کوچۂ سخن
غزل
معجزے یوں بھی محبت یہ دکھا دیتی ہے
دشت کی ریت کو گلزار بنا دیتی ہے
اٌس کے ملنے سے کہاں دل کی طلب مٹتی ہے
وہ تجلی تو مری پیاس بڑھا دیتی ہے
زخم لگتے تو ہیں اس راہِ طلب میں اکثر
زندگی مرہمِ امید لگا دیتی ہے
کیسی انصاف پسندی ہے محبت کا مزاج
رنگ اور ذات کی تفریق مٹا دیتی ہے
کبھی تنہائی کبھی بزم میں آ کر اے دوست
مجھے اکثر یہ تری یاد رلا دیتی ہے
چھوڑتا دل بھی نہیں آس کا دامن جاذبؔ
روز آندھی بھی مرے دیپ بجھا دیتی ہے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)
۔۔۔
غزل
کسی نے چاند جلایا تو میری آنکھ کھلی
چراغ سامنے آیا تو میری آنکھ کھلی
میں تین چار بجے تک تو جاگتا ہی رہا
پھر اس نے آ کے سُلایا تو میری آنکھ کھلی
میں اپنا آپ بہت دیر کھٹکھٹاتا رہا
کوئی جواب نہ آیا تو میری آنکھ کھلی
قدیم خواب پڑا رہ گیا تھا بستر میں
کسی نے یاد دلایا تو میری آنکھ کھلی
وہ میری نیند بھی ایسے لپیٹ کر سویا
ذرا جو اُس کو جگایا تو میری آنکھ کھلی
وہ لوگ دائرے میں کھینچتے رہے مجھ کو
پھر اُس نے ہاتھ بڑھایا تو میری آنکھ کھلی
نحیف شام کی اُنگلی پہ اٹکے سورج نے
نگل لیا کوئی سایہ تو میری آنکھ کھلی
طلسم پھونکتا وہ بڑھ رہا تھا میری طرف
درود پڑھ کے گرایا تو میری آنکھ کھلی
(آصف انجم ۔رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
آنکھ سے اشک بہانے کا بڑا دکھ ہے مجھے
آنے والے،ترے جانے کا بڑا دکھ ہے مجھے
گھر کی تقسیم نے دو نیم کیا ہے مجھ کو
گھر میں دیوار اٹھانے کا بڑا دکھ ہے مجھے
میں نے دریا کی محبت میں بھنور ہونا تھا
کشتیاں پار لگانے کا بڑا دکھ ہے مجھے
اس لیے آج بھی زنجیر زنی کرتا ہوں
یا علی تیرے گھرانے کا بڑا دکھ ہے مجھے
اب کسی سے بھی مجھے کوئی سروکار نہیں
زخم لوگوں کو دکھانے کا بڑا دکھ ہے مجھے
میری خواہش تھی کہ دشمن ہو بہادر میرا
تجھ سے بزدل کو ہرانے کا بڑا دکھ ہے مجھے
آج دھتکارا گیا وہ بھی زمانے سے فقیہ ؔ
وہ جو کہتا تھا زمانے کا بڑا دکھ ہے مجھے
(فقیہ حیدر ۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
حوصلہ دیتے اشارے سے الگ ہونے لگا
میں ترے دھوپ کنارے سے الگ ہونے لگا
کیا ملا ہجر حویلی کی لپائی کر کے
سوکھے گارے کے تغارے سے الگ ہونے لگا
اس افق پار بلاوے کی کرن دمکی تھی
عہد باندھے ہوئے تارے سے الگ ہونے لگا
خواہشِ نفع میں کیا سانس شماری کرتا
روز کے بڑھتے خسارے سے الگ ہونے لگا
اپنی ہی ذات میں چھپنے کا عمل دیکھنا تھا
جیتنے والے سے، ہارے سے الگ ہونے لگا
تیری کشتی سے یونہی سا تھا تعلق میرا
اب میں تنکے کے سہارے سے الگ ہونے لگا
میں مداراتِ دل و جاں میں لگا ہوں طاہرؔ
نفس کے پھولے غبارے سے الگ ہونے لگا
(قیوم طاہر۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
جب بھی ہم بھول کے سب رنج ملا کرتے تھے
یاد ہے کیسے ترے پھول کھلا کرتے تھے
راز کو کو راز کی باتوں میں رکھا جاتا تھا
تیرے خط سارے کتابوں میں رہا کرتے تھے
اس کی آنکھوں میں چبھے ہیں تو یہ احساس ہوا
کتنی آنکھوں کہ تو ہم خواب ہوا کرتے تھے
کیمپس میں مرا اک ٹہنی پہ دل اٹکا تھا
بیگ میں روز مجھے پھول ملا کرتے تھے
کوئی بھی مجھ سے مرے شعر نہیں سنتا تھا
دوست بھی مجھ سے مرے کام لیا کرتے تھے
(اسامہ ابرار ۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
آج تو زہر بھی لگا پانی
اے مِرے رہ نما! پلا پانی
گھر کے دالان سے گزرتے ہوئے
عکس اپنا گرا گیا پانی
اب مِرے چار سُو پرندے ہیں
آنکھ سے اِس قدر بہا پانی
جب کسی پیڑ نے دُہائی دی
دشت نے چیخ کر کہا، پانی!
ہاں مِری آخری ضرورت ہے
ٹھنڈا، میٹھا، ہرا بھرا پانی
اب کوئی معجزہ نہیں ہو گا
کرتبی! شوق سے بنا پانی
خیمۂ تشنگی میں بچّوں کو
دور سے دیکھتا رہا، پانی
(افتخار فلک کاظمی۔ پہاڑ پور)
۔۔۔
'مناجات'
مجھے معلوم ہے کتنی خطائیں ہو گئیں مجھ سے
الہی بخش دے مجھ کو یہ میری عرض ہے تجھ سے
میں نافرمان ہوں اُس پر!جفا کاری مرا شیوہ
تری رحمت کا عالم یہ! وفا داری ترا شیوہ
ندامت عاصیوں کے واسطے انمول نعمت ہے
مرے سامع! مری فریاد سن! اس میں ندامت ہے
ثنائے کِردگاری میں ہوئی ہیں اشک بار آنکھیں
چھٹی ہے ظلمتِ دل ،ہو گئی ہیں تابدار آنکھیں
الہی تو خلوصِ عشق کی دولت عطا کر دے
اصولِ عاشقی میں شدت و رفعت عطا کر دے
رفو گر تُو مرے چھلنی زدہ دل کو رفو کر دے
تیرے سائل کا کرنا کیا ہے جو چاہے وہ تُو کر دے
تری دنیا میں کھو کر کس قدر نقصان پایا ہے
معافی ہو نزی ؔنے اب ترا در کھٹکھٹایا ہے
(نازیہ نزی۔ نوشہرہ کینٹ)
۔۔۔
غزل
دشت کی ویرانیاں ہیں رقص میں
ہر طرف حیرانیاں ہیں رقص میں
موج میں ہے دیکھیے عمرِ رواں
اور فنا سامانیاں ہیں رقص میں
ہے تلاطم خیز یوں بحرِ سخن
سوچ کی جولانیاں ہیں رقص میں
یاس کی مردہ دلی ہے نوحہ خواں
آس کی آسانیاں ہیں رقص میں
احسنِ تقویم ہے بھولا بشر
چار سُو شیطانیاں ہیں رقص میں
مفلسی ڈھانپے دریدہ جسم کو
عیش کی عریانیاں ہیں رقص میں
عشق میں باہو، قلندر، مست ہیں
یاں رداؔ من مانیاں ہیں رقص میں
(رداخان ۔ابو ظبی)
۔۔۔
غزل
خوف کچھ پرچھائیوں سے اس قدر کھاتا ہوں میں
اپنے اندر جھانکتا ہوں اور ڈر جاتا ہوں میں
دوستو دیکھو یہ دنیا ہے اُسی جانب رہو
آئینے سے جھانکتے لوگوں کو سمجھاتا ہوں میں
اس کی آنکھوں سے پرے بیٹھا ہوں سو وہ دیکھ لے
دیکھیے اب کب تلک اس کو نظر آتا ہوں میں
پہلے برسوں کی ریاضت سے جلاتا ہوں میں آگ
آگ جلنے سے ذرا پہلے ہی بجھ جاتا ہوں میں
دل بھٹک جاتا ہے بچے کی طرح بازار میں
اس کو انگلی سے پکڑ کے گھر تلک لاتا ہوں میں
(احمد اویس۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
میر و غالب سا نہ پروین سا شستہ لہجہ
ہم کو مطلوب ہے اپنا ہی نرالا لہجہ
یوں نہ خاموش رہیں مجھ سے کریں گفت و شنید
مئے الفاظ کا طالب ہے یہ کاسہ لہجہ
بات میں رتی برابر بھی کوئی کھوٹ نہیں
میری سچائی کو کافی ہے حوالہ لہجہ
وقت رخصت تو یہ سمجھا کہ بہت خوش ہوں مگر
میں نے اک کرب و اذیت سے سنبھالا لہجہ
سارے شکوے و شکایات مجھے بھول گئے
اتنا جامع و مدلل تھا مقالہ لہجہ
گھاؤ الفاظ کے بھرتے ہی نہیں شاہانہ ؔ
کیسے ہو سکتا ہے زخموں کا ازالہ لہجہ
(شاہانہ ناز۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
دنیا میں کس کا عشق و مقدر پہ زور ہے
کرنیں اگلتے چاند کی خواہش چکور ہے
کہرام مت سمجھ اسے روزِ حساب کا
چاکِ قفس سے سانس گزرنے کا شور ہے
یک دم برہنہ ہو گئیں گھر کی تجوریاں
آہٹ بتا رہی تھی کہ چوکھٹ پہ چور ہے
آخر کو ہم نے دیکھ لیے خد و خالِ عشق
چہرے سے ماہتاب ہے پیروں سے مور ہے
ہم لوگ اپنی دھن میں جسے جسم کہتے ہیں
یہ تو ہماری مردہ ضمیری کی گور ہے
(اسامہ خالد۔ کوٹ ادو)
۔۔۔
غزل
ٹیشن، پٹڑی، ریل ہے صاحب
اور اک دھکم پیل ہے صاحب
سیٹی بجنے تک مہلت ہے
اتنا سا ہی میل ہے صاحب
کہتے ہیں سب ہار گئے ہم
عشق بھی کوئی کھیل ہے صاحب؟
پیڑ سے لپٹی پیلی تاریں
عشق وہی تو بیل ہے صاحب
جسم کے اندر روح ہماری
جرم بنا ہی جیل ہے صاحب
جیون کی تعریف کروں کیا
دیپ میں جلتا تیل ہے صاحب
اپنی خوشیاں چڑیوں جیسی
وقت کے ہاتھ غلیل ہے صاحب
(شازیہ بانو۔فیصل آباد)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
عارف عزیز،روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی