عدالتی فیصلہ اور پی ٹی آئی کا ’کڑوا کڑوا تُھو تُھو‘
عمران خان نے جو بھی سیاسی چالیں چلی تھیں، عدالتی فیصلے نے وہ سب کی سب اُلٹ کر رکھ دیں
حیرت ہے کہ اچھے خاصے سمجھ دار لوگ بھی گزشتہ رات کے عدالتی فیصلے پر ناسمجھوں کی طرح تنقید کررہے ہیں، یہ دیکھے بغیر کہ ازخود نوٹس کی نوعیت کیا تھی اور فیصلے کا تعلق کس بات سے ہے۔
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ خان کی حکومت گرانے کےلیے حزبِ اختلاف نے ہر طرح کی اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ارکانِ اسمبلی خریدے؛ اور اس معاملے میں وہ بے حیائی کی تمام حدیں پار کرگئی۔
لیکن دوسری جانب اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ 2018 میں حصولِ اقتدار کےلیے ''انتخابات کی سائنس'' کے پرچار سے لے کر 3 اپریل 2022 کے روز قومی اسمبلی تحلیل کرنے تک، عمران خان نے سیکڑوں نہیں تو درجنوں فاش سیاسی غلطیاں کیں (غلط بیانیاں اور ''یو ٹرن'' ان کے علاوہ ہیں)۔
اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں عمران خان ''مجھے سب پتا ہے، میں سب جانتا ہوں!'' کا تاثر دیتا رہا اور پاکستانی عوام کو رعونت بھرے لہجے میں ''پاکستانیو!'' کہہ کر مخاطب کرتا رہا۔
جب عمران خان کو اپنا راج سنگھاسن ڈولتا نظر آیا، تو اس نے بھی وہی کیا جو ایک خودپسند، خودپرست، فسطائی حکمران ایسے مواقع پر کیا کرتا ہے۔
پہلے ایک خط کا ڈراما رچاتے ہوئے اسے ''پاکستان کے خلاف غیر ملکی سازش'' قرار دے دیا۔ جب دال نہیں گلی تو امریکا کا نام لے لیا۔
ارے بھئی ظاہر ہے، سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے دیرینہ و ''اعلانیہ'' مائی باپوں کے نام بالترتیب برطانیہ (بڑا باپ) اور امریکا (چھوٹا باپ) ہیں، جن کی مرضی کے بغیر یہاں مارشل لاء بھی نہیں لگتا۔
خود کو محبّ وطن اور اپنے مخالفین کو غدار ثابت کرنے کےلیے اس نے اپنی توپوں کا رُخ ایک ایسے خط کی طرف کردیا جو بعد ازاں محض ایک سفارتی مراسلہ قرار پایا۔ عالمی سفارت کاری میں ایسے مراسلے بہت عام ہیں۔
خان اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ اپنی حکومت کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کے نام پر عوام کے سامنے نااہلی، نکمے پن اور جھوٹے دعووں کے سوا کچھ پیش نہیں کرسکتا۔ لہٰذا، اپنی عوامی مقبولیت برقرار رکھنے کےلیے وہ سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کا رونا روتا رہا۔
اب یہ الگ بات ہے کہ اپنے حواریوں کی کرپشن پر وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھا رہا۔ جس عوامی مسئلے کا بھی ''نوٹس'' لیا وہ حل ہونے کے بجائے سنگین تر ہوتا گیا۔
خیر، جب غداری کا کارڈ بھی پٹ گیا تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر، وفاداریاں بدل بدل کر، تحریکِ انصاف کی نظریاتی قیادت کو پارٹی سے باہر نکال کر ''جانثارانِ عمران'' میں نمایاں مقام بنانے والے چواد فودھری... اوہ! معاف کیجیے گا، فواد چودھری کو اکیسویں صدی کا نظام سقہ بنا دیا۔
اسی نظام سقّے نے 3 اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوکر، عالمی سازش اور غداری کی غلاظت سے بھرا مشکیزہ پورے ایوان کے سامنے اُلٹ دیا؛ جسے ''جواز'' تسلیم کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر نے تحریکِ عدم اعتماد مسترد کردی اور اسمبلی کا اجلاس بھی چشمِ زدن میں ختم کردیا۔
اگلے چند منٹوں میں عمران خان نے اپنے ''ربڑ اسٹیمپ صدر'' سے قومی اسمبلی تحلیل کروائی لیکن خود کو عبوری سیٹ اپ تک وزیرِاعظم کے عہدے پر برقرار رہنے دیا۔
ان تمام کارروائیوں میں عمران خان اینڈ کمپنی کی بدنیتی چھپائے نہیں چھپتی تھی کیونکہ حزبِ اختلاف ایوان کے اندر تبدیلی چاہتی تھی لیکن فوری انتخابات کےلیے ہرگز تیار نہیں تھی۔
قومی اسمبلی تحلیل اور 90 دن میں عام انتخابات منعقد کرکے، خان و حواریان بھی اسی موقعے کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے: اس سے پہلے کہ حزبِ اختلاف سنبھل پائے، نئے انتخابات میں مخالف جماعتوں کو شکستِ فاش دے کر اپنی برتری ثابت کی جائے۔
لیکن دوسری جانب حزبِ اختلاف نے بھی تاخیر نہ کی اور اسی روز عدالت جا پہنچی۔ ازخود نوٹس پر سماعت شروع ہوئی، فریقین نے دلائل دیئے اور بالآخر، گزشتہ روز یعنی 7 اپریل 2022 کی رات 8 بج کر 38 منٹ پر سپریم کورٹ سے مختصر فیصلہ بھی آگیا۔
مقدمے کی سماعت کرنے والے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر فیصلہ سنایا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل غلط تھی، اسمبلی کو 3 اپریل 2022 والی حیثیت میں بحال کیا جائے، اور عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر بھی اسی اسمبلی میں رائے شماری کروائی جائے۔
قصہ مختصر کہ خان نے جس جس کے کہنے پر جیسی جیسی سیاسی چالیں چلی تھیں، عدالتی فیصلے نے وہ سب کی سب اُلٹ کر رکھ دیں۔
اب ''اہلِ یوتھ'' شور مچا رہے ہیں اور یہ فیصلہ سنانے والے جج صاحبان کو بھی غدار ٹھہرا رہے ہیں۔
غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والے ان ''حُبُّ الوطنوں'' نے غالباً اس مقدمے کے قانونی پہلوؤں پر غور کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔
ارے بھائی! اگر آپ عمران خان کے پجاری ہیں تو وہ الگ بات ہے ورنہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مکمل میرٹ کی بنیاد پر ہے۔
آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مذکورہ ازخود نوٹس کا تعلق صرف دو چیزوں سے تھا: پہلی یہ کہ اسمبلی میں جس انداز سے وزیرِاعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا راستہ روکا گیا، کیا وہ طریقہ درست تھا؛ اور دوسری یہ کہ 3 اپریل کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اقدام آئینی و قانونی تھا یا نہیں؟
سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ان ہی دو نکات سے متعلق ہے؛ اور کم از کم اس معاملے میں یہ فیصلہ آئینے کی طرح صاف ہے، جس میں کوئی تنازعہ نہیں۔
اپوزیشن جماعتیں کرپٹ ہیں، بے ایمان ہیں، اپنے اپنے عہدِ اقتدار میں ملک کا بیڑہ غرق کرچکی ہیں، رشوت ستانی اور اقربا پروری کی گھناؤنی مثالیں قائم کرچکی ہیں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض لے لیکر ملک کو گروی رکھوا چکی ہیں... آپ کی ایک ایک بات، حرف بحرف درست مان لی۔
لیکن پچھلے ساڑھے تین سال میں جو کچھ عمران خان اور اس کے حواریوں نے پاکستان کے ساتھ کیا، اسے کیا محض کرپٹ اپوزیشن کی بنیاد پر درست قرار دیا جاسکتا ہے؟
صاحبو! دو غلط مل کر ایک صحیح نہیں بناتے۔ سابقہ حکومتوں اور موجودہ حزبِ اختلاف کی خباثتوں کو بنیاد بنا کر عمران خان کے 3 اپریل والے اقدامات کو جائز اور قانون و آئین کے مطابق قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کسی سیاسی شخصیت کو پسند یا ناپسند کرنا آپ کا حق ہے، لیکن اگر آپ صرف اس بنیاد پر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو غدار قرار دے رہے ہیں کہ انہوں نے عمران خان یا پی ٹی آئی کے خلاف کوئی فیصلہ دیا ہے، تو پھر بہتر ہے کہ اس مقدمے کی نوعیت اور فیصلے کی میرٹ کا غیر جانبداری کے ساتھ، اور ٹھنڈے دل سے جائزہ لیجیے۔
اپنے دشمنوں کو منہ بھر بھر کے گالیاں دے کر، برا بھلا کہہ کر اور ان پر ''غدار'' کے لیبل چسپاں کرکے آپ ذاتی اور سیاسی انا کی تسکین تو کرلیں گے لیکن معتبر نہیں ہوجائیں گے۔
کاش کہ اہلِ یوتھ کی سمجھ میں یہ بات وقت رہتے آجائے۔ شاید اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کسی نہ کسی طرح اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوجائے لیکن اگر اب بھی وقت اور حالات سے نہ سیکھا تو یہ جماعت ہماری سوچ سے کہیں پہلے اپنی سیاسی موت آپ ہی مر جائے گی... اور تب یہ فتوے بازی بھی آپ کے کام نہیں آئے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ خان کی حکومت گرانے کےلیے حزبِ اختلاف نے ہر طرح کی اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ارکانِ اسمبلی خریدے؛ اور اس معاملے میں وہ بے حیائی کی تمام حدیں پار کرگئی۔
لیکن دوسری جانب اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ 2018 میں حصولِ اقتدار کےلیے ''انتخابات کی سائنس'' کے پرچار سے لے کر 3 اپریل 2022 کے روز قومی اسمبلی تحلیل کرنے تک، عمران خان نے سیکڑوں نہیں تو درجنوں فاش سیاسی غلطیاں کیں (غلط بیانیاں اور ''یو ٹرن'' ان کے علاوہ ہیں)۔
اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں عمران خان ''مجھے سب پتا ہے، میں سب جانتا ہوں!'' کا تاثر دیتا رہا اور پاکستانی عوام کو رعونت بھرے لہجے میں ''پاکستانیو!'' کہہ کر مخاطب کرتا رہا۔
جب عمران خان کو اپنا راج سنگھاسن ڈولتا نظر آیا، تو اس نے بھی وہی کیا جو ایک خودپسند، خودپرست، فسطائی حکمران ایسے مواقع پر کیا کرتا ہے۔
پہلے ایک خط کا ڈراما رچاتے ہوئے اسے ''پاکستان کے خلاف غیر ملکی سازش'' قرار دے دیا۔ جب دال نہیں گلی تو امریکا کا نام لے لیا۔
ارے بھئی ظاہر ہے، سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے دیرینہ و ''اعلانیہ'' مائی باپوں کے نام بالترتیب برطانیہ (بڑا باپ) اور امریکا (چھوٹا باپ) ہیں، جن کی مرضی کے بغیر یہاں مارشل لاء بھی نہیں لگتا۔
خود کو محبّ وطن اور اپنے مخالفین کو غدار ثابت کرنے کےلیے اس نے اپنی توپوں کا رُخ ایک ایسے خط کی طرف کردیا جو بعد ازاں محض ایک سفارتی مراسلہ قرار پایا۔ عالمی سفارت کاری میں ایسے مراسلے بہت عام ہیں۔
خان اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ اپنی حکومت کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کے نام پر عوام کے سامنے نااہلی، نکمے پن اور جھوٹے دعووں کے سوا کچھ پیش نہیں کرسکتا۔ لہٰذا، اپنی عوامی مقبولیت برقرار رکھنے کےلیے وہ سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کا رونا روتا رہا۔
اب یہ الگ بات ہے کہ اپنے حواریوں کی کرپشن پر وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھا رہا۔ جس عوامی مسئلے کا بھی ''نوٹس'' لیا وہ حل ہونے کے بجائے سنگین تر ہوتا گیا۔
خیر، جب غداری کا کارڈ بھی پٹ گیا تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر، وفاداریاں بدل بدل کر، تحریکِ انصاف کی نظریاتی قیادت کو پارٹی سے باہر نکال کر ''جانثارانِ عمران'' میں نمایاں مقام بنانے والے چواد فودھری... اوہ! معاف کیجیے گا، فواد چودھری کو اکیسویں صدی کا نظام سقہ بنا دیا۔
اسی نظام سقّے نے 3 اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوکر، عالمی سازش اور غداری کی غلاظت سے بھرا مشکیزہ پورے ایوان کے سامنے اُلٹ دیا؛ جسے ''جواز'' تسلیم کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر نے تحریکِ عدم اعتماد مسترد کردی اور اسمبلی کا اجلاس بھی چشمِ زدن میں ختم کردیا۔
اگلے چند منٹوں میں عمران خان نے اپنے ''ربڑ اسٹیمپ صدر'' سے قومی اسمبلی تحلیل کروائی لیکن خود کو عبوری سیٹ اپ تک وزیرِاعظم کے عہدے پر برقرار رہنے دیا۔
ان تمام کارروائیوں میں عمران خان اینڈ کمپنی کی بدنیتی چھپائے نہیں چھپتی تھی کیونکہ حزبِ اختلاف ایوان کے اندر تبدیلی چاہتی تھی لیکن فوری انتخابات کےلیے ہرگز تیار نہیں تھی۔
قومی اسمبلی تحلیل اور 90 دن میں عام انتخابات منعقد کرکے، خان و حواریان بھی اسی موقعے کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے: اس سے پہلے کہ حزبِ اختلاف سنبھل پائے، نئے انتخابات میں مخالف جماعتوں کو شکستِ فاش دے کر اپنی برتری ثابت کی جائے۔
لیکن دوسری جانب حزبِ اختلاف نے بھی تاخیر نہ کی اور اسی روز عدالت جا پہنچی۔ ازخود نوٹس پر سماعت شروع ہوئی، فریقین نے دلائل دیئے اور بالآخر، گزشتہ روز یعنی 7 اپریل 2022 کی رات 8 بج کر 38 منٹ پر سپریم کورٹ سے مختصر فیصلہ بھی آگیا۔
مقدمے کی سماعت کرنے والے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر فیصلہ سنایا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل غلط تھی، اسمبلی کو 3 اپریل 2022 والی حیثیت میں بحال کیا جائے، اور عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر بھی اسی اسمبلی میں رائے شماری کروائی جائے۔
قصہ مختصر کہ خان نے جس جس کے کہنے پر جیسی جیسی سیاسی چالیں چلی تھیں، عدالتی فیصلے نے وہ سب کی سب اُلٹ کر رکھ دیں۔
اب ''اہلِ یوتھ'' شور مچا رہے ہیں اور یہ فیصلہ سنانے والے جج صاحبان کو بھی غدار ٹھہرا رہے ہیں۔
غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والے ان ''حُبُّ الوطنوں'' نے غالباً اس مقدمے کے قانونی پہلوؤں پر غور کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔
ارے بھائی! اگر آپ عمران خان کے پجاری ہیں تو وہ الگ بات ہے ورنہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مکمل میرٹ کی بنیاد پر ہے۔
آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مذکورہ ازخود نوٹس کا تعلق صرف دو چیزوں سے تھا: پہلی یہ کہ اسمبلی میں جس انداز سے وزیرِاعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا راستہ روکا گیا، کیا وہ طریقہ درست تھا؛ اور دوسری یہ کہ 3 اپریل کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اقدام آئینی و قانونی تھا یا نہیں؟
سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ان ہی دو نکات سے متعلق ہے؛ اور کم از کم اس معاملے میں یہ فیصلہ آئینے کی طرح صاف ہے، جس میں کوئی تنازعہ نہیں۔
اپوزیشن جماعتیں کرپٹ ہیں، بے ایمان ہیں، اپنے اپنے عہدِ اقتدار میں ملک کا بیڑہ غرق کرچکی ہیں، رشوت ستانی اور اقربا پروری کی گھناؤنی مثالیں قائم کرچکی ہیں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض لے لیکر ملک کو گروی رکھوا چکی ہیں... آپ کی ایک ایک بات، حرف بحرف درست مان لی۔
لیکن پچھلے ساڑھے تین سال میں جو کچھ عمران خان اور اس کے حواریوں نے پاکستان کے ساتھ کیا، اسے کیا محض کرپٹ اپوزیشن کی بنیاد پر درست قرار دیا جاسکتا ہے؟
صاحبو! دو غلط مل کر ایک صحیح نہیں بناتے۔ سابقہ حکومتوں اور موجودہ حزبِ اختلاف کی خباثتوں کو بنیاد بنا کر عمران خان کے 3 اپریل والے اقدامات کو جائز اور قانون و آئین کے مطابق قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کسی سیاسی شخصیت کو پسند یا ناپسند کرنا آپ کا حق ہے، لیکن اگر آپ صرف اس بنیاد پر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو غدار قرار دے رہے ہیں کہ انہوں نے عمران خان یا پی ٹی آئی کے خلاف کوئی فیصلہ دیا ہے، تو پھر بہتر ہے کہ اس مقدمے کی نوعیت اور فیصلے کی میرٹ کا غیر جانبداری کے ساتھ، اور ٹھنڈے دل سے جائزہ لیجیے۔
اپنے دشمنوں کو منہ بھر بھر کے گالیاں دے کر، برا بھلا کہہ کر اور ان پر ''غدار'' کے لیبل چسپاں کرکے آپ ذاتی اور سیاسی انا کی تسکین تو کرلیں گے لیکن معتبر نہیں ہوجائیں گے۔
کاش کہ اہلِ یوتھ کی سمجھ میں یہ بات وقت رہتے آجائے۔ شاید اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کسی نہ کسی طرح اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوجائے لیکن اگر اب بھی وقت اور حالات سے نہ سیکھا تو یہ جماعت ہماری سوچ سے کہیں پہلے اپنی سیاسی موت آپ ہی مر جائے گی... اور تب یہ فتوے بازی بھی آپ کے کام نہیں آئے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔