اُمّ المومنین غم گسار رسول کریمؐ حضرت سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالی عنہا
نبی کریمؐ نے فرمایا: اﷲ کی قسم! خدیجہؓ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی
تاریخ کا رخ بدلنے میں جن خواتین نے اہم کردار سرانجام دیا ہے ان میں سرفہرست اور سنہری حروف سے لکھا گیا مقدس اسم گرامی ام المومنین سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ کا ہے۔ سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ عرب کی معزز اور دولت مند خاتون ہونے کے ساتھ علم و فضل اور ایمان و ایقان میں بھی نمایاں مقام رکھتی تھیں۔
نبی پاک ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کا ہر جگہ چرچا تھا، حتٰی کہ مشرکین مکہ بھی آپؐ کو الامین و الصادق کے لقب سے یاد کرتے۔ آپؓ نے اپنے کاروبار کے لیے یکتائے روزگار کو منتخب فرمایا اور سرکار دو عالم ﷺ کی بارگاہ میں پیغام پہنچایا کہ آپؐ سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ کا مال تجارت لے کر شام جائیں اور منافع میں جو مناسب خیال فرمائیں، لے لیں۔ حضور اقدسؐ نے اس پیش کش کو قبول فرما لیا۔
سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ نے اپنے غلام میسرہ کو بہ غرض خدمت حضور اقدسؐ کے ساتھ کردیا۔ حضور ﷺ نے اپنا مال بصرہ میں فروخت کرکے دگنا نفع حاصل کیا نیز قافلے والوں کو آپؐ کی صحبت بابرکت سے بہت نفع ہوا جب قافلہ واپس ہوا تو سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ نے دیکھا کہ دو فرشتے رحمت عالمؐ پر سایہ کناں ہیں نیز دوران سفر کے خوارق نے سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ کو آپؐ کا گرویدہ کردیا۔
(مدارج النبوۃ)
ام المومنین سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ مال دار ہونے کے ساتھ فراخ دل اور قریش کی عورتوں میں اشرف و انسب تھیں۔ بہت سے نام ور قریشی امراء آپؓ سے نکاح کے خواہش مند تھے لیکن آپؓ نے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بل کہ سرکار دو عالمؐ کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا۔ بہ وقتِ نکاح سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں ﷺ کی عمر شریف پچیس برس کی تھی۔ جب تک آپؓ حیات رہیں آپؓ کی موجودی میں پیارے آقا ﷺ نے کسی اور عورت سے نکاح نہ فرمایا۔
ایک دن آپ ﷺ غار حراء کے اندر عبادت میں مشغول تھے کہ بالکل اچانک غار میں آپؐ کے پاس ایک فرشتہ ظاہر ہوا۔ یہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے۔ فرشتے نے ایک دم کہا: پڑھیے! آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ فرشتے نے آپؐ کو پکڑا اور نہایت گرم جوشی کے ساتھ آپؐ سے زور دار معانقہ کیا پھر چھوڑ کر کہا: پڑھیے! آپؐ نے پھر فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔
فرشتہ نے دوسری مرتبہ پھر آپؐ کو اپنے سینے سے چمٹایا اور چھوڑ کر کہا: پڑھیے! آپؐ نے پھر وہی فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ تیسری مرتبہ پھر فرشتہ نے آپؐ کو بہت زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگا کر چھوڑا اور کہا: اِقرَاء بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ۔
اس واقعہ سے آپؐ کی طبیعت بے حد متاثِر ہوئی، گھر واپسی پر سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ سے آپؐ نے فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ سیّدہ خدیجۃ الکبری نے آپ ﷺ کے جسم مبارک پر کمبل ڈالا اور چہرۂ انور پر پانی کے چھینٹے دیے تاکہ خشیت کی کیفیت دور ہو۔ پھر آپؐ نے سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ سے سارا حال بیان فرمایا۔ سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ نے آپؐ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اﷲ تعالی آپؐ کے ساتھ اچھا ہی فرمائے گا.
کیوں کہ آپؐ صلۂ رحمی فرماتے، عیال کا بوجھ اٹھاتے، ریاضت و مجاہدہ کرتے، مہمان نوازی فرماتے، بیکسوں اور مجبوروں کی دست گیری کرتے، محتاجوں اور غریبوں کے ساتھ بھلائی کرتے، لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے، لوگوں کی سچائی میں ان کی مدد اور ان کی بُرائی سے حذر فرماتے ہیں، یتیموں کو پناہ دیتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور امانتیں ادا فرماتے ہیں۔ سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ نے اپنی حوصلہ افزا باتوں سے حضور ﷺ کو تسلی و اطمینان دلایا۔
کفار قریش کی تکالیف و تکذیب سے رحمت عالم ﷺ جو غم اٹھاتے تھے وہ سب سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ کو دیکھتے ہی جاتا رہتا تھا اور آپؐ خوش ہوجاتے تھے اور جب سرکار دو عالمؐ تشریف لاتے تو وہ آپؐ کی خاطر مدارات فرماتیں جس سے ہر مشکل آسان ہوجاتی۔ سب سے پہلے علی الاعلان ایمان لانے والی حضرت سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ ہیں۔ کیوں کہ جب سرور دو عالم ﷺ غار حرا سے تشریف لائے اور ان کو نزول وحی کی خبر دی تو وہ ایمان لائیں۔ شیخ ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ محتاط اور موزوں تر یہ ہے کہ آزاد مردوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، بچوں میں حضرت علیؓ، عورتوں میں سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ اور موالی میں زید بن حارثہؓ اور غلاموں میں سے حضرت بلال حبشیؓ ایمان لائے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: اﷲ کی قسم! خدیجہؓ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی، جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لیے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہؓ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور ان کے شکم سے اﷲ تعالی نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ حضرت خدیجۃ الکبریؓ کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے۔ بعض اوقات حضورؐ بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لیے کہ یہ حضرت خدیجہؓ کی سہیلیاں تھیں۔
آپؓ تقریبا پچیس سال حضور ﷺ کی شریک حیات رہیں۔ آپؓ کا وصال بعثت کے دسویں سال ماہ رمضان میں ہوا اور مقبرہ حجون میں آرام فرما ہیں۔
نبی پاک ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کا ہر جگہ چرچا تھا، حتٰی کہ مشرکین مکہ بھی آپؐ کو الامین و الصادق کے لقب سے یاد کرتے۔ آپؓ نے اپنے کاروبار کے لیے یکتائے روزگار کو منتخب فرمایا اور سرکار دو عالم ﷺ کی بارگاہ میں پیغام پہنچایا کہ آپؐ سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ کا مال تجارت لے کر شام جائیں اور منافع میں جو مناسب خیال فرمائیں، لے لیں۔ حضور اقدسؐ نے اس پیش کش کو قبول فرما لیا۔
سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ نے اپنے غلام میسرہ کو بہ غرض خدمت حضور اقدسؐ کے ساتھ کردیا۔ حضور ﷺ نے اپنا مال بصرہ میں فروخت کرکے دگنا نفع حاصل کیا نیز قافلے والوں کو آپؐ کی صحبت بابرکت سے بہت نفع ہوا جب قافلہ واپس ہوا تو سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ نے دیکھا کہ دو فرشتے رحمت عالمؐ پر سایہ کناں ہیں نیز دوران سفر کے خوارق نے سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ کو آپؐ کا گرویدہ کردیا۔
(مدارج النبوۃ)
ام المومنین سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ مال دار ہونے کے ساتھ فراخ دل اور قریش کی عورتوں میں اشرف و انسب تھیں۔ بہت سے نام ور قریشی امراء آپؓ سے نکاح کے خواہش مند تھے لیکن آپؓ نے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بل کہ سرکار دو عالمؐ کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا۔ بہ وقتِ نکاح سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں ﷺ کی عمر شریف پچیس برس کی تھی۔ جب تک آپؓ حیات رہیں آپؓ کی موجودی میں پیارے آقا ﷺ نے کسی اور عورت سے نکاح نہ فرمایا۔
ایک دن آپ ﷺ غار حراء کے اندر عبادت میں مشغول تھے کہ بالکل اچانک غار میں آپؐ کے پاس ایک فرشتہ ظاہر ہوا۔ یہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے۔ فرشتے نے ایک دم کہا: پڑھیے! آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ فرشتے نے آپؐ کو پکڑا اور نہایت گرم جوشی کے ساتھ آپؐ سے زور دار معانقہ کیا پھر چھوڑ کر کہا: پڑھیے! آپؐ نے پھر فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔
فرشتہ نے دوسری مرتبہ پھر آپؐ کو اپنے سینے سے چمٹایا اور چھوڑ کر کہا: پڑھیے! آپؐ نے پھر وہی فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ تیسری مرتبہ پھر فرشتہ نے آپؐ کو بہت زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگا کر چھوڑا اور کہا: اِقرَاء بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ۔
اس واقعہ سے آپؐ کی طبیعت بے حد متاثِر ہوئی، گھر واپسی پر سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ سے آپؐ نے فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ سیّدہ خدیجۃ الکبری نے آپ ﷺ کے جسم مبارک پر کمبل ڈالا اور چہرۂ انور پر پانی کے چھینٹے دیے تاکہ خشیت کی کیفیت دور ہو۔ پھر آپؐ نے سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ سے سارا حال بیان فرمایا۔ سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ نے آپؐ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اﷲ تعالی آپؐ کے ساتھ اچھا ہی فرمائے گا.
کیوں کہ آپؐ صلۂ رحمی فرماتے، عیال کا بوجھ اٹھاتے، ریاضت و مجاہدہ کرتے، مہمان نوازی فرماتے، بیکسوں اور مجبوروں کی دست گیری کرتے، محتاجوں اور غریبوں کے ساتھ بھلائی کرتے، لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے، لوگوں کی سچائی میں ان کی مدد اور ان کی بُرائی سے حذر فرماتے ہیں، یتیموں کو پناہ دیتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور امانتیں ادا فرماتے ہیں۔ سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ نے اپنی حوصلہ افزا باتوں سے حضور ﷺ کو تسلی و اطمینان دلایا۔
کفار قریش کی تکالیف و تکذیب سے رحمت عالم ﷺ جو غم اٹھاتے تھے وہ سب سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ کو دیکھتے ہی جاتا رہتا تھا اور آپؐ خوش ہوجاتے تھے اور جب سرکار دو عالمؐ تشریف لاتے تو وہ آپؐ کی خاطر مدارات فرماتیں جس سے ہر مشکل آسان ہوجاتی۔ سب سے پہلے علی الاعلان ایمان لانے والی حضرت سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ ہیں۔ کیوں کہ جب سرور دو عالم ﷺ غار حرا سے تشریف لائے اور ان کو نزول وحی کی خبر دی تو وہ ایمان لائیں۔ شیخ ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ محتاط اور موزوں تر یہ ہے کہ آزاد مردوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، بچوں میں حضرت علیؓ، عورتوں میں سیّدہ خدیجۃ الکبریؓ اور موالی میں زید بن حارثہؓ اور غلاموں میں سے حضرت بلال حبشیؓ ایمان لائے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: اﷲ کی قسم! خدیجہؓ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی، جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لیے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہؓ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور ان کے شکم سے اﷲ تعالی نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ حضرت خدیجۃ الکبریؓ کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے۔ بعض اوقات حضورؐ بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لیے کہ یہ حضرت خدیجہؓ کی سہیلیاں تھیں۔
آپؓ تقریبا پچیس سال حضور ﷺ کی شریک حیات رہیں۔ آپؓ کا وصال بعثت کے دسویں سال ماہ رمضان میں ہوا اور مقبرہ حجون میں آرام فرما ہیں۔