی کی خوبصورت محفلیں آج بھی آنکھوں میں جگنوؤں کی طرح جگمگانے لگتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |