سپریم کورٹ کے فیصلے نے مزید مسائل پیدا کردیے بیرسٹر سیف
خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل نہیں کرنا چاہیے تاکہ عدم اعتماد آئے جس کے ساتھ ہی ساتھیوں اور دشمنوں کا معلوم ہوسکے
PESHAWAR:
معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے مزید مسائل پیدا کردیے، خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل نہیں کرنا چاہیے تاکہ عدم اعتماد آئے جس کے ساتھ ہی ساتھیوں اور دشمنوں کا معلوم ہوسکے۔
اطلاعات سیل پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کو تحلیل نہیں کرنا چاہیے تاکہ دوست دشمن کا معلوم ہوسکے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے آئینی اثرات سامنے آئیں گے، فیصلے نے مسائل ختم نہیں کیے بلکہ مزید مسائل پیدا کیے لیکن ہم سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرتے ہیں۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ انصاف کسی ایک نہیں سب پارٹیوں کے لیے ہوتا ہے، تنازعہ وقتی طور پر سیٹل ہوا، آرٹیکل 63 پر بھی فیصلہ کیا جاتا، سپریم کورٹ نے اسپیکر کی رولنگ تو غلط قرار دی لیکن آرٹیکل 63 پر بات نہیں کی جو کہ حیران کن ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ چیف جسٹس کو سندھ ہاؤس کے معاملات کیوں دکھائی نہیں دیئے؟ قانون کے فلسفے میں تمام متعلقہ امور پر بات کی جاتی ہے، سارا معاملہ تو لوٹا کریسی، پیسے کی چمک، ٹکٹوں کی پیشکش سے شروع ہوئی اس پر کوئی بات نہ ہوئی، کاش اس طرح کا سوموٹو نوٹس اتوار کے روز ادارہ منہاج القران کے شہداء کے حوالے سے بھی لیا جاتا۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم خوشی سے نہیں مجبوراً فیصلہ تسلیم کر رہے ہیں، سیاسی فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوتے، یہ بال سیاسی لوگوں کے کورٹ میں پھینکنی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف پرسوں وزیراعظم بن جائیں گے جو ملک کا تاریک دور ہوگا، مقصود چپڑاسی فیم بندہ ملک کا سربراہ بنے گا، عدالتیں اس جانب توجہ کیوں نہیں دیتیں؟ سپریم جوڈیشل کونسل پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟
بیرسٹر سیف نے کہا کہ پارٹی تو اب شروع ہوئی ہے، عمران خان وہ دردسر ہے جو انھیں چین سے نہیں بیٹھنے دے گا، اب ہم دیکھیں گے کہ یہ کیسے حکومت کرتے ہیں؟ سزا یافتہ شخص منی لانڈرر وزیراعظم بن رہا ہے لیکن عوام مایوس نہ ہوں عمران عوامی جدوجہد جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی اور کابینہ، اسمبلیوں سے استعفوں کا فیصلہ کریں گے تو اسے قبول کریں گے، خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل نہیں کرنا چاہیے تاکہ عدم اعتماد آئے جس کے ساتھ ہی ساتھیوں اور دشمنوں کا معلوم ہوسکے، مرکز میں ہمیں اپوزیشن میں بیٹھنا اور حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہیے۔
بیرسٹر سیف نے مزید کہا کہ سنجرانی کے الیکشن کے موقع پر جن کے ارکان گئے وہ کیوں خاموش رہے؟ گورنر شاہ فرمان نے استعفی نہیں دیا، عمران خان نے ہدایت کی تومستعفی ہوسکتے ہیں۔
معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے مزید مسائل پیدا کردیے، خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل نہیں کرنا چاہیے تاکہ عدم اعتماد آئے جس کے ساتھ ہی ساتھیوں اور دشمنوں کا معلوم ہوسکے۔
اطلاعات سیل پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کو تحلیل نہیں کرنا چاہیے تاکہ دوست دشمن کا معلوم ہوسکے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے آئینی اثرات سامنے آئیں گے، فیصلے نے مسائل ختم نہیں کیے بلکہ مزید مسائل پیدا کیے لیکن ہم سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرتے ہیں۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ انصاف کسی ایک نہیں سب پارٹیوں کے لیے ہوتا ہے، تنازعہ وقتی طور پر سیٹل ہوا، آرٹیکل 63 پر بھی فیصلہ کیا جاتا، سپریم کورٹ نے اسپیکر کی رولنگ تو غلط قرار دی لیکن آرٹیکل 63 پر بات نہیں کی جو کہ حیران کن ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ چیف جسٹس کو سندھ ہاؤس کے معاملات کیوں دکھائی نہیں دیئے؟ قانون کے فلسفے میں تمام متعلقہ امور پر بات کی جاتی ہے، سارا معاملہ تو لوٹا کریسی، پیسے کی چمک، ٹکٹوں کی پیشکش سے شروع ہوئی اس پر کوئی بات نہ ہوئی، کاش اس طرح کا سوموٹو نوٹس اتوار کے روز ادارہ منہاج القران کے شہداء کے حوالے سے بھی لیا جاتا۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم خوشی سے نہیں مجبوراً فیصلہ تسلیم کر رہے ہیں، سیاسی فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوتے، یہ بال سیاسی لوگوں کے کورٹ میں پھینکنی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف پرسوں وزیراعظم بن جائیں گے جو ملک کا تاریک دور ہوگا، مقصود چپڑاسی فیم بندہ ملک کا سربراہ بنے گا، عدالتیں اس جانب توجہ کیوں نہیں دیتیں؟ سپریم جوڈیشل کونسل پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟
بیرسٹر سیف نے کہا کہ پارٹی تو اب شروع ہوئی ہے، عمران خان وہ دردسر ہے جو انھیں چین سے نہیں بیٹھنے دے گا، اب ہم دیکھیں گے کہ یہ کیسے حکومت کرتے ہیں؟ سزا یافتہ شخص منی لانڈرر وزیراعظم بن رہا ہے لیکن عوام مایوس نہ ہوں عمران عوامی جدوجہد جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی اور کابینہ، اسمبلیوں سے استعفوں کا فیصلہ کریں گے تو اسے قبول کریں گے، خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل نہیں کرنا چاہیے تاکہ عدم اعتماد آئے جس کے ساتھ ہی ساتھیوں اور دشمنوں کا معلوم ہوسکے، مرکز میں ہمیں اپوزیشن میں بیٹھنا اور حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہیے۔
بیرسٹر سیف نے مزید کہا کہ سنجرانی کے الیکشن کے موقع پر جن کے ارکان گئے وہ کیوں خاموش رہے؟ گورنر شاہ فرمان نے استعفی نہیں دیا، عمران خان نے ہدایت کی تومستعفی ہوسکتے ہیں۔