اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022 کالعدم قرار دے دیا
ایف آئی اے کی جانب سے پیکا سیکشن 20 کے تحت درج مقدمات بھی خارج
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چار صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا، پی بی اے و دیگر صحافتی تنظیموں نے چیلنج پیکا ترمیمی آرڈیننس کو چیلنج کر رکھا تھا جبکہ پیکا کے سیکشن 20 کے تحت ایف آئی اے کے بے جا اختیارات کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں ہتک عزت کو قابل دست اندازی جرم بنانے والی پیکا شق 20 بھی کالعدم قرار دے دی گئی جبکہ پیکا قانون پر ایف آئی اے کا اختیار سے تجاوز پر انکوائری کا حکم دیا گیا۔ ایف آئی اے کی جانب سے پیکا سیکشن 20 کے تحت درج مقدمات بھی خارج کر دیے گئے۔
ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ سیکریٹری داخلہ ایف آئی اے حکام کے خلاف انکوائری کرکے 30 روز میں رپورٹ دیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہتک عزت کے قوانین کا جائزہ لے، اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے، اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا حق معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے، اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حق کو دبانا غیر آئینی اور جمہوری اقدار کے منافی ہے۔
مزید کہا گیا کہ سیکریٹری داخلہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے اہلکاروں کے طرز عمل کی تحقیقات کرے کیونکہ اختیارات کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا جس کے نتیجے میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔
پیکا ترمیمی آرڈیننس کو آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اور 19-A کی خلاف ورزی میں نافذ کیا گیا۔
سی پی این ای عدالتی فیصلے پر بیان
کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے پیکا آرڈیننس پر عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی بالادستی اور آزادی صحافت لازم و ملزوم ہیں، آئین سے کھیلنا ناقابل معافی جرم ہے، امید ہے کہ نظریہ ضرورت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے۔
سی پی این ای کے صدر کاظم خان نے کہا ہے کہ فتح آئین کی ہونی چاہیے افراد یا اداروں کی نہیں، آئین کا تحفظ ہر ایڈیٹر اور صحافی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
کاظم خان نے مزید کہا کہ ثابت ہوا کہ آئین کی بالادستی کے لیے عدلیہ اور اداروں کا غیر جانب دار ہونا ضروری ہے، اگر ادارے غیر جانب دار نہ رہیں تو جسٹس منیر ڈاکٹرائن پروان چڑھتا ہے۔
آخری روز کی سماعت
اس سے قبل سماعت کے دوران وکیل درخواست گزارعادل عزیز قاضی، ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ اور ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کروائی گئی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی تو جواب دے، لوگوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، ایف آئی اے نے عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے اور ان کو پامال بھی کیا گیا، آپ نے ایس او پیز کی پامالی کی اور کیسز میں سیکشن لگائے جو لگتے ہی نہیں۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے عدالت میں موقف اپنایا کہ قانون بنا ہوا ہے اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے پریشر آتا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کسی عام آدمی کے لیے ایکشن لیا، لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپہ مارا گیا۔ ایف آئی اے ڈائریکٹر نے دلائل میں بتایا کہ ہم ایف آئی آر سے قبل بھی گرفتاری ڈال دیتے ہیں اور پھر اس سے برآمدگی پر ایف آئی آر درج کرتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ کیسے گرفتار کر سکتے ہیں اور کس قانون کے مطابق گرفتاری ڈال سکتے ہیں، آپ اپنے عمل پر پشیماں تک نہیں اور دلائل دے رہے ہیں، کسی کا تو احتساب ہونا ہے، کون ذمہ دار ہے، جرنلسٹس کی نگرانی کی جا رہی ہے، یہ ایف آئی اے کا کام ہے کیا؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بلال غوری نے وی لاگ کیا تھا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، کاروائی کیسے بنتی ہے؟ ملک میں کتنی دفعہ مارشل لا لگا ہے، یہ تاریخ ہے کل لوگ باتیں کریں گے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سماعت مکمل ہونے پر آج صبح فیصلہ کیا تھا، عدالت نے فیصلے میں قانون کو کالعدم قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چار صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا، پی بی اے و دیگر صحافتی تنظیموں نے چیلنج پیکا ترمیمی آرڈیننس کو چیلنج کر رکھا تھا جبکہ پیکا کے سیکشن 20 کے تحت ایف آئی اے کے بے جا اختیارات کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں ہتک عزت کو قابل دست اندازی جرم بنانے والی پیکا شق 20 بھی کالعدم قرار دے دی گئی جبکہ پیکا قانون پر ایف آئی اے کا اختیار سے تجاوز پر انکوائری کا حکم دیا گیا۔ ایف آئی اے کی جانب سے پیکا سیکشن 20 کے تحت درج مقدمات بھی خارج کر دیے گئے۔
ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ سیکریٹری داخلہ ایف آئی اے حکام کے خلاف انکوائری کرکے 30 روز میں رپورٹ دیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہتک عزت کے قوانین کا جائزہ لے، اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے، اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا حق معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے، اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حق کو دبانا غیر آئینی اور جمہوری اقدار کے منافی ہے۔
مزید کہا گیا کہ سیکریٹری داخلہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے اہلکاروں کے طرز عمل کی تحقیقات کرے کیونکہ اختیارات کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا جس کے نتیجے میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔
پیکا ترمیمی آرڈیننس کو آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اور 19-A کی خلاف ورزی میں نافذ کیا گیا۔
سی پی این ای عدالتی فیصلے پر بیان
کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے پیکا آرڈیننس پر عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی بالادستی اور آزادی صحافت لازم و ملزوم ہیں، آئین سے کھیلنا ناقابل معافی جرم ہے، امید ہے کہ نظریہ ضرورت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے۔
سی پی این ای کے صدر کاظم خان نے کہا ہے کہ فتح آئین کی ہونی چاہیے افراد یا اداروں کی نہیں، آئین کا تحفظ ہر ایڈیٹر اور صحافی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
کاظم خان نے مزید کہا کہ ثابت ہوا کہ آئین کی بالادستی کے لیے عدلیہ اور اداروں کا غیر جانب دار ہونا ضروری ہے، اگر ادارے غیر جانب دار نہ رہیں تو جسٹس منیر ڈاکٹرائن پروان چڑھتا ہے۔
آخری روز کی سماعت
اس سے قبل سماعت کے دوران وکیل درخواست گزارعادل عزیز قاضی، ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ اور ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کروائی گئی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی تو جواب دے، لوگوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، ایف آئی اے نے عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے اور ان کو پامال بھی کیا گیا، آپ نے ایس او پیز کی پامالی کی اور کیسز میں سیکشن لگائے جو لگتے ہی نہیں۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے عدالت میں موقف اپنایا کہ قانون بنا ہوا ہے اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے پریشر آتا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کسی عام آدمی کے لیے ایکشن لیا، لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپہ مارا گیا۔ ایف آئی اے ڈائریکٹر نے دلائل میں بتایا کہ ہم ایف آئی آر سے قبل بھی گرفتاری ڈال دیتے ہیں اور پھر اس سے برآمدگی پر ایف آئی آر درج کرتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ کیسے گرفتار کر سکتے ہیں اور کس قانون کے مطابق گرفتاری ڈال سکتے ہیں، آپ اپنے عمل پر پشیماں تک نہیں اور دلائل دے رہے ہیں، کسی کا تو احتساب ہونا ہے، کون ذمہ دار ہے، جرنلسٹس کی نگرانی کی جا رہی ہے، یہ ایف آئی اے کا کام ہے کیا؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بلال غوری نے وی لاگ کیا تھا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، کاروائی کیسے بنتی ہے؟ ملک میں کتنی دفعہ مارشل لا لگا ہے، یہ تاریخ ہے کل لوگ باتیں کریں گے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سماعت مکمل ہونے پر آج صبح فیصلہ کیا تھا، عدالت نے فیصلے میں قانون کو کالعدم قرار دیا ہے۔